Monday, December 31, 2018

رپورٹ:احمد منیب لاہور پاکستان ،ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری ،عالمی تنقیدی پروگرام نمبر 186 درصنعتِ تلمیح


ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری 
تنقیدی پروگرام نمبر 186 
درصنعتِ تلمیح

https://youtu.be/B5x4CDPj2ro

https://egohater.wordpress.com/2018/12/31/%d8%b1%d9%be%d9%88%d8%b1%d9%b9%d8%a7%d8%ad%d9%85%d8%af-%d9%85%d9%86%db%8c%d8%a8-%d9%84%d8%a7%db%81%d9%88%d8%b1-%d9%be%d8%a7%da%a9%d8%b3%d8%aa%d8%a7%d9%86%d8%8c-%d8%a7%d8%af%d8%a7%d8%b1%db%81-%d8%b9/

https://www.websforest.com/%D8%A7%D8%AF%D8%A7%D8%B1%DB%81-%D8%8C%D8%B9%D8%A7%D9%84%D9%85%DB%8C-%D8%A8%DB%8C%D8%B3%D9%B9-%D8%A7%D8%B1%D8%AF%D9%88-%D9%BE%D9%88%D8%A6%DB%8C%D9%B9%D8%B1%DB%8C/

https://www.punjnud.com/Aarticles_detail.aspx?ArticleID=6213&ArticleTitle=Idara-Alami-Best-Urdu-Poetry-Tanqeedi-Program-186-Darsanat-e-Talmih

==============================


رپورٹ:احمد منیب لاہور پاکستان

ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری 
تنقیدی پروگرام نمبر 186
درصنعتِ تلمیح

تلمیح کی لغوی تعریف اور معانی:

تَلمِیح عربی زبان سے اسم مشتق ہے ثلاثی مزیدفیہ کے باب تفضیل سے مصدر ہے اور اردو میں بطور حاصل مصدر ہے اردو میں سب سے پہلے اس کا استعمال1851 کو ’عجائب القصص‘ میں ملتا ہے۔

تلمیح کے لغوی معنی رمز اور اشارہ کے ہیں لیکن شعری اصطلاح میں کسی تاریخی واقعہ،  مذہبی حکم، لوک داستانی کردار وغیرہ کو اس انداز سے نظم کیے جانے کو کہتے ہیں تا کہ شعر کے مضمون کو پُرلطف اور زوردار بنایا جا سکے۔ اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ مصرع میں دو ایک الفاظ ایسے استعمال کیے جاتے ہیں جنہیں پڑھ کر پورا واقعہ، قصہ، معاملہ یاحکم وغیرہ قاری کے ذہنی گوشوں میں مستحضر ہو کر اس کی سوچ کو شعر میں موجود مضمون کی گہرائی تک لے جائے۔ تلمیح کو حسن ِ شعر کا درجہ حاصل ہے۔ شعر میں تلمیح سے متعلقہ لفظ یا الفاظ کو ملنے والے نئے اور مخصوص مفاہیم کی وجہ سے ہی انھیں اصطلاح کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔

تلمیح کی اصطلاحی تعریف:

اصطلاح میں ’تلمیح‘کی تعریف یہ ہے کہ شاعر و ادیب اپنے کلام و گفتگو میں کسی مسئلٔہ مشہور، کسی قصے، مثل شے اصطلاح نجوم، قرآنی واقعہ یا حدیث کے تناظر میں  کسی بات کی طرف اشارہ کرے، جس سے مکمل واقفیت کے بغیر معانی سمجھ میں ہی نہ آسکیں۔

تلمیح کا آغاز و ارتقا:

ادبیات عالم میں تلمیح کا آغاز بہت قدیم زمانے سے ہے۔چنانچہ قدیم ادب اور زبان کی کتاب قرآن کریم نے اس کا سب سے پہلے استعمال کیا اور رہتی دنیا تک کے لیے بے نظیر تلمیحات کے نمونے رقم کر دیئے۔ چنانچہ ایک تجزیے کے مطابق قرآن کریم میں جتنی تماثیل، گزشتہ اقوام کے واقعات اور قصص بیان شدہ ہیں وہ سب تلمیحات ہیں۔ یہ فصاحت و بلاغت کی ایک اعلیٰ اور تکمیلی صورت ہے۔اس اعجازِ  قرآنی کی اتباع میں ہر زبان و ادب میں اس صنعت کا استعمال ہونے لگا اور قلم کاروں نے مختصرانداز میں مافی الضمیر کی ادائیگی کے لیے اسے اختیار کیا۔

ڈاکٹر مصاحب علی صدیقی اس سلسلے میں  رقم طراز ہیں:

’تلمیح علم بیان کی نہایت اہم صنعت ہے۔ اس کی قدامت اس طرح مسلم الثبوت ہے جیساکہ تمدن و معاشرت کی تاریخ۔ابتدائے آفرینش سے اس صنعت کا گہرا لگاو انسانی تمدن سے رہا ہے۔ ارتقاکی ہر منزل میں اس کے نقوش پائے جاتے ہیں۔ دنیا کی جن قوموں میں الفاظ نہیں تھے وہ اپنے خیالات و جذبات کو سمجھانے کے لیے ہاتھ پاوں سے اشارہ کرتی تھیں اور جب انہیں زبان ملی تو انہوں نے اپنی حرکات و سکنات کو تلمیح کا نام دیا۔اس لیے کہ تلمیحات نے وہی کام کیا جو ان کے اشارے کرتے تھے۔‘

تلمیحات کی ضرورت:

تلمیح کی ضرورت کلام میں فصاحت و بلاغت اور حسن پیدا کر نے کے لیے ہوتی ہے۔اس سے مختصر انداز اور الفاظ میں بڑی بڑی باتیں بتادی جاتی ہیں اور ان حقائق کو سمو دیا جاتا ہے جنہیں بتانے اور سمجھانے کے لیے کئی کئی صفحات درکار ہوتے ہیں یوں کسی شاعر اور فن کار کا مقصد پورا ہوجاتا ہے۔چنانچہ قرآن کریم نے جا بہ جا تلمیحات کا استعمال کیا ہے اور اہل زبان کو ان واقعات کی جانب اشارہ کیا ہے جو ان سے پہلے ماسبق میں گزر چکے تھے۔نیز تلمیحات ہمیں  بیجا لمبی لمبی تشریحوں سے بچاکر کفایت وقت، ایجاز اور تاثیر کا فیض پہنچاتی ہیں۔ عربی، فارسی اور برصغیر کی مقامی  زبانوں میں تلمیح کا استعمال بڑا عام ہے اور اسے شعری زبان کا جز سمجھا جاتا ہے۔چنانچہ یہی بات ہے کہ اردوغزل نے تلمیح کی شعری افادیت سے کبھی منہ نہیں موڑا۔ اردوکے چھوٹے بڑے تمام شعرا کے ہاں اس کے استعمال کا رواج ملتاہے۔

تلمیحات ادب کی جان ہیں خواہ نثر میں ہوں یا نظم میں ، ان معنیٰ خیز اشاروں سے ادیب و شاعر اپنے کلام میں بلاغت کی روح پھونکتے ہیں۔ افادات سلیم میں لکھا ہے:

’تلمیحات بلاغت کا نشان ہیں۔ بلاغت کا مطلب یہ ہے کہ کم سے کم الفاظ  میں زیادہ سے زیادہ بات کہہ دی جائے نیز کم سے کم الفاظ کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ معانی سمجھے جائیں اور یہ بات تلمیحات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔چنانچہ جس زبان  میں تلمیحات کم ہیں یا بالکل نہیں ہیں، وہ بلاغت کے درجے سے گری ہوئی ہے۔‘

تلمیحات کے ذریعے شاعر کلام میں تاثیر پیدا کر تا ہے نیز اشعار کو شاندار، جان دار اور با وقار بناتا ہے۔چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ایک تلمیحی شعر غیر تلمیحی شعر کے مقابلے میں زیادہ فصیح و بلیغ اور خوش نما ہوتا ہے۔ اسی طرح نثری کلام میں بھی اس کی کارفرمائی ہے۔تلمیحات کا کمال یہ بھی  ہےکہ وہ باذوق افراد و اشخاص کو چند ساعتوں میں پورے پس منظر سے آگاہ کر دیتی ہیں۔ چنانچہ اگر کسی قرآنی واقعہ کا ذکر کسی شعر میں ہوا تو نہ صرف قرآن کی جانب سامع کا ذہن جائے گا بلکہ قرآن میں موجود اس قصے کا مذاکرہ بھی اس کے ذہن میں آجائے گا۔

اردو شاعری میں تلمیحات اور ان کا حکائی پس منظر:

ا ب ذیل میں اردو ادب میں موجود تلمیحات اور ان کے پس مناظر میں موجود واقعات/حکایات کی تفصیل ملاحظہ فرمائیے:

حیدر علی آتش کا شعر ہے:

عاشق اس غیرت بلقیس، کا ہوں میں آتش

بام تک جس کے کبھی، مرغ سلیماں نہ گیا

اس شعر میں ہے اشارہ ہے قصۂ بلقیس و سلیماں کی جانب۔جس کی ترجمانی قرآن کریم کی سورۃ نمل میں بالتفصیل کی گئی ہے۔

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق

عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی

اس شعر میں آتش نمرو دکی تلمیح ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالے جانے والے واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

چنانچہ اس واقعے کاخلاصہ قرآن کریم میں اس طرح بیان کیا گیاہے:

حرقوہٗ وانصرو اٰلھتکم ان کنتم فاعلینOسورۃ انبیا۔24

’اس کو جلا ڈالو اور اپنے اپنے خدائوں کو بچائو ؟اگر تم سے کچھ ہو سکتا ہے تو۔‘

اس کے بعد متعدد تفاسیر و روایات میں موجود ہے کہ شاہی فرمان کے مطابق شہر ے کےسب سے بڑے چوک پر آسمانوں کو چھونے والی آگ جلائی گئی جس میں ’عشق ‘یعنی ’خلیل خدا‘بے خطر کود پڑا۔

اگر چہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں

مجھے ہے حکم ہے اذاں لا الہ الا اللہ

اس شعر میں ایک نہایت باریک اور معرکۃ الآرا واقعے کی جانب سے اشارہ ہے۔واقعہ یہ ہے کہ ابتدائے اسلام میں مسلمان بتوں کی محبت سے رفتہ رفتہ جدا ہوئے تھے۔چنانچہ وہ نماز کے عالم میں بھی بغلوں میں بت لے کر آتے تھے۔مگر اس سے شارع اسلام نہ گھبرائے اور نہ اپنے مشن سے پیچھے بلکہ صدائے ربانی اذان لا الہ اللہ دیتے رہے اور خدائے لا شریک کی حقیقت و عرفان دلوں میں بٹھاتے رہے۔

آرہی ہے چاہ یوسف سے صدا

دوست یاں تھوڑے ہیں اور بھائی بہت

اس شعر میں چاہ یوسف کی تلمیح ہے یعنی جب برادرانِ یوسف نے حضرت یوسف علیہ السلام کو کنوئیں میں ڈال دیا تھا۔

تلمیح کی لغوی تعریف اور معانی:

تَلمِیح۔(عربی)عربی زبان سے اسم مشتق ہے ثلاثی مزیدفیہ کے باب تفصیل سے مصدر ہے اور اردو میں بطور حاصل مصدر ہے اردو میں سب سے پہلے اس کا استعمال1851 کو ’عجائب القصص‘ میں کیا گیا۔

اسم نکرہ (مؤنث – واحد)جمع: تَلمِیحات

جمع غیر ندائی: واومجہول کے ساتھ’ تلمیحوں ‘آتی ہے۔

اس کے متعدد معانی ہیں جن کی تفصیل ؎حسب ذیل ہے۔

1۔علم بیان کے باب میں کلام میں کسی مشہور مسئلے حدیث، آیت قرآنی یا قصے یا مثل کسی اصطلاح علمی و فنی وغیرہ کی اشارہ کرنا جس کو سمجھے بغیر مطلب واضح نہ ہو۔

’صنعت شعری میں  ’ تلمیح ‘کسی قصہ طلب واقعے سے مضمون پیدا کرنا کہلاتاہے۔

2۔ اشارہ، کنایہ۔

مثال:’تشبیہ ذات مقدس نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نور کی عجب تلمیح ہے۔‘

3.۔نفسیات ( شہوت انگیز، یا گندے خیالات پیدا کرنا، انگریزی: Suggestion۔۔۔۔۔

’انسانی تقلیدکی اکثر مثالیں حیوانات کی سادہ تقلید کے مقابلے   میں بلحاظ اصلیت زیادہ پیچیدہ ہوتی ہیں یہ مختلف قسم کی پیچیدہ ذہنی فعلیتوں کا نتیجہ ہوتی ہیں ان فعلیتوں میں سب سے بڑی وہ ہے جس کواصطلاحاً’تلمیح ‘کہتے ہیں۔ ‘

اِشارَہ، رَمز

علم بیان

کسی شعر میں تاریخی، مذہبی یا تہذیبی واقعہ کی طرف مختصر اشارہ کرنا تلمیح کہلاتا ہے۔

اردو میں اس کے لغوی معنی: اچٹتی نگاہ ڈالنا۔کلام میں کسی قصے کی طرف اشارہ کرنا۔

معیار اللغات میں اس کے معانی یہ بیان کیے گئے ہیں کہ وہ ایسی صنعت کا نام ہے جس میں کلام کسی قصہ مشہور یا مضمون مشہور پر مشتمل ہو۔

ہارمانک ہندی کوش ڈکشنری میں اس کے معانی اس طرح درج ہیں: کسی کہی ہوئی بات کی طرف مخفی انداز میں  اشارہ کر نا۔وہ بات کوئی واقعہ یا حوالہ ہو۔

خلاصہ:

تلمیح کے لغوی معنی رمز اور اشارہ کے ہیں لیکن شعری اصطلاح میں کسی تاریخی واقعہ، مذہبی حکم، لوک داستانی کردار وغیرہ کو اس انداز سے نظم کیا جائے کہ شعر کا مضمون پُرلطف اور زوردار ہو جائے۔ اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ اس میں دو ایک الفاظ کو استعمال میں لایا جاتا ہے۔ ان کو پڑھتے ہی پورا واقعہ، قصہ، معاملہ یاحکم وغیرہ قاری کے ذہنی گوشوں میں متحرک ہو کر اس کی سوچ کو شعر میں موجود مضمون میں گم کر دیتا ہے۔ تلمیح کو حسن ِ شعر کا درجہ حاصل ہے۔ شعر میں تلمیح سے متعلقہ لفظ یا الفاظ کو جو نئے اور مخصوص مفاہیم ملتے ہیں اس سے ہی انھیں اصطلاح کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔

تلمیح کی اصطلاحی تعریف:

اصطلاح میں ’تلمیح‘کی تعریف یہ ہے کہ شاعر و ادیب اپنے کلام و گفتگو میں کسی مسئلٔہ مشہور، کسی قصے، مثل شے اصطلاح نجوم، قرآنی واقعہ یا حدیث کے تناظر میں  کسی بات کی طرف اشارہ کرے، جس سے مکمل واقفیت کے بغیر معانی سمجھ میں ہی نہ آسکیں۔

