رپورٹ گلِ نسرین ملتان پاکستان
ایڈیٹر عبدالحمید صفی ربانی پاکستان
ادارہ ،عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری کی طرف سے 159 واں منفرد پروگرام
بعنوان : تعزیتی اجلاس و طنز و مزاح،
برائے آنجہانی مشتاق احمد یوسفی کی وفات پر ان کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے مورخہ 18۔6۔30 پاکستانی وقت۔۔00۔7 بجے اور ہندوستانی وقت شام 03۔7 بجے منعقد کیا گیا ۔ انتہائی خوبصورت،،،جاندار اور کامیاب پروگرام کے سحر نے آغاز تا انجام تمام حاضرین محفل ۔۔۔ سامعین و شرکاء مشاعرہ کو اپنی گرفت میں لیے رکھا ۔۔
پروگرام کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا۔
پہلے حصے میں مشتاق یوسفی صاحب،معروف شاعر نقاد پروفیسر یوسف حسن اور حناء نواز صاحبہ کی وفات مغفرت کی گئی اور مرحومین کی ادبی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لۓ 5 منٹ کی خاموشی اختیار کی گئ۔
جبکہ پروگرام کے دوسرے حصے،،،، طنز و مزاح،،،کے آغاز میں *مشتاق یوسفی صاحب کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے محترمہ گلِ نسرین صاحبہ کی طنز و مزاح پر مبنی کتاب ماسی نامہ کی تقریب رونمائی* کی گئی جسے مشتاق یوسفی صاحب کے نام کی کیا گیا۔
پروگرام کا آغاز حمد و نعت پاک سے کیا گیا۔ناظم مشاعرہ گل نسرین نے محترم مشتاق یوسفی صاحب مرحوم کی شخصیت اور ادبی خدمات پر روشنی ڈالتے ہوے مختصر نوٹ پیش کیا۔ اس موقع پر پروگرام آرگنائزر محترم ارسلان فیض کھو کھر صاحب نے اردو مزاح نگاری کےاس عظیم شہنشاہ آنجہانی مشتاق احمد یوسفی کے فنو شخصیت کے حوالے سے مفصل مقالہ پیش کیا
دعائے مغفرت : محترم شمس الحق ناطق صاحب نے فرماتے ہوئے مرحومین کے ایصال ثواب کے لے اجتماعی طور پر خصوصی دعاے خیر کروائ ۔۔
ادارہ، عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری کے بانی و چیئرمین محترم توصیف ترنل نے بھی اس تمام پروگرام میں شروع سے آخر تک شرکت کی۔
پروگرام کی صدارت
محترم امین جس پوری صاحب انڈیا نے کی جبکہ
مہمانِ خصوص محترم اقبال حسین شاہ صاحب اٹک، پاکستان
محترم علی شیداّ صاحب کشمیر، انڈیا۔۔
مہمانِ اعزازی محترمہ غزالہ انجم بورے والہ، پاکستان۔۔۔محترمہ نیئر رانی شفق صاحبہ ڈیرہ غازی خان، پاکستا ن
سے شامل ہوے جبکہ ناقدین کے فرائض
محترم شہزاد نئیر صاحب پاکستان اور براے شعری کاوش
اور محترم عدیل ارشد خان صاحب انڈیا نے (برائے نثر کاوش ) سر انجام دیے اور باوجود انتہائی محدود وقت کے موقع پر ہی ہر کاوش پر تبصرہ و تنقید کے وائس نوٹس پیش کۓ ۔
-----------------------------------
تمام شرکائے محفل کی شعری و نثری کاوشوں کے نمونے پیش خدمت ہیں
----------------------------------------------
عہد یوسفی تمام ہوا۔۔۔۔۔
پیش کش
محترم ارسلان فیض کھوکھر صاحب
"اپنے ادبی کریئر کے آغاز کے بارے میں یوسفی کہتے ہیں کہ 'والد صاحب کی بڑی خواہش تھی کہ ڈاکٹر بنوں اور عرب جا کر بدوؤں کا مفت علاج کروں۔'
لیکن اسے اردو والوں کی خوش نصیبی کہیے کہ وہ میڈیکل ڈاکٹر نہیں بن سکے البتہ طنز و مزاح کے نشتر سے دیسی معاشرے کے دکھوں کا علاج کرنے لگے۔
یوسفی نے پہلا باقاعدہ مضمون 1955 میں 'صنفِ لاغر' کے نام سے لکھا تھا۔
یوسفی کے بنیادی موضوع بدلتی ہوئی معاشرتی صورتِ حال کا تجزیہ پیش کرنا ہے، گزرتے وقت کا ناسٹیلجیا ان کی تحریروں کا اہم جزو ہے۔
اردو مزاح نگاروں کی اکثریت قہقہہ آور صورتِ حال اور مضحکہ خیز کرداروں کی مدد سے مزاح پیدا کرتی ہے
