Sunday, July 29, 2018

ادارے کا 163 واں منفرد عالمی تنقیدی پروگرام کا انعقاد کیا گیا




رپورٹ   ڈاکٹر سراج گلاؤٹھوی انڈیا

عالمی شام چار شعراء کے ساتھ تنقیدی پروگرام

28 جون 2018 بروز ہفتہ ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری کی شاخ بیسٹ اردو پوئیٹری وائرس کی جانب سے واٹس ایپ پر ادارے کا 163 واں منفرد عالمی تنقیدی پروگرام کا انعقاد کیا گیا، پروگرام پاکستان کے وقت کے مطابق شام 7 بجے جبکہ ہندوستانی وقت کے مطابق شام 7-30 بجے شروع کیا گیا جسکی صدارت محترم سید ایاز مفتی صاحب ہوسٹن ٹیکساس امریکہ نے فرمائی جبکہ مہمانِ خصوصی اسکرپٹ رائٹر محترمہ  دلشاد نسیم صاحبہ پاکستان تھیں، پروگرام کی نظامت کے فرائض محترمہ ثمینہ ابڑو صاحبہ پاکستان نے شاندار طریقے سے انجام دے اس پروگرام کے آرگنائزر محترم توصیف ترنل صاحب ہانگ کانگ تھے جو کے اس ادارے کے بانی و چیئرمین بھی ہیں جبکہ تنقید و تبصرے کے فرائض محترم ضیاء شادانی صاحب انڈیا، محترمہ غزالہ انجم صاحبہ بورے والا پاکستان و محترم مائل پالدھوی صاحب انڈیا نے عمدہ طور پر انجام دے
اس پروگرام میں ہر ایک شاعر سے اپنا مختصر تعارف و پانچ غزلیں برائے تنقید پیش کرنے کے لئے کہا گیا تھا
پروگرام حمد باری تعالیٰ سے شروع کیا گیا جس کے لئے محترم امین جسپوری صاحب کو دعوت سخن دی گئی
حمد پاک
تو ہی وقف ہے کیا، کس شے میں ہے حکمت تیری
ماروا وہم گمان سے بھی ہے، خلقت تیری

ترجماں تیری ہی عظمت کے ہیں سب لوح و قلم
تیری قدرت کے نشاں، آسماں، جنّت تیری
**************************
اس کے بعد نعتِ دسول پیش کی گئی جس کے لئے ارشد محمود ارشد صاحب سرگودھا پاکستان کو دعوت کلام دی گئی
نعت رسول
اس لئے دوسروں سے اعلیٰ ہوں
آپ کی نعت کہنے والا ہوں

دھڑکنوں کی صدا ہے نعتِ نبی
آپ کا نام لے کے جیتا ہوں
**************************
اس کے بعد ایک اور نعتِ رسول پیش کی گئی جس کے لئے محترم اطہر حفیظ فراز صاحب  فیصل آباد پاکستان کو دعوت سخن دی گئی
نعت رسول
مہ و مہر و اختر حضور آپ کے ہیں
یہ گردش پہ محور حضور آپ کے ہیں

سبھی انبیاء سے سبھی اصفیا سے
مقامات بڑھ کر حضور آپ کے ہیں
**************************
اس کے بعد باقاعدہ مشاعرے کا دور شروع ہوا قارئین کی دلچسپی کے لیے سبھی شعرا کا نمونہ کلام، تنقیدی گفتگو و تبصرے رقم کئے جارہے ہیں

محترم سید ایاز ابنِ مفتی صاحب (صدرِ مشاعرہ)

مجھ کو ساحل کی کہانی نہ سنائیں جائیں
پہلے طوفان سے کشتی کو بچائیں جائیں

میں دیا ہوں تو فقط کام مرا جلنا ہے
آندھیاں کام کریں اپنا بجھائیں جائیں

پوچھئے مت رات میں نے کب کہاں کی سیر کی
فکر نے میرے مکاں کی لا مکاں کی سیر کی

وہ مرے ہمراہ تھا جیسے کہ ہم ہوں بال و پر
خواب کے براق پر تھے کل جہاں کی سیر کی

آئینہء حالات پہ مفتی کی غزل ہے
اک شوخیء جزبات پہ مفتی کی غزل ہے

نازل جو ہوئیں عشق میں اک مضحفِ دل پر
وہ پیار کی آیات یہ مفتی کی غزل ہے

سید ایاز مفتی صاحب
کی شخصیت پر
اجمالی جائزہ 
از قلم !   مائل پالدھوی( بھارت)
==='=================
ادرارہء عالمی  بیسٹ  اردو پوئٹری (وائرس) نے صرف اس ترقی یافتہ دور میں  اردوادب کی خدمات ہی انجام نہیں دی بلکہ پوری دنیا کے شعراء ادباء و مصنفین کو ایک مرکز پہ لاکر متعارف بھی کروایا اردو کی محبت میں اتنی بڑی قربانی دینا معمولی بات نہیں 
ادارءہھذا کے بانی وچیرمن اور تمام انتظاميہ کو دلی مبارکباد 
محترم المقام عزیم المرتبت قبلہ سید ایاز مفتی صاحب کے تعارف نامے میں آپ کی ایک جمالیاتی غزل  اور نعت شریف کا ایک بہت ہی خوبصورت شعر پڑھادل کو بے خوشی ہوئ کہ ایسی معتبر شخصیت کے کمالِ فن پہ کچھ کہنے کا موقع ملا کہ جنہوں نے اردوشاعری میں نعت گوئ کو اپنا مرکزِ فکر بنایا
اردوادب میں نعت گوئ کو بنیادی اہمیت حاصل ہے
نعتیہ شاعری مذہبی شاعری کی اولیات میں شامل ہے جس کاتعلق دینی احساس ! صِدق واخلاص سے ہے
حضورؐ کی ذات و صفات کا احاطہ کرنے کے لیۓ ہر عہد کے شعراءنے اپنی ذہنی اور قلبی  صلاحیتوں سے کام لیا اور اپنے عہد کے حساب سے اس میں معنویت اور جدت پیدا کی موصوف کایہ شعر اسی بات پر دلالت کرتا ہے
ساری دنیاکے عطر سے دھویا
لب کو پھر جرت کلام نہیں 
بہترین شعر خوبصورت اندازِ بیان رحمتِ عالمؐ سے سچی عقدتوں کااعلان کرہا ہے
موصوف کا نام ادب کی دنیا میں  محتاجِ تعارف نہیں   آپ کو نعت گوئ میں  ایک مقام حاصل ہے
میں ان کے نعتیہ مجموعہ کلام ”رہبر و رہنما “کی 
 کامیابی پر مبارکباد پیش کرتے ہوۓ دعاگو کہ اللہ 
رب العزت نعت گوئ کے فن کو مذید جِلا بخشےو
تماتر مصیبتوں اور بلاوں سے محفوظ رکھے
آمین ثم آمین
تبصره  مائل پالدھوی بھارت

**************************
محترمہ دلشاد نسیم صاحبہ (مہمانانِ خصوصی)
پچھلے پہر کے نیند سے جاگی ہوئی ہوں میں
یہ کیسے اصطراب سے بندھی ہوئی ہوں میں

دھڑکا سا مجھکو بجھنے کا ہے بھی نہیں بھی ہے
جیسے کسی چراغ میں رکھی ہوئی ہوں میں

نہ جانے کیسی محبت کے وعدے رات جلے
جلا جو خط تو سکھی دونوں میرے ہاتھ جلے

گزارا دن جو اداسی میں شام کہنے لگی
بہت اکیلی ہوں میں کوئی میرے ساتھ جلے

درد دل کا کفیل ہوتا ہے
ہجر کا بھی قبیل ہوتا ہے

یاد آیا نہ کر نمازوں میں
میرا سجدہ طویل ہوتا ہے

اشک آنکھوں میں چھپاتے ہوئے روتی ہوں بہت
حالِ دل اس کو سناتے ہوئے روتی ہوں بہت

روشنی کمرے میں تھی وہ یونہی شب بھر جاناں
پر کوئی بات بتاتے ہوئے روتی ہوں بہت
**************************
محترم احمد علی برقی اعظمی صاحب دہلی انڈیا

سیاست میں اراکاری جو آگے تھی سو اب بھی ہے
اداکاری و عیّاری جو آگے تھی سو اب بھی ہے
ہے اس کی بد گمانی ایک ذہنی کرب کا باعث
مسلسل اک دلآزاری جو پہلے تھی سو اب بھی ہے

مجھکو بس اس کی رضا درکار ہے
فکر اسبابِ وفا درکار ہے
جس میں شامل شربت دیدار ہو
دردِ دل کی وہ دوا درکار ہے

آپ کا حسنِ عمل حسنِ بیاں تک پہنچے
دل میں جو بات نہاں ہے وہ زباں تک پنہچے
آئیے ایسی فضا امن کی ہموار کریں
حسنِ نیت جو یہاں ہے وہ وہاں تک پنہچے

تھے جتنے یار چپ سادھے ہوئے ہیں
سبھی اغیار چپ سادھے ہوئے ہیں
جو تھے سردار چپ سادھے ہوئے ہیں
پسِ دیوار چپ سادھے ہوئے ہیں

کیوں کریں شکوہ کسی سے اپنی ہم تقدیر کا
صاف جب اپنے لئے ہے راستہ تدبیر کا
اب بھروسہ آٹھ گیا ہے عدل کی زنجیر کا
کیوں بتاتے ہیں عدو وہ مجھکو ہی تعزیر کا

السلام علیکم!
محترم احمد علی برقی ایک زود گو شاعر ہیں اور ہم اکثر گروپ میں ان کی زود گوئی سے فیض یاب ہوتے ہیں۔۔۔ہر موضوع پر شعر کہنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔آپ کی شاعری پر بات کرنا باعث اعزاز ہے۔۔آپ نے اپنے تعارف میں جس طرح اپنی زندگی کے سفر اور ہمسفروں کے بارے میں جس طرح خوبصورتی سے بیان کیا ہے وہ قابل ستائش ہے۔
آپ کی غزل نمبر 1 نظر کے سامنے ہے۔۔۔حسب حال ہے۔۔۔معاشرتی مسائل کی خوب عکاسی کی ہے۔ہر شعر میں ایک نیا مسئلہ بیان کیا گیا ہے اور خوب کیا گیا ہے۔۔

غزل نمبر 2۔۔۔اس غزل میں آپ کی زود گوئی کی صلاحیت کا اظہار ہے۔۔اچھی غزل ہے۔۔۔مگر یوں محسوس ہوتا ہے کہ قافیہ بندی پر زور دیا گیا ہے۔یعنی اشعار کی تعداد میں اضافہ اصل  مقصود ہے۔۔

غزل 3۔۔۔مطلع کا دوسرا مصرع کمزور ہے بلکہ ایک رکن اضافی ہے اور تر تیب بہتر نہ ہونے کی وجہ سے روانی بے حد متاثر ہوئ ہے محسوس ہوتا ہے۔اسی وجہ سے بحر کا بھی مسئلہ دکھائی دیتا ہے۔۔
اس غزل میں روانی کی کمی اکثر جگہوں پر محسوس ہوئی 

غزل نمبر 4
اچھی ردیف ہے اور خوب نبھائی بھی گئ ہے۔۔۔کہیں کہیں ایک شعر کے دونوں مصرعوں میں باہمی تلازم کی کمی محسوس ہوتی ہے۔۔جبکہ انفرادی حیثیت میں ہر مصرع خوب ہے۔۔۔اچھی پر لطف غزل ہے