نوٹ:

یہاں یہ بات بطور جملہ معترضہ یا وضاحتی نوٹ کے طور پر کہنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ نثری ادب میں اس کی نظیریں خال خال ہی ملیں گی تاہم شعری ادب میں اس کی بہتات ہے۔واقعہ یہ ہے کہ ہر استاذ شاعر نے ’تلمیحات ‘کے استعمال پر خصوصی توجہ دی اور ان واقعات کو زندۂ وجاوید بنادیا۔وہ میرؔ ہوں کہ غالبؔ، داغ ؔ ہوں کہ حسرت ؔو فراقؔ بلکہ اقبال کی شاعر ی کا تو ایک عظیم حصہ ہی اس کی نظیر بے نظیر ہے۔

تلمیح کی جامع تعریف:

ا ن سب تعریفوں کے بعد جامع تعریف یہ ہے کہ تلمیح وہ انداز کلام ہے جس میں کسی خیال کی ادا  ئیگی کے لیے لطیف انداز میں کسی واقعے، قصے، داستان، مثل، اصطلا ح یا آیات و احادیث سے کوئی مرکب تعبیر اخذ کی گئی ہو یا کوئی لفظ تراشاگیا ہو یا شعر(کلام)کا مجموعی مفہوم ہی اس نو عیت کا ہو کہ ذہن کسی واقعے، قصے، داستان، مثل، اصطلاح یا آیت و حدیث کی طرف منتقل ہوجائے۔تلمیح کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ کلام میں اشارہ لفظاً موجود ہو بلکہ معانی و مفہوم کے اعتبار سے بھی اگر اشارہ پایا جارہا ہے تو ایسے کلام کو بھی تلمیح میں شمار کیا جائے گا بلکہ یہ تواور زیادہ لطیف و بلیغ تلمیح ہوگی، کیوں کہ اس میں استعارے کی شان پیدا ہوجائے گی۔

تلمیح کا آغاز و ارتقا:

ادبیات عالم میں تلمیح کا آغاز بہت قدیم زمانے سے ہے۔چنانچہ قدیم ادب اور زبان کی کتاب قرآن کریم نے اس کا سب سے پہلے استعمال کیا اور رہتی دنیا تک کے لیے اس کی نظیر ثبت کردی۔ چنانچہ ایک تجزیے کے مطابق قرآن کریم میں جتنی تمثیلیں، گزشتہ قوموں کے واقعات اور قصے ہیں ایک کثیر تعداد میں وہ سب تلمیحات ہیں او راحکام وشعائر کی آیات سے زیادہ کہیں ان کا استعمال ہوا ہے۔ یہ فصاحت و بلاغت کی ایکاعلی و اہم ضرورت کی تکمیل ہے۔اسی کی اہمیت و اعجاز ہے کہ قرآن کریم کے بعد ساری دنیا کے ادب میں اس کا استعمال کیا جانے لگا اور قلم کاروں نے مختصرانداز میں مافی الضمیر کی ادائے گی کے لیے اس کو اختیار کیا۔

ڈاکٹر مصاحب علی صدیقی اس سلسلے میں  رقم طراز ہیں:

’تلمیح علم بیان کی نہایت اہم صنعت ہے۔ اس کی قدامت اس طرح مسلم الثبوت ہے جیساکہ تمدن و معاشرت کی تاریخ۔ابتدائے آفرینش سے اس صنعت کا گہرا لگائو انسانی تمدن سے رہا ہے۔ ارتقاکی ہر منزل میں اس کے نقوش پائے جاتے ہیں۔ دنیا کی جن قوموں میں الفاظ نہیں تھے وہ اپنے خیالات و جذبات کو سمجھانے کے لیے ہاتھ پائوں سے اشارہ کر تی تھیں اور جب انھیں زبان ملی تو انھوں نے اپنی حرکات و سکنات کو تلمیح کا نام دیا۔اس لیے کہ تلمیحات نے وہی کام کیا جو ان کے اشارے کرتے تھے۔‘

 تلمیحات کی ضرورت:

تلمیح کی ضرورت کلام میں فصاحت و بلاغت اور حسن پیدا کر نے کے لیے ہوتی ہے۔اس سے مختصر انداز اور الفاظ میں بڑی بڑی باتیں بتادی جاتی ہیں اور ان حقائق کو سمو دیا جاتا ہے جنھیں بتانے اور سمجھانے کے لیے کئی کئی صفحات کی ضرورت پڑتی ہے۔نیز اس طرح سے شاعر اور فن کا ر کا مقصد بھی پورا ہوجاتا ہے۔چنانچہ قرآن کریم نے جا بجا تلمیحات کا استعمال کیا ہے اور اہل زبان کو ان واقعات کی جانب اشارہ کیا ہے جو ان سے پہلے ماسبق میں گزر چکے تھے۔نیز تلمیحات ہمیں  بیجا لمبی لمبی تشریحوں سے بچاکر کفایت وقت، ایجاز اور تاثیر کا فیض پہنچاتی ہیں۔ عربی، فارسی اور برصغیر کی زبانوں میں تلمیح کا استعمال بڑا عام ہے اور اسے شعری زبان کا جز سمجھا جاتا ہے۔چنانچہ یہی بات ہے کہ اردوغزل نے تلمیح کی شعری افادیت سے کبھی منہ نہیں موڑا۔ اردوکے چھوٹے بڑے تمام شعرا کے ہاں اس کے استعمال کا رواج ملتاہے۔

ہماری شعری تلمیحات اکثر و بیشتر قرآن کریم سے مستعار لی گئیں ہیں بلکہ اس طرح سے تفسیر قرآن عظیم کے نئے در وا ہوئے ہیں۔اس طر ح کہ جب سامعین کوملائکہ، فسانۂ آدم، کشتیٔ نوح، کوہ طور کی تجلی، آگ، ابراہیم، اولاد، یوسف، اسماعیل، قربانی، زنان مصر، فرعون، سحر سامری، عصا ئے موسیٰ، خضر، آب حیات، مرغ سلیماں، بلقیس صبا، ابن مریم، مکہ مکرمہ، اصحاب فیل، ابو جہل، ابو لہب کے علاوہ دیگر عربی اقوام اور باشندوں کی زندگی کے متعلق سنیں گے تو ان کے من میں ان اشاراتی واقعات کی مکمل حقیقت جاننے کی طلب اور تڑپ ضرور پیدا ہوگی۔ چنانچہ وہ ضرور اس جانب متوجہ ہوں گے اور قرآن انھیں یا اس کے مذکورہ واقعات سمجھنے میں انھیں دقتوں کا سامنا نہ کرنا پڑے گا۔ دوسری بات یہ کہ مطول تفسیر کے بجائے مختصر تفسیر ان اشاروں میں بسی ہوئی ہوتی ہے۔

تلمیحات کی اہمیت:

تلمیحات ادب کی جان ہیں خواہ نثر میں ہوں یا نظم میں ، ان معنیٰ خیز اشاروں سے ادیب و شاعر اپنے کلام میں بلاغت کی روح پھونکتے ہیں۔ افادات سلیم میں لکھا ہے:

’تلمیحات بلاغت کا نشان ہیں۔ بلاغت کا مطلب یہ ہے کہ کم سے کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ بات کہہ دی جائے نیز کم سے کم الفاظ کے ذریعے زیادہ سے زیادہ معانی سمجھے جائیں اور یہ بات تلمیحات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔چنانچہ جس زبان میں تلمیحات کم ہیں یا بالکل نہیں ہیں، وہ بلاغت کے درجے سے گری ہوئی ہے۔‘

تلمیحات کے ذریعے شاعر کلام میں تاثیر پیدا کر تا ہے نیز اشعار کو شاندار، جان دار اور با وقار بناتا ہے۔چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ایک تلمیحی شعر غیر تلمیحی شعر کے مقابلے میں زیادہ فصیح و بلیغ اور خوش نما ہوتا ہے۔ اسی طرح نثری کلام میں بھی اس کی کارفرمائی ہے۔تلمیحات کا کمال یہ بھی کہ وہ باذوق افراد و اشخاص کو چند ساعتوں میں پورے پس منظر سے آگاہ کر دیتی ہیں۔ چنانچہ اگر کسی قرآنی واقعے کا ذکر کسی شعر میں ہوا تو نہ صرف قرآن کی جانب سامع کا ذہن جائے گا بلکہ قرآن میں موجود اس قصے کا مذاکرہ بھی اس کے ذہن میں آجائے گا۔

دوسری بات یہ ہے کہ تلمیح خود ایک شعری صنعت ہے۔یعنی اس کے بغیر اچھے اشعار کا وردو ممکن ہی نہیں۔ ورنہ تُک بندی کو کون شعر کہے گا۔صنعت تلمیح جہاں بذات خود ایک حسین صنعت ہے وہیں شعر میں  یہ دوسری شعری صنعتوں کا حسن و جمال کی افزودگی کی بھی ضامن ہے۔اسی لیے بلا تامل یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ نثرو نظم اور دیگر اصناف سخن پر تلمیح جس قدر حاوی ہے کوئی اور صنعت اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ اسی بات سے اردو شعرو ادب میں تلمیح کی اہمیت و حیثیت کا تعین اور اندازہ لگا یا جاسکتا ہے۔

اردو شاعری میں تلمیحات اور ان کا حکائی پس منظر:

ا ب ذیل میں اردو ادب میں موجود تلمیحات اور ان کے پس مناظر میں موجود واقعات/حکایتوں کی تفصیل ملاحظہ فرمایے:

حیدر علی آتش کا شعر ہے:

عاشق اس غیرت بلقیس، کا ہوں میں آتش

بام تک جس کے کبھی، مرغ سلیماں نہ گیا

اس شعر میں اشارہ ہے قصۂ بلقیس و سلیماں کی جانب۔جس کی ترجمانی قرآن کریم کی سورۃ نمل میں بالتفصیل کی گئی ہے۔

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق

عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی

اس شعر میں آتش نمرو کی د تلمیح ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

واقہ یہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ و السلام نے اپنے شہر کے سب سے بڑے بت کدے میں پتھر کی مورتوں کو توڑدیا پھوڑدیاتو اس سے پوری قوم میں غم و غصہ کا عالم بپا ہو گیا۔ سب لوگ حضرت کو برابھلا کہنے لگے۔ جب اس سے بھی کام نہ چلا تو آپ کو جلا ڈالنے کا فرمان جاری ہوا۔چنانچہ اس واقعے کاخلاصہ قرآن کریم میں اس طرح بیان کیا گیاہے:

حرقوہٗ وانصرو اٰلھتکم ان کنتم فاعلینOسورۃ انبیا۔24

’اس کو جلا ڈالو اور اپنے اپنے خدائوں کو بچائو ؟اگر تم سے کچھ ہو سکتا ہے تو۔‘

اس کے بعد متعدد تفاسیر و روایات میں موجود ہے کہ شاہی فرمان کے مطابق شہر سے سب سے بڑے چوک پر آسمانوں کو چھونے والی آگ جلائی گئی جس میں ’عشق ‘یعنی ’خلیل خدا‘بے خطر کود پڑا۔

آرہی ہے چاہ یوسف سے صدا

دوست یاں تھوڑے ہیں اور بھائی بہت

نامعلوم

اس شعر میں چاہ یوسف کی تلمیح کا استعمال ہے نیز اس میں حضرت یوسف علیہ السلام اور ان کے بھائیوں کے واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ان بھائیوں کی طرف جنھوں نے معصوم یوسف کو کنوئیں میں ڈال دیا تھا اور رات روتے ہوئے گھر پہنچے۔بہانہ بنایا کہ یوسف کو بھیڑیا کھا گیا۔

سب رقیبوں سے ہے ناخوش پر زنان مصرسے

ہے زلیخا خوش کہ محو ماہ کنعاں ہو گئیں

اس واقعے کو قرآن کریم نے سورۃ یوسف میں یوں بیان کیا ہے:

۔۔۔۔۔۔۔۔فلما رأئینہ اکبر نہ وقطعن ایدھنَّ وقلنَ حٰش للّٰہِ ما ھذا بشراً اِن ھذا الا ملکٌ کریمٌOقالت فذالکن الذی لُمتُننی فیہ۔۔۔۔۔۔۔۔سورۃ یوسف۔31۔32

’جب انہوں (زنان مصر) نے اسے دیکھا۔ایک حسن کا شہکارتھا۔وہ اپنے ہاتھ کاٹ بیٹھیں اور کہنے لگیں۔ ۔۔۔۔حاشا للہ۔۔۔۔۔۔یہ مرد نہیں یہ فرشتوں کی انجمن کا کوئی شہکار ہے۔زلیخا بولی:’یہی ہے وہ شخص، جس کے متعلق تم مجھے طعنے دیا کر تی تھیں۔ ۔۔۔۔۔‘
غالب کا ایک اور شعر ہے:

کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب

آؤ نا ہم بھی سیر کریں کوہ طور کی

حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے طور سینا پر صدائے حق سنی۔ ایک بار نہیں۔ ۔۔۔دو بار نہیں بلکہ متعدد بار۔ ۔۔۔پھر صدا دینے والے کے دیدار کا اشتیاق ہوا۔ قرآن کریم کے الفاظ ہیں:

ولماجآء موسیٰ لمیقٰتناو کلمہ ربُّہٗ قال ربی أَرنی انظرالیکج قال لن ترٰنی ولکن انظر الی الجبلِ فاِن ِاستقرمکانہ فسوف ترانیج فلماتجلیٰ ربہ للجبل جعلہٗ دکّاو خر موسیٰ صعقا۔۔۔۔۔Oسورۃ اعراف 143

’جب حضرت موسی علیہ الصلوٰۃ والسلام وعدہ پورا کر کے اور اپنے رب کا کلمہ لے کر آئے۔انھوں نے پہا ڑ پر اپنے رب سے کہا: ’اے میرے رب مجھے اپنے تئیں دکھائیے۔‘فرمایا: ’تم مجھے نہیں دیکھ سکتے۔البتہ پہاڑ کو دیکھیے اگر یہ اپنی جگہ پر قائم رہا تو پھرمیری دید کا امکان ہے۔ ‘پھر جب پہاڑ پر موسیٰ کے رب نے تجلی ڈالی تو وہ ریزہ ریزہ ہو گیا اور موسیٰ بے ہوش ہو گئے۔‘

  مدن پال کا شعر ملاحظہ ہو:

پتھر تراش کر نہ بنا تاج اک نیا

فن کار کی جہان میں کٹتی ہیں انگلیاں

1653میں  تاج محل تیار کروانے کے بعد بادشاہ نے مزدوروں کے ہاتھ کٹوادیے تاکہ کوئک اور تاج نہ بنا سکیں او راس کے تاج کی چمک دمک ماند نہ پڑ جائے۔۔۔۔۔۔۔

پتھر ابالتی رہی اک ماں تمام رات

بچے فریب کھا کے چٹائی پے سو گئے

ڈاکٹر نواز کا شعر ہے:

