Sunday, September 23, 2018

رپورٹ خالد سروحی عالمی مشاعرہ بعنوان خزینہ اشعار


رپورٹ خالد سروحی عالمی مشاعرہ بعنوان خزینہ اشعار

عالمی ادارہ بیسٹ اردو پویئٹری کی جانب سے 22-09-2018 بروز ہفتہ شام سات بجے ایک آن لائن منفرد 172 مشاعرے کا اہتمام کیا گیا جس میں پاکستان اور بھارت اور پوری دنیا سے اردو کے بولنے اور چاہنے والے قدیم اور جدید شعراء نے اور اردو سے دلچسپی رکھنے والے شائقین نے بھرپور حصہ لیا اردو کی اس محفل میں مرد شاعروں کے علاوہ بڑی تعداد میں خواتین شاعرہ بھی موجود تھیں ۔ نظامت محترمہ نیر رانی شفق کی اور اپنا کلام بھی پیش کیا لپیٹے ہاتھ میں دھاگا گزرارا خوف میں بچپن
جو چھوٹا ہاتھ سے دھاگا غبارے پھر نہیں ملتے،محترم احمر جان رحیم یار خان تیرے شہرِ طَرب کی رونقوں میں 
طبیعت اور بھی گھبرا رھی ھےمحترمہ ڈاکٹر صابرہ شاہین پاکستان نے کی نے انجام دیں۔جنہوں نے اپنا کلام بھی پیش کیا ،مخاطب جس طرح ہو گا زمانہ
اسی لہجے میں اس سے بات ہوگی،
محفل کے روح رواں پروگرام آرگنائزرخالد سروحی گکھڑ سٹی گوجرانوالہ سے تھے جنہوں نے اسٹیج پر تمام مہمانوں کا پر تپاک استقبال کیا اور سب کو اپنی اپنی حاضر یقینی بنانے پر شکریہ ادا کیا۔ پروگرام کی صدارت محترم ابنِ عظیم فاطمی کراچی نے کی اور مہمانانِ خصوصی میں محترم وسیم احسن ٹھاکرگنج جن کا تعلق بہار بھارت سے ہے اور محترم فانی ایاز احمد جن کا تعلق کشمیر سے تھا اور مہمانان اعزازی محترم عقیل احمد رضی اور محترم مصطفی دلکش صاحب جو ممبئی بھارت سے تھے پروگرام چونکہ تنقیدی تھا اس لئے سینئر شعراء ناقدین میں شامل محترم شفاعت فہیم بھارت سے ہیں آنکھوں کو دریا ، لب کو صحرا لکّھیں 
ممکن ہو پیاس کی کچھ تفسیر کریں 
محترم شہزاد نیّر پاکستان سے محترم امین اڈیرائی پاکستان سے محترم شمس الحق لکھنؤ ہندوستان سے تھے ان سب نے مل کر محفل کو چار چاند لگا دیے تمام شعرائے کرام اپنی اپنی جگہ براجمان ہوئے تو محفل کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا تو حمد باری تعالی 
نفیس احمد نفیسؔ ناندوروی جو بھارت سے تھے اور نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ والہ وسلم ، وسیم احسنؔ ٹھاکرگنج جو کہ بہار، بھارت سے تعلق رکھتے ہیں انہوں نے پیش کی تو اس کے ساتھ سبھی شعراء نے اپنا اپنا کلام تنقید کے لئے پیش کیا جہاں ناقدین نے کھل کر تنقید کی وہی اچھے کلام اور دلکش و خوبصورت کلام کو سراہا بھی اور بھرپور انداز میں داد و تحسین بھی دی نظامت میں پڑھے جانے والے شعروں پر نا ظرین جھومتے رہے اور تمام شعراء کو داد بھی دیتے رہے تمام شعرائے کرام کے کلام کا نمونہ پیش کرتے ہوئے احباب سے معذرت خواہ ہوں کہ سب شعراء کے اشعار بہت خوبصورت تھے جن سے کوشش کی گئی کہ دل کو لبانے والے اشعار رپورٹ میں شامل کریں نمونہ کلام تمام شعراء 
حمد باری تعالی 
یا رَب تری تَـجلّی کـوئی نہ دیکھ پایا
بَس تجھکو دیکھ پایا خَـیرالانام تیرا
نفیس احمد نفیسؔ ناندوروی بھارت

نعت رسول
آقا سے دل کا حال سنانا نصیب ہو
اے کاش مجھکو روضے پہ جانا نصیب ہو
وسیم احسنؔ ٹھاکرگنج بہار، بھارت

یوں جھاڑتا ہوں گرد مسلسل میں بدن سے
لاتا ہوں یہ مٹی کا ہنر تیری زمیں تک
محترم علی شیداّ صاحب کشمیر

آنکھیں غزال، ہونٹ کنول، رخ گلاب سا
مکھڑا حسین دل میں سمایا تھا اور بس
محترم عامر حسنی ملائیشیا

جب تک ماں کا سایہ سر پر رہنا ہے 
سورج کو اوقات کے اندر رہنا ہے
محترم مشرف حسین محضر علی گڑھ انڈیا

پتھروں کی بارشوں میں سر کھلا رکھتا ہوں میں
اس طرح اسلاف سے کچھ سلسلہ رکھتا ہوں میں
محترم ساجد سرمدی جموں کشمیر بھارت

میں تمناؤں کی تدفین میں لگ جاتی ہوں
جب گھڑی بھر میں بدل جاتا ہے لحجہ تیرا
محترمہ ڈاکٹر مینا نقوی مرادابادبھارت

چاند جگتا ہے تو جاگنے دیجئے
آپ سو جائیے بات بڑھ جائے گی
محترم خالد سروحی گکھڑ سٹی گوجرانوالہ

سونے جیسے لمحے جھونکے ہم نے وقت کی بھٹی میں 
کندُن بنتے بنتے اب تو چاندی اُتری بالوں میں 
محترم عاطف جاوید عاطف لاہور پاکستان

روح نے جسم کہاں چھوڑ دیا 
اک کرائے کا مکاں چھوڑ دیا
محترم صابر جاذب لیہ پاکستان

ساری دنیا کو جیتنے والا
اپنے بچوں سے ہار جاتا ہے
محترم اصغر شمیم،کولکاتا،بھارت

جو تراشی تھی خیالوں میں وہ مورت نکلے
تجھ سے ملنے کی خدارا کوئی صورت نکلے 
محترمہ نفیسہ حیا احمدنگر مہاراشٹر بھارت 

دل کے شیشے پہ جونہی عکس تمہارا جائے، 
جیسے عیسی کوئی سولی سے گزارا جائے
محترم اطہر حفیظ فراز فیصل آباد پاکستان

کس کی تلاش ہے ہمیں کس کے اثر میں ہیں
ٹھہرے ہوئے اگرچہ ہم اپنے ہی گھر میں ہیں
محترم ڈاکٹر شاھد رحمان فیصل آباد

انقلابی سوچ شاعر کا قلم اپنی جگہ 
آپ کی انگڑائیاں زلفوں کا خم اپنی جگہ
محترم اشرف علی اشرف پاکستان 

قائم نبی کے دین کو رکھنے کے واسطے
مطلوب کبریا تھی شہادت حسین کی
محترم احمد رضا مہدؔی رامپوری بھارت

ملّا شیوخ تو سبھی مسلک پرست ہیں
کس کو کروں امام مجھے سو چنے تو دے
محترم جمیل ارشد خان کھام گانوی ناگپور انڈیا

خیال جاتا ہے ضد کرکے گھومنے جب بھی
اسے گلی سے میں دلبر کی ڈھونڈ لاتا ہوں
محترم بی ایم خان معالے اچلپوری بھارت

زندگی روگِ محبت میں ہے کاٹی جس نے
اس کے نزدیک فقط لفظِ سزا کچھ بھی نہیں
محترم انوارؔ الحق قریشی پاکستان

سفر حیات کا بے حد محال ہوجاتا
میں تیرے ساتھ نہ چلتا نڈھال ہوجاتا
محترم مائل پالدھوی سورت گجرات بھارت