غزل 5۔۔۔اچھی غزل ہے۔۔۔خیالات بھی اچھے ہیں۔۔۔
ایک مصرع شاید ٹاءپنگ مسٹیک ہے
"رخ ہوا کا ایک یہ جانب نہیں رہتا سدا"
اس مصرعے میں یہ کی جگہ شاید" ہی" ہے
قافیہ خوب ہے۔۔اچھا برتا بھی گیا ہے۔۔۔خیال بھی اچھے ہیں۔
مجموعی طور پر احمد علی برقی ایک اچھے شاعر ہیں ۔لفظوں اور خیال پر گرفت رکھتے ہیں۔۔اور ہر خیال کو رنگ سخن دینے کی صلاحیت سے بہرہ مند ہیں۔۔
اللہ پاک ان کی صلاحیتوں اور کامیابیوں میں مزید اضافہ فرمائے۔۔۔
مبصر:۔۔۔غزالہ انجم
---------------------------
جناب احمد علی برقی صاحب ایک ذود گو شاعر ہیں، آجکل ایسے شاعر کم دیکھنے میں آتے ہیں وہ ایک الھامی شاعر معلوم ہوتے ہیں ان کے اشعار میں بہت روانی ہے بہت اچھے شاعر ہیں اس گروپ کے لیے یہ فخر کی بات ہے کہ ان جیسا شاعر یہاں موجود ہے
ضیاء شادانی انڈیا
------------------------------

احمد علی برقی اعظمی صاحب کے کلام میں دریا کی سی روانی ہے، تسلسل کی خوبصورتی سمائے ہوئے ہے ایک ہی مضمون کو ایک سے زائد بار باندھ دیتے ہیں سبھی غزلیں بہت خوبصورت ہیں ایک جیسے مضامین کو ایک سے زائد بار نہ باندھا جائے
سعید احمد صاحب
**************************

محترمہ ڈاکٹر مینا نقوی صاحب انڈیا

بلندیوں کا تھا جو مسافر وہ پستیوں سے گزر رہا ہے
کہ جیسے دن کا سلگتا سورج سمندروں میں اتر رہا ہے
تمہاری یادوں کے پھول ایسے سحر کو آواز دے رہے ہیں
کہ جیسے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا مری گلی سے گزر رہا ہے

یہ مت سمجھنا فقیر ہوں میں
انا کے حق میں کثیر ہوں میں
مجھے ستارا سمجھنے والو
فلک پہ بدرِ منیر ہوں میں

رت میں ہے کیسی سرگم
آنکھیں ہیں پر نم پر نم
آندھی نے کیا ظلم کیا
شاخیں کرتی ہیں ماتم

سرد سرد موسم میں، بھیگتے اندھیرے میں، زندگی گزرتی ہے
شکل ایک مبہم سی، آئینے میں آنکھوں کے، چپکے سے سنورتی ہے
عمر کٹ گئی ساری، یوں ہی دشت و صحرا میں، اک تلاشِ مبہم میں
جانے کس لئے پھر بھی راستوں پہ لاحاصل، جستجو ٹھہرتی ہے

یوں تو کچھ بھی نہیں عیاں مجھ میں
ہے مگر کہکشاں نہاں مجھ میں
ربط رکھتے ہوئے زمین کے ساتھ
جزب سارا ہے آسماں مجھ میں


مینا نقوی کی ہیں غزلیں  دلنشیں 
ان کے حسنَ فکر و فن پر آفریں
ہے نمایاں ان سے عصری حسیت
کرتی ہے ہموار جو فکری زمیں
برقی اعظمی
------------------------------------- 
تنقید و تبصرہ 

محترمہ مینا نقوی صاحبہ کا کلام زیر نظر ہے۔۔۔بلاشبہ آپ ایک بلند پایہ شاعرہ ہیں۔۔۔بہت سے ایوارڈز حاصل کر چکی ہیں۔آپ جیسی سینئر شاعرہ کے کلام پر بات کرنا میری خوش بختی ہے۔جس کے لیے میں عالمی ادارہ اردو بیسٹ پوئٹری  اور جناب توصیف ترنل صاحب کی ممنون ہوں۔
بہر طور کوشش کی ہے کہ ذمہ داری کا حق ادا کر سکوں۔

غزل ۔۔۔1۔۔۔بلندیوں کا تھا جو مسافر۔۔۔۔
مترنم اور نازک خیالات پر مبنی غزل ہے۔۔مطلع بہت خوبصورت ہے۔۔۔تشبہیہ کا بہترین استعمال کیا گیا ہے
پوری غزل ہلکے پھلکے خیالات پر مبنی ہے۔ اچھے الفاظ کے ساتھ رواں دواں اور سلاست سے بھر پور غزل  ہے۔۔

غزل نمبر 2۔۔یہ مت سمجھنا فقیر ہوں میں

اس غزل میں محترمہ مینا نقوی صاحبہ بھر پور انانیت اور خود پرستی کے اظہار  کے ساتھ دکھائی دیتی ہیں۔۔۔کبھی کبھی حالات کے دامن میں کچھ ایسی تلخیاں ہوتی ہیں کہ مزاج درشت ہو ہی جاتا ہے اور انسان کی انا اسے مجبور کر دیتی ہے کہ تلخیوں  کا جواب دیا جائے۔۔اور اس جواب کے اظہار اور اپنا آپ منوانے کی خواہش میں انسان خود پرست بھی ہوجاتا ہے اور انا پرست بھی۔محترم شاعرہ اس غزل میں کچھ ایسی ہی کیفیت سے دوچار نظر آتی ہیں جو بہر طور زندگی کا حصہ ہے۔
مطلع۔۔۔دیگر اشعار۔۔۔غرض یہ خود نمائی مقطع تک تمام اشعار میں دکھائی دیتی ہے۔۔۔
کہیں کہیں اسے اس حد تک قبول کیا جانا نا قابل قبول بھی ہو جاتا ہے۔۔۔بہرحال کیفیت کی سچائی شاعر بذات خود ہی سمجھ سکتا ہے۔

غزل 3۔۔۔رت میں ہے کیسی سرگم
 ۔۔خوبصورت مترنم غزل ہے۔۔۔تمام اشعار میں سادگی  سے مفہوم واضح کیا گیا ہے ۔چھوٹی بحر  میں اچھے لفظیات پر مبنی اچھی غزل ہے

غزل 4۔۔۔ سرد سرد موسم میں۔۔۔
تیسرے شعر میں حبس کی ہواءوں کا ذکر کیا گیا جو عجیب محسوس ہوا۔۔۔کیونکہ  ہوا نہ ہو گھٹن ہو تب حبس کہلاتا ہے۔۔۔۔اگر ہوا گرم ہو تو لو کہلاتی ہے مگر حبس میں ہوا کا ہونا حبس کا خاتمہ ہے۔۔جبکہ ذکر حبس کا ہے۔
آخری شعر کا پہلا مصرع ترتیب میں کچھ اور بہتر ہوسکتا تھا۔۔
باقی اچھی اور منفرد غزل ہے۔۔ماشاءاللہ

غزل 5۔۔۔۔یوں تو کچھ بھی نہیں عیاں مجھ میں

تمام غزل اچھے اشعار پر مبنی ہے۔۔خاص طور پر یہ شعر نہائت خوب صورت ہے کہ
ربط رکھتے ہوئے زمیں کے ساتھ
جذب سارا ہے اسماں مجھ میں
ڈھیروں داد
۔چھوٹی بڑی تمام بحور میں محترمہ مینا نقوی صاحبہ کو عبور حاصل ہے۔نسائی جزبات و خیالات کی بھر پور آئینہ دار ہیں۔لفظوں کی تراش خراش مصرع سازی  اور روانی جیسے بنیادی علم سے واقف ہیں
میری طرف سے ڈھیروں دعائیں محترمہ ڈ اکٹر مینا نقوی صاحبہ کے لیے ۔۔
اللہ مزید عزت شہرت اور کامیابیوں سے نوازے

مبصر: غزالہ انجم
----------------------------------------
ڈاکٹر مینا نقوی ایک ایسی شاعرہ کا نام ہے جس کو شاعری کا جنون سوار ہے وہ ایک خوبصورت نظامِ مشاعرہ بھی ہیں میں نے ان کو کبھی غصہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا وہ ایک اچھی شاعرہ کے ساتھ ایک اچھی انسان بھی ہیں بہت اچھے اشعار کہتی ہیں ان کو الفاظ پر بہت زبردست دسترس حاصل ہے اور خوبصورت اشعار بہت آسانی سے کہہ جاتی ہیں ہندوستان کی اس شاعرہ کا دنیا کی گنی چنی شاعرات میں شمار ہوتا ہے جنکو اللہ نے بہت صلاحیتوں سے نوازہ ہے خوبصورت اشعار کہتی ہیں
ضیا شادانی انڈیا
----------------------------------------
مینا نقوی کی ہیں غزلیں  دلنشیں 
ان کے حسنَ فکر و فن پر آفریں
ہے نمایاں ان سے عصری حسیت
کرتی ہے ہموار جو فکری زمیں
برقی اعظمی
----------------------------------------
محترم مسعود حساس صاحب کویت
غزلیں
چکّر میں ترے آکے بہل جاؤں کیا کروں
اے چاک تری ضد پہ بدل جاؤں کیا کروں
ساری حدوں کو توڑ دیا میں نے طیش میں
اب دائرے سے میں بھی نکل جاؤں کیا کروں

بھٹک نہ پائے مگر شخصیت بھگو ہی گئ
وہ ایک بوند تھی جو قلب و روح دھو ہی گئی
خطا معاف مرا حرف حرف سورج تھا
تمہاری آنکھ ہی کچھ دیر تم سے کھو ہی گئی

اک سیل معانی کا کوزے میں ٹھہر جانا
آساں نہیں غزلوں کا کاغذ پہ اتر جانا
دستور غزل کا ہے جزبات کی عکاسی
الفاظِ کی حیئت میں تصویر ابھر آنا
نظمییں
"ہم سایہ"
میں اپنی ذات کی پارہ دری کے آنچل میں
اگرچہ قید میں ہوں اک طویل مدت سے
مگر فتین نگاہوں کا حسنِ ظن یہ ہے
مرا وجود ہے پارا صفت عجب ہیئت
ہزار دام بھی اس کے لئے کھلونا ہے
"انکشاف"
عزاب وقت کے ابرو کی نوک آرائش
عجیب فلسفہ حکمِ امیر سے چسپاں
زمین خون سے رنگین چار سو وحشت
افق پہ دور کہیں حسرتوں کے مرقد پر
اداس گرد میں لپٹی ہوئی ہے قوسِ قزح

جناب مسعود حساس صاحب صدی کے عظیم شخصیت ہیں ان پر کہنے کی جسارت کر رہا ہوں، وہ لوگ جو ترقی کی منازل پار کر چکے ہیں ایسے لوگوں کے لیے ان کے علم کی خوبیاں، ان کے اشعار کی خوبیاں، زبان و بیان کی خوبیاں، الفاظ کا چناؤ، مزاج کی گہرائی کی خوبیاں بیان کرنا ایک مشکل کام ہے وہ ایک صاحب دیوان شاعر ہیں خلیج میں پہلے صاحب دیوان کے اعزاز سے نوازے گئے ہیں ان کے اشعار زبردست ہیں ان کے بارے میں اگر دفتر کے دفتر کہے جائیں تو کم ہیں
ضیاء شادانی انڈیا
----------------------------------------