بھوکے بچوں کی تسلی کے لیے

ماں نے پھر پانی پکایا دیر تک

ان اشعار میں حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت کے ایک واقعے کی جانب لطیف سااشارہ کیا گیا ہے۔ مورخین لکھتے ہیں جوار مدینہ میں ایک قافلہ کہیں سے آیا اور وہیں ٹھیر گیا۔اسی قافلے کی ایک عورت رات میں اپنے بھوکے بچوں کو تسلّی دینے کے لیے چولہے پر پانی بھرے برتن کو گرم کرتی رہی اور بچے یہ سمجھتے رہے کہ ان کی ماں ان کے لیے کچھ بنا رہی ہے۔مگر پھر وہ سو گئے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے گشت کے دوران میں یہ صورت حال دیکھی تو تڑپ گئے اور فوراً اپنے غلام کو لے کر بیت المال آئے اور وہاں سے چند بورے اپنی اور غلام کی پیٹھ پر لاد کر اس مقام پر آئے اور سامان اس ماں کے حوالے کیا جو بچو ں کو فریب دے کر سلا رہی تھی۔

Oافتخار عارف کا شعر ہے:

وہی پیاس ہے وہی دشت ہے وہی گھرانہ ہے

مشکیزے سے تیر کا رشتہ پرانا ہے

کربلا کا تمام منظر اس شعر میں آگیا۔نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہر فرات سے پانی لے کر آتے ہیں کہ دشمنوں کا تیرے اسے پھاڑ کر تمام پانی باہر نکال دیتے ہیں۔ اسی پیاس، اسی گھرانے اور اسی دشت کا قصہ ہے اور مشکیز ے سے تیر کے پرانے رشتے کا حال اس میں بیان کیا گیا۔

ناصر کاظمی کا شعر :
یوں ترے حسن کی تصویر غزل میں آئے

جیسے بلقیس سلیماں کے محل میں آئے

قرآن اس تلمیح کا حکائی پس منظر اپنے الفاظ میں اس طرح بیان کر تا ہے:

قِیلَ لہا اُدخُلی الصَّرْح َ فلما رأتہٗ حَسِبَتْہٗ لُجَّۃً وَ کَشَفَتْ عن سَاقیھاج قال انہ صرحٌ مُّمرِّدٌ مِّن قَواریرَ۔ ۔۔۔۔O النمل:44

اس(بلقیس)سے کہا گیا کہ محل میں داخل ہوجائو۔جب اس نے(راستے میں  )دیکھاتو اس نے اسے پانی سمجھااور اپنی دونوں پنڈلیاں کھول دیں۔ اس سے کہا گیا یہ پانی نہیں باریک شیشہ ہے( جو حوض پر بچھایا گیا ہے۔)

 نثر میں تلمیحات اور ان کا حکائی پس منظر:

شعر ی ادب کے علاوہ نثر میں بھی اردو قلم کاروں نے تلمیحات کا استعمال کیا ہے جن میں انتظار حسین کا نام سر فہرست ہے۔انھوں نے خدا کی بستی اور آخری آدمی جیسی کہانیو ں میں  قوم بنی اسرائیل کے واقعات کو جابہ جا ان کا استعمال کیا ہے۔

 عہدِ حاضر میں ابن کنول کے نثری فن ہاروں میں یہ جھلک نظر آتی ہے چنانچہ ان کے افسانے ’صرف ایک شب کا فاصلہ‘ میں انہوں نے اصحاب کہف کے واقعہ تلمیح کیا ہے۔ قرآن کریم کے جامع الفاظ یوں ہیں:

قال قائل منھم کم لبثتم قالوا لبثنا یوماً اور بعض یوم ج۔۔۔۔الکہف:19

’ان میں سے کسی نے کہا کہ ہم ایک دن یا چند ایام سوئے ہیں۔ ‘

سویٹ ہوم‘ابن کنول کا ایک ایسا افسانہ ہے جس میں شہر مکہ کا قصہ بیان کیا گیا ہے۔وہی شہر مکہ جو ماضی میں  دیار بے آب و گیا ہ کے نام سے معروف تھا۔وہاں حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے لخت جگر کووہاں چھوڑ کر آئے اور پھر ایک مدت بعد وہا ں شہر آباد ہوگیا جسے عالمی مرکز ہونے کا شرف حاصل ہوا۔وہ اتنا خوب صورت اور جاذب عالم شہر بنا کہ اب اسے ساری دنیا کا’سویٹ ہوم‘کہا جاتا ہے۔وہاں اطراف واکناف عالم سے قافلے کے قافلے کھنچے چلے آتے ہیں اور جنت کا سا سکون حاصل کر تے ہیں۔ قرآن کریم نے شہر مکہ کی تعمیر، تشکیل، وہاں خانہ خدا کی بنیاد کا منصوبہ اور عمارت کا قیام نہایت تفصیل سے درج ہے۔اسی افسانے میں ابن کنول نے ’ابابیل‘والی تلمیح کا استعمال کیا ہے۔

ابابیل ایسا استعارہ ہے جسے تاریخ مکہ کا ایک اہم موڑمانا جاتا ہے۔اس کا حکائی پس منظر یہ ہے کہ مکہ مکرمہ میں واقع خانہ خدا کی مقبولیت جب چار دانگ عالم میں پھیل گئی اور بندگان خدااس کی زیارت کو جوق درجوق آنے لگے تو والیٔ یمن ابرہہ کو بہت ناگوار گزرا اور اس نے اپنے ملک میں شبیہ خانہ کعبہ بنا کر عوام کو اس کی جانب رخ کر نے اور اس کے طواف کے احکام صادر کر دیئے۔ مگراس کا یہ حکم نامہ ہوا میں اڑ کر رہ گیا، مزید یہ کہ اسکے  کعبہ کو لوگوں نے برباد کر دیا۔ ان واقعات نے اس کا غصہ آسمانوں سے بھی اونچا کر دیا اوراس نے خانۂ کعبہ کے انہدام کا فیصلہ کر لیا۔وہ مکہ آبھی گیا اور بیرون مکہ پڑائو ڈال کر ناپاک منصوبے بنانے لگا۔والیان و محافظین کعبہ اسے اس کے مالک کے حوالے کر کے جنگلوں او رپہاڑوں میں چلے گئے۔پھر کرشمۂ قدرت سب  نےدیکھا۔ ۔۔۔۔۔ایک طرف سے ابابیلوں کا لشکر آیا جو غنیم پر حملہ آور ہو گیا۔ان کے پنجوں اور چونچوں کی کنکریاں دشمنوں کو فنا کے گھاٹ اتارتی چلی گئیں۔ ۔۔۔ساری فوج تتر بتر ہو کر پسپا ہو گئی۔قرآن کریم نے ’سورۃ فیل‘ میں اس واقعے کو بیان کرتے ہوئے دشمنوں کی تباہی کو ’کھائے ہوئے بھوسے کی* مانند ہونا‘جیسی تمثیل بخشی ہے۔
**************

معاون کتب و رسائل:

(1)قرآن کریم

(2)شعرالعجم۔مولانا شبلی نعمانی۔دارالمصنفین، شبلی اکیڈمی۔اعظم گڑھ۔جنوری1991

(3)عجائب القصص (اردو ترجمہ)ڈاکٹر دائود ترمذی۔ مجلس ترقی ادب۔لاہور۔1965

 (4)اساس نفسیات، (اردو ترجمہ)معتضد ولی الرحمان۔مکتبہ جامعہ عثمانیہ، حیدرآباد۔1932

(5)فیروز اللغات جامع۔(جدید ایڈیشن)مولوی فیروز الدین۔فیروز سنز۔لاہور۔راولپنڈی۔کراچی۔2000

(6)ارد و شاعری میں اسلامی تلمیحات:عطاء الرحمان صدیقی ندوی۔عالمی رابطۂ ادب اسلامی، لکھنؤ۔2004

 (7)اردو ادب میں تلمیحات۔ڈاکٹر مصاحب علی صدیقی۔ کتب خانہ علم و دانش۔حیدرآباد۔2003

(8)افادات سلیم۔پرو فیسر وحیدالدین سلیم۔مرکنٹائل پریس۔لاہور۔1960

(9)اردو رموز۔مولوی رفاقت علی۔مکتبہ تعلیم۔ کان پور۔1978

(10)قصص القرآن۔مولانا حفظ الرحما ن سیوہاروی۔مکتبہ برہان، اردو بازار۔ دہلی

(11)سہ ماہی صفا۔(ادب اسلامی نمبر)ایڈیٹرمولانا محمد رضوان القاسمی۔دارالعلوم سبیل السلام، حیدرآباد۔1996

٭٭٭٭٭
ادارہ ،عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری
کی جانب سے عالمی تنقیدی پروگرام *صنعت تلمیح*  پر پیش کیا گیا۔

 یہ پروگرام29دسمبر 2018
بروز ہفتہ پاکستانی وقت شام 7بجے
ہندوستانی وقت کے مطابق شام7:30 بجے 

اس صنعت میں کم از کم پانچ اشعار اور زیادہ سے زیادہ دس اشعار سے پیش کرنے کا قاعدہ بنایا گیا۔
یا 
ایک مکمل غزل تاکہ ناقدین حضرات آسانی سے اپنی ناقدانہ رائے کا اظہار کرسکیں ۔

پروگرام میں
شفاعت فہیم بھارت 
مسعود حساس کویت
حکیم ایم ایچ مُرشد پنجاب پاکستان نے ہر شاعر کو اس کی مہارت کی داد بھی دی اور بڑی ذمہ داری کے ساتھ نقدونظر سے نوازا جس پر ادارہ ان کا تہِ دل سے شکرگزار ہے۔ 

اس پروگرام کی مسند صدارت پر ماورا سید کراچی پاکستان متمکن ہوئیں۔
ہم آسماں سے نکالے گئے تھےعجلت میں
روا روی میں مقدر اٹھانا بھول گئے

احمد عقیل حضرو، اٹک پاکستان مہمانِ خصوصی کی نشست پر براجمان ہوئے۔
سانپ کاٹے مگر نہ اُف نکلے
تجھ کو معلوم ہے وفا کیا ہے

 اعزازی مہمان کی نشست پر
جابر چوہدری بھارت تشریف فرما ہوئے 
خطرہ نہیں رہا کوئی درپیش کیوں کہ اب
دارا نہیں رہا وہ جامِ جہاں نما

 حمد سے پروگرام کی ابتدا جناب توصیف ترنل ہانگ کانگ نے کی بعدازاں توصیف ترنل اور جناب احمدمنیب نے نعت پیش کرنے کی سعادت پائی۔
شعراء کرام کا نمونہء کلام ملاحظہ ہو

احمد منیب لاہور پاکستان
گریہ سے میں یعقوب ہوا اے مرے ہمدم
دیدار کنم دیدہء تر باز نہ کردم

صابر جاذب لٙیّٙہ پاکستان
قابیل کو پھر قتل کی مہلت نہیں دیں گے
ہابیل پہ اب نوحہء آدم  نہیں ہو گا
اصغر شمیم کولکتا انڈیا
سر پٹکتی رہی موجِ فرات
پیاس اصغر کی بجھا پائی نہیں

اطہر حفیظ فراز فیصل آباد پاکستان
پھر ہاتھ زلیخا کے اشاروں پہ کٹے ہیں
اس بار تو یوسف مرے اشعار ہوئے تھے

جعفر بڈھانوی بھارت
زندگی جس کی غزالی ہو گی
اس کی ہر بات نرالی ہو گی

عامر حسنی ملائیشیا
ایمان کی تعمیر تھے ہاں قائد اعظم
تنظیم کی تفسیر تھے ہاں قائدِ اعظم

غزالہ تبسم غزال کوئٹہ پاکستان
شریعت چاہنا ہے کہ عمل کچھ ہے اطاعت کچھ
ہتھیلی پر جو سر لائے اطاعت ہو تو ایسی ہو

غزالہ انجم بورے والا پاکستان
کبھی یہ تخت چھڑوائے کبھی تیشے بھی چلوائے
کبھی آشفتگی میں عشق شب بھر رقص کرتا ہے

مختار تلہری بھارت
غیر ممکن ہے کہ دیدار کا معیار گرے
خواہ انگلی مری کٹ کٹ کے کئی بار گرے
پروگرام کے آخر پر بانی و چیئرمین ادارہ، صدر مشاعرہ اور آرگنائزر مجلس مشاعرہ نے سب شعرا حاضرین اور ناقدین حضرات کا شکریہ ادا کیا۔ یاد رہے کہ جناب محمد زبیر اور احمر جان محترم پروگرام میں باقاعدہ حاضر رہے اور شعرا کو برابر داد سے نوازتے رہے۔ اللہ سب کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین

Tuesday, December 18, 2018

رپورٹ : ڈاکٹر ارشاد خان پروگرام بعنوان :صحافت کا گرتا ہوا معیار



عالمی تنقیدی فکشن پروگرام نمبر 184
بعنوان :صحافت کا گرتا ہوا معیار وشاعری کا گرتا ہوا معیار