جس کو جانا ہے وہ چلا جائے 
لو چراغوں کو میں بجھاتا ہوں 
محترم امین اڈیرائی پاکستان 

اب مجھ سے ان آنکھوں کی حفاظت نہیں ہوتی
اب مجھ سے ترے خواب سنبھالے نہیں جاتے
محترم شہزاد نیّر پاکستان
تبصرے 

ڈاکٹر نبیل احمد نبیل
لاہور کلام پر تنقید و تبصرہ کرتے ہوئے کہا ،معاصر انڈیا میں جس طرح بڑے پیمانے پر انسانوں کو موب لنچنگ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔منافرت پھیلائی جا رہی ہے۔اقلیتوں سے ناروا سلوک کیا جا رہا ہے۔دلتوں کے ساتھ جس انداز سے غیرانسانی سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔یہ وہ محسوسات ہیں جو غزل کے قالب میں تمام تر تخلیقیت کے ساتھ ڈھل کر سامنے آتے ہیں۔شاعر ایمائی طرزِ اظہار سے کام لیتے ہوئے اپنے مافی الضمیر کی آواز پر لبیک بھی کہتا ہے اور اپنے مافی الضمیر کا بھرپور طریقے سے اظہار بھی کرتا ہے مگر شاعر کا اظہار استعاراتی و علامتی ہونے کے ساتھ ساتھ شعریت سے بھرپور ہو تو وہ اپنے عہد کی معروضی تاریخ بھی بن جاتا ہے اور عہدِ آیندہ کی آنکھ کو سچائی کی بینائی بھی منتقل کرتا ہے۔ایسے ہی کمالات سے مشرف محضر صاحب کے اشعار مزین ہیں
،تخلیق کار کا اولیں فریضہ بھی یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنے کلچر اور سماجی صورتِ حال کو تخلیقی پیرائے میں آئینہ کرے۔زیرِ نظر اشعار میں شاعر نے 
معاصر سماجی اور انسانی صورتِ حال اور محسوسات کو نہایت عمدہ انداز سے آئینہ کیا ہے۔پرولتاری طبقے اور کمزور اقلیتوں کو ہمیشہ پسماندگی کا ہی شکار رکھا جاتا ہے۔جیسے بورژوا طبقہ استحصالی ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے پرولتاری طبقے اور اقلیتوں کے ساتھ بعینیہ اکثریتی متعصب مقتدرہ کا بھی یہی ناروا سلوک اور رویہ کیوں ہوتا ہے۔اس ضمن میں صاف سی بات ہے کہ اس کی ساری منصوبہ بندی ہی کمزور اقلیتوں کے خلاف ہوتی ہے۔جس میں عمومی طور پر اکثریتی طبقے کو خوش رکھنے کے لیے یہ سب کیا جاتا ہے، معاصر زندگی کی صورتِ حال کو شعر کے قالب میں ہنرمندی سے ڈھالنا شاعر کا منصبِ اولیں ہے۔مذکورہ اشعار میں شاعر نے تمام تر شعریت اور تخلیقیت کے ساتھ اپنے ہونے کا ثبوت فراہم کیا ہے۔
زیادہ تر مطلع ہاے غزل پر انحصار کیا گیا ہے۔یہ مشاعروں کی عمدہ تیکنیک ہے۔
تمام اشعار ہی داد و تحسین کے مستحق ہیں۔اگر وقت نے مہلت دی تو مذکورہ اشعار پر کسی وقت تفصیل سے لکھیں گے۔
ڈاکٹر شاہد رحمان صاحب
کا کلام پڑھا۔اپنے ڈھنگ کے اچھے اشعار نکالتے ہیں جن پر کسی کی چھاپ نہیں ہے۔اُن کا شعر کہنے کا اپنا خالصتاً اپنا انداز ہے۔منفرد انداز۔
ڈاکٹر شفاعت فہیم صاحب نے تنقید کرتے ہوئے شعراء کے کلا م کو باریکی پرکھا اور ساتھ ساتھ سمجھانے کی کوشش کرتے رہے اور بلاشبہ ماہرانہ تبصروں اور عمدہ ناقدانہ آرا سے نوازا اور کہا کہ جب تک ہم تراشتے ہی نہیں کوئی پھتر خدا نہیں ہوتا شعر میں کا شکار ہے اور بہتر ہو سکتا تھا اور کہا کہ شعراء ہی الفاظ کا سہی استعمال کرتے ہیں انہیں چاہئے کہ ہر الفاظ جب جگہ پر فٹ بیٹھے گا تو ہی ایک خوبصورت شعر ہو گا اور ہم جب کو کو کی پڑھ لیا جائے تو ہمارا تبصرہ ہی درھم برھم ہو گیا مطلب وہ بہت خوش اسلوبی کے ساتھ تنقید کے ساتھ تعریف بھی کر رہے تھے 
محفل بہت کامیابی سے اختتام پذیر ہوئی۔ تو آخر میں ادارے کے ایڈمن اور پروگرام کے آرگنائزر
خالد سروحی جن کا تعلق گکھڑ سٹی گوجرانوالہ پاکستان سے ہے انہوں نے اپنے خصوصی پیغام میں کہا کہ ہم سب مل کر اردو کو ایک خوبصورت مستقبل دے سکتے ہیں۔ ہمارا ادارہ ہراس شخص کیلئے ہےجو اردو سے محبت کرتا ہے مجھے اردو زبان اور اردو بولنے والوں پر فخر ہے اردو ہماری قومی اور مادری زبان ہے اردو کو فروغ دینے کے لئے ہمارے ادارے کے سبھی ممبران ہمہ تن دن رات محنت اور جی جان سے اپنی اپنی پوری لگن سے کام کر رہے ہیں اسی وجہ سے ادارے نے مقبولیت حاصل کی ہے ہمارے ادراے میں ۔ بڑے بڑے پروگراموں کے ساتھ چھوٹی چھوٹی اردو نشستیں بھی سجائی جاتی ہیں جن میں ،بیت بازی اور طرحی مشاعروں کے ذریعہ نئی نسل میں اردو کا شوق پیدا کیا جا رہا ہے اور میں دعا گو ہوں کہ اللہ ہم سب کو کامیابی دے آمین انہوں نے کہا کہ میں تمام ججز اور پروگرام میں شریک سب حاضرین کا شکریہ ادا کرتا ہوں ادارے اور انتظامیہ کو مبار باد پیش کرتا ہوں جنہوں نے اپنے قیمتی وقت میں سے اس پروگرام کے لئے وقت نکالا اور احباب کا کلام سنا اور داد و تحسین سےنوازتےرہےاور ادارے کی پوری ٹیم اور شعراء کا شکریہ ادا کیا اور خوبصورت دعا اور نئی امید کے ساتھ خدا حافظ کہا کہ اللہ ہمیں دوبارہ یوں ہی مل بیٹھنے کا موقع دے اور ہم ایسے پروگراموں کا انعقاد کرتے رہیں جن میں نئے اور پرانے شعراء کی حوصلہ افزائی ہوتی رہے وہ ایسے تنقید پروگراموں میں شرکت کرتے رہیں گے اور اپنے کلام میں نکھار پیدا کرتے رہیں گے انشاءاللہ 

شکریہ و اسلام
رپورٹ خالد سروحی گکھڑ سٹی گوجرانوالہ پاکستان

Thursday, September 20, 2018

ادارہ،عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری کی جانب سے172 واں عالمی مشاعرہ


عالمی مشاعرہ بعنوان خزینہ اشعار

ادارہ،عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری
 کی جانب سے172 ویں مشاعرے کا اہتمام کیا گیا ہے,جس میں پوری دنیا سے شامل ہونے والے شعراء اکرام اپنی پوری زندگی کی محنت سے چند بہترین اشعار چن چن کر پیش کر یں گے نیز اشعار کی تعداد5 سے 15 تک کی گنجائش رکھی گئی ہے ۔پاکستان اور ہندوستان کے شعراء کرام کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے شعراء و شاعرات سے درخواست ہے کہ وہ اپنے ذوق و شوق کا مظاہرہ کریں اور بڑھ چڑھ کر اس پروگرام میں حصہ لیں۔ مگر جن شعرا کے اشعار معیاری ہوں گے صرف وہی پروگرام کا حصہ بن سکتے ہیں ۔ جس کے لئے آپ کو چند اشعار ادارے کی انتظامیہ کو ارسال کر نے ہوں گے ۔