محترم المقام جناب مسعود حسساس صاحب بہترین  نقاد شاعر وادیب اور قادر الکلام شخصیت ہے جو اپنے موضوعات و خیالات کو فنی پختگی و
فکری صلاحیتوں کے ساتھ ادا کرنے کا ہنر جانتے ہیں
انہوں نے اپنی شاعری میں عصری تقاضوں امتزاج بھی رکھا ہے اور روایات کی پاسداری بھی کی ہے
زندگی کی تلخیوں کو بہت قریب سے محسوس کرنے والے شاعرکے تعلق سے کچھ کہنا میرے لیۓ سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہوگا
یہ الگ بات ہے کہ ان سے میری ملاقات نہیں مگر ادارہء عالمی بیسٹ اردو پوئٹری کے پلیٹ فارم پر غائبانہ تعارف ضرور ہواہے موصوف نے بارہا میری غزلوں پر اپنے خیالات کا منصفانہ طریقے سے اظہار کیا ہے حضرتِ علیؓ کا قول ہے کہ آدمی زبان کے نیچیے پوشیدہ ہوتاہے اسی قول کے حوالے سے موصوف کے معیارِ فن و شخصیت کا اندازہ ہوتاہے
میں خوش نصیب ہوں کہ ادارہء عالمی بیسٹ اردو پوئٹری کے بانی وچیرمن محترم توصيف ترنل صاحب و جملہ اراکین نے اس قابل سمجھا کہ میں بر صغیر کی معتبر و معروف شخصیت محترم مسعود حسساس صاحب کے کمالِ فن و شخصیت
پر تبصره کروں
میں نے موصوف کی تینوں غزلیں بغور پڑھی
خوبصورت مرصع غزلیں حق آشنا ٍ منبع مشاہدات
بصیرتِ آگہی افکارِ مجمع ؛ اندازِ بیان و اسلوب 
 جداگانہ تخلیقی ارتقاء ؛ عمیق مطالعے پر دال ہے
موصوف کے کلام و شخصیت دونوں میں ایسی تاثیر ہےکہ قاری ان سے فوراً متاثر ہو جاتا ہے
غزل( 1)شعر (2 )ساری حدوں !!!!!!! اب دائرے!!!
بہترین شعر احساسات کی بھر پور ترجمانی کر رہا ہے مطلع تا مقطع عمدہ غزل     (مبارکباد )
غزل (2)ٹپک نہ پائ!!!!!!!! وہ ایک بوند!!!!!
یہ ایک جذب کی کیفیت کا ترجمان مطلع ہےمعنی ومفہوم کی پرتیں ورق در ورق ہے  اور بہت عمدہ طریقے سے موصوف نے جذبات کی عکاسی کی ہے
غزل کا ہر شعر بڑا  ہی خوبصورت( گلہاۓ عقیدت)
غزل (3) شعر (2)دستورغزل!!!!!!! الفاظ کی !!!!!!!
کمال کا شعر شاعر کے تجربات کی غمازی کر رہاہے
مگر اسی غزل کا آخری شعر کہنے کو!!!! مقتل کے!!!!
اس شعر کا  ثانی !  مقتل کے سجانے کو بے خوف وخطر جانایہاں میری ناقص راۓ یہ ہے کہ مقتل کو
سجانے نہیں جایا جاتا جانے کے بعد مقتل سج جاۓ یہ الگ بات ہے تاریخ کے پس منظر میں ہم نے دیکھا کہ حق و باطل کی لڑائی میں کئ صداقتوں کے امیں سوۓ مقتل بے خوف وخطر چلے گۓ مگر ارادہ
یا منشا مقتل کو سجانے کا نہیں تھا بہرکیف موصوف کا اپنا خیال  ہے میری راۓ غلط بھی ہو سکتی ہے باقی غزل جمالیاتی و جاذبیت کا مرقع ہے
شاعری میں لفظوں کو تجربات کی سان پر چڑھانااور سخن کے گہرِ نایاب تراشنا کمالِ فن ہے
جو موصوف کی شاعری میں بدرجہ اتم موجود ہے

مبصر مائل پالدھوی بھارت
====================
منعکس حساس ہیں آئینۂ احساس میں
جانفزا ہے فکرو فن کا ان کے دلکش تجزیہ
ہے نہایت روٖح پرور ان کا احساسِ جمال
ان کی اردو شاعری ہے ایک روحانی غذا
پیش کرتا ہوں مبارکباد میں اس کی اُنھیں
کرتے ہیں نقدِ سخن برقی جو سب کی برمَلا
برقی اعظمی
---------------------------------------- 
تنقید و تبصرہ 
محترم مسعود حساس ایک معروف نقاد کی حیثیت سے اپنا ایک مستند مقام رکھتے ہیں۔باعلم شخصیت ہیں۔مدلل گفتگو کرتے ہیں۔اور باقاعدہ تحقیقی عمل کو مد نظر رکھتے ہوئے تعریف و تنقیص کے مراحل طے کرتے ہیں۔گفتگو میں کمال حاصل ہے۔سامع پر سحر سا طاری کر دیتے ہیں۔برجستگی خوبصورت الفاظ کا چناوء، بات سے بات نکالتے ہوئے موضوع کا خیال بھی رکھنا اور سامع کی دلچسپی بھی قائم رکھنا آپ کی گفتگو کا خاصہ ہے۔
ایک اچھے نقاد اور ایک اچھے مقرر ہونے کے ساتھ ساتھ مسعود حساس بلاشبہ ایک اچھے شاعر بھی ہیں۔ان کی چند غزلیں اور نظمیں نظر کے سامنے ہیں۔جن میں وہ فنی طور پر ایک پختہ کار،  اور تجربہ کار شاعر کی حیثیت رکھتے ہیں۔۔۔
آپ کو فنی اور شعری محاسن پہ عبور حاصل ہے۔تمام کلام خوبصورت الفاظ و خیال پر مبنی ہے۔بحر و اوزان پر گرفت مضبوط ہے۔الفاظ کا چناوء بھی بہترین ہے
۔
غزل نمبر 1۔۔۔۔۔
ردیف انتہائی خوب صورت اور دلچسپ ہے۔۔اور تمام اشعار میں نبھایا بھی خوب گیا ہے
"شمع ہوں میرے سر میں لگائی گئی ہے آگ
چیخوں مروں خموش پگھل جاوءں کیا کروں"
شعر بہت اچھا ہے خاص طور پر دوسرا مصرع روانی اور سلاست لیے بہت خوب ہےالبتہ شمع کے سر میں آگ کا ہونا کچھ عجیب تاثر کا حامل ہے۔۔۔۔محترم حساس صاحب ایک کہنہ مشق شاعر ہیں ۔یقینا زیر غور مصرع کے حوالے سے یقینا مدلل اسباب کے حامل ہوں گے۔

غزل نمبر 2۔۔۔۔
جدید اسلوب کی خوب صورت غزل میرے سامنے ہے۔۔بہت خوب مطلع۔۔۔حسن مطلع کمال
البتہ چو تھے شعر کا پہلا مصرع
۔۔۔۔یہ پھر سے آپ نکالے ہیں کیوں وہی موضوع ۔۔۔۔۔
میں زبان و بیان میں کسر محسوس ہوتی یے۔۔
مصرع میں" نے " کی کمی واضح طور پر ہے۔۔۔آپ نکالے کی بجائے آپ نے نکالا کسی اور باوزن صورت ترتیب میں ہونا چاہیے۔
"
غزل 3۔۔۔۔۔۔۔
بہت پیارا مطلع یے۔۔۔واااہ وااہ
تمام اشعار مفہوم و معانی کے لحاظ سے اعلی تخیلاتی اظہار و عمل کے حامل ہیں۔۔البتہ مقطع کا پہلا مصرع
۔۔۔کج فہم کو سمجھا نا عاقل اسے کہتے ہیں۔۔۔
مزید بہتر ہو سکتا ہے
باقی بے حدددددد خوب صورت غزل ہے۔۔

نظم ہمسایہ
اچھی نظم ہے۔۔۔واااہ ۔۔۔بہت خوب تاثر سحر انگیز موسم طاری کرنے والی

نظم۔۔۔۔انکشاف
پہلا مصرع ہی انتہائی سحر انگیز۔۔پوری نظم بہترین تاثر لیے ہوئے۔۔الفاظ کا چناءو روانی ۔۔۔مرصع اور پختہ نظم

مسعود حساس دور جدید کے بھر پور شاعر و نقاد ہیں۔۔۔آپ کی شخصیت علم و ادب کے لیے سرمایہ ہے۔۔۔میری دعا ہے کہ 
"اللہ کرے زور قلم اور زیادہ"
اور وہ اسی طرح علم و ادب کی ترویج و ترقی میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں۔اور اپنی زبان کی محبت کا حق ادا کرتے رہیں۔۔۔آمین
مبصر:   غزالہ انجم
----------------------------------------
محترم امین اڈیرائی صاحب پاکستان
(تین زبانوں کا شاعر)
درونِ ذات تیقن کی انتہا کو دیکھ
جنونِ عشق اگر ہے تو کربلا کو دیکھ
ہٹا کے چہرے سے اپنے ملوکیت کا غلاف
کسی غریب کی آنکھوں میں التجا کو دیکھ

اس نے جو غم کئے حوالے تھے
ہم نے تا عمر وہ سنبھالے تھے
صحنِ دل میں تمہارے سب وعدے
میں نے بچوں کی طرح پالے تھے

قیس کا نقشِ پا ملا تھا مجھے
تب کہیں راستہ ملا تھا مجھے
تیری بس ایک مسکراہٹ سے
کس قدر حوصلہ ملا تھا مجھے

رکھ دیا میں نے درِ حسین پہ ہارا ہوا عشق
آج کے بعد مری جان تمہارا ہوا عشق
چوٹ گہری تھی مگر پاؤں نہیں رک پائے
ہم پلٹ آئے وہیں ہم کو دوبارا ہوا عشق

سایہء وصل میں آؤں گا چلا جاؤں گا
ہجر کی دھوپ اٹھاؤں گا جلا جاؤں گا
مسکراتا ہے مری ذات میں رکھا ہوا دکھ
آج میں خوب رو لاؤں گا چلا جاؤں گا

محترم *امین اڈیرائی کا دلپذیر تعارف اور ان کے یہ گلہائے سخن ان کے شعور فکر و فن کے آئینہ دار ہیں جن سے مشامِ جاں معطر ہے۔ خاکسار کی جانب سے پرخلوص تبریک و تہنیت قبول فرمائیں۔
برقی اعظمی
------------------------------------جب--- 
تنقید و تبصرہ

محترم امین اڈیروائی کی غزلیں  میرے سامنے ہیں۔یوں بھی گاہے بگاہے آپ کی شاعری اور دیگر نگارشات سے فیض یاب ہونے کا موقع ملتا رہتا ہے۔۔
بے حد خوبصورت شاعر ہیں۔۔اپ کے ہاں موضوعات کا تنوع، خیال کی بلندی،شعری پختگی اور دیگر محاسن پر مکمل عبور دکھائی دیتا ہے۔بلاشبہ آپ کے کلام میں عظیم شاعری کی تمام علامات بدرجہء اتم موجود ہیں۔
مجھے آپ کی شاعری پر بات کرنے کے لیے چنا گیا اس ذمہ داری کو نبھاتے ہوئے جسارت تو کر رہی ہوں مگر خود کو کسی طور اس قابل نہیں سمجھتی ۔
میرے لیے بہت مشکل امر تھا کہ میں آپ کے کلام سے کمزور کلام ڈھونڈ نکالوں کیونکہ آپ کا سارا ہی کلام بہت خوب صورت اور مضبوط ہے۔
البتہ بمشکل چند اشعار جن میں میری ناقص رائے میں کچھ کہنے کی گنجائش ہے۔۔چنے ہیں۔۔۔مثلا

1۔۔۔درون۔ ذات تیقن کی۔۔
بہت بہت بہت اعلی تخیلاتی غزل۔۔۔واااہ کیا کہنے 
بس ایک شعر پر بات کرنا چاہوں گی
۔*****وجود خاک سراپا ہے ارتعاش امین۔۔
لبوں کے تار سے الجھی ہوئی دعا کو دیکھ

اس شعر کے پہلے مصرعے میں لفظ ارتعاش کے ساتھ میں کا ہونا لازم محسوس ہوتا ہے وگرنہ کمی رہتی ہے۔۔۔ارتعاش میں ہونا
سو یہاں ارتعاش کی بجائے لفظ مر تعش مصرعے کو مزید بہتر کر سکتا تھا

2۔۔۔اس نے جو غم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔غزل نمبر 2 کا مطلع کچھ کمزور ہیں۔۔مصرع سازی میں جس قدر الفاظ کی ترتیب نثر کے قریب ہو اتنا ہی بہتر ہوتا ہے۔۔۔مطلع کے پہلے مصرع میں یہی کمی محسوس ہوئ۔۔۔خیال بھی عام ہے۔۔۔
باقی بہترین اشعار ہیں