رپورٹ : ڈاکٹر ارشاد خان بھارت 

ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری عام روش سے ہٹ کر ۔۔پروگرام پیش کرنے میں ید طولیٰ رکھتا ہے ۔ذرائع محدود ہوں یا لامحدود ،حریفوں کی شقاوت ہو یا بغاوت ،کم مایہ کی ریشہ دوانیاں رہی ہوں کہ بزعمِ خود لنترانیاں،۔۔ادارے نے ہر چیلنج قبول کیا ۔ہر محاذ پر کامیابی وکامرانی کے جھنڈے گاڑے ۔علم بغاوت بلند کرنے والوں کے پرچم سرنگوں کیے ۔۔۔اور ادارے میں اسی نے جگہ بنائی جس نے اہل بزم کے دلوں میں جگہ بنائی ۔اہلِ قلم کی سرپھٹول سے یہ ادارہ ہمیشہ محفوظ رہا ۔۔۔وجہ تسمیہ ؟؟  ۔۔میر کارواں کی دور رس نگاہیں ۔۔،مردم شناسی ،۔۔کس فنکار سے کون سا کام لیا جائے ؟ کس نگینے کو کہاں فٹ کیا جائے کہ وہ نولکھا ہار بنے۔۔اور وہ قدر گوہر شناس ہیں عزت مآب توصیف ترنل ۔۔۔ان کی مساعی جمیلہ سے ادارہ 183 کامیاب ترین پروگرام پیش کرچکا ہے ۔۔تمامی اپنے آپ میں منفرد ،انوکھی نوعیت کے حامل ۔۔چیلنجنگ۔۔۔جس طرح ہر ہر چیلنجنگ رول کو قبول کرکے ہند وپاک میں دلیپ کمار شہنشاہِ جذبات بنے تو محمد علی ایک کامیاب فنکار ۔۔۔یہی چیلنج سکھاتا ہے ۔۔۔انہی پتھروں پہ چل کے ۔۔۔یا ۔۔۔چلا جاتا ہوں میں ہنستا کھیلتا موج حوادث سے ۔۔۔ یہی چیلنجنگ کیس ابن صفی کو دیے تھے تو ۔۔۔ادارے نے توصیف ترنل کو !!
ایک اور مشکل ترین ۔۔انفرادیت سے بھرپور پروگرام ،،صحافت کا گرتا ہوا معیار ،،۔۔صالح معاشرے میں پنپنے والا کینسر جو بڑی تیزی سے نظام حیات کو پراگندہ کررہا ہے ،جو زر کا اثر رکھتا تھا ۔۔زرد ہوگیا ہے ،جو زہر کا تریاق تھا ۔۔ زہریلا ہوگیا ہے ۔۔۔ایک برننگ ٹاپک جس کے لیے ہر دردمند ،فکر مند ہے ۔۔جس کے حصار میں کرہ ارض کے ۔۔دبے ہوئے ،پچھڑے ہوئے ،کچلے ہوئے مدقوق چہرے جن کی اور آس لگائے بیٹھے ہیں ۔۔اپنی دادرسی کی ،جو ماتم کناں ہیں اپنے آقاؤں سے ۔۔وہ چہرے ،جنھیں وہ اپنا نجات دہندہ سمجھ رہے ہیں وہی اپنے آقاؤں کے تلوے چاٹ رہے ہیں ۔۔یہی زندگی سے جڑا عنوان ،،صحافت کا گرتا ہوا معیار زیر بحث رہا ۔ادارے نے حق گوئی و بے باکی کا وہ مظاہرہ کیا کہ زرد صحافت کے چہرے زرد ہوگئے ۔۔۔عنوان کی تبدیلی کا عندیہ دیا تو بائیکاٹ کی دھمکیاں بھی ۔۔۔مگر توصیف ترنل۔۔نہیں کرنل بلکہ جرنیل کی طرح محاذ پھر ڈٹے رہے اور ٹیم دی بیسٹ کے ہراول دستے کو کیل کانٹے نہیں بلکہ قلم وقرطاس سے لیس کرتے رہے ۔۔۔ایک کامیاب پروگرام 184 کی صورت جو 15 دسمبر کی سرد رات میں پیش ہوا ۔۔وہ بھلے ہی نقار خانے میں طوطی کی آواز ہو ۔۔بھلے ہی صدا بہ صحرا ہو مگر ۔۔یقیناً یہ پہلی بوند کا حوصلہ ہوگا ۔۔۔پھر رم جھم۔۔پھر موسلادھار بارش ۔۔۔گھٹا ٹوپ اندھیرے میں پہلی تیلی ۔۔جس کی مدھم روشنی ۔۔جو بڑھ کر اندھیرے کو فنا کردے گی ۔۔۔ان شاءاللہ
صدر محفل صابر جاذب صاحب ،مہمان خصوصی ماورا سید صاحبہ و مہمان اعزازی جعفر بڈھانوی صاحب تھے ۔نظامت جو ہر تقریب کی جان ہوتی ہے اس کے علمبردار تھے ڈاکٹر علمدار عدم صاحب ۔۔پروگرام کو آغاز حمد باری تعالی سے ہوا ۔ڈاکٹر ارشاد خان اور مسعود حساس صاحب نے بارگاہِ خداوندی میں حمد وثنا کے نذرانے پیش کیے ۔۔بعدازاں قلمکاروں نے جو قلم کے جوہر دکھائے اسے دیکھ کر ناقدین بھی ششدر و انگت بدنداں رہ گئے ۔۔احمد منیب صاحب اور صابر جاذب صاحب نے تو قلم توڑدیا ۔۔۔صحافت کا گرتا معیار ۔۔۔اسباب وعلل پر نہ صرف بھرپور روشنی ڈالی گئی بلکہ اسباب کے حل بھی پیش کیے ۔۔دیگر قلمکاروں کے قلم کی جولانیاں بھی قابل رشک تھیں ۔۔عامر حسنی صاحب ،خالد سروجی صاحب ،جعفر بڈھانوی صاحب و راقم الحروف کی تحاریر نے متعلقہ موضوع پر ہر ہر گوشے سے روشنی ڈالی ۔۔۔بزم کا اختتام صابر جاذب صاحب کے خطبۂ صدارت پر ہوا ۔۔شریک محفل نے سبھی اہل قلم کی کاوشوں کو سراہا نیز دادوتحسین سے نوازا ۔
اس جارحانہ پروگرام کے لیے توصیف ترنل صاحب اور ٹیم دی بیسٹ کو خصوصی مبارکباد ۔۔۔اس امید کے ساتھ کہ مستقبل قریب میں ایسے ہی سلگتے موضوعات پر مشتمل پروگرام ترتیب دیے جائیں جو سماج میں پنپنے والے ناسور کے لیے نشتر کا کام دیں ،تہذیب و تمدّن کی تشکیلِ نو میں خشت اول ثابت ہو  ۔۔۔

تمام شد
======================
صابر جاذب لیہ پاکستان 
 تنقیدی پروگرام نمبر 184
بسم اللہ الرحمن الرحیم

گرامی قدر چیئرمین ادارہ، عالمی بیسٹ اردو پوئٹری برادرم توصیف ترنل، مہمانان خصوصی نہایت ہی معزز اراکین ادارہ، نثر نگار و شعراء کرام...
 السلام علیکم
میرے لئے باعثِ توقیر  ہے کہ آج کی اس منفرد  پروگرام کی مسند صدارت سونپ دی گئی.
ادارہ،عالمی بیسٹ اردو پوئٹری جب عرصہ تین سال قبل معرض وجود میں آیا اس نے ہمیشہ ہی منفرد پروگرامز  کا اہتمام کیا ہے ۔جس کا تمام کریڈٹ اس ادارے کے بانی و سرپرست جناب توصیف ترنل کے سر جاتا ہے.جن کی انتھک کاوشوں نے اس بزم کو رونق بخشی ہوئی ہے.. اور یقیناً ان کا جذبہ لائق تحسین ہے ورنہ اس برق رفتار دور میں کسے فرصت ہے کہ وہ ایسے پروگرامز میں اپنے آپ کو مصروف رکھے کہ جہاں بظاہر کوئی ذاتی مفاد  نظر نہیں آتا اور جسے آج کا سائنسی ماحول قبول کرنے سے بھی گریزاں ہے....
ان تمام تر مشکلات اور مسائل کے برعکس توصیف صاحب نہایت سنجیدگی اور متانت سے شاید اپنی قلبی تسکین کے حصول کی خاطر ہمہ وقت اسی کوشش میں سرگرداں رہتے ہیں کہ ہر ہفتے کوئی  نہ کوئی منفرد اور اچھوتا پروگرام پیش کیا جائے اور وہ اس میں کامیاب بھی ہیں. یقیناً ایسے کام اکیلے کوئی شخص نہیں کر سکتا.یہ ایک ٹیم ورک ہوتا ہے اور اس میں فعال معاونین کی اشد ضرورت ہوتی ہے... اور توصیف بھائی کو اس سلسلے میں ہمیشہ چند ایسے مخلص دوستوں کا ساتھ  میسر آجاتا ہے جو انہیں بے یار و مددگار نہیں چھوڑتے اگرچہ وقتاً فوقتاً ان کے احباب بدلتے رہے ہیں.
آج کایہ پروگرام بلا شبہ ایک منفرد پروگرام تھا جس میں شریک نثر نگاروں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں اور فکری پرواز  کی عطر بیزی سے سامعین اور حاضرین کو مسحور کر دیا.گو آج کل پروگرام انتہائی حساس بھی  تھا صحافت اور شاعری کا گرتا ہوا میعار۔جس میں صحافت کی گرتی ہوئی قدروں کے بارے میں قلم اٹھائی گئی۔انتہائی معزز پیشہ جب زوال کی طرف جارہا ہو تو قلم کار کا حق ہے کہ وہ ان باتوں کے بارے اپنے قلم کے ذریعے ان باتوں کو سامنے لائے۔تمام قلم کاروں نے اپنی اپنی ذمہ داری کو خوب نبھایا ہے جس کے لئے میں تمام نثرنگاروں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں.
نیز چیئرمین ادارہ  اور انتظامیہ سے گزارش کرتا ہوں۔ آج کی اس مشق سخن پر نقد و نظر کا اہتمام کچھ اس طرح کیا جائے کہ نوآموز قلمکار  فنی معائب و محاسن سے روشناس ہو سکیں...
میں آخر میں ایک بار پھر سب کا متشکر و ممنون ہوں اور سب کو ایک بہترین اور کامیاب پروگرام کے انعقاد کے لئے مبارکباد پیش کرتا ہوں..
خدا وند کریم تمام احباب کا حامی و ناصر ہو 
والسلام 
صابر جاذب لیہ پاکستان

Saturday, December 15, 2018

صحافت کا گرتا ہوا معیار

ادارہ ،عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری
کی جانب سے پیش کرتے ہیں 

عالمی تنقیدی فکشن پروگرام نمبر ۔184
بعنوان

۔صحافت کا گرتا ہوا معیار 
۔شاعری کا گرتا ہوا معیار 

صحافت:

صحافت یہ عربی زبان سے نکلاہوا لفظ ہے جس کی اصل صحیفہ اورصحف ہے جس کے لفظی معنی کتاب اور جریدہ(اخبار/رسالہ) کے آتے ہیں۔ صحافت کا مفہوم یوں  ہے:۔’’اخبارات و رسائل اور خبر رساں اداروں کے لئے خبروں اور خبروں پر تبصروں وغیرہ کی تیاری کو صحافت کا نام دیا جاتا ہے ‘‘

شاعری:

شاعری (Poetry) کا مادہ "شعر" ہے اس کے معانی کسی چیز کے جاننے پہچاننے اور واقفیت کے ہیں۔ لیکن اصطلاحاً شعر اس کلامِ موزوں کو کہتے ہیں جو قصداً کہا جائے

پروگرام۔15 دسمبر 2018
بروز ہفتہ پاکستانی وقت۔شام 7بجے
ہندوستانی وقت کے مطابق شام7:30 بجے 

نوٹ
کالم زیادہ سے زیادہ دو صفحات پر مشتمل ہو 
منجانب انتظامیہ ادارہ

==========================

پروگرام آئیڈیا
ماورا سید پاکستان  

پروگرام آرگنائزر
احمد منیب پاکستان 

معاون سیکریٹری ادارہ
صابر جاذب لیہ پاکستان 

بانی وسرپرست ادارہ
توصیف ترنل ہانگ کانگ

ناقدین 
عدیل ارشد خان بھارت 
مسعود حساس کویت 

==========================

صدارت
10-محترم صابر جاذب لیہ پاکستان
8:30
مہمان خصوصی
9-محترمہ ماورا سید کراچی پاکستان
8:20
مہمان اعزازی
8-محترم جعفر بڈھانوی۔ بھارت
8:10
نظامت 
مختار تلہری بھارت 
1 to 5
ڈاکٹر علمدار عدم جموں و کشمیر انڈیا
6 to 10
رپورٹ
ڈاکٹر ارشاد خان ممبرا مہاراشٹر بھارت

==========================

حمد
1-ڈاکٹر ارشاد خان ممبرا مہاراشٹر بھارت
7:00
نعت
2-میاں جمیل احمد پاکستان
7:10
==========================

نثر نگار 
3-احمدمنیب پاکستان
7:20
4-ڈاکٹر ارشاد خان ممبرا مہاراشٹر بھارت
7:30
5-علی شیداّ کشمیر
7:40
6-عامر حسنی ملائیشیا
7:50
7-خالد سروحی گکھڑ سٹی گوجرانوالہ پاکستان
8:00

Monday, December 10, 2018

ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری عالمی تنقیدی پروگرام نمبر ۱۸۳




ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری 
عالمی تنقیدی پروگرام نمبر ۱۸۳

رپورٹ: عامرؔحسنی ملائیشیا
پروگرام آئیڈیا: صابرجاذب لیہ پاکستان
بعنوان: درصنعت اعداد

 اس صنعت میں غزل کے اشعار میں اعداد (ایک،دو،دس،بیس وغیرہ ) کا استعمال کیا جاتا ہے ۔مثلا  عمر دراز مانگ کر لائے تھے چار دن
دو آرزومیں کٹ گئے دوانتظار میں 
ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری دورِ حاضر میں دنیا کا واحد ادارہ ہے جو اِس برقی ترقی یافتہ دَور میں شعراء، ادباء و مُصنفینِ زبانِ اردو ادب کی ذہنی آبیاری کرتا ہے اور نئے نئے لسّانیاتی پروگرامز منعقد کرتا ہے. ادارۂ ہٰذا میں تمام تر پروگرام برائے تنقید منعقد کئے جاتے ہیں.عالمی سطح پر کامیابی کے ساتھ ادبی تنقیدی پروگرام کا انعقاد یقیناً ادارۂ ہٰذا کی انفرادیت و مقبولیت نیز کامیابی کی ضمانت ہے۔ 
لہٰذا اس پروگرام کے لئے کہے گئے جملہ کلام کو برائے تنقید پیش کیا گیا اور اساتذہ نے اس پر بھرپور تنقید کی جس سے شعرا نے بھرپورفائدہ بھی اٹھایا۔ علاوہ ازیں احباب نے شعرا کو بہت داد و تحسین سے بھی نوازا۔ اس طرح سے یہ پروگرام بہت بڑھیا اورکامیاب رہا۔ الحمدللہ 
یہ تمام کلام  سوشل میڈیا پردنیا بھرمیں مشتہر بھی کیاگیا۔ جس کے لیے ادارہ ہٰذا آرگنائزر بانی وسرپرست ادارہ مکرم توصیف ترنل صاحب ہانگ کانگ کا شکرگزار ہے ۔
پروگرام کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ یہ پروگرام۔8 دسمبر 2018 بروز ہفتہ پاکستانی وقت۔شام 7بجے بھارت کے وقت کے مطابق شام7:30 بجے منعقد کیا گیا۔
صدارت محترم علی شیدا صاحب کشمیر نے کی۔ 
مہمانان خصوصی مکرم احمد منیب صاحب اور محترمہ غزالہ انجم صاحبہ پاکستان تھے۔
 مہمانان اعزازی مکرم اصغر شمیم صاحب کولکاتابھارت اور محترم علمدارعدم صاحب جموں و کشمیرانڈیا تھے۔
 ناقدین مکرم مختارتلہری صاحب بھارت اورمکرم مسعود حساس صاحب کویت تھے۔
نظامت محترمہ صبیحہ صدف صاحبہ بھارت نے بہت خوبصورت انداز میں کی جسے تمام شاملین نے بہت سراہا اور اب رپورٹ کے لیے خاکسار عامر حسنی ملائیشیا کو سعادت مل رہی ہے۔ الحمدللہ 
==========================
حمدِ باری تعالیٰ اور نعت پاک سے پروگرام کا آغاز ہوا۔ حمد خاکسارعامرؔحسنی نے پیش کرنے کی سعادت پائی:

سدا حمد و ثنا لب پر جاری
خدا کے فضل و احساں ہم پہ بھاری
 اور نعت پیش کرنے کی سعادت مکرم احمد منیب پاکستان کو نصیب ہوئی۔
یہ کیسی آنکھ سے دیکھا کسی نے
نظر آنے لگے دل کے دفینے

اس کے بعد تمام شعراکرام نے کلام پیش کیا جس کی ترتیب کچھ یوں رہی:

 ۱۔ صبیحہ صدف بھارت
اگر ہم چارقدم ساتھ ہی چلے ہوتے
تو زندگی میں ہماری نہ مسئلے ہوتے

۲۔ اخلاد الحسن اخلاد جھنگ پاکستان
لب پہ تالے ہیں پانچ سالوں سے
منہ کے چھالے کسے دکھائیں ہم