منجانب انتظامیہ ادارہ

نوٹ 
سارے شعرا اپنا کلام برائے تنقید پیش کریں گے 
تاریخ 22-09-2018
وقت شام سات بجے 
=========================
صدارت
محترم ابنِ عظیم فاطمی کراچی

مہمانانِ خصوصی
محترم وسیم احسن ٹھاکرگنج بہار بھارت
محترم فانی ایاز احمد کشمیر

مہمانان اعزازی
محترم عقیل احمد رضی 
محترم مصطفی دلکش ممبئی

پبلشر
توصیف ترنل ہانگ کانگ 

پروگرام آرگنائزر
خالد سروحی گکھڑ سٹی گوجرانوالہ
 
ناقدین 
محترم شفاعت فہیم بھارت
محترم مسعود حساس کویت
محترم ضیا شادانی بھارت 
محترم شہزاد نیّر پاکستان
محترم امین اڈیرائی پاکستان 
محترم شمس الحق لکھنؤ ہندوستان

نظامت
محترمہ نیر رانی شفق پاکستان 
1 تا 10
محترم احمر جان فرام رحیم یار خان
11 تا 20 
محترمہ ڈاکٹر صابرہ شاہین پاکستان 
21 تا 30

رپورٹ
خالد سروحی گکھڑ سٹی گوجرانوالہ

=========================
فہرست شعراء
حمد باری تعالی 
1 نفیس احمد نفیسؔ ناندوروی بھارت

نعت رسول
2 وسیم احسنؔ  ٹھاکرگنج بہار، بھارت

3  محترم علی شیداّ صاحب کشمیر

4 محترم ڈاکٹر سمی شاہد کشمیر پاکستان

5  محترم عامر حسنی ملائیشیا

6 محترم مشرف حسین محضر علی گڑھ انڈیا

7 محترم ساجد سرمدی جموں کشمیر بھارت

8 محترمہ ڈاکٹر مینا نقوی مرادابادبھارت

9  محترم خالد سروحی گکھڑ سٹی گوجرانوالہ

10  محترم عاطف جاوید عاطف لاہور پاکستان

11 محترمہ ہاجرہ نور زرؔیاب آکولہ مہاراشٹر انڈیا 

12  محترم صابر جاذب لیہ پاکستان

13 محترم اصغر شمیم،کولکاتا،بھارت

14 محترمہ نفیسہ حیا احمدنگر مہاراشٹر بھارت 

15 محترم نفیس احمد نفیسؔ ناندوروی بھارت

16 محترم اطہر حفیظ فراز فیصل آباد پاکستان

17 محترم ڈاکٹر شاھد رحمان فیصل آباد

18 محترم اشرف علی اشرف پاکستان 

19 محترم احمد رضا مہدؔی رامپوری بھارت

20 محترم جمیل ارشد خان کھام گانوی ناگپور انڈیا

21 محترم بی ایم خان معالے اچلپوری بھارت

22 محترم انوارؔ الحق قریشی پاکستان

23 محترم مائل پالدھوی سورت گجرات بھارت

24 محترم امین اڈیرائی پاکستان 

25 محترم شہزاد نیّر پاکستان


Tuesday, September 18, 2018

رپورٹ :عالمی محفل مسالمہ


پروگرم بعنوان :عالمی محفل مسالمہ
رپورٹ : نفیسؔ ناندوروی بھارت

قتلِ حسینؓ اصل میں مرگِ یذید ہے
اِسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

ادارہ، عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری دورِ حاضر میں دنیا کا واحد ادارہ ہے جو اِس برقی ترقی یافتہ دَور میں شعراء, ادباء و مُصنفینِ زبانِ اردو ادب کی ذہنی آبیاری کرتا ہے اور نئے نئے لسّانیاتی پروگرامز منعقد کرتا ہے... ادارۂ ھٰذا میں تمام تر پروگرامز برائے تنقید کئے جاتے ہیں... عالمی سطح پر کامیابی کے ساتھ ادبی تنقیدی پروگرامز کا انعقاد یقیناً ادارۂ ھٰذا کی انفرادیت, مقبولیت مع کامیابی کا وثیقہ ہے...

بانئ ادارہ جناب توصیف ترنل صاحب کی زیرِ سرپرستی، کامیابی کے اس منفرد سفر کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے ادارے کی جانب سے ۱۵/ستمبر ۲۰۱۸ بروز ہفتہ, شام سات بجے،171 واں پروگرام بیادِ نواسۂ رسولﷺ، گلشنِ علی و فاطمہ کے پھول، شہید الشہدا، امامِ عالی مقام، امام حسینؓ کی ذات بابرکات پر ایک آنلائن محفلِ مسالمہ کا انعقاد کیا گیا...، جس میں صلائے عام و یاران نکتہ داں کے لئے اپنا کلام آڈیو اور اردو رسم الخط میں فورم پر پیش کیا گیا...
اس یادگار محفل کا سہرۂ صدارت بھارت سے تعلق رکھنے والے مشہور و معروف شاعر محترم علی شیدا صاحب کشمیر کے سر رہا، مہمانانِ خصوصی مشہور و معروف شاعر محترم ڈاکٹر بلند اقبال نیازی صاحب بھارت، نیز مہمانانِ اعزازی محترمہ نیر رانی شفق صاحبہ پاکستان اور محترم حسنین عباس جوادی جامشورو پاکستان رہے... بطور آرگنائزر پروگرام کا نظم ونسق محترم سیّد ایاز مفتی صاحب چیئرمین انجمن تقدیس ادب یو ایس اے کے ذمّہ رہا... فرائضِ نظامت محترم وسیم احسنؔ ٹھاکرگنج بہار بھارت، نے ادا کئے اور اپنے منفرد لب ولہجہ سے اِس محفل میں مزید رعنائیاں بکھیر دی...
اس محفل کا باقائدہ آغاز تلاوتِ قرآنِ پاک سے محترم محمد علی بھٹی  صاحب سلطنت عمان نے کیا...
==========================

شعرائے عالم

صدر محفل
باطل نہ ہم سےچھیڑ ہےنسبت حسینؓ سے
ہیں  وارثانِ  کربلا  '  بیعت   حسینؓ  سے
شیداّ حبیب کل ہیں جو  مولائے دو جہاں
الفت  علی  سے  اور  محبت  حسینؓ  سے
محترم علی شیداّ کشمیر

مہمانِ خصوصی
خوش نصیبی سے ہمیں در مل گیا شبؓیر کا
دل   ہمارا   ہو  گیا    ہے    آئینہ    شبؓیر  کا 
اے  بلند  اقؔبال    اپنا   تو   یہی  ایمان  ہے
سجدہ  گاہِ  اولیا    ہے   نقشِ   پا شبؓیر  کا
محترم ڈاکٹر بلند اقبال نیازی بھارت

مہمانانِ اعزازی
کب میں نے یہ کہا کہ سزائیں مجھے نہ دو
کرب و بلا  کی سخت خزائیں  مجھے نہ دو
شمعیں بجھا  گئیں جو  مری شام  کی شفق
زندان  ہجر  میں  وہ  ہوائیں  مجھے  نہ  دو
محترمہ نیّر رانی شفق پاکستان

محترم حسنین عباس جوادی پاکستان

ناقدین
یہ کون اور فساد  دب اسباب گریہ ہے 
گرمئی  کائنات   تب و تاب   گریہ   ہے  
شب تیرگئی ظلم جو ہے سامنے تو کیا 
اپنے تئیں  فہیم  بھی مہتاب  گریہ ہے 
محترم شفاعت فہیم بھارت