3۔۔۔۔قیس کا نقش پا۔۔۔۔

پوری غزل  بہت کمال  تو نہیں ۔۔۔البتہ اچھے پر تاثیر اشعار پر مبنی ہے 
البتہ بانسری کے سر چھڑنے پر شہر دل کا جلنا کچھ متلازم نہیں معلوم ہوتا۔۔۔بانسری کے سر آس کی جوت جگاتے ہیں۔یاد کی شمع جلاتے ہیں۔۔مگر دل پوری طرح جلتا نہیں۔۔۔دل کی تڑپ کا اظہار کچھ اور طرح ہونا چاہئے تھا۔۔۔بہرحال بعض اوقات شدت ہجر مکمل جلا کےخاک بھی کر دیتی ہے۔۔۔سو اس شعر میں اسی کا اظہار ہے غالبا

4۔۔۔چوتھی غزل

رکھ دیا میں نے در حسن پہ ہارا ہوا عشق۔۔۔
پوری غزل بہت خوبصورت احساسات کی عکاسی ہے
ماشاءاللہ 
سکہء وقت بدلتے ہی سبھی چھوڑ گئے
ذات کے شہر میں اک عمر سہارا ہوا عشق
دوسرے مصرعے میں روانی کچھ کم محسوس ہوئی۔باقی مصرعوں کی نسبت ۔۔خیال کی وضاحت میں بھی کچھ کمی ہے۔۔۔

5۔۔۔۔سایہء وصل میں آوءں گا ، چلا جاوءں گا
مطلع تا مقطع خوب صورت اشعار ہیں۔۔
محترم امیں اڈیروائی بلا شبہ بہترین استاد شاعر ہیں۔۔۔اللہ پاک انہیں سلامت رکھے اور ہمیں ان کے کلام سے فیض یاب ہونے کے مواقع فراہم کرتا رہے۔۔
بہت شکریہ
مبصر " غزالہ انجم
--------------------------------------- 
تنقید و تبصرہ 
شاعرِ باکمال امین اڈیرائ
تبصره   = از قلم  مائل پالدھوی(  بھارت)
====================
محترم امین اڈیرائ صاحب پاکستان کے
صوبہءسندھ سے بہت ہی معورف و کنہ مشق استاد شاعر ہے ادارہ عالمی   بیسٹ اردو  پوئٹری کے حوالےسے ایک عرصہءدراز سے موصوف سے واقفیت ہے ؛ گاہے بہ گاہے ان کی تخلیقات آنکھوں کو زینت و روح کو غذا فراہم کرتی رہتی ہے لفظوں کے  رکھ رکھاٶ  و لہجے کی شگفتگی سے  شاعر کے کمالِ فن کا اعلان ہوتا ہے  ان کے اشعار زندگی کے تجربات کو سمیٹے ہوۓ حقیقت کی عکاسی کرتے ہوۓ نظر آتے ہیں میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے ایسی شخصیت کے تعلق سے اپنے اظہار خیال کا موقع ادارءہھذا کے بانی محترم توصيف ترنل صاحب نے فراہم کیا
موصوف کی کچھ تخلیقات پیشِ نظر ہیں
غزل (١)کا مطلع  !درون!!!!جنونِ عشق !!!!!!
بہت ہی خوبصورت مطلع ہے بڑے ہی جامع انداز میں موصوف نے کہدیا شاعر ذات سے کائنات کی بات کرتاہے مطلع میں واضع طور سے بات رکھی گئ ہے کہ ذات میں یقین کی انتہا کا عالم یہ ہو کہ عشق کی بقا کے لیۓ اس کا فنا ہو جانا ضروری ہے رنگِ تصوف کے لحاظ سے بہترین شعر = مرصع
 غزل( دلی تہنیت)
غزل (2)اس نے !!!!٫ ہم نے تا عمر٫!!!!!!!
شعر کا مفہوم بہترین مگر مصرعے اولیَ زبان کی ثلاثت مجروح کر گیا ثانی بڑی روانی کے ساتھ ہواہے تھوڑی کوشش کرتے تو مذید بہتر ہو سکتا تھاباقی غزل کے تمام اشعار ٹھک ہیں

غزل (3) اس غزل کے کچھ اشعار بھلے ہی مفہوم کا تقاضہ پرا نہ کر سکے اس کے باوجود سادہ سلیس لفظوں میں کہی گئ یہ غزل  پرٗلطف ہے
غزل( 4)رکھدیا !!!!!! آج کے بعد!!!!٫٫!!!!!
مطلع تا مقطع بڑی مرصع غزل روایات کے نکھرے ہوۓ عناصرِ لطیف بھی و ندورت ساحرانہ بھی ثلاثت وروانی بھی گیرائ و گہرائی بھی (المبروک)
غزل( 5) سایہء وصل!!!!!! ہجر کی !!!٫٫٫٫!!!!
بڑا ہی رواں دواں مطلع ہے غزل بھی بہت خوب ہے لیکن مقطع کے شعر میں لفظ” قلندر “کا استمعال میری ناقص راۓ کے مطابق غلط ہو گیا
لفظ قلندر کے معنی تو کئ ہوتے ہیں لیکن عام طور سے اصطلاح میں اس کے جو معنی اخذ کیۓ جاتے ہیں وہ ہے ایک ایسا مست فقیر جو روحانی ترقی یہاں تک کر گیا ہو کہ اپنے وجود اور علائق دینوی سے بے خبر اور لا تعلق ہوکر ہمہ تن خدا کی یاد میں متوجہ رہتاہو اور تکلیفاتِ رسمی کی قیود سے چھٹکارا پاگیا ہو شعر میں اگر یہ معنی لیۓ جاۓتو قلندر کبھی سوتاہی نہیں چہ سونے کی جو علامت ہے وہ لاپرواہی بے خبری ہے  غفلت ہے 
موصوف اگر لفظ قلندر کی جگہ لفظ آدمی یا کسی اور لفظ کا استمعال کر لیتے تو مفہوم کے لحاظ سے شعر درست ہوجاتا نیز اگر موصوف نے قلندر کے کچھ اور ہی معنی لیۓ ہو تو پھر ان کے حساب سے شعر درست ہوسکتا ہے بحر کیف 
میں موصوف کی فنی صلاحیتوں کو سلام کرتا ہوں کہ انہوں نے بڑی تازہ کاری سے اپنے احساسات کی  جو ترجمانی کی ؛ادبی حلقے میں اس کی ضرور پذیرائی ہونی چاہیے
----------------------------------------
یہ پروگرام دو گھنٹوں سے زیادہ دیر تک چلا سبھی سامعین و ناظرین نے شعرا کے کلام پو دل کھول کر دار و تحسین پیش کی آخیر میں صدرِ مشاعرہ محترم سید ایاز مفتی صاحب نے صدارتی خطبہ پیش کر اور مشاعرے کے اختتام کا اعلان کیا

خطبہ ء صدارت 
سامعین ذی وقار ، اور شعرائے والا تبار 
آج کے مہمان خصوصی ، صاحبان ذی شان، ناقدین شعرائے کرام ، مبصرین کرام ، منتظمین و معاونین کرام !
آج یعنی مورخہ اٹھائیس/28 جولائی ۲۰۱۸  کو ادارہ، عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری ، کی جانب سے 163 ویں منفرد عالمی تنقیدی پروگرام بنام ایک عالمی شام چار شعراء کے نام کے کامیاب انعقاد اور انتظام و انصرام پر بطور صدر   محفل میں دل کی بہتر دھڑکنوں کی جانب سے اور دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوںاور اس ضمن میں ادارہ کے چیف آرگنائزر جناب توصیف ترنل صاحب ، امین جس پوری صاحب مدظلہ العالی اور دنیا بھر میں ادارہ  کے تمام معاونین و محبین کو تمام مہمانان ذی احترام کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ بالخصوص ان تمام شعراء کی ہمت و جراءت کو بھی سلام پیش کرتا ہوں ۔ جنہوں نے اپنا کلام برائے تنقید پیش کیا اور ان تمام ناقدین کا بھی مشکور ہوں ۔ کہ جن کی شرکت اور خوبصورت ادبی ،اور فنی لحاظ سے دی گئی قیمتی آراء کے بغیر یہ کامیابی ممکن نہ تھی۔ ایک بات یاد رکھیئے کہ عروج ادب مثبت اور تعمیری تنقید  کے بغیر ممکن نہیں ہےکیونکہ تنقید کے حسن سے ہی تو لیلائے اردو ادب کی زلفوں کا حسن دو آتشہ ہوتا ہے…
اور یہ کار خیر ادارۂ ہٰذا بڑے تسلسل اور جانفشانی کے ذریعے کررہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی سطح پر کامیابی در کامیابی ادارۂ ہٰذا کی شہرت کو چار چاند لگارہی ہے اور یہ شہرت نہ صرف ادب کے سنہری صفحات میں انہیں ہمیشہ یاد رکھے گی بلکہ یہ ادبی خدمت انہیں اوج ثریا مقدور کرے گی۔ ایک اپنا شعر یاد آگیا ؎
ایک سے ایک ہونگے دنیا میں
مفتی ہم سا نہ دوسرا ہوگا
ادارہ: عالمی بیسٹ اردو پوئٹری،
یوں تو اقلیم سخن میں بہت سے ادارے ادب کے فروغ کے لئے کوشاں ہیں ۔ مگر کچھ ادارے اپنی انفرادیت اور ہیئت کے اعتبار سے لاکھوں کی بھیڑ میں بھی جا نے اور پہچانے جاتے ہیں ۔ اور بیسٹ اردو پوئٹری کا ادارہ بھی ان گنے چنے اداروں میں سے ایک ہے ۔یہ ادارہ، جو عالمی بیسٹ اردو پوئٹری کے نام سے جانا اور پہچانا جاتا ہے ۔ دورِ حاضر میں دنیا کا منفرد ادارہ ہے جو اِس برقی ترقی یافتہ دَور میں شعراء، نظم کے شہسواروں ا و رمُصنفینِ زبانِ اردو ادب کی ذہنی آبیاری کرتا ہے … ادارۂ ہٰذا میں بیشتر پروگرامز برائے تنقید کئے جاتے ہیں… عالمی سطح پر کامیابی کے ساتھ ادبی تنقیدی پروگرامز کا انعقاد یقیناً ادارۂ ہٰذا کی انفرادیت،مقبولیت کا منہ بولتا ثبوت ہے …
اللہ جل شانہ سے دعا گو ہوں کہ بانئ ادارہ جناب محترم توصیف ترنل صاحب کی زیرِ سرپرستی، کامیابی کا یہ منفرد سفراسی رفتار سے جاری و ساری رہے ۔ 
ناظم مشاعرہ کا شکریہ:- 
آخر میں اگر میں ناظم ، مشاعرہ محترمہ محترمہ ثمینہ ابڑو پاکستان کا شکریہ ادا نہ کروں ۔ تو تشنگی رہ جائے گی ۔ انہوں نے بہت ہی احسن طریقے سے اس عالمی مشاعرے کی نظامت کی ۔ آخر میں اپنے کلام سے کچھ چنیدہ چیزیں آپ کی نذر کرتا ہوں ۔ ایک دو غزلیں تحت میں اور ایک دو ترنم سے ۔امید ہے صاحبان ذوق کو پسند آئے گا ۔ میرے کلام کے بعد ناظم مشاعرہ آفیشلی طور پر مشاعرے کے اختتام کا اعلان کرسکتی ہیں ۔ 
غزلیات سے پہلےاس موقع پر میر ی جانب سے دو خصوصی اشعار ادارہ ہٰذا اور توصیف ترنل صاحب کی خوبصورت کاوش کی نذر 
سارے جہاں کے اہل ادب کو مرا سلام 
آیا تھا چاند تاروں کے ہمراہ   آج شام 
توصیف  چننے لگتا ہے کلیاں نشاط کی 
تنقید اور کلام جو ہوتے ہیں ہمکلام
سیّد ایاز مفتی، ہیوسٹن

Tuesday, July 24, 2018

جشنِ ادارہ پارٹ ٹو 162 واں عالمی تنقید ی پروگرام


*رپورٹ ایڈوکیٹ متین طالب ناندورہ بھارت*

*ادارہ، عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری* دورِ حاضر میں دنیا کا واحد ادارہ ہے جو اِس برقی ترقی یافتہ دَور میں شعراء, ادباء و مُصنفینِ زبانِ اردو ادب کی ذہنی آبیاری کرتا ہے اور نئے نئے لسّانیاتی پروگرامز منعقد کرتا ہے. ادارۂ ھٰذا میں تمام تر پروگرامز برائے تنقید کئے جاتے ہیں. عالمی سطح پر کامیابی کے ساتھ ادبی تنقیدی پروگرامز کا انعقاد یقیناً ادارۂ ھٰذا کی انفرادیت, مقبولیت نیز کامیابی کی ضمانت ہے. 