۳۔ صابرجاذب لیہ پاکستان
اک بے قرار آنکھ کی بے چین جھیل میں 
میں غرق ہوگیا ہوں کسی نین جھیل میں

۴۔ عامرؔحسنی ملائیشیا
دو وقت کی روٹی کے لیے ترس رہے ہیں 
لاکھوں ہیں مرے اہل وطن ظلم کے نیچے

۵۔ اطہر حفیظ فراز فیصل آباد پاکستان
کبھی جوچارآنے بھی ملے، ہم نے بچاڈالے
وہ غلے میں چھپا اپنا خزانہ یاد آتا ہے

۶۔ صفیؔ ربانی مانسہرہ پاکستان
اک خواب کی سوچی گئی تعبیر مسلسل
لکھی تھی مگر بخت میں تعزیر مسلسل

۷۔ ڈاکٹرشاہد رحمان فیصل آباد پاکستان
یوں تو چلتا ہوں میں پہروں ہی اکیلا شاہد
دو قدم ساتھ وہ چلتا ہے غزل ہوتی ہے

۸۔ ڈاکٹر مینا نقوی مردآباد بھارت
ترے خیال کا منظرجواں ہے چاروں طرف
زمیں پہ چھایا ہوا آسماں ہے چاروں طرف

۹۔ جعفربڑھانوی بھارت
ایک انسان آ کے دنیا میں 
دو فرشتوں کے درمیاں کیوں ہے

۱۰۔ جابرایازسہارنپوری بھارت
بنائے جارہا ہوں ایک لفظوں کا جہاں میں بھی
چلے آؤ کسی مضمون کے رستے غزل بن کر

۱۱۔ ماورا سید کراچی پاکستان
تمام عمر کا اتنا ہی گوشوارہ ہوا
بس اک زمین مری آسماں تمہارا ہوا

۱۲۔ ششی مہرہ پنجاب بھارت
لاکھوں چاہے نام ہوں چاہے روپ انیک
خالق سب کا ایک ہے سب کا مالک ایک

۱۳۔  علمدار عدم جموں کشمیربھارت
اگر چہرے کوئی دوچار ہوتے
کہانی میں نئے کردار ہوتے

۱۴۔ اصغر شمیم کولکاتا بھارت
اس نے دیکھا تھا ایک دن ہنس کر
میرے پیچھے پڑا زمانہ ہے

۱۵۔ غزالہ انجم پاکستان
سرعت سے بیت جاتے ہیں ہرروزصبح وشام
دو چاردن کی بات ہے عمر رواں۔۔۔۔ تمام

۱۶۔ احمد منیب پاکستان
ہم پہ کھل جائے گا اک روز جگر کا رونا
گھاؤ کو روح سے دیکھیں گے اکیلا کرکے

۱۷۔ مختار تلہری بریلی اترپردیش بھارت
مدت ہوئی ہے سوئے تھے اک پیڑ کے تلے
مختار اس کے سائے کا اب تک خمار ہے

۱۸۔ علی شیدا صاحب کاشمیر بھارت
ہم ساتھ اٹھا لائے سبھی سات سمندر
تم پیاس کہانی کے اداکار میں رکھ دو
 =============
ناقدین میں مکرم مختارتلہری صاحب بھارت اور مکرم مسعود حساس صاحب کویت نے بھی گاہے گاہے شعراء کے کلام پر تبصرہ فرمایا جو پیش ہے:
محترمہ صبیحہ صدف صاحبہ کے کلام پر مکرم مختار تلہری صاحب نے فرمایا:
سیرت میں منفرد تھا مکمل صفات تھا
 وہ اپنی ایک ذات میں کل کائنات تھا
 بہت خوب واہ سبحان اللہ  
 یہ دو آنکھیں تمہاری جامِ جم کا کام کرتی ہیں
 کہ ان میں جھانک کر ہم ساری دنیا دیکھ لیتے ہیں 
بہت خوب زندہ باد
 مرے ساتھ صرف تم تھے کوئ تیسرا نہیں تھا
 تمہیں کہ سکوں میں دل کی مگر حوصلہ نہیں تھا
 شعر اچھا ہے لیکن حوصلہ کی ح گر گئی ہے اس وجہ سے خارج از بحر کہا جائے گا  اگر... مگر... کی جگہ ..مرا.. کہہ دیا جاتا تب بحر میں ہوتا 
 اگر ہم چار قدم ساتھ ہی چلے ہوتے
 تو زندگی میں ہماری نہ مسئلے ہوتے
 اس کا مصرع اولٰی خارج از بحر ہے.. ہم... اس جگہ نہیں آ سکتا جہاں پر استعمال کیا گیا نیز تعقید لفظی بھی ہے زبان یہ ہونا چاہئے اگر چار قدم ہی ساتھ چلے ہوتے  
وہ پانچ وقت نمازوں کے سلسلے میں رہے
 اور ہم نے دل کو ہی کعبہ بنا لیا اپنا 
اس کے بھی ثانی مصرع میں.. ہم.. کی ھ گر رہی ہے 
  دھنک کے سات رنگوں سی چھٹا ہے آج اس دل پر 
کسی نے آج پھر مجھکو کیا ہے یاد برسوں میں
 بہت خوب  
 ہزار کانٹوں میں رہ کر جو گل کھلا ہوگا 
 وہی تو فصلِ بہاراں کا دیوتا ہوگا
 فصل بہاراں کا دیوتا سمجھ سے باہر ہے معذرت....
  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مکرم صفیؔ ربانی مانسہرہ پاکستان کے کلام پر تبصرہ کچھ اس طرح تھا:
اک خواب  کی  سوچی گئی  تعبیر  مُسلسل
 لکھّی  تھی  مگر  بخت میں  تعزیر مُسلسل
 خوب 
 دو چار ہی  ہوتے  تو  کوئی  بات  نہیں  تھی
 غم، زیست  کے  صفحات  پہ  تحریر مُسلسل
 میرے خیال سے مصرع اولٰی ..ھے.. کا طالب ہے  یوں ہوتا تو شاید بہتر ہوتا 
 غم. زیست کے صفحے پہ ہیں تحریر مسلسل  
صد شکر کہ اِس مرض سے محفوظ رہا ہوں
.....لفظ مرض فاع کے وزن میں استعمال ہوا ہے جبکہ فعو کا وزن ہے م رض 
یاروں  میں رہی خواہشِ  تشہیر  مُسلسل
 سو بات کی اک بات کہ چاہت ہے سبھی کچھ
 ہوتی   رہی   گو   عشق   کی  تفسیر  مُسلسل
 عمدہ شعر 
 ہر  رات  مری  آنکھ  کے   فانوس جلے  ہیں 
دو دن  کی  محبت  سے  ہوں  دلگیر  مُسلسل
 واہ 
 ہیں  لاکھ  زمانے  میں  محبت  کے  خریدار 
کیوں  جانے  لٹی  عشق  کی  جاگیر  مُسلسل
 کوئی خاص شعر نہیں  
 اک  پل  کو   بھی  آرام  میسر  ہو  تو  کیسے؟ 
جلتا  ہے  ابھی آگ میں  کشمیر   مُسلسل 
 دو   چار  تھپیڑوں  نے  ہی  دیواریں  گرا  دی جس   قصر   کی   ہوتی  رہی  تعمیر  مُسلسل
 بہت خوب واہ   
اک میں ہوں کہ کرتا ہوں سدا  تیرا تعاقب 
اک تو ہے کہ ہے مائلِ تاخیر  مُسلسل 
خوب 
 یوں تو ہیں سخندان یہاں  لاکھوں ، ہزاروں
 لاکھوں کے بعد ہزاروں کہنے کی ضرورت نہیں تھی
  اعصاب  پہ حاوی  ہے  صفیؔ ! میر  مُسلسل 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
مکرم اصغر شمیم، کولکاتا،انڈیا کے کلام پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا: 
ان ہواؤں کو آزمانہ ہے
 اک چراغِ وفا جلانا ہے
 بہت خوب   
چار دن کی یہ زندگی اپنی 
ایک دن ہم کو لوٹ جانا ہے
 یہ کی جگہ ہے ہوتا تو بہتر ہوتا   
جو بھی غم ہے اسے بھلا کر کے دو گھڑی ہم کو مسکرانا ہے
 بات ..بھلا کر ..تک پوری ہو رہی ہے .. کے حشو ہے.. کے.. کی جگہ.. اب.. مناسب ہے
   اس نے دیکھا تھا ایک دن ہنس کر 
میرے پیچھے پڑا زمانہ ہے 
ردیف کمزور ہے 
 زندگی کی لڑائی میں اصغر
 ایک دن مجھکو ہار جانا ہے 
سچا اور اچھا شعرہے 
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 علاوہ ازیں مکرم مسعود حساس صاحب نے جو تبصرہ کیا وہ وائس کلپ کی شکل میں درج ذیل لنک پر سنا جاسکتا ہے:
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=2288548141390679&id=100007065459862
=============================
آخر پر صدر مجلس نے فرمایا: مجھے انتہائی مسرت ہورہی ہے کہ  اردو کی خدمت میں رواں دواں ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری نے آج ایک اور منفرد پروگرام کامیابی کے ساتھ منعقد کیا.جسمیں حسب سابقہ مختلف ممالک کے مقتدر شعرا نے اپنے مخصوص انداز میں صنعت اعداد میں طبع آزمائی کی میں ان تمام معزز شعرا کو سلام پیش کرتا ہوں پروگرام کے مہمانان خصوصی و اعزازی کا بے حد شکر گزار ہوں جنکی حاضری باعث افتخار ہے  سبھی اساتذہ  کو جو بحثیت ناقدین پروگرام کی زینت بنے رہے ' کا بے حد شکر گزار ہوں۔ انکی آراء نقدو نظر  کی خوشبو بکھیرتی رہی۔ محترمہ صبیحہ صدف نے جس خوبصورتی سے مشاعرے کی نظامت کی وہ قابل تحسین ہے پروگرام کے بانی و سرپرست محترم ترنل صاحب کی اردو زبان و ادب کے تئیں  ان تھک کوششیں ہم سب کے لئے مشعل راہ ہیں۔ انہیں میں خصوصی مبارک باد پیش کرتا ہوں میں تمام معزز اراکین ادارہ کا انتہائی ممنون ہوں جنہوں نے مجھ ناچیز کو مسند صدارت پہ بٹھا کر مری عزت افزائی فرمائی اللہ ہم سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ اللہ حافظ والسلام علی شیدا کشمیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آمین یا رب العالمین

Wednesday, December 5, 2018

عالمی تنقیدی پروگرام نمبر ۔183 بعنوان : درصنعت اعداد




ادارہ ،عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری
کی جانب سے پیش کرتے ہیں 

عالمی تنقیدی پروگرام نمبر ۔183 بعنوان :  درصنعت اعداد 

       (درصنعت اعداد )

اس صنعت میں غزل کے اشعار میں اعداد(ایک،دو،دس،بیس وغیرہ ) کا استعمال کیا جاتا ہے ۔مثلا 
عمر دراز مانگ کر لائے تھے چار دن 
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں میں

اس میں پہلے مصرعے میں لفظ( چار ) اور دوسرے مصرے میں لفظ (دو) صنعت اعداد ہیں۔
اسی طرح 

"چار دن کی چاندنی پھر اندھیری رات 
اس میں بھی(چار) صنعت اعداد ہے۔

"دو گز زمیں بھی نہ ملی کوئے یار میں" 
(دو)کا لفظ صنعت اعداد ہے۔

پروگرام۔8 دسمبر 2018
بروز ہفتہ پاکستانی وقت۔شام 7بجے
ہندوستانی وقت کے مطابق شام7:30 بجے 

اپنی نوعیت کے منفرد پروگرام میں حصہ لینے والے اہل قلم اپنا نام درج کرائیں۔

(نوٹ)اس پروگرام میں کم از کم پانچ اشعار اور زیادہ سے زیادہ دس اشعار ہوں 
==========================

پروگرام آئیڈیا:
جنرل سیکرٹری ادارہ:
صابر جاذب لیہ پاکستان 

آرگنائزر بانی وسرپرست ادارہ:
توصیف ترنل ہانگ کانگ

==========================
صدارت 
علی شیداّ کشمیر
9:30
مہمانِ خصوصی 
احمد منیب پاکستان 
9:10
غزالہ انجم پاکستان
9:20

مہمانِ اعزازی 
اصغر شمیم کولکاتابھارت
8:50
علمدارعدم جموں و کشمیر انڈیا
9:00
ناقدین 
مسعود حساس کویت
شہزاد نیّر پاکستان 
مختار تلہری بھارت 
شمس الحق لکھنؤ ہندوستان
ضیاء شادانی بھارت 

نظامت 
صبیحہ صدف انڈیا 

رپورٹ:
عامر حسنی ملائشیا 

==========================
حمد 
عامر حسنی ملائیشیا
7:00
نعت
احمد منیب پاکستان 
7:05
==========================
فہرست شعراء 
صبیحہ صدف انڈیا 
7:10
اخلاد الحسن اخلاد جھنگ
7:20
صابر جاذب لیہ پاکستان 
7:30
عامر حسنی ملائیشیا
7:40
اطہر حفیظ فرازفیصل آباد
7:50
صفیؔ ربانی مانسہرہ پاکستان
8:00
ڈاکٹر شاھد رحمان فیصل آباد
8:10
ڈاکٹر مینا نقوی مرادابادبھارت
8:20
جعفر بڈھانوی بھارت
8:30
جابر ایاز سہارنپوری بھارت
8:40

Sunday, October 21, 2018

عالمی تنقید ی پروگرام نمبر 176 بعنوان ادبی تنقید کے اہداف





رپورٹ 
شمس الحق لکھنوی ہندوستان

The international organization 
ادارہ، عالمی بیسٹ اردو پوئٹری 
عالمی منفرد پروگرام نمبر 176 بعنوان *ادبی تنقید کے اہداف* بروز ہفتہ شام سات بجے منعقد ہوا یہ پروگرام کئی وجہ سے یادگار پروگرام رہا ایک تو ابھی تک ادارے کے سارے پروگرام برائے تنقید ہوا کرتے تھے اور یہ پروگرام خود تنقید کے عنوان پر منعقد جسکو خاکسار *شمس الحق لکھنوی* نے آرگنائز کیا اور نظامت کے فرائض *ضیا شادانی* بھارت نے انجام دیے پروگرام کا آغاز صابر جاذب لیہ پاکستان کی خوبصورت نعت پاک سے ہوا

*بلکتے اشک نہیں ہیں فضول آنکھوں میں* 
*مہک رہے ہیں عقیدت کے پھول آنکھوں میں* 

اسکے بعد پروگرام اپنے مقصد اصلی کی جانب گامزن ہوا جہاں پر تنقید سے متعلق علمی سوال اور جواب دیے گئے سوال نامہ جناب *ارشاد خان ممبرا* نے تیار کیا جسکے جواب ادارے کے معتبر شاعر ادیب جنکی شاعری میں اقبالی استدلال اور الفاظ میں غالبیت کوٹ کوٹ کر بھری ہے جو فن پر زبردست قدرت کے ساتھ لغت کے بھی ماہر ہیں یعنی *غلام مصطفیٰ اعوان دائم* صاحب حفظہ اللہ تعالیٰ نے دیے جن پر کچھ تبصرے بھی ہوئے اور بیچ میں بھی کئی جزئی سوالات کیے گئے ہر ایک کا تحقیقی تفصیلی جواب دیا قارئین کی علمی بصریت کو قوی تر کرنے کے لیے تمام سوالات کے جوابات بالترتیب قلمبند کیے گئے ہیں جو ذیل میں آ رہے ہیں 