طریق ِصبر و رضا کِیا اختیار مولا
وگرنہ زخموں کا آپ کرلے شمار مولا
تری حضوری میں باریابی کی منتظر ہے
جو بھیج رکھی ہے آنسوؤں کی قطار مولا
محترم شہزاد نیّر پاکستان

دیگر شعرائے کرام
صدیاں گذرگئی ہیں ترےغم میں آج بھی 
آنکھوں سے آنسوؤں کی روانی نہیں گئی
محترم امین اُڈیرائی پاکستان

مرا دل خون روتا ہے محرم جب بھی آتا ہے
کلیجہ منہ کو آتا ہے محرم جب بھی آتا ہے
مرےسینےمیں،آنکھوں میں نہ جانےکیوں ظہیراحمد
عجب سا درد ہوتا ہے محرم جب بھی آتا ہے
محترم ظہیر احمد مغل پاکستان

میں اسطرح سے ہوں یارب تری ثنا کے بغیر
کہ جیسے علم ہو  مولائے  مرتضیٰ کے بغیر 
فقیر شاہ امم ﷺ ہوں ، غلام ِ حیدر ہوں 
بھرا ہے دامن ِ مفتی سد ا ، صدا کے بغیر
محترم سیّد ایاز مفتی یو ایس اے

گردش میں بھی نہیں جو پریشاں حسینؓ ہیں
ہیں  جن  پہ  سہلِ  گردش  دوراں حسینؓ ہیں
ہے  روشنی  سے  جِن  کی  زمانہ  پہ  رونقیں
ہاں  اے "صدف"  وہ مہرِ درخشاں حسینؓ ہیں
محترمہ صبیحہ صدف بھوپال بھارت

محترم اسلم رضا خواجہ نیلم کشمیر

حسینؓ ابنِ علی عظمتِ مسلمانی
حسینؓ ابنِ علی پیکرِ ہیں قربانی
نبیﷺ کے لختِ جگر اور میں کہاں اشرف
خدا قبول کرے میری یہ ثنا خوانی
محترم اشرف علی اشرف سندھ پاکستان

عزم پیہم کا نشاں ہے کر بلا
جاں نثاری کا بیاں ہے کر بلا
صدقے انجم کربلا کی  شان پر
اک مکان لامکاں ہے کر بلا
محترمہ غزالہ انجم صاحبہ پاکستان

نور نگاہ شیر خدا کربلا کے بعد 
صابر کوئی نہ تم سا ہوا کربلا کے بعد
تشنہ لبوں  پہ بھیج و درود و سلام اسد
یہ ہے شعار اہل وفا کربلا کے بعد
محترم اسد ہاشمی بھارت

شکست خوردہ جفاوْں کا حکمراں نکلا 
حسینؓ  شہرِ  ستم گر  میں کامراں نکلا 
یذید  فتح  کے  ملبے  میں مر  مٹا صابر 
حسینؓ سر کو  کٹا کر  بھی کامراں نکلا
محترم صابر جاذب لیہ پاکستان

تو  نے  گرد  آلود  آئینہ  نہیں  ہونے  دیا
ایک جھوٹےشخص کوسچانہیں ہونےدیا
سر ترا نیزے پہ آنا ہے دلیل اس بات کی
قامتِ بالا  تھا  سر نیچا  نہیں  ہونے دیا
محترم مشرف حسین محضر بھارت

یہ اک حسرت پرانی ہے، اسی خواہش پہ جینا ہے 
سبو ساغر اٹھا لاؤ...!! شہادت  جام  پینا ہے
فراز!! اس در پہ جھک جائیں، اسی سے ہم اماں مانگیں 
وہاں پر"ہاں"سدا یارو!! وہاں پر"ناں"کبھی نہ ہے
محترم اطہر حفیظ فرازفیصل آبادپاکستان

حق کیا ہے یہ جہاں کو بتایا حسینؓ نے
اپنے لہو سے دیں کو بچایا حسینؓ نے
اصغر بھی جب کے سامنے ان کے ہوئے شہید 
آنکھوں میں اشک پھر بھی نہ لایا حسینؓ نے
محترم اصغر شمیم، کولکاتا بھارت

لے   کر   چلے   امام...  بہتّر   کا   قافلہ
صدمہ زمیں کو رنج بھی افلاک کو ہوا
حق  کے  لیے  تو  تیغ اُٹھائی حسینؓ نے
للّہ دل  پہ  چوٹ  یہ  کھائی حسینؓ نے
سجدہ گزار  جس  پہ عبادت کو ناز ہے
ایسا  شہید  جس پہ شہادت کو ناز ہے
محترم عقیل احمد رضی ممبئ بھارت

برائے  دینِ  نبی  پنجتن  کی  بات  کریں 
کٹھن ہے راہ تو خیبر شکن کی بات کریں 
علی سے  "مینا"  عقیدت کا یہ تقاضہ ہے
زمانہ چھوڑ دیں شاہِ زمن کی بات کریں
محترمہ ڈاکٹر مینا نقوی مرادابادبھارت

نور  کی  آشنا السلام اے حسینؓ
پارئہ مصطفٰی السلام اے حسینؓ
دین کے پیشوا السلام اے حسینؓ
اے  شہِ  کربلا السلام ائے حسینؓ
بخشوانا تُو احسنؔ کو بھی حشر میں
تجھ سے ہے التجا السلام اے حسینؓ
محترم وسیم احسنؔ ٹھاکرگنج بہار،بھارت

بین الاقوامی سطح پر حالیہ منعقد 171 واں پروگرام، "محفلِ مسالمہ" کے ذریعے "امام عالی مقام امام حسینؓ علیہ السلام" کی ذات بابرکات پر قلبی محبّت کے انمول گلہائے عقیدت پیش کئے گئے، ساتھ ہی اس عقیدت مندانہ محفل کے ذریعہ بہترین ادبی کارنامہ سر انجام دیا گیا ہے جس نے ادب و ثقافت کو جلا بخشی اور طے پایا کہ ادب اس مُشک کی مانند ہے جس کی خوشبو بِلا تفاوت ہر سمت پھیلتی ہے... 
پروگرام میں بطورِ ناقد مشہور ومعروف نقّاد محترم شفاعت فہیم صاحب بھارت اور محترم شہزاد نیّر صاحب پاکستان نے سُخنورانِ عالم کو اپنی قیمتی آراء سے نوازا... جنہیں شعرائے عالم نے خندہ پیشانی بہ شکریہ قبول کِیا...
اس محفل کی کامیابی کا سہرا منجملہ شرکائے بزم کے ساتھ ساتھ ادارے کے روح رواں محترم توصیف ترنل صاحب کے سر بھی جاتا ہے... توصیف صاحب کی موجودگی ادارے کے لئے ہمہ وقت باحوصلہ ثابت ہوتی ہے...
اس تاریخی پروگرام میں شریک معزّز موصوفیانِ اردو ادب اور تمامی رفقائے بزم کو ادارے کی جانب سے مبارکباد پیش کرتا ہوں... نیز ادارۂ ھٰذا کی بے شمار مع بے لوث ادبی خدمات کیلئے قلبی تہنیت پیش کرتا ہوں...