بانئ ادارہ جناب محترم توصیف ترنل صاحب کی زیرِ سرپرستی، کامیابی کے اس منفرد سفر کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے ادارے کی جانب سے 21َ جولائی 2018 بروز ہفتہ, شام سات بجے 162 واں پروگرام بہ عنوان *"جشنِ ادارہ" (کچھ اپنے بارے میں کچھ ادارے کے بارے میں)Part2* ، منعقد کیا گیا.اس یادگار محفل کی صدارت بھارت سے تعلق رکھنے والے   محترم المقام احمد علی برقی اعظمی صاحب نے فرمائی ہیں. محترم احمد علی برقی اعظمی صاحب دنیائے ادب کی مقبول ترین شخص ہیں جنہیں ان کی ادب خدمات کے اعتراف میں اردو اکادمی دہلی ایوارڈ کتاب، فخر اردو ایوارڈ، توصیفی سند، خواجہ الطاف حسین حالی ایوارڈ، مولانا محمد علی جوہر ایوارڈ، اور لوح تقدیر، جیسے کئی ایوارڈ اور اسناد سے نوازا گیا ہے.اس محفل محترم مسعود حسّاس صاحب نے انھیں *عبقری* نے لقب سے نوازا ہیں. اس محفل کے مہمانانِ خصوصی محترم ڈاکٹر نبیل احمد نبیل لاہور پاکستان   محترم مائل پالدھوی بھارت محترم احمد کاشف، بھارت اور محترمہ ڈاکٹر مینا نقوی۔مراداباد۔ بھارت مہمانانِ اعزازی محترم ڈاکٹر فرحت عباس اسلام آباد پاکستان 
محترم ادیب ظہیر عباس ہنگری. اس پروگرام میں خاص طور پر محترم ڈاکٹر نبیل احمد نبیل صاحب کی کتاب  "کلّیاتِ بانی: تحقیق و تدوین" کی رونمائی انجام دی گئ ہے. اس کتاب کا ملنے کا پتہ   دارالنوارد/کتاب سرائے، الحمد مارکیٹ، غزنی اسٹریٹ، اُردو بازار، لاہور ہے. 
پہلے حصے کی  نظامت کے فرائض *محترمہ ثمینہ ابڑو صاحبہ (پاکستان)*  نے انجام دی اوراپنے منفرد لب ولہجہ سے اِس جشنِ بہاراں میں چار چاند لگائی. اور دوسرے حصے کی نظامت کے فرائض *محترم علیم طاہر صاحب بھارت* نے انجام دیئے. اور محترم علیم طاہر صاحب نے ہمیشہ کی طرح سبھی شرکاء محفل کو اپنے منفرد لب و لہجے سے اپنی طرف متوجہ کیا. بطور آرگنائزر پروگرام کا نظم ونسق بندۂ ناچیز ایڈوکیٹ متین طالب ناندورہ بھارت کے ذمّہ رہا...

محفلِ جشنِ بہاراں (دوسرا حصہ) کا باقائدہ آغاز ربِّ ذوالجَلال کی حَمد وثنا کے ساتھ ہوا. محترم فانی ایاز احمد جمو کشمیر نے حمد پاک پیش کرکے محفل کو بابرکت بنایا. اور اپنی حمد میں ایک جگہ یوں فرمایا. 

 بڑا کرم ہم پر ہ تیرا ہے خدایا
 ‎                                   ہمیں بھی تو نے ایک انساں بنایا 

 محترم فانی ایاز احمد جمو کشمیر
 ‎

صدرِ محترم احمد علی برقی اعظمی صاحب کی کلامِ بلاغت سمجھنے کے لئے یہی شعر کافی ہے. وہ فرماتے ہیں کہ 

جھگڑا ہے کہیں رنگ کہیں نسل کا برقیؔ 
اک یورشِ آفات اِدھر بھی ہے اُدھر بھی

احمد علی برقیؔ اعظمی

 مہمانِ خصوصی محترم ڈاکٹر نبیل احمد نبیل صاحب کا نمونۂ کلام 

دل مرا جس کے لیے نغمہ سرائی مانگے
مجھ سے وہ شخص محبت میں خُدائی مانگے
کبھی جنّت کو بھی تقسیم کیا جاتا ہے
ماں کی خدمت سے بھی حصّہ مرا بھائی مانگے

ڈاکٹر نبیل احمد نبیل

مہمانِ خصوصی محترم مائل پالدھوی صاحب  کا نمونۂ کلام...کہ

ہر ایک خواب سے بےدار کر دے بانگِ درا
خدا کرے تجھے ضربِ کلیم کم نہ پڑے

 مائل پالدھوی بھارت

مہمانِ خصوصی محترم  احمد کاشف صاحب  کا نمونۂ کلام...کہ

زباں سے نکلا ہر ایک جملہ، تمھارا ہے ترجمان بابا
سنبھل کے بولو پھسل نہ جائے، زبان پھر ہے زبان بابا

 احمد کاشف، ناندورہ، مہاراشٹر

مہمانِ اعزازی محترمہ ڈاکٹر مینا نقوی صاحبہ کا نمونۂ کلام...کہ

توریت کی ہیں مثل نہ انجیل کی طرح
ہم علم میں ہیں سوکھی ہوئی جھیل کی طرح

ڈاکٹر مینا نقوی۔۔۔۔مراداباد۔۔۔بھارت

مہمانِ اعزازی محترم ڈاکٹر فرحت عباس  صاحب کا نمونۂ کلام...کہ

ہجر کی دھوپ اور دھواں دل کا
جل  گیا  ہے  رُواں  رُواں دل کا 

ڈاکٹر فرحت عباس

مہمانِ اعزازی محترم ظہیر کاظمی صاحب کا نمونۂ کلام...کہ
اندھے غلام
اٹھو اے غلامو کہ زنجیر توڑو
اسیری کے زندان میں رہنا چھوڑو
جہالت کے طوفان کو اب تو موڑو
یہ حق ہے تمھارا، چلو،اٹھو،دوڑو

ظہیر کاظمی

قارئین اکرام دیگر معزز شعرائے عالم کا نمونۂ کلام پیشِ خدمت ہیں...

یہ زمیں تو رسولوں کی نبیوں کی تھی،یہ زمیں دیوتاؤں کی جنّت بھی تھی
اُن پہ نازل صحیفے کہاں کھو گئے،آگ نفرت کی ہر سوٗ بھڑکنے لگی
امین جس پوری بھارت 

اسے  خوشی  ہو یا چاہے ملال ، جو بھی ہو 
مجھےتو رکھنا ہے اس کا خیال جو بھی ہو

نصیر حشمت گرواہ چنیوٹ پاکستان

ادھڑی ادھڑی نیندوں میں ہیں  بکھرے بکھرے خواب
ملبے   جیسے   ادھر  ادھر   ہیں  سہمے   سہمے   خواب

علیم طاہر بھارت 

ہم نے اتنی شائستہ زندگی گزاری ہے
گر لکھیں سوانح تو ادبیات ہو جائے

عقیل احمد رضی ممبئی انڈیا

انکے دامن میں بھی چھینٹے کئی آئیں گے وسیؔم
آبرو کا ہے یہ سکہ نہ اچھالا جائے

وسیم احسن  بِہار (بھارت)

جو بھی چاہا وہ مل گیا اصغر
پھر بھی لگتا ہے کچھ کمی ہے ابھی

اصغر شمیم، کولکاتا،بھارت

اشک بن کر بھی ڈھلتا نہیں ہے 
درد  دل  سے نکلتا  نہیں  ہے

عاقب فردوس /. واحد بھدروہی

====================================
 ادارے عالمی اردو بیسٹ پوئیٹری کی طرف سے پیش ہے.  

🔍🔍🔬  *تنقید و تبصرہ* 🔬🔍🔍

ٹائپسٹ :-  ایڈوکیٹ متین طالب ناندورہ بھارت

 شاعر :- محترم ایاز فانی احمد صاحب 

 اچھا مطلع کہا ہے.  لیکن کرم کی بجائے "کَرْمْ" باندھ دیا ہیں.  جس کی بنیاد پر مصرع بحر سے خارج ہو گیا ہے.  ایسی صورت میں انہیں نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے.  اگلے شعر میں  دوسرے مصرعے کے اندر "نہ" اضافی ہوگیا.  ایسی صورت میں یہ مصرع بھی بحر سے خارج ہوگیا ہے.  ان کے بقیہ اشعار موزوں ہیں لیکن یہاں محسوس ہو رہا ہے کہ یہ غزل نہیں بلکہ حمدیہ نظم ہے.  ایک شعر میں منظر کشی بہت اچھی ہے اور بیانیہ بھی بہت اچھا ہے.  کچھ جگہوں پر واحد جمع کے صیغے کا بھی مسئلہ ہے.  اگر اسے نظم کی شکل میں تصور کیا جائے تو یقینی طور پر ابتدا سے لے کر  جو بقیہ اشعار ہیں  وہ تمام ہی ایک دوسرے سے مربوط نظر آتے ہیں .  اور آخر میں انہوں نے نتیجہ واضح کیا ہیں.   بہترین بات یہ نظر آئی کہ یہ نظمیہ کے طور پر  ایک مکمل حمد ہوگئی ہے.  اور اگر اس کو غزلیات کے انداز سے دو دو مصرعے کے ذریعے اپنی بات کی تکمیل والا سلسلہ سمجھا جائے تو یقینی طور پر بات  درست  نظر نہیں آتی. 
     مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ یہ ابتدائی مرحلے میں ہیں.  انہیں چاہیے کہ کسی استاد سے ملاقات کریں اور ان سے الفاظ کو برتنے کا سلیقہ سیکھیں. 

تنقید نگار :- محترم استاد مسعود حسّاس صاحب

====================================

 شاعر اصغر شمیم  صاحب  کلکتہ 

 اپنے حصے کی روشنی ہے ابھی  
دھوپ آنگن میں بچی ہے ابھی

 ماشااللہ چھوٹی بحر بڑی بات. عمدہ مطلع. 

  عیب تیرا میں ڈھونڈتا کیسے 
 مرے اندر بھی کچھ کمی ہے ابھی 

 بہت خوب اس معنی میں بھی کہ اس کے اندر عیب جوئی نہیں بلکہ خود بینی کا مادہ  پایا جاتا ہے. 

 سانس لینے کی بھی نہیں فرصت  
 اتنی مصروف زندگی ہے ابھی 

 دورے جدید کے اندر اس طریقے کے اشعار بڑی کثرت سے ملتے ہیں.  اور اس کو دور جدید کے اندر پچھلے پانچ سات سال  میں اتنا زیادہ برتا گیا ہے کہ دور جدید کے اندر اسے فرسودگی کا  تمغہ  مل چکا ہے.  اس لیے اس  اس شعر کو  دوسرے انگل سے کہہ لیتے تو اور جدت طرازی پیدا ہوجاتی.  باقی اشعار بہت عمدہ ہیں. 