سوال نمبر 1

تنقید کیا ہے؟

*جواب =* تنقید کا لغوی معنیٰ پرکھنا یا کھرے کھوٹے میں تمیز کرنا ہے، اور ادب میں تنقید کا لفظ انگلش کے Criticism سے ماخوذ ہے، Criticism کی تعریف یہ ہے کہ :
_*Disapproval expressed by pointing out faults or shortcomings*_
یعنی : _اغلاط و تسامحات کی نشاندہی کرتے ہوئے اپنا تردیدی اظہاریہ کریٹیسزم کہلاتا ہے_

اس تعریف میں چونکہ مکمل تردیدی جذبات کا اعلانیہ ہے اس لیے کہ درست نہیں، عربی میں بھی یہی معنی مراد لیے جاتے ہیں،  اس کے لیے مناسب لفظ انتقاد یا نقد ہے، جو ادب میں تنقید کے مفہوم پر درست طور پر منطبق آ سکتا ہے، معجم الرائد میں ہے کہ :
_*إنتقد  الكلام أو العمل : أظهر حسنه أو قبيحه*_
یعنی : _انتقاد کا معنیٰ ہے کہ کلام یا عَمَل کے محاسن و قبائح کو ظاہر کیا جائے_
سید عابد علی عابد کی بھی ایک کتاب *انتقاد* کے نام سے موجود ہے. حامد اللہ خان افسر لکھتے ہیں کہ :
_*لفظِ تنقید عربی صرف و نحو کے اعتبار سے درست نہیں، اس کی جگہ نقد یا انتقاد ہونا چاہیے، لیکن اردو میں یہ لفظ اب اتنا مشہور ہو گیا ہے کہ اس کی جگہ دوسرے لفظ کا استعمال مناسب نہیں سمجھا جاتا، ہاں اردو زبان میں اسے درست سمجھنا چاہیے*_
بحوالہ : _کشاف تنقیدی اصطلاحات، صفحہ نمبر 50_

*تنقید سے مراد وہ طرزِ تفہیم، جس میں کسی فن پارے کے حسن و قبح پر فنی اصول و ضوابط کی روشنی میں اظہار کیا گیا ہو۔*

آسان الفاظ میں تنقید کا کام ادبی تقویم و توضیح و تفہیم ہے، وہ نہ صرف ادبی تحریر کو غیر ادبی تحریر سے ممیز کرتی ہے بلکہ ادبی تحریر کی ساخت، مزاج اور معیار کا تجزیہ بھی کرتی ہے، اس حوالے سے دو نظریے ادب پر تشریحی و توضیح بحث کرتے ہیں، ایک معروضی اندازِ نقد و نظر اور دوسرا موضوعی طرزِ انتقاد، ان کی تفصیل کا یہاں ابھی محل نہیں

اس جواب پر جناب ارشاد خان صاحب کا تبصرہ تھا کہ  *عمدہ وااہ ہر ہر زاویہ سے تنقید کی فہمائش کی گئی مبارکباد*
سوال نمبر 2

تنقید کے مثبت اور منفی پہلو؟

*جواب =* کسی شاعر کے کلام کا تجزیہ اس کے فکر و فن کی کسوٹی پر کیا جاتا ہے، فکر سے مراد شاعر کا حسنِ خیال ہے جبکہ فن اس کا اسلوب... یوں کہہ لہجیے کہ فکر شعر کی روح ہے اور فن اس کا جسم، دونوں کا شعر میں ہونا ضروری ہے، جس طرح روح کے بغیر جسم مردہ ہوتا ہے، اور جسم کے بغیر روح آسیب بن جاتی ہے، اسی طرح فکر و فن کے توازن اور اس کے علم کے بغیر اچھے شعر کا جائزہ نہیں لیا جا سکتا

تنقید کا مثبت پہلو تو یہی ہے کہ وہ روایت کی پاسداری کیساتھ تخلیق کی تفہیم میں اپنا کردار ادا کرے، تنقید کا منفی پہلو یہ ہے کہ وہ تفہیم سے زیادہ تنقیص کا لبادہ اوڑھ لے، معائبِ خفیفہ کو طشت از بام یوں کرے کہ محسنات پر مکمل چادر تان لی جائے، ناقد تخلیق پر اسی وقت انتقاد کا حق ادا کر سکتا ہے، جب وہ مطلوبہ ہدف تک رسائی کے لیے مناسب وسائل استعمال کر سکنے پر قادر ہو، قاری ناقد نہیں ہوتا لیکن وہ اپنے تئیں جو رائے اور تبصرہ محفوظ رکھتا ہے، وہ اس کی ذہنی اپج کا احساس ہوتا ہے، وہ دراصل انتقاد کی خشتِ اولیں ہوتی ہے، قاری کا مطلب قرأت سے یے اور ناقد کارِ نہاں نُمائی سرانجام دیتا ہے، مثبت طریقۂ تنقید وہی ہے جو اصولِ انتقاد سے ماخوذ و مستنبط ہو، ورنہ وجدان کا تفحص اور ادراک کی تلاش محض کارِ عَبَث ہو کر رہ جاتی

جواب نمبر دو پر جناب ارشاد خان ممبرا کا تبصرہ
بالکل صحیح ،
نقاد فن کی گہرائی میں غوطہ زن ہوکر آبدار موتی لاتا ہے جبکہ قاری سطح آب پھر تیر خس وخاشاک و جھاگ لیے مانند جھاگ اوجھل ہوجاتا ہے ۔۔روایت وحالات حاضرہ پر نقاد کی نظر ہوتی ہے ۔ وہ فن پارے میں نئے مفاہیم تلاشنے میں دراک ہوتا اور اس کی نظر قبیح سے زیادہ حسن پر ہوتی ہے ۔۔نقاط کی کسوٹی سے گزر وہ فن پارہ درخشندہ ہوتا ہے ۔ منفی تنقید فنکار کے حوصلے پست کردیتی ہے اس سے اس کا تخلیقی صلاحیت پھر ضرب کاری پڑتی ہے ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
3 اردو ادب میں تنقید کی ابتدا کب ہوئی اور کسنے کی
 سوال نمبر تین کا اجمالی جواب :

دراصل کسی بھی ادب پارے کے تخلیقی عَمَل کے ساتھ ہی تنقیدی عمل کی بھی ابتداء ہو جاتی ہے، جب تخلیق کار کے ذہن میں کسی خاص موضوع کی داغ بیل پڑتی ہے تو وہاں سے اُس کے ذہن میں تنقیدی عمل بھی شروع ہوجاتا ہے، کوئی شاعر نظم یا غزل لکھنے کا ارادہ کرے تو اس کا تنقیدی شعور اُس کی رہنمائی کرتا ہے۔ اور وہ اشعار یا نثری تحریر کو کانٹ چھانٹ کے اور اُس کے نوک پلک درست کرکے تسلی بخش انداز میں تخلیق کرتا ہے۔ غرض یہ کہ جب کوئی فن پارہ فنکار کے ذہن میں جنم لینے لگتا ہے تو یہیں سے تنقید اپنا کام شروع کردیتی ہے ۔ اور ایک لحاظ سے تخلیق سے پہلے تنقیدی عمل شروع ہوجاتا ہے.

اردو ادب کا اولین نقاد مولانا باقر آگاہ ویلوری جبکہ مولانا الطاف حسین حالی کو اردو کا پہلا باقاعدہ نقاد تصور کیا جاتا ہے۔

باقی بہت تفصیل ہے.

سوال نمبر 4

اردو ادب کے اکابر نقاد

*جواب =* اردو ادب میں کی تاریخ میں تنقید کا موضوع بہت پہنائی کا حامل ہے، اس میدان میں سرگردانی کرنے والوں کی تعداد بھی کم نہیں، ہر دور نیا طرز جنم دیتا ہے، نئے تخلیق کار پیدا کرتا ہے، نئا اسلوب وضع کرتا ہے اور جدت اور مابعد جدیدیت کی کیفیات کا اعلانیہ ہوتا ہے
اردو ادب کا اولین نقاد مولانا باقر آگاہ ویلوری جبکہ مولانا الطاف حسین حالی کو اردو کا پہلا باقاعدہ نقاد تصور کیا جاتا ہے۔
اردو ادب کی تاریخ میں مولوی عبد الحق، مولانا حسرت موہانی، سید علی حیدر نظم طباطبائی، جگن ناتھ آزاد، ڈپٹی نذیر احمد سے لے کر موجودہ دور کے شمس الرحمٰن فاروقی اور رفیع الدین ہاشمی تک بے شمار نقاد ملتے ہیں، ان سب کے نظریات کبھی متوازی نظر آتے ہیں اور کبھی مساوی، یہاں سب کے سب حیطۂ تحریر میں نہیں لائے جا سکتے
لطاف حسین حالیؔ مقدمہ شعر و شاعری میں پیش کردہ اپنے تنقیدی خیالات کے سبب جدید اُردو تنقید نگاری کے بانی قرار پائے۔ حالیؔ نے تنقید کی جو راہ نکالی اس پر آگے چل کر اُردو تنقید نے طویل فاصلہ طے کیا۔ حالیؔ کے بعد اُردو کے نقادوں کا ایک سلسلہ چل پڑا۔ جن میں اہم نام شبلیؔ، عبدالحق، نیاز فتح پوری، مجنوں گور کھپوری، آل احمد سرور، احتشام حسین، کلیم الدین احمد، محمد حسن عسکری، خورشید الاسلام، محمد حسن، احسن فاروقی، وزیر آغا، قمر رئیس، سلیم احمد، مغنی تبسم، سلیمان، اطہر جاوید وغیرہ شامل ہیں.
پھر تنقید کی اقسام ہیں اور ہر قسم میں مختلف نقاد ہیں اور ان کی خدمات...

*ناقدین کی اقسام :*

تنقید دراصل کلاس نوٹس کی طرح سے ہے، جس کا بنیادی مادہ تو تقریباً ایک رہتا ہے مگر مثالیں بدلتی رہتی ہیں۔اس لحاظ سے ناقدین کو بھی مخلف اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے

 آر کی ٹائپ ادب کا نقاد

نفسیاتی ادب کا ناقد

استقرائی ادب کا ناقد

تجزیاتی ادب کا ناقد

رومانی ادب کا ناقد

سائنٹفک ادب کا ناقد

عمرانی ادب کا ناقد

مارکسی ادب کا ناقد

نظریاتی ادب کا ناقد

عملی ادب کا ناقد

ہیئت ادب کا ناقد

*یاد رہے کہ* یہ اصل میں تنقید کی تقسیم تھی، لیکن ناقدین کو اس تقسیم میں پیوست کرنے کا مقصد یہی ہے کہ تاکہ اس حوالے بھی دیکھا جائے تو کئی در وا ہو سکتے ہیکیا

سوال نمبر 5

کہا جاتا ہے کہ ایک کامیاب نقاد ناکامیاب شاعر یا ادیب ہوتا یے

میں اس سے بالکل متفق نہیں، کیوں کہ اگر ایک اچھا شاعر جو فنی باریکیوں سے آشنا ہو، وہی نقد و نظر کا اہل ہو سکتا ہے بشرطیکہ تنقید کسی شعری تخلیق پر کرنی مقصود ہو، اگر تخلیق نثری ہو تو اس کے لیے کامیاب شاعر ہونا تو شرط بالکل نہیں، ہاں کامیاب ادیب ہونا ضروری ہے... ایک ناقد اپنے منقود کو زندہ کرنے والا ہوتا ہے اور یہ تبھی ممکن ہے کہ وہ اس کے فَن کی رگِ حیات کا محل و مکان جانتا ہو، اس لحاظ سے میں ایک مغربی مفکر T. S Elliot سے بہت متاثر ہوں

اس کا کہنا ہے کہ تنقید کا منصب شعراء و ادباء کو زندہ رکھنا ہے، تنقید کا ایک منصب ان شاعروں اور ادیبوں کو زندہ کرنا بھی بتایا ہے جو عرصہ دراز سے گوشہ گمنامی میں ہوں، بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ کسی شاعر اور ادیب کی شہرت اس کی چند ایک نظموں یا تحریروں کی وجہ سے ہوتی ہے یا ان کی تخلیقات میں فن کی بلندی کہیں کہیں نظر آتی ہے، جو ان کی شہرتِ دوام کا موجب نہیں بن سکتی. ایلیٹ لکھتا ہے کہ تنقید کا یہ کام بھی ہے کہ وہ ان شاعروں اور ادیبوں کو از سرِ نو زندہ کرے۔ ان کے کلام میں جتنے بھی محاسن موجود ہیں انہیں عوام کے سامنے پیش کرے، ہو سکتا ہے کہ ان کی تخلیقات میں سے بعض ایسی چیزیں مل جائیں جن کا موجودہ زمانے کو علم نہ ہو۔

ایلیٹ کے ان خیالات سے میں مکمل طور پر متفق تو نہیں ہوں کیونکہ گمنامی کا جو تصور اس نے پیش کیا وہ موضوعی ہے اور اس پر سوائے ایلیٹ کے شاید ہی کسی نے بات کی ہو..
لیکن اس قدر ان سے اتفاق کرتا ہوں کہ ایک ناکام ادیب کبھی بھی کامیاب ناقد نہیں بن سکتا، یہ اصول اگرچہ ایلیٹ کے ہاں صاف نظر نہیں آتا، لیکن ان کے نظریات سے ضمنی طور پر ماخوذ کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ میں نے اخذ کیا اور استنباط کیا

اس پر خاکسار شمس الحق کا تبصرہ تھا کہ

بالکل متفق ۔۔۔ جب آدمی ادب سے خارج ہوتا ہے کم علمی کی بنیاد پر تو وہ بے جا نقد شروع کرتا اسکا مقصد محض علمی دھاک جمانا ہوتا جس میں  وہ لا علم لوگوں میں تو عارضی واہ واہی حاصل کرتا لیکن بہت جلد اسکی علمی قلعی واشگاف ہو جاتی ہے ۔۔۔ اور یہ کیفیت مسلسل نہ سیکھنے کی وجہ ہوتی ہے یا ہمچوں دیگرِ نیست والی بات

سوال نمبر 6
مختلف ناقدین کے نظریہ ہائے تنقید سے کس قدر متفق ہیں؟؟ 

سب کا اپنا اپنا رنگ ہے، اردو ادب میں کی تاریخ میں تنقید کا موضوع بہت پہنائی کا حامل ہے، اس میدان میں سرگردانی کرنے والوں کی تعداد بھی کم نہیں، ہر دور نیا طرز جنم دیتا ہے، نئے تخلیق کار پیدا کرتا ہے، نئا اسلوب وضع کرتا ہے اور جدت اور مابعد جدیدیت کی کیفیات کا اعلانیہ ہوتا ہے