از قلم....
  نفیس احمد نفیسؔ ناندوروی
  ضلع,بُلڈانہ,مہاراشٹربھارت

Friday, September 7, 2018

شوزیب کاشر کے شعری مجموعہ خمیازہ کی تقریب رونمائی









پونچھ ادبی سوسائیٹی و ادارہ، عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری کے زیر اہتمام شوزیب کاشر کی کتاب خمیازہ کی تقاریبِ رونمائی

بنیادی صفحہ » ادب » حضرت جون ایلیا نے شوزیب کاشر کی صورت میں نیا جنم لیا ہے

دو ہزار پندرہ کے تقریبا وسط میں میں راولاکوٹ میں جب تنہائی کاٹ رہا تھاتو نوائے وقت کے ایڈیٹر اور جامعہ کراچی کے شعبہ اردو کے صدر یہاں تشریف لائے میں نے ان کے اعزاز میں ایک مشاعرہ رکھا وہاں باقی شعرا کے ساتھ ایک گول چہرے والا لڑکا قدرے گورے رنگ کا، ناک پر نظر کی عینک ٹکائے آیا۔قدیہی کوئی ساڑھے 5 فٹ موٹا، لیکن بھلا موٹا یہ نہیں کہ توند نکلی ہوئی تھی۔میں نے نام پکارا کہ شوزیب کاشر اب اپنے کلام سے نوازیں گے تو وہی گول چہرے والا بازو پر کڑے چڑھائے ہوئے اٹھا اور ڈاکو نے دیکھتے دیکھتے مشاعرہ لوٹا، لوگوں نے بصورت_داد شور مچایا۔بطور_ شاعرحسد اور خوشی کی ملی جلی کیفییات سے میں نے بھی اسے داد دی۔پھر مشاعرہ ختم ہوا وہ اپنے گھر میں اپنے۔کوئی دو ماہ بعد کسی اور مشاعرے میں جانا ہوا تو اس گھبرو کو دیکھ کر مجھے پھر لاچاری ہوئی کہ یہ یہاں بھی؟؟؟خیر اس روز اس کی تازہ شاعری سننے کو ملی۔مجھے محسوس ہوا یہ بندا خدا کرب سے لبا لب بھرا پڑا ہے یہ شعر نہیں دکھ درد اگلتا ہے،بیچارے کی جان پر بنی ہوئی ہے سو اس پر رحم آنے لگا پھر محبت ہو گئی۔شوزیب کاشر جتنا اچھا شاعر ہے اتنا اچھا انسان بھی ہے۔درد مند ہے بہت کافر قسم کا مذہبی ہے مثلا دھریوں سے دوستی نہیں رکھتا خاموشی سے قطع تعلق کر لیتا ہے۔کائنات کی فلاسفی آف ایگزسٹنس کو انڈرسٹینڈ کرتا ہے مثلااپنی یا اپنوں کی موت سے ڈرتا نہیں ۔نا واویلا کرتا ہے۔لگتا ہے کہ کسی زمانے میں کار_عشق کیا ہو گا لیکن جارج برناڈ شاہ کی طرح رومینٹک امیجینشن کی بجائےرئیلاسٹک اپروچ دیکھ کر یہ خیال اپنی موت آپ مر جاتا ہے۔لیکن ایسا بھی نہیں کہ یہ نان رومینٹک شاعر ہے۔بعض دفعہ شعر اور شعریت کو رومینٹیسیزم کے اوج پر لے جاتا ہے۔مغربی رومانوی شاعر ولیم وورڈز ورتھ کی خو بھی رکھتا ہے اور شعر کی رگڑائی کرتے دیکھ کر جواں سال مغربی رومانوی شاعر جان کیٹس جس کو کلاسیکل رومانٹسٹ بھی کہا جاتا ہے کا گماں بھی گزرتا ہے۔جس نے ایک بار اپنے سینیر دوست پی بی شیلے کو خط میں لکھا کہcurb your magnanimity and be more of an artist and chissle your phrases.
شوزیب کاشر محض ایک خوبصورت جوان لڑکا نہیں بلکہ یہ کشمیری شعری دبستان کے نوجوان شعرا کا چہرا ہے۔اور اس چمکتے دھمکتے چہرے پر شیر تا بٹیر سب کو فخر ہے۔میں نے اس شخص کو ساری ساری رات جاگتے،محنت کرتے دیکھا ہے۔جھبی آج بطور_نوجوان شاعر میں پوری ذمہ داری اور کھلے دل سے اعتراف کرتا ہوں کہ شوزیب کاشر نے حرف کی عزت پر آج تک کوئی حرف نہیں دیا۔یہ شاعری کے سارے پروٹوکول اور ڈیکورم سے واقف ہے۔یہ یہ بات جانتا ہے کہ کیا نہیں لکھنا۔as poetry is an art of unsaid .what to keep outside the poem.he plays camouflage technique with his readers.
عموما شعراء کو تخلیق کے عمل میں قافیہ تنگ کرتا ہے لیکن شوزیب بھائی کو میں نے دیکھا ہے کہ یہ قافیہ کو پٹخ پٹخ کر مارتا ہے۔یہ یاروں کا یار ہے۔ہم راولاکوٹ آئیں یا یہ پنڈی ہمارے پاس جائے اس سےطے ہے کہ میزبان بہر حال یہی ہو گا۔المختصرشوزیب کاشر کی دوستی میں فوائد ہی فوائد ہی ہیں۔ایسی دوستی ہے جس کو ضبط تحریر میں نہیں لایا جا سکتا۔میاں محمد بخش نے کہا تھا۔
یار مرے نے تحفہ گلیا کابل دی کستوری
جاں کھولاں تے ہلے آون جد تولاں تے پوری
شوزیب کاشر کے بارے میں یہ فیصلہ کرنا میرے لیے بہرحال مشکل ہے کہ یہ جدید رومانوی شاعر ہے یا روایتی۔لیکن یہ کبھی کبھار روایت اور جدت کا جو امتزاج پیش کرتا وہ دوسرے لکھنے والوں سے 180 کے زاویے پر ڈیوی ایٹ کرتا ہے۔یہ رومانویت کے عمومی رویے کو بعض دفعہ الٹا لٹکاتے ہوئے نظر آتا ہے
مثلا شاعر ساری عمر محبوب سے قرب کا تقاضا کرتے رہتے ہیں جب کہ یہ دھکے دے کر گھر سے باہر نکالتے ہوئے کہتا دکھائی دیتا ہے
ہے کون رکاوٹ جو تجھے روک رہی ہے؟
میں نے تو میری ذات بھی ڈھا دی ہے چلا جا
یوں نہیں کہ یہ کھڑتل مزاج ہے بعض دفعہ نا تجربہ کاروں پر کمال شفقت فرماتے ہوئے یہ بہت نرمی بھی اختیار کرتا ہے۔ قطع تعلق کرنے والوں کو ہاتھ جوڑ کر منت کرتا بھی دکھائی دیتا ہے کہ
ہمیں پتہ ہے جدائی کے بعد کا عالم
بچھڑنے والا اگر دے صدا تو سن لینا
دل محلے میں آنے والوں یا آنے کی خواہش رکھنے والوں کے لیے خطرے کا بورڈآویزاں کیے ہوئے ہے کہ
تو اس کا عادی نہیں ہے سو احتیاط سے چل
ہمارے گاوں کی پتھریلی ہے زمیں میرے دوست
میں اتنا ہی لکھ ،کہہ سکتا تھاباقی قضیے باقی مکالہ نگار نبھیڑتے رہیں گے۔
ہاں ایک بات۔سامعین آپ نے نوٹ کیا ہو گا کہ میں نے اس مضمون کو کوئی نام نہیں دیا۔۔۔میں یہ مضمون لکھ رہا تھا اور عنوان دیا کہ"شوزیب کا شر کی خمیازہ"میری ایک انگلش سپیکر سٹوڈنٹ نے یہ دیکھ کر پوچھا سر یہ خمیازہ آپ کے دوست کی منگیتر ہے یا بیوی؟؟میں نے کی خمیازہ پر اسی وقت پنسل پھیری اور "شوزیب کاشر" رہنے دیا۔اس نے پھر جوڑ بنا بنا کر پڑھا۔۔شوزیب ۔۔۔کا۔۔۔۔شر۔میں نے اس کو بھی کاٹ دیا اور مضمون کو بے نام ہی رہنے دیا۔