تنقید نگار:- محترم استاد مسعود حسّاس صاحب 
====================================

 شاعر  مائل پالدھوی

 خیال و فکر کہانی کی تھیم کم نہ پڑے 
 کوئی بھی چیز کو رب کریم کم نہ پڑے 

 مطلع اچھا فرمایا.   رب کریم کا قافیہ  تھیم ایسا لگ رہا ہے کہ یہ اینگلو انڈین غزل ہو گئ.  تیسرے شعر میں بانگ درا اور ضرب کلیم کی مدد سے  علامہ اقبال کی روح کو تسکین  پہنچائی ہیں .اچھی غزل ہے  لیکن یہ اینگلو 
 انڈین غزل ہو گئ ہے واہ واہ  بہت خوب. 

تنقید نگار:- محترم استاد ضیاء شادانی صاحب 

====================================
 شاعر علیم طاہر صاحب 
       علیم طاہر صاحب کی غزل ہے جو محاکاتی ہے انہوں نے  بذات خود لکھا ہیں . اول  سب سے پہلے غزل کو سمجھنے کے لیے تین چیزوں میں نظر دوڑانی پڑتی ہے.  آیا غزل کے اندر جو مطلع میں بحر کو ظاہر کیا گیا ہے.  بحر کے ساتھ میں ایک دوسری چیز کا علائقہ ہے ہونا چاہیے  جسے ہم قافیہ اور ردیف کہتے ہیں.  بحر، قافیہ اور ردیف کا مطلع میں جو میں اعلان کیا گیا  آیا بقیہ اشعار کے اندر ان کا التزام برتا  ہے یا نہیں ہے.  اگر  التزام  نہیں  برتا  گیا تو یقینی طور پر  ان اشعار کو درست نہیں کہا جائے گا. 
 اور مجھے اس غزل میں  یہ بات واضح نظر آئی  کہ اس کے اندر   دعوٰی  سمجھ میں ہی نہیں آیا  کہ دعویٰ کا معیار کیا ہے.  لیکن یہ غزل بڑی حد تک "فعلن فعلن فعلن فع فعلن فعلن فعلن فع"  کے اوزان پر نظر آرہی ہے  لیکن جب میں نے اس کو تقطیع کرنے کی کوشش کی تو  میرے یہ سمجھ میں آیا کہ یہ اس کے معیار پر بھی پوری نہیں اتر رہی ہے.  غزل کا جو پہلا مسئلہ ہے کہ وہ  اپنے مروّجہ وزن پر پوری اترتی ہے یا نہیں  تو میرے نزدیک یہ غزل اس کے اوپر پورے نہیں اتر رہی ہے  یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ علیم طاہر صاحب ایک کہنہ مشق انسان ہیں .علیم طاہر صاحب ایک کہنہ مشق شاعر ہیں اور ان کے تعلق سے یہ بات واضح ہے کہ ان کے استعارے، علائم، علامتیں اور اس کے علاوہ شعری لوازمات بہت ہی پختہ انداز میں موجود ہوتے ہیں. اور ان کی تعریف نہ کرنا ہمارے جانب سے بخیلی ہوگی. بسا اوقات ان کے شعروں کے اندر ایسی باتیں نظر آتی ہے جس محسوس ہوتا ہے کہ تجسس کا اور بیانیہ کا ایک نیا زاویہ انھوں وا کردیا ہے. بہرحال میں علیم طاہر صاحب کو میری جانب سے بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں.  ہو سکتا ہے انہوں نے کوئی ایسی بحر کو  لیا ہو گا  جس میں انہیں چابک دستی حاصل ہو گی. یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ بحر ہمارے جیسے نو آموز لوگوں کی نگاہ سے گزری ہی نہ ہو.
 ‎ ایسی صورت میں مَیں یہ کہوں گا کہ کسی صاحب  پتہ ہو یا  بذات خود علیم طاہر صاحب  اس کے اوپر روشنی ڈال دیتے کہ مطلع کے اندر انہوں نے کونسے وزن کا اعلان کیا ہیں.  اور کس اصول کی بنیاد پر مع بقیہ  اشعار اس کے  اوپر فٹ سمجھتے ہیں.
 ‎
     تنقید نگار :- محترم استاد مسعود حسّاس صاحب 

====================================

 شاعر :- محترم احمد کاشف صاحب 
 زباں سے نکلا ہر ایک جملہ تمہارا ہے ترجمان بابا 
  سنبھل کے بولو پھسل نہ جائے زبان پھر ہے زبان بابا 

  اچھی بات ہے مگر  سنبھل کے بولو پھسل نہ جائیں زبان پھر ہے زبان  بابا "زبان پھر ہے زبان بابا"   کی بجائے  زبان آخر زبان ہے بابا  ہونا چاہیے تھا. 

 سیاسی لوگوں کی انجمن سے نکل کے آئے ہو آج شاید 
 ہر  ایک  لحظہ  بدل  رہا  ہے تمہارا  ترجمان   بابا 

" لحظہ لکھ  دیا ہے آپ نے   یہ "لہجہ" ہونا چاہیے تھا.  آپ نے اچھی غزل فرمائی ہیں.  بابا ردیف نے  کچھ کام بھی کیا ہے مجموعی طور پر اچھی غزل ہے.  بہت خوب.

 تنقید نگار :- محترم استاد ضیاء شادانی صاحب 
 ‎
===================================

شاعر :- محترم نصیر حشمت صاحب 

نصیر حشمت صاحب فرماتے ہیں کہ 2009 میں تک بندی شروع کی لیکن  2016  سے باقاعدہ شاعری سیکھنا اور لکھنا شروع کیا. کافی کچھ سیکھنے کو ملا. اس بات سے یہ انکشاف ہوا کہ کم وقت میں اگر کوئی شخص اتنے اچھے اشعار کہہ سکتا ہےتو مبارکباد کا مستحق ہے. خاص طور پر ان کا ایک شعر.... 

تیرا کلام سحر طاری کرتا ہے
مجھے پسند ہے تیرا خیال جو بھی ہو 

اور بھی بہت سارے اشعار میں عمدہ تشبیہات کا استعمال کیا ہیں. اتنے کم عرصے میں اتنے اچھے اشعار کہنا یہ اچھے شاعر کی علامت ہے. اور واقعتاً مبارکباد کے مستحق ہیں. اللہ انھیں اور کامیابی عطا فرمائے آمین. 

تنقید نگار :- محترم استاد ضیاء شادانی صاحب

====================================

 شاعر :- محترم عاقب فردوس صاحب 
   عاقب فردوس صاحب کی غزل پیش نظر ہے 

  اشک بن کر بھی ڈھلتا نہیں ہے   
 درد   دل سے نکلتا نہیں ہے 
 جو مطلع ہے اس کی پختگی اور مضمون کے ساتھ اس کی آسودگی  یہ قابل دید ہے. 

 جب سے دیکھا ہے ان کو ٹھہر کر
 تب سے دل یہ سنبھلتا نہیں ہے  
یہاں پر بتا دیا انہوں نے کہ واقعتاً یہ ابھی ابتدائی درجے کی شاعری کر رہے ہیں. اور  اور ابھی گھٹنوں کے بل چل رہے ہیں. بقیہ اشعار اچھے ہیں. لیکن مقطع میں 
 اب محبت تو ہوتی ہے واحد
دل یہ لیکن دھڑکتا نہیں ہے 
 لفظ "اب" پہلے مصرعے کے اندر  اور "دل" کے بعد میں لفظ "یہ" کا آنا  یہ دونوں ایک حشو قبیح ہے اور دوسرا حشو عام ہے.  اور دونوں چیزوں نے ملا کر کے شعر کو  مجروح کر دیا ہیں.اس لئے بہتر یہ ہوگا کہ مشق بھی کی جائے  مطالعہ بھی کیا جائے  اور لوگوں سے مشورہ بھی کیا جائے. 
تنقید نگار :- محترم استاد مسعود حسّاس صاحب

====================================

 شاعر :- محترم امین جس پوری صاحب 

 امین جس پوری صاحب کی غزل پیش نظر ہے  امین جس پوری صاحب کہنہ مشق اور محنت کشیدہ   اور نجانے  کتنی ہی خوبیوں کے حامل شخص ہیں.  ان کے شعروں کو پڑھ کر کے نئی نسل جوان ہوئی ہے.  آئیے ان کی غزل بھی گفتگو کرتے ہیں. 

 میں کیا ٹھہرا دریچے تلے چاند کے شوخ حجلے کہ  چلمن سرکنے لگی 
 ‎
 مجھ کو لگتا ہے کہ یہاں پر کتابت کی غلطی در آئی ہے.  ورنہ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ ایک ایسا شخص   جسکی عمر 60  70 سال کے اریب قریب کے ہو. اور وہ آدمی  معمولی بات کے اوپر پھسل جائے.  اس کی وجہ یہ ہے "میں کیا ٹھہرا"  لفظ "کیا" انھوں نے استعمال کیا ہے  لیکن صوتی آہنگی سے "کہ"  کی دلیل بن رہی ہیں.  ایسی صورت میں انہیں کہنا چاہئے تھا. 
 "کیا میں ٹھہرا دریچے تلے چاند کے" 

اس کے گجروں کی لہروں میںمدہوش کن، ایک خوشبو کا طوفان سا آگیا
میں دیکھا دھنک ٹوٹتے ٹوٹتے رہ گئی اور فضا بھی مہکنے لگی
      اس غزل کا بیانیہ بڑا ہی خوبصورت ہے. اس میں کوئی شبہ نہیں رومان پروری کی اعلی مثال ہے.   یہ بحر ہی  رواں دواں ہے  اس بحر کے اندر جب کوئی ماہر علم فن اور  ماہر عروض  اور اردو زبان پر دسترس رکھنے والا  شخص کلام کرتا ہے تو واقعتا ایسا محسوس ہوتا ہے  جیسے کوئی دھن بجائی جارہی ہے اور اس کے  اوپر ناگن تھرکنے  لگی ہے.  مجھے بھی ایسا آج محسوس ہو رہا ہے.
   
   تنقید نگار :- محترم استاد مسعود حسّاس صاحب 

 ====================================

شاعر:-  محترم وسیم احسن صاحب 

جناب وسیم احسن کے مطلع میں کچھ مسئلہ ہے 

پھر سے اے دوست کیا ہاتھ ملایا جائے 
اور سارے ہی گلے شکوے بھلایا جائے 
یہ زبان نہیں ہے.   گلے شکوے بھلایاجائے نہیں بلکہ گلے شکوے بھلائے جائیں.  آگے بھی اسی طرح ایک آدھ شعر میں 

 اب تو آ  کر کے ذرا دید کرادے 
 "آ کر کے" شاید ہندوستان میں  اس طرح ہو لیکن معیاری اردو میں نہیں ہے.  اسی طرح 

ان کے رخسار سے زلفوں کو ہٹایا جائے 
 آج اس طرح میرا ہوش اڑایا جائے

 ایسا نہیں ہونا چاہیے بلکہ میرے ہوش اڑائے جائیں.  مجھے لگتا ہے عجلت میں کہی ہوئی غزل ہے. 

تنقید نگار :- محترم استاد شہزاد نیر صاحب 

====================================

 شاعر :- محترم اصغر شمیم صاحب 
 محترم اصغر شمیم صاحب کی غزل پیش نظر ہے. 

اپنے حصے کی روشنی ہے ابھی 
  دھوپ آنگن میں بچی ہے ابھی 

 خوبصورت مطلع ہے.  