تذکرہ نگاری
شعرائے اردو کے تذکرے ادبی تاریخ کو مرتب کرنے میں بے حد معاون ثابت ہوتے ہیں۔ زبان کی ادبی تاریخ جاننے کے لیے تذکروں کا مطالعہ کرنا ناگزیر ہے۔ تذکرہ نگاری کا فنعرب سے شروع ہوا اور ایران پہنچا۔ بھارت میں بھی اس روایت کی پاس داری میں تذکرے لکھے گئے۔ ابتدائی زمانے میں فارسی درباروں کی زبان تھی اور علمی کاموں کے لیے بھی اسی زبان کا استعمال ہوتا تھا۔ اسی لیے اردو شعراءکے تذکرے فارسی میں تحریر کیے گئے۔ اردو شعرا کے تذکروں میں اب تک کی تحقیق کے مطابق میرؔ کو اولیت حاصل ہے، جنہوں نے ’’نکات الشعرا‘‘ تحریر کیا۔

تبصرہ نگاری
جدید مطبوعات پر تبصرہ وتعارف کی باقاعدہ روایت قائم ہوئی ہے اور یوں تبصرہ نگاری نے ایک مستقل فن اور صنف کی شکل اختیار کرلی ہے۔
کسی بھی کتاب پر تبصرہ کرنے کے لیے کتاب  کے موضوع سے مکمل آگاہی حاصل کرنا ضروری ہے۔تبصرے سے پہلے کتاب، مصنف اور کتاب کے موضوع سے واقفیت حاصل کرنا ، بلکہ مکمل کتاب کا مطالعہ کرنا نہایت ضروری ہے۔ اگر مکمل کتاب کا حرف حرف مطالعہ کرنا مشکل ہو تو کم ازکم  کتاب کی فہرست، تمہید، پیش لفظ، تقریظ اور تعارف ومقدمہ کا مطالعہ کرنا از بس ضروری ہے۔ اس کے ساتھ فہرست میں اہم اور چیدہ چیدہ مقامات کو منتخب کرکے ان مقامات کا بغور مطالعہ کرنا اور ان سے متعلق اپنی رائے کو تبصرے میں شامل کرنا بھی ضروری ہے۔
کتاب پر تبصرہ کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
تعارف. مرکزی حصہ، اختتام

سوال نمبر 7

انگریزی نقاد اور دیگر نقاد ہم پلہ ہی‌؟ 

جواب.. میں اس سے مکمل تو نہیں کہ دونوں ہم پلہ ہیں، مگر اتنا ضرور کہوں گا کہ طرز اور اسلوب کی ہم آہنگی اور پرکھ کا طریقہ اپنا اپنا ہے سب کا، مولانا حالی کی کتاب *مقدمۂ شعر و شاعری* اور مولانا شبلی نعمانی کی *شعر العجم* میں مغربی ناقدین کی محولہ عبارات بھری پڑی ہے، کہیں بطورِ اشتشہاد اور کہیں بطورِ نظیر، اس سے انگریز ناقدین کی برتری واضح ہوتی ہے،

سوال نمبر 8

ڈاکٹر زور کی خدمات

ڈاکٹر زور ایک شاعر، افسانہ نگار، نقاد، محقق ہی نہیں بلکہ عالم ، لسانی تنقیدی نظریہ دان ادبی مورخ ، تاریخ دان اور معاشرتی اصلاح کار بھی تھے
ابتدئی تعلیم مدرسہ دارلعلوم سٹی اسکول میں ھوئی۔ پھر1927 میں عثمانیہ کالج سے " لسانی سائنس" میں ایم ۔اے کی سند حاصل کی۔ ان کی ادبی اور علمی زہانت کو دیکھتے ھوئے حیدرآباد کے فرمانروا نے انھیں وظیفہ دے کر 1929 میں لندن یونیورسٹی پی ایچ ڈی کرنے کے لیے بھجوایا۔ جہان انھوں نے " آریائی زبانوں" پر ڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھا۔ یہاں انھیں بین الاقوامی شہرت رکھنے والے ماہر لسانیات کی سرپرستی نصیب ہوئی۔ اسکول آف اورینٹل اسٹڈیز لندن کے پروفیسر آر۔ایل۔ٹرنر اور ہندوستانی زبان کے ماہر گراہم بیلی نے زور صاحب کی علمی اور تحقیقی فطانت کو دیکھتے ھوئے۔ان کی تربیت کی اور مفید مشورے دئیے۔

ڈاکٹر گیان چند جین نے اسی بنا پر زور صاحب کو صرف اردو ہی نہیں بلکہ ہندوستان کی جملہ زبانوں میں علم زبان کے قافلے کے سالاروں میں شمار کیا۔

اردو تنقید کے ابتدائی دور میں ایک معتبر نام ہمیں ڈاکٹر زور کا ملتا ہے۔ جن کی تنقید نگاری پر اعتبار کیا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر زور بنیادی طور پر سائنٹفک دبستان تنقید سے وابستہ تھے۔ڈاکٹر زورؔ ایک مایہ ناز محقق، تجربہ کار مدون تھے۔ ان کی تحقیقی اور تدوینی کام کی وجہ سے کئی شاعر گوشۂ گم نامی سے نکل کر شہرت کے بام عروج پر پہنچے۔ تحقیق ایک صبرآزما اور مشکل کام ہے اس میں جذبے کی لطافت، ذہنی یکسوئی خیال کی ہم آہنگی کا ہونا نہایت لازمی ہے، تحقیق اپنے موضوع کے ساتھ انصاف چاہتی ہے۔ وہ مواد کو سلیقے سے اکٹھا کرنا، اس کی صحیح جانچ پڑتال، چھان بین، تقابل، رد و قدح جیسے مراحل میں باریک بینی و حساسیت چاہتی ہے۔ یہ تمام اوصاف ڈاکٹر زور میں بہ درجہ اتم پائی جاتی تھیں۔

ڈاکٹر عبادت بریلوی ان کے تنقیدی دبستان کے مسلک کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
’’ڈاکٹر زور نے تنقید کے لیے جن اصولوں کو ضروری قرار دیا ہے وہ بڑی حد تک سائنٹفک ہیں۔ اگر ان کو سامنے رکھ کر تنقید کی جائے تو زیر نظر تصنیف کے تمام پہلو پڑھنے والے کے سامنے آسکتے ہیں۔ ان کی عملی تنقید میں یہ خصوصیت سب سے زیادہ نمایاں ہے۔‘‘

زورصاحب نے نواب رفعت یار جنگ کی صاحب زادی تحینت النساء سے شادی کی۔ جو اردو کی باقاعدہ پہلی صاحب دیوان شاعرہ تھیں۔

سوال نمبر 9

غالب اور اقبال پر تنقید

ہر باکمال پر تنقید ہوتی ہے اور تنقید اصل میں اونچے قد کی غمازی ہوتی ہے، اس پر لکھنے بیٹھ جاؤں تو دفتر کے دفتر درکار ہیں، المختصر کہ کہ ان پر جتنی تنقید کی گئی اس قدر کسی اور پر نہیں کی گئی، لیکن آج تک یہ سب سے زیادہ پڑھے جاتے ہیں، اور ان کی عظمتوں کے عَلَم آج بھی سرنگوں نہیں ہوئے بلکہ ہر مذہب کے لوگ انھیں پڑھ کر ان کی عظمت کا اعتراف کرتے ہیں

سوال نمبر 10

حالی نہ ہوتے تو غالب نہ ہوتے.. اتفاق یا عدم اتفاق

مرزا غالب کے حالاتِ زندگی اور اُن کی شخصیت کے تعلق سے جو بنیادی معلومات مولانا حالی نے جمع کر دی ہیں ، اُن کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ بالخصوص ’یادگارِ غالب‘ کے دو تہائی سے زیادہ حصّے میں جہاں حالیِ نکتہ داں نے غالب کے اردو اور فارسی کلام کی تشریح کے ذریعے غالب فہمی کی مشعل روشن کر رکھی ہے، ایک زمانے سے شارحینِ غالب اپنی فکر و نظر کے چراغ جلاتے آئے ہیں۔ بلاشبہ آج غالبیات کی تحقیق و تشریح نے حالی کی ’یادگارِ غالب‘ سے لے کر نارنگ کی ’غالب، معنی آفرینی۔ ۔ ۔ ۔ ‘ (2) تک ایک بہت بڑا فاصلہ طے کر لیا ہے اور اب یہ راہ پُر خار نہیں رہی۔ یہ تو پہلا قدم ہے جس کا اُٹھانا دشوار ہوا کرتا ہے اور وہ بلا حالی نے سرکر لی تھی۔

نہ جانے کیوں محققینِ غالب نے حالی اور غالب کے تعلقات پر زیادہ توجہ نہیں کی۔ ہم بس اتنا جانتے ہیں کہ 1854ء میں بعمر سترہ سال اپنی شادی کے بعد اس اطمینان پر کہ بیوی کا میکہ آسودہ حا ل ہے، حالی حصولِ علم کی غرض سے دلّی چلے آئے تھے۔ یہاں 1854-55ء میں اُن کا کوئی ڈیڑھ سال قیام رہا تھا۔ اُسی دور میں اُنھوں نے قلعۂ معلّا کے مشاعرے میں غالب کو اپنا اردو اور فارسی کلام پڑھتے ہوئے سُنا تھا، لیکن اُن سے حالی کی ملاقات کے شواہد نہیں ملتے۔ یہ بات بھی قیاس میں نہیں آتی کہ ان کی اس عمر کی شعر گوئی نے غالب سے داد پائی ہو۔ جن محققوں نے حالی کے اُسی دورے میں اُن کی غالب سے ملاقات کرا دی ہے، انھوں نے عجلت پسندی سے کام لیا ہے۔ دراصل حالی کے خود نوشتہ ’ترجمۂ حالی ‘میں ان کے طرزِ بیاں کے ابہام سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ وہ غدر کے بعد پانی پت میں بیکاری کے چارسال گزارکربعمرچوبیس سال دوبارہ دلّی آئے تھے۔ (3) اس بار وہ 1861ء تا 1863ء کے درمیان دو برس تک غالب سے اُن کی اردو اور فارسی غزلوں اور قصیدوں کا درس لیتے رہے تھے اور اپنے کلام پر اصلاح بھی۔ قرائن کہتے ہیں کہ اسی زمانے میں غالب نے حالی کی شاعری کے تعلق سے اپنی یہ مشہور رائے ظاہر کی تھی کہ ’اگرچہ میں کسی کو فکرِ شعر کی صلاح نہیں دیا کرتا، لیکن تمھاری نسبت میرا یہ خیال ہے کہ اگر تم شعر نہ کہو گے تو اپنی طبیعت پر سخت ظلم کرو گے۔

ان تمام معلومات کی روشنی میں یہ بآسانی کہا جا سکتا ہے کہ اگرچہ حالی کی خدمات سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن غالب کی عظمت کسی اور کی محتاج نہ تھی اور نہ ہے، انھوں نے اپنا آپ خود ہی منوایا ہے

سوال نمبر 11

ادبی تنقید کے اصول، نیز تنقید و تنقیص میں فرق

تنقیص کے اصول :
جب تخلیق کار اظہار کے لئے کسی خاص صنف کو استعمال کرتا ہے تو پہلے اس کے اصول و ضوابط کا درس نہیں لیتا اور نہ ہی سبق کی مانند انہیں یاد کرتا ہے۔ وہ آمد، کیفیت، وجدان، الہام، جذب و جذبہ (جو لفظ بھی چاہیں استعمال کرسکتا ہے) کے زیرِ اثر مائل تخلیق ہوتا ہے اور بس۔ تخلیق کی تکمیل کے بعد نقاد کا کام شروع ہوتا ہے۔

شعر ہو یا نثر، دونوں میں فصیح و أفصح، درست و نا درست، بہتر و بہترین اور حسن قبح میں تمیز کرنا ناقد کا اولین فرض ہے، جس طرح ایک اچھا فنکار شاعر اپنی شاعری میں منتخب الفاظ کو استعمال کرکے انھیں ایک تازہ لسانی اورجمالیاتی تناظر فراہم کردیتا ہے، لفظوں کو نئے نئے اور تازہ بہ تازہ تناظر فراہم کر کے اس کی معنویت میں اضافہ کرکے معنی آفرینی کی فضا ہموار کرتا ہے، لفظوں کے افقی اور عمودی دونوں طرح کے انتخاب سے کام لیتا ہے، عمودی انتخاب کا مطلب ذہن میں موجود مختلف الفاظ میں کسی ایک موزوں لفظ کا استعمال اور افقی انتخاب کا مطلب لفظوں کے درمیان باہمی مناسبت اور رشتہ داری، ان کی باہمی نشست ترتیب اور کیمیائی ترکیب ہے جن کے ذریعہ احساسات ، جذبات ، تجربات ، تخیلات اور تعقلات کو ایک نیا جمالیاتی تناظر فراہم کیا جاتا ہے، ایک اچھا ناقد انھی سے شاعر کے فن اور کرافٹ کو سمجھتا ہے

اور یاد رہے کہ شعر پر تنقید صرف لفظوں کی ترتیب و تزئین ، آہنگ کی موسیقیت، ترنُّم کی آمیزش اور عروض کی پابندی سے ترتیب پانے والے عملِ شعریّت پر بحث نہیں کرتی بلکہ ایسے بہت سے عوامل پر تجزیہ کرتی ہے کہ انہیں الگ الگ دیکھنا محال ہے، چند ایسے عوامل اور محرکات درجِ ذیل ہیں جو ناقد کی حسِّ ادراک سے صریرِ خامہ تک زقند بھرتے ہیں اور تفہیم میں ممد ثابت ہوتے ہیں :

👈اظہارِ ذات کے جذبے تک رسائی اور اس کا داخلی و خارجی تجزیہ کرتی یے
👈الہامی کیفیت اور تحریک کا ادراک کرکے اس سے پردہ کشائی کرتی ہے
👈معاشرتی نفسیات کے رچاؤ  کی تفہیم اس کا کام ہے
👈ثقافتی مظاہر اور اقدار کا بیان اس کا حُسن ہے
👈مشاہدہ کی علامتی اور فکری سطح کی توضیح کرتی ہے
👈تخیل اور تجزیہ کی آنکھ مچولی کا پہرہ دیتی ہے
👈ادیب کی استعداد اور معاشرے میں اس کے مقام پر گفتگو کرتی ہے
👈طبعی رجحان اور شخصی نظریات کا خارجی تجزیہ لگاتی ہے 
👈زبان اور بیان کے  تقاضوں پر عَمَلی تبصرہ کرتی ہے
👈شعری وجدان اور خدا داد صلاحیت پر تحسین بھی کرتی ہے

اسی طرح جب نثر انتقاد عَمَل ہو تو اس میں ناقد کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اولاً تفہیم کرے اور پھر اس کے مندرجات کی پرکھ درست و نادرست ہونے کے اعتبار سے کرے، چونکہ فصیح و أفصح کا مرحلہ بہر طور درست و نا درست کے بعد ہی آتا ہے، اس لیے اس عَمَل کی درجہ بندی بھی ضروری ہے