محمد صداقت طاہر

===========================

اگر میں حلول کا عقیدہ رکھتا تو کہتا کہ حضرت جون ایلیا کو اردو شاعری سے جوعشق تھا،عدم آباد پہنچ کر بھی اس کی تسکین نہ ہو پائی تو انھوں نے شوزیب کاشر کی صورت میں نیا جنم لیا ہے۔صاحب طرز شاعر جون ایلیا کا نیا ایڈیشن شوزیب کاشر کی صورت میں ہمارے سامنے ہے،میں ان سطور میں ان اشعار کا خمیازہ بھگت رہا ہوں جو میں نے”خمیازہ”میں بڑی وارفتگی سے پڑھے ہیں۔کشمیر کی سرسبز وادیاں ہوں کہ بلند وبالا پہاڑ،بہتے جھرنے ہوں کہ بل کھاتے دریا،ہر صاحب دل کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں۔”خمیازہ”راولاکوٹ آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے نئی نسل کے نمائندہ شاعر شوزیب کاشر کا تازہ شعری مجموعہ ہے جو چند روز قبل منظر عام پر آیا ہے،اس مجموعہ کلام میں سڑسٹھ غزلیات اور کچھ اشعار ہیں۔شوزیب کاشر نے کتاب کا انتساب اپنی والدہ اور بڑے بھائی توصیف ترنل کے نام کیاہے جوکہ بہت اچھی روایت ہے۔کتاب میں قدیم شعراء کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے سب سے پہلے حضور نبی کریم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں ھدیہ نعت کو رکھا گیا ہے۔کتاب میں شامل سبھی غزلیں معیاری ہیں،گہرے مطالعہ کی بنا پر شوزیب نے لفظوں کے انتخاب میں دقت نظر کا ثبوت دیا ہے،نفسیات کے باب میں شوزیب نے بعض ان حالتوں کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ جہاں بڑے بڑے”صاحبان نظر بھی دھوکا کھا جاتے ہیں۔اس میں شبہ نہیں کہ شوزیب نے “جون”کا مطالعہ بڑی احتیاط سے کیا ہے،بعض مقامات پر تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ اگر حضرت جون ایلیا آج زندہ ہوتے تو شوزیب کاشر کا ماتھا چوم لیتے ۔میرے پیش نظر یہاں شوزیب کی شاعری کی خصوصیات بیان کرنا نہیں بلکہ ان سطور کے ذریعے اسے مبارک باد پیش کرنا ہے ،سو شوزیب کاشر کو یہ نیا شعری مجموعہ مبارک ہو۔

بشارت تنشیط

===========================

ضدی بچے کا ــ ’’ خمیازہ‘‘
مشتاق بخاری

شوزیب کاشر کے شعری مجموعہ ’’ خمیازہ‘‘ کی تقریب رونمائی میں پڑھا گیا

اگر مشاعرے کے دوران شاعر کو پہلے ہی مصرعے پہ زور دار بلکہ خوف ناک انداز میں ’’واہ واہ‘‘ کی صورت میں داد دیتا ایک نوجوان جسے دنیا شوزیب کاشر کے نام سے جانتی ہے منفرد د انداز میں اپنی موجودگی کا بھرپور احساس دلاتا ہے۔ اس کی واہ واہ سے پہلے تو شاعر کا دل یک دم دہل جاتا ہے۔ پھر وہ خو ف کی مختلف منازل طے کرتے کرتے داد د ینے والے کی طرف رحم طلب نگاہوں سے دیکھتا ہے ۔مگر جب شاعر کی نظراس کی دلنشین مسکراہٹ پہ پڑتی ہے تو وہ دوسرا مصرعہ پڑھنے کا حوصلہ پیدا کرہی لیتا ہے اور دھیرے دھیرے خوف ناک داد میں چھپی اپناہیت اسے اپنا گرویدہ بنا لیتی ہے ۔ کہیں شاعر تو محض اس لیے مشاعرہ پڑھنے نہیں آتے کہ نہیں بھئی شوزیب کی داد سہنے کی ہم میں تاب نہیں۔ مگر کتنے ہی شاعر اس کی داد کے ایسے گرویدہ ہو جاتے ہیں کہ کہیں اور مشاعر ہ پڑھنے جائیں تو پوچھ بیٹھتے ہیں کہ بھئی پہلے یہ بتائیے کہ وہاں شوزیب کی طرح داد دینے والا کوئی ہو گا کہ نہیںاورا یک اندازے کے مطابق اس طرح کے سوالات کرنے میں شاعرات کی تعداداچھی زیادہ ہوتی ہے۔

آخر یہ شخص کون ہے جس کی داد کے انداز کا شہر ہ ہے جو دیکھنے میں ماڈل لگتا ہے، ڈرامے یا فلموں میں ہیرو بھی آسکتا ہے۔ ایک خوبرو نوجوان، رنگ سفید (ایک اضافی نمبردے کر)، ناک پہ چشمہ اٹکائے، عموما سیاہ رنگ کی قمیض پہنے، بھاری آواز، قد درمیانہ، وزن مناسب، انگلیوں میں سیلمانی عقیق کی انگوٹھی سجائے، آستینیں اوپر کیے ہوئے اور ہاں کلائیوں میں بہت سے ’’کڑوں‘‘ کا بھار اٹھائے ( جن کی تعداد کا حتمی تعین ابھی تک نہیںہو سکا ) آپ کو مشاعرے میں موجود سامعین کی دوسری یاتیسری قطار میںبیٹھا ہوا بآسانی نظر آجائے گا کیونکہ وہ خود نمائی کی لت میں مبتلا نہیں ہے اور کبھی اگلی قطاروں میں زبردستی ٹھنس کے بلانے پر بھی نہیں بیٹھتا۔جو سامعین اس سے واقف نہیں ہوتے وہ اس غلط فہمی کا شکار رہتے ہیں کہ یہ نوجوان بھی ان ہی کی طرح مشاعرے میں بطور سامع ، محظوظ ہونے اور داد دینے آیا ہے۔ مگر جب اسٹیج سے اس کا نام مشاعرہ پڑھنے کے لیے پکارا جاتا ہے تو وہ سامعین کی صفوں سے چپکے سے اٹھ کر فن کی کلیاں بکھیرنا شروع کر دیتا ہے۔اپنے کمال فن سے اکھڑے ہوئے مشاعرے کو بھی اپنے توانا لہجے،، جداگانہ اسلوب، کلام کی پختگی ، نُدرت اور ترنم سے جما نے کا ہنربخوبی آزماتے ہوئے داد و تحسین کے پھول سمیٹنا شروع کر دیتا ہے۔

میں بنجوسہ کی جھیل کنارے سجی وہ خوبصورت شام بھلا کیسے بھول سکتا ہوں۔ جب کچھ سال پہلے پونچھ ادبی سوسائٹی کے زیر اہتمام ایک مشاعرے میںشرکت کا شرف حاصل ہوا تو شوزیب کاشر سے پہلی بار ملاقات ہوئی۔پھر اس کے بعدملاقاتوں کاسلسہ کسی نہ کسی صورت نکلتا چلا گیا اور اس کی فن اور شخصیت کے پرت کھلتے چلے گئے ہیں۔ حق دوستی تو نہیں بہرحال ایک تعلق ضرور ہے جس کا ’’خمیازہ‘‘ بھگتنے کے لیے بلکہ ’’ برتنے ‘‘ کے لیے ہم سب یہاں موجود ہیں۔

شوزیب کاشرکی خوش قسمتی ہے اس نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی وہاں شعر و سخن سے شغف کا چلن پہلے سے ہی موجود تھا ۔جس کا اس نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔اگرچہ اس کو والد صاحب کی طرف سے ستائش کی تمنا رہے ۔دیکھئے کب پوری ہوتی ہے؟ جب بچوں کے کنچے یعنی ’بنٹے ‘ کھیلنے کی عمر ہوتی ہے یا ایک مخصوص گھر کی طرف گیند بار بارپھینکنے اور دوڑ کے واپس لانے کے بہانے بنانا ان کا محبوب مشغلہ ہوتا ہے اس عمر میں ہی وہ مصرعوں کی بنت میںمصروف عمل ہو گیا اورمیٹرک میں ہی اپنا پہلا شعری مجموعہ منظر عام پہ لا کر اور ایوارڈ جیت کر سب کو حیران کر گیا۔