اے ہوا دیکھ شور مت کرنا 
میری بستی میں خاموشی ہے ابھی 

  بہت خوب ہے. غزل کے مصرعے اچھے ہیں. غزل کے مصرعے نپے تلے ہیں. الفاظ کا چناؤ، الفاظ کی ترتیب   قابل داد ہے.  صرف ایک مصرع  ڈھیلا ہے 
سہمی سہمی سی موت بھی ہے ابھی 

 "سی"  "بھی" "ابھی" یہاں بھی مجھے لگتا ہے  تھوڑا سا دیکھ لیں. غزل  اچھی ہے 
 معنی کے اعتبار سے بھی.مقطع بہت اچھا ہے
 جو بھی چاہا وہ مل گیا اصغر 
 پھر بھی لگتا ہے کچھ کمی ہے ابھی 

تنقید نگار :- محترم استاد شہزاد نیر صاحب

====================================

 "جشنِ ادارہ، عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری" پارٹ ٹو کے اس مبارک موقع پر بحیثیتِ نقاد و مبصر  کویت سے کہنہ مشق شاعر و تنقید نگار  محترم المقام استادِ محترم مسعود حسّاس صاحب، پاکستان سے کہنہ مشق شاعر و نقّاد محترم شہزاد نیّر صاحب، بھارت سے کہنہ مشق شاعر و نقّاد محترم انور کیفی صاحب اور  بھارت سے کہنہ مشق شاعر و نقّاد محترم ضیاء شادانی صاحب پروگرام میں 
شامل تھے. جنھوں نے اپنے کمالِ علم وفن، عروضی مہارت و ذہنی استعداد کے مطابق، بلا تفاوت شعراء کے کلام کا بغور مطالعہ کیا اور اپنی بیش قیمتی آراء سے شعرائے عالم کو مستفید فرمایا.جسے تخلیق کارانِ کلام نے بہ شکریہ خندہ پیشانی سے قبول کیا. اسطرح برقی ادبی دنیا کی تاریخ میں مزید ایک منفرد کامیاب پروگرام نے ادارۂ عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری کی شان میں اضافہ کردیا. 

بین الاقوامی سطح پر حالیہ منعقد *"جشنِ ادارہ" (کچھ اپنے بارے میں کچھ ادارے کے بارے میں*  پارٹ ٹو ،پروگرام کے ذریعہ بہترین ادبی کارنامہ سر انجام دیا گیا ہے جس نے ادب و ثقافت کو جلا بخشی اور طے پایا کہ ادب اس مُشک کی مانند ہے جس کی خوشبو بِلا تفاوت ہر سمت پھیلتی ہے... اس تاریخی پروگرام میں شریک معزّز خادمینِ اردو ادب اور تمامی رفقائے بزم کو ادارے کی جانب سے مبارکباد پیش کرتا ہوں... نیز ادارۂ ھٰذا کی  بے لوث ادبی خدمات کیلئے ہدیہ تبریک پیش کرتا ہوں. اور اللہ سے دعاگو ہوں کہ اللہ ادارے کو دن دوگنی رات چوگنی ترقی ہمکنار کرے. آمین ثم آمین. 

✍احقرالعلوم....
     *ایڈوکیٹ متین طالب ناندورہ بھارت*
     *ضلع,بُلڈانہ,مہاراشٹر(بھارت)...*

Monday, July 16, 2018

پارٹ ٹو جشنِ ادارہ، عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری




🌍"ادارہ، عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری" 
کی جانب سے پیش کرتے ہیں 161 واں منفرد پروگرام* 
پارٹ ٹو

*پروگرام بعنوان* 
*🌷جشنِ ادارہ، عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری🌷*
*(کچھ اپنے بارے میں کچھ ادارے کے بارے میں)*

ادارۂ ھٰذا دنیا کا واحد ادارہ ہے، جو اس برقی ترقی یافتہ دور میں شعراء,ادباء و مصنفینِ زبانِ اردو ادب کی ذہنی آبیاری کرتا ہے اور نئے نئے لسانیاتی پروگرامز منعقد کرتا ہے... جن میں تنقید و تبصرے، ادبی ایوارڈ، توصیف نامے وغیرہ سے لے کر اخبارات، رسائل وجرائد کے ساتھ ساتھ برقی تشہیر بھی ایک منظّم طریقۂ کار کے ذریعے انجام دی جاتی ہے... ادارے کی جانب سے عالمی ماہنامہ "آسمانِ ادب" کی اشاعت بھی قابلِ تحسین ہے جو مدیرِ اعلیٰ محترم امین جسپوری صاحب(بھارت) کی بے لوث خدمات کا  ثمرہ ہے... غرض کہ ادارۂ ھٰذا دنیا کا واحد برقی ادارہ ہے جس نے قلیل مدّت میں کامیاب سفر طے کر کے برقی ادبی دنیا میں اپنا لوہا منوالیا ہے، جس میں تمامی انتظامیہ و اراکین کا ہمہ وقت ساتھ رہا... ساتھ ہی اس کامیاب سفر کے روح رواں، دلچسپ شخصیت کے مالک، ادارے کے بانی و چیئرمن جنابِ محترم توصیف ترنل صاحب خصوصی مبارکباد کے مستحق ہیں...  
ادارے کی جانب سے اب تک ۱۶۰ منفرد، کامیاب پروگرامز منعقد کئے جاچکے ہیں، جن کی تفصیلی  کارگزاریاں/معلومات آپ کو google search engine پر میسّر آجائےگی... اِنھیں بے شمار مسلسل ادبی خدمات کے مدِّنظر، اِس بار ادارے کی جانب سے پیش کرتے ہیں 161 واں منفرد آنلائن مشاعرہ بعنوان...
*جشنِ ادارہ، عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری* 
(کچھ اپنے بارے میں کچھ ادارے کے بارے میں)* 
یہ پروگرام مورخہ، 21 جولائی 2018، بروز ہفتہ(سنیچر)، *پاکستانی وقت 7:00 بجے* اور *ہندوستانی وقت 7:30 بجے* شروع کیا جائے گا، *جس میں شعراء، اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ساتھ اپنی ایک کاوش(نثر/نظم) اور ادارے سے متعلق اپنے تاثرات (کمبائن میسیج بناکر دورانِ مشاعرہ) پیش کریں گے...* جس پر ناقدین اور مبصّرین اپنی بیش قیمتی آرا سے مُستفید فرمائیں گے... پروگرام میں حصہ لینے نیز اپنی شرکت یقینی بنانے کیلئے اپنا اور جگہ کا نام ارسال فرمائیں...

============================
*We present 161th Unique Program*
آپ تمامی ذی وقار شعراء و اراکینِ بزم سے مؤدبانہ گذارش ہے کہ وقتِ مقرہ پر تشریف لاکر پروگرام کو رونق بخشیں، اور ادارہ کو شکریہ کا موقعہ عنایت فرمائیں... 
*نوٹ :-  تمام شعراء اپنا کلام برائے تنقید پیش کرینگے*

============================
*🌍منجانب🌍* 
انتظامیہ ادارہ، عالمی بیسٹ اردوپوئیٹری

🔬ناقدین 
محترم شفاعت فہیم بھارت
محترم انور کیفی۔۔مراداباد۔۔بھارت
محترم ضیاء شادانی بھارت 
============================

*پروگرام آرگنائزر*
ایڈوکیٹ متین طالب ناندورہ بھارت

============================

*👑صدارت👑*
محترم ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی بھارت 

*🎓مہمانانِ خصوصی🎓*
رونمائی کتاب
 کلّیاتِ بانی: تحقیق و تدوین: 
محترم ڈاکٹر نبیل احمد نبیل لاہور پاکستان 
ملنے کا پتا: دارالنوارد/کتاب سرائے، الحمد مارکیٹ، غزنی اسٹریٹ، اُردو بازار، لاہور
محترم مائل پالدھوی بھارت
محترم احمد کاشف، بھارت 

*👒مہمانانِ اعزازی👒*
محترمہ ڈاکٹر مینا نقوی۔۔۔ مراداباد۔۔۔ بھارت 
محترم ڈاکٹر فرت عباس اسلام آباد پاکستان 
محترم ادیب ظہیر عباس ہنگری
============================

*🎤نظامت 🎤*
محترمہ ثمینہ ابڑو پاکستان 
*1 سے 10...* 

محترم علیم طاہر صاحب (بھارت)
*11 سے 20...*

*✍رپورٹ ✍*
ایڈوکیٹ متین طالب ناندورہ بھارت

*📝مقالہ📝*
محترم ڈاکٹر نبیل احمد نبیل لاہور پاکستان 

============================
*شعرائے اکرام...*

*🌹حمد بارئ تعالٰی🌹*
محترم فانی ایاز اندوی جموں و کشمیر

*🌹نعتِ نبیﷺ🌹*  
محترمہ شبانہ زیدی شبین۔ پاکستان

محترم امین جس پوری بھارت 

محترم نصیر حشمت گرواہ پاکستان

محترم علیم طاہر صاحب بھارت 

محترم ارشد مینا نگری صاحب بھارت

محترم منور پاشاہ ساحل تماپوری بھارت

محترم عقیل احمد رضی، ممبئی، انڈیا

محترم حفیظ الر حمان رونیال ۔۔۔پوگل۔۔جموں و کشمیر

محترم وسیم احسؔن بِہار (ہندوستان)

محترم اصغر شمیم،کولکاتا،بھارت

محترم عاقب فردوس وانی جموں کشمیر بھدرواہ

 محترم ساجد سرمدی جموں کشمیربھدرواہ

Monday, July 9, 2018

ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری کا 160 واں منفرد پروگرام




رپورٹ - - - - ڈاکٹر سراج گلاؤٹھوی انڈیا

ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری کا 160 واں منفرد پروگرام

"بعنوان مناظرِ قدرت"

7 جولائی 2018 بروز ہفتہ بوقت پاکستان 7 بجے شام و ہندوستان 7.30 شام واٹس ایپ پر ایک شاندار پروگرام کا انعقاد کیا گیا اس پروگرام میں شعراء اکرام نے قدرت کے حسین مناظر، موسم و کائنات پر اپنی اپنی کاوشیں پیش کیں یوں تو شعراء اکرام کو ادارہ کی جانب سے ایک مصرع طرح "ہمیں بہار کا موسم سلام کرتا ہے" بھی دیا گیا تھا جس میں "ردیف" کرتا ہے و "قافیہ" سلام، کلام، جام، وغیرہ تھے اس کے علاوہ یہ بھی چھوٹ دی گئی تھی کہ جو شعراء طرحی کلام نہ کہنا چاہیں وہ عنوان کے مطابق غیر طرحی کلام نظم، یا غزل پیش کر سکتے ہیں اور پروگرام میں شرکت فرما سکتے ہیں
پروگرام کی مسندِ صدارت پر محترم سراج گلاؤٹھوی صاحب انڈیا جلوہ افروز تھے جبکہ ادارہ کے بانی و چیف ایڈمن محترم توصیف ترنل صاحب ھانگ کانگ سرپرست کی حیثیت سے شامل تھے پروگرام کا آئڈیا محترم شمس الحق ناطق صاحب لکھنوی انڈیا کا تھا جبکہ پروگرام کے آرگنائزر محترم علی اکبر صاحب ملتان پاکستان تھے نظامت کے فرائض مشترکہ طور پر بہت خوبصورتی کے ساتھ محترمہ ثمینہ ابڑو صاحبہ پاکستان و محترم علیم طاہر صاحب ہندوستان نے انجام دئے جبکہ پروگرام کی رپورٹ احقر ڈاکٹر سراج گلاؤٹھوی انڈیا نے تیار کی جبکہ شعراء اکرام کے پیش کردہ کلام پر تنقیدی بات چیت کے لیے محترم شفاعت فہیم صاحب انڈیا و محترم مسعود حساس صاحب کویت کو مدعو کیا گیا تھا ناقدین کے دیر سے پہنچنے کی وجہ سے سبھی شعراء کے کلام پر تنقید نہ ہو سکی
پروگرام میں مہمانانِ خصوصی محترمہ ڈاکٹر صابرہ شاہین صاحبہ پاکستان و محترم ڈاکٹر سمی شاہد صاحب کشمیر پاکستان تھے جبکہ مہمانانِ اعزازی محترمہ سیما گوہر صاحبہ رامپور انڈیا، محترم علی شیدا صاحب کشمیر پاکستان و محترمہ صبیحہ صدیقی صاحبہ ہندوستان تھے
مشاعرہ کے آخر میں محترم غزالہ انجم صاحبہ پاکستان کو ان کی بہترین کاوش "سنو لوگو" کے لئے ادارہ کی جانب سے توصیف نامی سندِاعزاز برائے ادبی خدمات پیش کیا گیا