تنقید اگر حق بجانب یا غیر معیاری یا تعصبانہ ہو تو یہ تنقید برائے تنقید رہ جاتی ہے، اس ترکیب میں پہلا لفظِ تنقید اسی معنیٰ کا حامل ہے جو اوپر فَقَط معائب و قبائح کو مشتمل، عربی صرف و نحو کے حوالے سے گزر چکا یے، اس کے نقصانات ادیب یا شاعر کو بالکل بھی نہیں بلکہ اس کے اثرات براہِ راست ادب پر مرتب ہوتے ہی تنقید کا منصب جہاں فن پاروں کی تشریح و توضیح ہے وہاں فن کی تحسین، تخلیق کے قریب چیز بھی ہے۔ تحسین کا کام چیزوں کو اجاگر اور روشن کرنا، تحریک دینا اور استحسان کے لئے ہماری ذہانت کو جلا بخشنا ہے

ایک مغربی نقاد *ایڈسن* کے خیال میں :
_”ایک سچا نقاد کسی ادیب یاکسی ادب پارے کی خامیوں پر اتنا زور نہیں دیتا جتنا کہ اس کی خوبیوں پر۔“_

*ہڈسن* مزید لکھتا ہے کہ :
_”اگر ادب مختلف صورتوں میں تشریحِ حیات ہے تو تنقید ادب کی اس تشریح کی تشریح ہے۔“

ان نقادوں کی آراء سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ نقاد کا کام صرف فن پارے کے محاسن بیان کرنا ہے اور اسے اس کی خامیوں کی نشاندہی نہیں کرنی چاہیے، حالانکہ تحریر کے عیوب اور اظہار و بیان کے انداز کے معائب بے نقاب کئے بغیر محاسن کا مکمل احاطہ نہیں ہو سکتا، اس لئے تنقید کا منصب صرف فن پارے کے محاسن بیان کرنا ہی نہیں بلکہ اس کے معائب کو بھی قارئین کے سامنے لانا ہے۔ کیونکہ محاسن و معائب کے ایک ساتھ بیان سے نقاد فن کار کی رہنمائی کرتا ہے اور فن کی ترقی کے لئے راہیں کھولتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ نقاد کا ایسا بے لاگ اور متوازن بیان عام قارئین کے ذوق ادب میں اضافہ اور اصلاح کا باعث بنتا ہے۔

یہ تو تیار کردہ مستقل سوالات کے جوابات تھے اب آتے ہیں دوارنِ پروگرام کیے گئے کچھ جزئی مگر علمی سوالات کے جواب کی جانب ان میں اکثر سوالات صابر جاذب پاکستان کے تھے

 کیا تنقید محض سطحی ہے ۔ اس کا تعلق زبان ‘ محاورہ اور عروض سے ہے؟ 

جواب۔۔ تنقید بالکل سطحی نہی‌ ہے بلکہ یہ مکمل لائحۂ عَمَل کا نام ہے

زبان و محاورہ کے اعتبار سے دیکھا جائے تو تنقید اصول کی پابندی بھی کرتی ہے اور بعض دفعہ اصول وضع بھی کرتی ہے، اصول کی گھڑت شعری کائنات میں تفہیم و توضیح کے نئے در وا کرتی ہے، ماضی میں تخلیقات پر تنقید کا اثر مستقبل یا حال پر مرتب ہوتا ہے اور اس کے مماثلاتی اثرات نئی تخلیق پر لاگو بھی کیے جاتے ہیں اور فن کار کا فَن اپنی جدت برقرار رکھنے کیساتھ ساتھ روایت کی چاشنی سے بھی ہم آہنگ ہو جاتا ہے
نکھار لانا تنقید کا کام نہیں، لیکن یہ اسے متضمن ضرور ہے، تنقید برائے اصلاح کی اصطلاح اسی معنیٰ کی طرف اشارہ کرتی ہے، ادب میں اس طرح کی تنقید کی بہت سی امثلہ تاریخِ ادبِ عالَم میں محفوظ ہیں
*غلام مصطفیٰ اعوان دائم*

بالکل ،
صحت زبان اولین شرط ہے ۔۔۔با محاورہ ۔۔سلیس اور شستہ زبان کو اہميت دی جاتی ہے ۔۔۔اقبال کے استعارے برتنے کے انداز نے انہیں جاوداں کردیا ۔۔

جیسے حسین کوئی آئینہ دیکھتا ہو 
اور اسی قسم کے 

صنعت کو استعمال ۔۔نے انیس کو صف اول میں لا کھڑا کیا 

گرمی سے مضطرب تھا زمانہ زمین پر 
بھن جاتا جو گرتا تھا دانا زمین پر 

حالی نے ،آزاد نے ، سرسید وغیرہم نے نثر میں بامحاورہ زبان استعمال کی ہے
*ڈاکٹر ارشاد خان ممبرا*

سوال۔۔کیا تنقید کا کام محض شعر و ادب کی اقداری معنویت متعین کرنا ہے؟

تنقید کو صرف اقداری معنویت متعین مطلوب نہیں ہوتا، بلکہ تنقید کا اولین مقصد اور غرضِ سامی تفہیم ہوتی ہے
*غلام مصطفیٰ اعوان دائم*
اور اس سوال کے جواب میں مزید ارشاد فرمایا کہ
اس کی اگر درجہ بندی کروں تو... تنقید کے مقاصد کو آپ یوں بھی سمجھ سکتے ہیں کہ :
پہلی کڑی. قرات
دوسری کڑی. تفہیم
تیسری کڑی. داخلی عوامل کا جائزہ
چوتھی کڑی. داخلی عوامل کے انحصاری پہلو
پانچویں کڑی. خارجی عوامل
چھٹی کڑی. خارجی عوامل کے اوصاف، چاہے عادی ہوں یا غیر عادی
ساتویں کڑی. محاسن کا تعین
آٹھویں کڑی. معائب کا تعین
نویں کڑی. ممکنہ انطباق

سوال ایک نقاد کس نظریے کی بنیاد پر اپنی تنقید کی عمارت کھڑی کرتا ہے؟ 

نقاد کا نظریہ جن اجزاء سے مل کر اپنی عمارت بناتا ہے... ضروری ہے کہ ان اجزاء کا مطالعہ کیا جائے....

ایک نقاد کا مطمع نظر صرف سیکھنا اور سکھانا ہوتا ہے، اگر وہ تنقید برائے تنقید ہو تو اس کے مضمرات بہت ہیں......

جس نظریے پر ایک ناقد اپنی تنقید کی عمارت تعمیر کرتا ہے، وہ نظریۂ تفہیم ہے.......
*غلام مصطفیٰ اعوان دائم*
ڈاکٹر ارشاد خان ممبرا نے اس جواب سے اتفاق کیا 
اس پر دائم صاحب نے مزید ارشاد فرمایا کہ 
اس بارے میں ٹی ایس ایلیٹ کی کتاب سے مستفاد چند چیزیں ملاحظہ ہوں کہ :

ایک نقاد کا کام یہ ہے کہ وہ نہ صرف نئے اقدار کا تعین کرے بلکہ قدیم فن پاروں کی حسنِ ترتیب کو تازہ علم کے ذریعے بدل ڈالے اس کے خیال میں تقریباً ایک صدی کے بعد ایسے نقاد کی ضرورت ہے۔ جو ماضی کے ادب کا ازسرنو جائزہ لے۔ ماضی کے شعراءاور عظیم فن پاروں کو نئے ترتیب کے ساتھ پیش کرے اس طرح جدید فن پاروں کا قدیم سے موازنہ بھی ہو جاتا ہے اور کئی گمنام شاعروں کو زندہ کیا جا سکتا ہے۔ نقاد کا کام یہ بھی ہے کہ ادب کے وہ گوشے جو مکمل طور پر سامنے نہ آئے ہوں انھیں پیش کر دے خواہ وہ قلیل ہی کیوں نہ ہو اور اس میں پرانے شاعروں کے کلام کی ازسرنو تشریح بھی شامل ہے۔ کسی نئے اور اہم فن پارے کی تخلیق پرانی ترتیب کو درہم برہم کر دیتی ہے۔ اور نقاد اسے تنظیم نو سے نوازتا ہے۔ ایلیٹ اس اصول کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ جب کوئی فن پارہ تخلیق پاتاہے تو اس کا اثر ان فن پاروں پر بھی پڑتا ہے جو اس سے پہلے تخلیق ہو چکے ہیں۔ نئے فن پارے کی تخلیق سے پہلی ترتیب اور پہلا نظام بگڑ جاتا ہے اور نقاد کو نئے فن پارے کے لیے اس مثالی نظام کو ازسرنو تشکیل دیناپڑتا ہے۔

سوال ۔ ایک نقاد میں اپنی پسند،نا پسند کا کس حد تک عمل دخل ہوتا ہے؟ 

ایک ناقد کا اولین فرض تو یہ ہے کہ وہ تعصب کی آلائش سے اپنے نظریات کو پاک کر کے دلیل کی بنیاد پر بات کرے، لیکن اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو وہ ناقد تو ہوگا، لیکن بزعمِ خویش...

ادب میں اس کا مرتبہ گر جائے گا
*غلام مصطفیٰ اعوان دائم*

ٹی ایس ایلیٹ مشرقی فلسفے سے زیادہ دل چسپی رکھتا تھا یا دیگر فلسفوں سے؟ 

اگر چہ مغربی فلسفہ بھی مضبوط تھا. مگر اس میں سطحیت زیادہ تھی، 
ایلیٹ کی تنقید میں اتنی گہرائی اور معنویت ہء کہ اسے مغربی نقد نگاروں نے نھی تسلیم کیا
*غلام مصطفیٰ اعوان دائم*

حالانکہ افریقی ہونے کے ناطے اپنی روایات سے جڑا ہوا ہونا چاہیے تھااپنی کتاب :افٹر سڑینج گارڈ: میں زیادہ تر افریقی فلسفے سے مرغوب دکھائی دیتا ہے؟ 

ضروری نہیں کہ جو کہاں کی. نسبتِ مکانی رکھتا ہو وہ اسی سے متاثر ہو، اس کی تاریخ میں بہت سی مثالیں ملتی ہیں، تجدیدِ فلسفہ ایک الگ ٹاپک ہءے، اس پر کبھی بات کریں تو میں تفصیلی موقف بیان کر سکوں
*غلام مصطفیٰ اعوان دائم*

متھیو آرنلڈ انیسویں صدی کا مشہور نقاد ھے۔اسکے تنقیدی اصولوں کو درست مانا جاتا ھے یا ٹی۔ایس۔ایلٹ کے ؟

ماننے والے دونوں طرف ہیں، میتھیو آرنلڈ کے پیروکار زیادہ ہیں.. لیکن نظریات میں رسوخ ایلیٹ کے زیادہ ملتا ہے......
*غلام مصطفیٰ اعوان دائم*

انگریزی تنیقد نے مشرقی تنقید پر کتنا اثر ڈالا 
کیا مشرقی انداز تنیقد مغربی انداز تنقید کا ہی رنگ ہے
فارسی و عربی میں تنقید کا اثر کس حد تک ہوا؟ 

انگریزی تنقید نے اسلوب اور داخلی اعتبار سے اثر ضرور چھوڑا ہے، اس کی مثالیں ہماری جدید نقد نگاری میں بہ کثرت مل جائیں گی،

جہاں  تک عربی کے اثر کی بات ہے تو عربی میں نقد نگاری نہ ہونے کے برابر ہے
*غلام مصطفیٰ اعوان دائم*

نیز فرمایا کہ اور عربی کی اثر پذیری 10%" سے بھی کَم ہے، مشرقی شعریات اور اصولِ انتقاد کے اپنا نظام بہت منضبط ہے، جو کسر رہ گئی تھی، وہ مغربی طرزِ انتقاد کے استفادے سے پورا ہو گیا..... عربی نقد نگاری کا زیادہ حصہ اصول حدیث کیساتھ خاص ہے، باقی بہت ہی کم

فارسی میں تنقید کے تعلق سے عرض کیا کہ فارسی نقد نگاری ظنیات پر مبنی کہوں تو بے جا نہ ہوگا....

تہران یونیورسٹی ایران میں البتہ اصولیات پڑھائی جاتی ہیں، اور نقد نگاری کے اصول مرتب ہو رہے ہیں، پڑھائے بھی جاتے ہیں،...
پاکستان اور دیگر ممالک میں فارسی کا اثر بہت کم ہے، لیکن عربی سے زیادہ فارسی اصولیات اور استشہادات سے ہماری مشرقی نقد نگاری ماخوذ ہے....
لیکن یہ بھی 12% سے زیادہ نہیں

سوال ۔حالی کے مقدمہ شعر و شاعری سے پہلے تنقید کا رنگ  و روپ مشرقی تھا یا کوئی اور رنگ؟ 
 حالی سے پہلے برصغیر میں تنقیدی رنگ خالص مشرقی تھا، حالی نے اسے توسیع بخشی ہے
*غلام مصطفیٰ اعوان دائم*
میرے اپنے مطالعے کی بنیاد پر تبصرہ نگاری تک محدود تھا ۔۔محمد حسین آزاد نے آب حیات میں تبصرہ مع تذکرہ کیا ہے ۔۔حالی نے مقدمہ شعر وشاعری لکھ تنقید کی بنیاد ڈالی خصوصاً باب غزل کے محاسن لکھ ۔۔۔مگر یادگار غالب میں انہوں نے تنقید کے ساتھ غالب فہمی کی بنا ڈالی ۔۔
ضروری نہیں میری آراء سے اتفاق کریں ۔۔۔
*ڈاکٹر ارشاد خان ممبرا*
 یہ ان سوالات کے جوابات  تھے جو دوارانِ پروگرام میں  کیے گئے تھے آخر میں دو لوگوں کے تآثرت پیش کرتا ہوں 
تآثر 1 *شماد سرائی پاکستان*
آج کا یہ منفرد اور بامقصد پروگرام تنقید جیسے complicated  موضوع پر اپنی نوعیت کا خاص پروگرام تھا۔جسمیں کافی نئی ناتیں سامنے آئی ھیں۔ میں مجموعی طور پر ایک اچھا پروگرام پیش کرنے پر محترم توصیف ترنل صاحب اور انکے معاونین کو مبارکباد پیش کرتا ھوں۔اور امید کرتا ھوں کہ مستقبل قریب میں ایسے ھی معلوماتی اور با مقصد مزید پروگرام پیش کیے جائیں گے۔
شمشاد سرائی چیئرمین ادبی قبیلہ انٹرنیشنل لیہ (پاکپاکستان

تآثر 2 صابر جاذب 
آج کا یہ پروگرام تنقید جیسے  خشک موضوع پر انتہائی  خاص پروگرام تھا۔جس میں کافی ساری معلومات  سامنے آئی ھیں۔ ایسا معلوماتی پروگرام پیش کرنے پر محترم توصیف ترنل صاحب اور انکے معاونین کو مبارکباد پیش کرتا ھوں۔
خصوصی طور جناب غلام مصطفی دائم صاحب کا تازیست ممنون رہوں گا جنہوں نے میری معلومات میں حسین اضافہ فرمایا 
صابر جاذب لیہ پاکستان

اس طرح سے یہ پروگرام اب تک کے کامیاب ترین پروگرام میں ایک کامیاب علمی پروگرام ہوا جسکے لیے ادارے کے چیئرمین توصیف ترنل اور تمام احباب کا عموماً اور غلام مصطفیٰ اعوان دائم بھائی کا خصوصاً شکریہ ادا کیا جاتا ہے والسلام