خا ندان میں سب سے چھوٹا اور ’’گگلو ، گول مٹول‘‘ بچہ ہونے کے ناتے وہ ددھیال اور ننھیال کی آنکھ کا تارا بن گیا۔سیانا ایسا تھا کہ جب اس نے دیکھا کہ بھئی یہ لوگ تو میرے ناز اٹھاتے نہیں تھکتے تووہ ضد اور من مانی کرنے لگا۔اس کی پہلی ضد اپنی مرضی سے پڑھائی کرنا تھی۔ رزمک کالج میں داخلہ ٹھکرا کر ایک دینی مدرسے میں چلے جانا حیرت سے خالی نہیں ہے کیونکہ ہمارے ہاں تو یہ چلن عام ہے کہ دینی مدرسے میں اسی بچے کو بھیجا جاتا ہے جو قدرے ’’نکما ‘‘ ہو جس کا نتیجہ ا مدرسوں سے علماء کی بجائے ملاوٗں کی کثیر تعداد میں ترسیل ہے ۔ مگر شوزیب وہاں سے بھی Typical مُلا بن کے نہیں نکلا بلکہ علم عروض پر پختگی ، خدا کے وجود پہ یقین کامل اور عشق نبی کریم ﷺ کی نعمت سے سرشار ہو کے آیا۔اس کی نعتوں کا مجموعہ اور نعت گوئی میں کمال سخن اس امر کا بہترین ثبوت ہے۔ یہاںیہ زکر بھی کرتا چلوں کہ شوزیب کی کچھ شاعر دوستوں سے اس وجہ سے نہیں بن پائی کہ وہ آج کے مروجہ فیشن کے طور پر خدا کے وجود پہ میم میخ نکالتے تھے جو شوزیب کو کسی طور قابل قبول نہیں تھی سو اس نے تعلق محدود کر لیا ۔

اس کا ضدی مزاج شعر گوئی میں بھی اس کے ساتھ رہتا ہے۔ ایک طرف ہم جیسے شاعر ہیں کہ غزل کے پانچ سے سات اشعار ہو جائیں تو قلم کی سانسوں کے ساتھ اپنی سانسیں بھی پھول جاتی ہیں اور دوسری طرف شوزیب کا کمال فن ہے کہ پچاس ساٹھ اشعارپہ مشتمل غزل یوں کہہ دیتا ہے جیسے اس کے بائیں ہاتھ کاکھیل ہو۔وہ ایسے ایسے قافیے ڈھوند کے لاتا اور ان کو چن چن کے باندھتا ہے کہ قافیے بیچارے چھپتے پھرتے ہیں۔

’’سیاہ رنگ کادلدادہ‘‘ محفل آرائی کا شوقین، اپنی حاضر جوابی، لطیفہ گوئی اور فی البدیع گفتگو کے باعث قوس قزح کے رنگ بکھیر دیتا ہے۔ گفتگو نپی تلی کرتا ہے مگر چند جملوں کی فضول خرچی کا مرتکب پا یا گیا ہے۔ جیسے ’’ مطلب یہ ہے کہ ‘‘ ’’ دیکھیں نا اصل میں ‘‘ ، ’’ بالفرض کیا ‘‘ وٰغیرہ وغیرہ

سیر و سیاحت کا شوقین ہے۔ مشاعروں میں جانا ہو یا گھومنے پھرنے دوستوں کی دی گئی دستک پرفورا حاضر ہو جاتا ہے۔ بعض دفعہ تو گھر والے آٹا لینے مارکیٹ بھیجتے ہیں اور جناب مشاعرہ پڑھنے ’’اکرم آباد‘‘ ( لائن آف کنٹرول کے قریب دور افتادہ گائوں) پہنچ جاتا ہے۔ وہاں پہنچ کے یاد آتا ہے کہ او ہو گھر والوں نے تو آٹا لینے بھیجا تھاتو ہنستے ہوئے خود کلامی کرتا ہے کہ خیرہے کچھ نہ کچھ بندوبست کر لیں گیــ‘‘۔ دوستوں کے ساتھ ساری رات جاگ کر محفل آرائی کرتا ہے اور دوسرے دن ایسا فریش رہتا ہے کہ دوستوں کو حیرت اورکبھی کبھی جیلسی بھی ہوتی ہے۔ وہ بظاہر شوخ طبعیت کا حامل ہے ۔ مگر اندر سے ہراہل قلم کی طرح حساس ، ہمدرد، درد دل رکھنے والا شخص ہے۔اس کے لیے انتظار کی سولی پہ ٹنگا ایک لمحہ بھی صدیوں پہ بھاری ہوتا ہے۔

بلا کا گوشت خور ہے۔ ایک بار کسی دوست نے پوچھ ہی لیا کہ آپ گوشت کھا کھا کے کبھی بیزار نہیں ہوتے تو جواب دیا ’’ہاں ہوتا ہوں نہ یار‘‘۔ تو پھر کیا کھاتے ہیں ، جواب دیتا ہے ’’پھر گوشت کھاتا ہوں‘‘۔

عموما شادی شدہ شعرا کی شکایت یہ ہوتی ہے کہ بھئی گھر میں ہماری شاعری کی کوئی خاص و قعت نہیںہے اوراکثر مشاعروںمیں شرکت نہ کرنے کی وجہ بیگم کی طبعیت جو در اصل موڈ کا اچھا نہ ہونا ہوتا ہے بتاتے ہیں مگر شوزیب اس معاملے میں بھی بڑا خوش قسمت واقع ہوتا ہے۔اس کی بیگم علم ریاضی کی ماہر تو ہیں ہی اوپر سے سخن فہم بھی ہیں ۔ان کی طرف سے نہ صرف داد ملتی ہے تنقید ہوتی ہے بلکہ دبی تقریبات اور دوستوں کی محفل میں شرکت کی بلا ’’ ناک چڑھائے ‘‘اجازت بھی دے دیتی ہیں۔ ایک دفعہ شوزیب پہ غزل کی آمد ہو رہی تھی۔ بیگم صاحبہ غورسے دیکھ رہی تھی کہ صاحب صحن یعنی ’’ بہڑے ‘‘ میں ٹہل رہے ہیں۔ زیر لب شاید کوئی ورد بھی کر رہے ہیں۔ سر بھی دھن رہے ہیں۔بیگم نے پوچھا ’’کیا معاملہ ہے‘‘ تو جواب دیا کہ’’ غزل کی آمد ہو رہی ہے۔ چپ رہنا اور مجھے ڈسٹرب نہیں کرنا‘‘۔ بیگم صاحبہ فرماں برداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے خاموشی سے بیٹھ جاتی ہیں اور تماشا دیکھنے کے ساتھ ساتھ صاحب کے چکروں کا حساب کتاب بھی کرنے لگتی ہیں، ریاضی دان جو ٹھہری ۔ جب صاحب کے 500 چکر پورے ہو گئے تو بیگم کو خوشخبری سنائی کہ 50 شعر ہو گئے ہیں۔ بیگم نے برجستہ جواب دیا آپ کو ایک شعر کہنے کے لیے 10 چکر کاٹنے پڑتے ہیں۔ اپنی کارکردی بہتر بنائیں تاکہ 5 چکروں میں ایک شعر کہہ سکیں۔ اگر بیگم سخن فہم نہ ہوتی تو شوزیب آج کل مزاحیہ شاعری کر رہا ہوتا اور ساری دنیا کی بیگمات کو کوس رہا ہوتا۔

اگرچہ شوزیب کو کسی بڑی محرومی کا سامنا نہیں رہا مگر حساس ، درد دل رکھنے والوں لوگوں کی طرح اس نے بھی زندگی کی مختلف شعبوں کے لیے خاص معیارات مقرر کر رکھے ہیں۔ ہمارا لکیر کا فقیر معاشرہ ہے لکھنے والوںاور مروجہ معیارات سے بغاوت کواہمیت نہیں دیتا۔ سو اس کی وجہ سے شوزیب کبھی کبھی ڈپریشن کا شکار بھی ہو جاتا ہے مگر جلد ہی اس پہ حاوی ہو جاتا ہے اور اپنی فطرت کے مطابق ہنسنے مسکرانے کا سلسلہ جاری رکھتا ہے۔