قاری کی دلچسپی کے لیے شعراء حضرات کا نمونہء کلام اور اس پر کی گئی ناقدین کی تنقید کے اقتباسات پیش کئے جاتے ہیں

پروگرام حمد باری تعالیٰ سے شروع کیا گیا جس کے لئے محترم اطہر حفیظ فراز صاحب پاکستان کو دعوت سخن دی گئی

حمد

زمیں آسماں اور ہوا دوستو
سبھی کچھ خدا کی عطا دوستو
اسی کے تصرف میں ہر موج ہے
اسی کے ہیں ارض و سما دوستو
**************************
اسکے بعد نعت رسول پیش کر نے کے لئے محترمہ غزالہ انجم صاحبہ پاکستان کو دعوت سخن دی گئی

نعت رسول

کسی بھی اور نظارے کی آرزو نہ رہے 
 مدینہ قلب و نظر میں بسالیا جائے
نہیں ہے چین میسر ہمارے دل کی کہیں
کہ اب تو کوئے محمد بلا لیا جائے
**************************
اس کے بعد باقاعدہ مشاعرے کا آغاز کیا گیا 
ڈاکٹر سراج گلاؤٹھوی انڈیا صدرِ مشاعرہ

نظم "بہار کا موسم"

چمن میں جھونکا ہوا کا خرام کرتا ہے
کلی و پھول سے دلکش کلام کرتا ہے
زمیں کے جسم پہ یہ ارتسام کرتا ہے
نظر و دل و زباں سے کلام کرتا ہے
ہمیں بہار کا موسم سلام کرتا ہے
**************************
محترمہ صبیحہ صدف صاحبہ بھوپال ہندوستان

جو فصلِ گل میں بہاروں میں شام کرتا ہے
اسے بہار کا موسم سلام کرتا ہے
یہ آبشارِ ترنم کی نغمگی کا فسوں
جواں دلوں کو یہ موسم غلام کرتا ہے
**************************
محترم علی شیدا صاحب کشمیر بھارت

شباب و رنگ کو خوشبو کو عام کرتا ہے
ہمیں بہار کا موسم سلام کرتا ہے
تمہاری سمت سے آتا ترا خیال ہے یہ
سرور و کیف جو شب بھر قیام کرتا ہے
موصوف کے کلام پر ناقدین حضرات نے کچھ اس طرح روشنی ڈالی
محترم شفاعت فہیم صاحب نے فرمایا کہ مطلع میں مصرع اولی'میں لفظ "کو" دو بار آگیا جو مناسب نہیں ہے اور دونوں مصرعوں میں آپس میں ربط نہیں ہے
دوسرے شعر میں مصرع اولی' میں تمہاری اور ترا کا استعمال غلط ہے اس کو شتر گربہ کہا جاتا ہے یہاں تمہاری کے ساتھ تمہارا ہوتا یا تیری کے ساتھ تیرا ہونا چاہیے تھا
خمارِ ابر بہاراں چھلکتی آنکھوں سے
اسی پہ ناز یہ میخاں یہ جام کرتا ہے
دوسرے مصرعے میں لفظ "میخاں "کیا ہے یہ کوئی لفظ نہیں ہے شاید میخانے کا مخفف کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو غلط ہے
آخری شعر بھی چسپاں نہیں ہے 
محترم مسعود حساس صاحب نے فرمایا کہ مطلع کے دونوں مصرعے غیر مربوط ہیں
مطلع کے پہلے مصرعے میں" کو"
دو بار آیا ہے 
تمہاری سمت سے آتا ترا خیال ہے یہ
اس مصرع میں شتر گربا ہے کہ اک جگہ تمہاری کا استعمال کیا گیا ہے اور پھر آگے ترا لفظ کا استعمال کیا گیا ہے
 تمہاری کے ساتھ تمہارا ہونا چاہیے تھا یا تیری کے ساتھ ترا ہونا چاہیے تھا دوسرے مصرعے میں سرور و کیف اضافی ہے جو نہیں آنا چاہیے تھا
**************************
محترم ڈاکٹر ارشاد احمد خاں صاحب

ہوا بھی ہر جا پکار آئی بہار آئی بہار آئی
فضا میں زنجیر کھنکھنائی بہار آئی بہار آئی
نسیمِ سحری جو صبح گاہی قریب میرے جو گنگنائی
کلی بھی ہولے سے کھلکھلائی بہار آئی بہار آئی
محترم مسعود حساس صاحب نے اس کلام پر کافی طویل تنقیدی گفتگو کی جس کو جناب ارشاد احمد خان صاحب نے دلائل سے مسترد کردیا پھر دونوں جانب سے لمبی بحث وتکرار کا سلسلہ جاری رہا جس کو رپورٹ میں پیش کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ رپورٹ بہت زیادہ طویل ہوجائے گی
**************************
محترم اطہر حفیظ فراز صاحب پاکستان

جہاں جہاں بھی یہ آتا قیام کرتا ہے
ہمیں بہار کا موسم سلام کرتا ہے
چمن چمن میں شگوفے نکھر گئے ہر سو
یہ کون ہے جو نظاروں کا اہتمام کرتا ہے
**************************
محترم امین ایڈرائی صاحب

کہیں یہ صبح کہیں جاکے شام کرتا ہے
وہ ایک ہجر جو سب میں قیام کرتا ہے
یہ آبشار یہ ندیاں، پہاڑ، پھول اور پھل
کوئی تو ہے کہ جو ان سے کلام کرتا ہے
**************************
محترمہ غزالہ انجم صاحبہ پاکستان نے "سنو لوگو"عنوان سے نظم پیش کی

محبت کا نگر صحراؤں میں زمزم کے جیسا ہے
محبت کا نگر تکلیف میں مرہم کے جیسا ہے
محبت کا نگر مسحور کن پونم کے جیسا ہے
محبت کا نگر تو دلنشیں سرگم کے جیسا ہے
محترمہ کی اس نظم کی بہت پزیرائی کی گئی
محترم مسعود حساس صاحب نے اس نظم کو ایک بیانیہ قرار دیا ہے پوری نظم ایک اچھی نظم ہے یہاں الفاظ کی جادوگری دکھائی گئی ہے بہترین الفاظ کا چناؤ ہے بالیدگی ہے،اچھی تشبیہات ہیں، شروع سے آخر تک چار لفظوں کا تکرار ہے
 "محبت کے نگر میں خوش گلو طیّور رہتے ہیں"
یہ مصرعہ بحر سے خارج ہے کیوں کہ اصل لفظ طیور ہے طیّور نہیں ہے
محترمہ غزالہ انجم صاحبہ کو بہترین کاوش پیش کرنے پر ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری کی جانب سے "توصیف سند اعزاز برائے ادبی خدمات" پیش کیا گیا
**************************
محترمہ گلِ نصرین صاحبہ

کاگا چوری کھائے رے
اور پپیہہ گائے رے
تیرے ہجر کے رستے میں
موسم بیتا جائے رے
محترم شفاعت فہیم صاحب فرماتے ہیں کہ یہ ایک چھوٹی مترنم بحر کی غزل ہے جو تغزل سے بھرپور ہے ہجر کا خوبصورت ذکر ہے اچھا انداز ہے اچھے الفاظ استعمال کئے ہیں بہاریہ انداز میں سیدھی سیدھی بہت عمدہ غزل ہے
**************************
محترم علی اکبر صاحب پاکستان

ہم بتاتے ہیں کہکشاں ستاروں کی
ہمارا چاند جو اس میں قیام کرتا ہے
ہوا ہے پیار سے مخمور مے کدہء دل
پیش ہر رند کو محبت کا جام کرتا ہے
**************************
محترم عامر حسنی صاحب ملائشیا

آ جھرنوں کی جھنکار سنیں
آ چڑیوں کی چہکار سنیں
جو میٹھی تان سناتے ہیں
جو دل میں پھول کھلتے ہیں
یہ چشموں کا میٹھا پانی
 اور راتوں کی خوشبو رانی
محترم شفاعت فہیم صاحب کہتے ہیں کہ بہاریہ نظم ہے اچھی رواں دواں ہے لیکن جھرنوں کی جھنکار نہیں ہوتی جھنکار ساز کی ہوتی ہے تیسرے شعر کا مصرع اولی'"اور راتوں کی خوشبو رانی" سمجھ میں نہیں آیا رات کی رانی میں تو خوشبو ہوتی ہے
نظم کا تسلسل اچھا ہے
**************************
محترم امین جسپوری صاحب انڈیا

ہر ایک طبقہ گلوں کا امام کرتا ہے
چمن ہنسی کا بڑا اہتمام کرتا ہے
ہماری ذات کا خوشبو طواف کرتی ہے
شگفتہ پھول ہر ایک نزرِ جام کرتا ہے
ہمیں بہار کا موسم سلام کرتا ہے
**************************
محترم وسیم احسن صاحب بہار ہندوستان

غنی کسی کو کسی کو غلام کرتا ہے
کسی کا چاہے تو اونچا مقام کرتا ہے 
کھاتا پھول ہے کانٹوں کی آستینوں میں
وہ ایسے اپنے تصرف کو عام کرتا ہے
محترم مسعود حساس صاحب فرماتے ہیں کہ غنی کے مقابلے فقیر، اور غلام کے مقابلے آزاد آنا چاہیے تھا یہاں شاعر مفہوم کو ٹھیک طرح سے پیش نہیں کر پایا کانٹوں کی آستین نہیں کہا جا سکتا کیونکہ آستین چاروں طرف سے مکمل بند ہوتی ہے جبکہ کانٹے پھول کا احاطہ نہیں کرتے "جو اپنے ڈھب سے درِ رب قیام کرتا ہے" اس مصرع میں کوئی مفہوم واضح نہیں ہے
**************************
محترم شمس الحق ناطق صاحب لکھنوی انڈیا

سندیسے بہاروں کے آنے لگے ہیں
گھر اپنا پرندے بسانے لگے ہیں
مناظر بہت خوب دیکھے جو ہر سو
دلوں کو وہ بے حد لبھانے لگے ہیں
*************************
محترم نصیر حشمت گرواہ صاحب چنیوٹ پاکستان 

کہاں یہ اور بھلا کوئی کام کرتا ہے
تجھے ہی یاد یہ دل صبح شام کرتا ہے
میں ساری عمر اسی شخص پر لٹا دونگا
وہ ایک شام اگر میرے نام کرتا ہے
**************************
محترم اصغر شمیم صاحب کولکاتا ہندوستان

اندھیرا جب بھی نگلتا ہے آکے سورج کو
وہ روشنی کو ستاروں کے نام کرتا ہے
مرا خلوص ہی اس بات کی ضمانت ہے
امیرِ شہر بھی جھک کر سلام کرتا ہے
محترم مسعود حساس صاحب نے فرمایا کہ غزل کے مطلع میں اچھی تضمین ہے پوری غزل ہی اچھی ہے
**************************
مشاعرہ کے آخر میں صدرِ مشاعرہ جناب ڈاکٹر سراج گلاؤٹھوی انڈیا نے سبھی حاضرینِ محفل و شعراء حضرات کا شکریہ ادا کیا کیا اور اس کامیاب و شاندار مشاعرے کے لیے انتظامیہ ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری کو ادارہ کے چیف ایڈمن جناب توصیف ترنل صاحب ہانگ کانگ کو ،پروگرام کے آرگنائزر جناب علی اکبر صاحب پاکستان، و مشاعرے کے ناظمین محترمہ ثمینہ ابڑو صاحبہ پاکستان و جناب علیم طاہر صاحب انڈیا کو و مہمانانِ خصوصی و مہمانانِ اعزازی و ناقدین جناب شفاف فہیم صاحب انڈیا و جناب مسعود حساس صاحب کویت کو کامیاب مشاعرے کے لئے مبارکباد پیش کی اور مشاعرے کے اختتام کا اعلان کیا