شوزیب کاشر ہمارا مان ہے ، فخر ہے،دبستان کشمیر کی پہچان ہے ، حلقہ یاراں کی شان ہے اور سب سے بڑھ کر بہت ہی پیارا انسا ن ہے۔ دست دعا بلند ہیں کہ اس کا مجموعہ ’’ خمیازہ‘‘ ہر عام و خاص ادب میں قبولیت کے اعلی درجے پہ پہنچ جائے۔ اور اس کے کلام میں برکت اور تازگی برقرار رہے۔

اور آخر میں اپنا ایک شعر شوزیب کاشر کی نذر

اب حوالہ بن گئے ہیں اس نگر میں کہ جہاں

خواب آنکھوں میں لیے ہم بے ثمر پھرتے رہے

==========================

کوئی تین چار سال پہلے فیسبک پر عالین زہرہ کے انتخاب میں شوزیب کاشر کا تعارف اور کچھ اشعار پڑھنے کو ملے اور خوش بختی کہ وہیں سے شوزیب کی فیسبک آئی ڈی بھی ملی ۔ شوزیب سے بات کی بےچینی پیدا ہوئی انبکس میں سلام کیا جسکا جواب کوئی چھ ماہ بعد آیا ۔
پھر کچھ دوستوں سے شوزیب کا نام اور اشعار سننے کا اتفاق بڑھتا جا رہا تھا کہ کھوئی رٹہ کے ایک مشاعرہ میں شوزیب سے ملاقات بھی ہوگئی ۔ مشاعرہ کے اختتام پر کھوئی رٹہ سے عباس پور تک کے سفر میں بھرپور نشست ہوئی ۔
پہلی ملاقات کا رس ابھی تازہ ہی تھا کہ صداقت طاہر شوزیب کو لیے مجھے ملنے صدر راولپنڈی آگئے ۔ کھانا کھلانا پڑا چائے پلانی پڑی اور ساتھ شوزیب سے پچاس پچاس شعروں والی غزلیں بھی سننا پڑیں۔ 
قوتِ برداشت دیکھتے جائیے باتوں اور ملاقاتوں کا سلسلہ بڑھتے بڑھتے صبح دوپہر شام تک آ گیا اور یوں ہی چل رہا ہے۔
مجھے شوزیب سے کبھی نہ ختم ہونے والی محبت ہے ۔
"خمیازہ " شوزیب کی شاعری کی بھرپور کتاب ہے ۔ شوزیب بہت محنت اور لگن سے شعر کہتا ہے۔ خمیازہ کا ہر مصرع شوزیب کے ذمہ دار شاعر ہونے کی گواہی دیتا ہے۔
میں شوزیب کو قریب سے جانتا ہوں وہ جب کسی لفظ میں الجھتا ہے تو اسکی نسلیں معلوم کر کے ہی دم لیتا ہے اسکے ہاں الفاظ کا اک بڑا ذخیرہ موجود ہے ۔وسیع مطالعہ اور بقول بشارت تنشیط شوزیب کاشر جون ایلیا کا دوسرا جنم ہے۔

ہم جون کی تلمیذ , ہمارے لیے کاشر
دانتے کوئی منزل ہے نہ نطشے کوئی منزل 

ہنسی ہنسی میں رو لیتا ہے اور امید کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیتا

زندگی کے خوف سے کاشر میں کر لوں خودکشی 
زندگی مشکل تو ہے پر اس قدر مشکل نہیں 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اے پیار میں اجڑی ہوئی وادی! کوئی رستہ ؟
اے درد کے مقبوضہ علاقے! کوئی  منزل؟
شوزیب کے ہاں ہچکچاہٹ نہیں ہے وہ جو بھی کہتا ہے پورے وثوق سے کہتا ہے عملی اور شعری زندگی میں شوزیب تقریباً ایک جیسا ہے

پیرہن پھاڑ کر میں رقص کروں 
عشق وحشت میں مبتلا ہوں کیا؟

ایک ہی فارہہ سے پیار کروں 
میں کوئی جون ایلیا ہوں کیا؟

شوزیب کی شاعری کشمیر میں ہریالی کے جیسی ہے اور حالیہ اردو زبان کی خوش قسمتی ہےکہ اسے شوزیب کاشر میسر ہے جو اس کی روایت پر پورے قدم رکھ کر چل رہا ہےاور مہینوں جاگ کر غزل کہتا ہے۔ 
اڑیں پھریں گے ہواؤں میں ,ساتھ چل میرے
میں لے چلوں تجھے گاؤں میں ساتھ چل میرے

بہشت زاد ہوں کشمیر ہے مرا مسکن
تجھے بھی سیر کراوں میں ,ساتھ چل میرے 

ہماری گرد۔سفر کو زمانہ چھو نہ سکے
پہن کے بجلیاں پاوں میں  ساتھ چل میرے

پھر ایک دن مجھے ہمزاد مل گیا آخر 
کہا,جہاں کہیں جاوں میں ,ساتھ چل میرے

شوزیب کے لیے بہت سی دعائیں اور بہت کچھ بقایا 

 عاصم سلیم بٹ

===============================

خمیازہ کی اشاعت پر کشمیر  اور پاکستان  بھر سے دوستوں کی طرف سے ملنے والے مبارک باد کے پیغامات کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ ہے جو پچھلے ایک ہفتے سے جاری و ساری ہے فیسبک، واٹس ایپ کے سٹیٹس ہوں کہ انباکسزز، کالز ہوں کہ مسیجز دوستوں اور پیاروں کی محبتیں دیدنی ہیں .......... مجھ نا چیز پر یہ ایک ایسا قرض ہے جو میں شاید کبھی نہ اتار سکوں......  آپ احباب کی محبتوں کا کماحقہ قرض اتارنا تو یقینا مجھ جیسے انسان کے لیے نا ممکن ہے تاہم میں اس پوسٹ کے توسط سے آپ تمام احباب کا بارِ دگر شکر گزار ہوں اور اللہ تعالی سے آپ سب کی صحت و سلامتی کے لیے دعا گو ہوں

خمیازہ کی اشاعت کو ابھی بمشکل ہفتہ ہی گزرا ہے اور پہلی ہی تقریب میں اس کا ہاتھوں ہاتھوں بکنا بھی آپ احباب کی مجھ سے بے انت محبت اور پیار کا منہ بولتا ثبوت  ہے .....تقریب کو چار چاند لگانے والے پیارے احباب کا جتنا بھی شکریہ ادا کروں کم ہے ..…
چند دوستوں کے نام لے کر شکریہ ادا نہ کرنا بھی نا انصافی ہو گی ......برادرم توصیف ترنل ، مولانا عبد الخالق صاحب،سجاد افضل صاحب، قاری فاروق صابر صاحب،لیاقت شعلان صاحب،پروفیسر شفیق راجہ صاحب، محب احمد شیراز صاحب، صغیر خانصاحب،بالخصوص بہت بہت بہت پیارے دوست جانی صداقت طاہر ،عاصم سلیم بٹ، آصف اسحاق،عثمان لیاقت،ماجد محمود ماجد،شہباز گردیزی، ،ضیا الرحمان ضیا،غضنفر شاہین،باسط منشاد،ویسی ملک، زین حفیظ،عبید بھائی ،اعطاس احمد، ساجد علی، فہیم یسین، ایاز قدیر ،کامران غلام،عتیق احمد،جاوید خان،ساجد بشیر، ڈاکٹر اشتیاق ،اسد سلیم،عمران کمال،سجاد حسین کا ممنون احسان ہوں.... پیارے دوستوں نے جہاں تقریب کی خوبصورتی اور کامیابی میں  کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی وہاں کتاب کی خوبصورتی اور دلکشی کے حوالے سے رمیل پبلی کیشنز کی پوری ٹیم خصوصا برادر مکرم ارشد ملک کی محنت اور محبت بھی لائق صد داد و تحسین ہے، اللہ تعالی آپ سب کی توفیقات میں اضافہ کرے
شوزیب کاشر آزادکشمیر