مشتاق احمد یوسفی نے اپنی راہ ان سب سے الگ نکالی۔ چند استثنائی مثالوں کو چھوڑ کر ان کے ہاں مزاح صورتِ حال کی منظرکشی سے نہیں، بلکہ صورتِ حال پر فلسفیانہ غور و فکر اور گہرا اور چبھتا ہوا تبصرہ کر کے پیدا کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں ان کی فلسفے کی تعلیم ضرور کام آئی ہو گی۔
وہ کرداروں کی اچھل پھاند سے نہیں، بلکہ لفظوں کے ہیرپھیر، تحریف، لسانی بازی گری اور بات سے بات نکال کر مزاح پیدا کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں ان کا وسیع ذخیرۂ الفاظ اور اس سے بھی وسیع تر مطالعہ ان کی رہنمائی کرتا ہے۔ وہ ایسے مزاح نگار ہیں جن کی تحریر سے سرسری نہیں گزار جا سکتا، بلکہ ہر ہر فقرے کو بڑی توجہ اور احتیاط سے پڑھنا پڑتا ہے، اور بعض اوقات دوبارہ یا سہ بارہ پڑھ کر ہی اس سے بھرپور حظ کشید کیا جا سکتا ہے۔___________________ _________
پروفیسر یوسف حسن سے یوسف حسن تک
ڈاکٹر فرحت عباس
یوسف حسن کا شاعرانہ جوہر،عالمانہ گفت و شنید اور انقلابی تحریر و تقریر ہمیشہ ہمیشہ مرعوب کرتی آئی ہے۔بے شک وہ ایک سچا انسان،سچا محبِ وطن،اپنی ماں آور ماں دھرتی کو محبوب رکھنے والا ظلم و ستم دیکھ کر رونے اور رلانےوالا ایسا ادیب اور دانشور ہے جو نظریاتی ہونے کے ساتھ ساتھ خالص انسانی جذبوں سے سرشار طبقاتی جلال کو غیر طبقاتی جمال میں دیکھنے کا تمنائی ہے وہ جانتا تھا کہ انسانی ذات کا جوہر سماجی رشتوں کا مرہونِ منت ہے ۔ وہ آفاقی معیارات کے ساتھ ساتھ مقامیت اور علاقیت کی اہمیت سے آگاہ ہے اور اپنی مٹی سے اپنی خوشبو بکھیرنے اور اپنے ادب میں داخل کرنے کی آگاہی رکھتا ہے اور اسے اس بات کا ادراک ہے کہ اس کی سوچ ابلاغ پاتے ہوۓ انقلاب کی نوید سنائے گی۔۔وہ محض فکری اقدار کا گرفتار بیمار ذہن نہیں رکھتا بلکہ سماجی اور معاشرتی حسّیات پر مشتمل ایسی کیفیات کا متلاشی ہے جو امن و سکون کی ضمانت دے اور تمام عالمین کوایک عالم بنا دیں.....
عشق اپنا سوال ہو رہا ہے
تر خوں میں جمال ہو رہا ہے
اور پھر غربت سماجی رشتوں کے حوالے سے بول اٹھتے ہیں
سبھی رشتے ہمارے بولتے ہیں
مگر جو زر کا رشتہ بولتا ہے
____________________________
"سرمایہء ادب مشتاق یوسفی کے لیے اظہار عقیدت"
"زندگی بھر مسکراہٹیں بکھیرنے والے مشتاق احمد یوسفی پہلی بار مشتاقان ادب کی آنکھیں نم کرکے اپنی دائمی آرام گاہ میں جا سوئے۔
اب ہمارے پاس ان کی تصانیف ہیں جو ان کی نشانیاں بھی ہیں۔۔ان کی گہری خوب صورت سوچ کی عکاس بھی ہیں۔۔اور ان کی محنت لگن اور ادب پروری کا ثبوت بھی۔۔یہ تصانیف درد دل کی دوا بھی ہیں اور رہبری کا سامان بھی ۔ ادب کی اعلی منزلوں تک پہنچنے کے لیے مانوس راستہ بھی ہیں اور تخیل و گماں کے دریچے کھولنے اور روشنی پھیلانے کا ذریعہ بھی۔۔۔
آج محفل دھواں دھواں سی ہے
تھا چراغ وفا، بجھا اک شخص
زندگی بھر رہا وہ رخشندہ
انجم عرش اب ہوا اک شخص"
غزالہ انجم
____________________________
احمد علی برقی اعظمی
اردو ادب کی شان تھے مشتاق یوسفی
اردو کے ترجمان تھے مشتاق یوسفی
…
طنز و مزاح میں نہ تھا ان کا کوئی جواب
اردو میں جس کی جان تھے مشتاق یوسفی
مشتاق یوسفی جو تھے عالم میں انتخاب
تھے وہ سپہرِ اردو کے رخشندہ ماہتاب
_____________________________
دعائے مغفرت
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین
والصلاة والسلام علی رسولہ الکریم ۔
یا اللہ ہم سب کی مغفرت فرما۔ یا اللہ ہم سب کی تمام خطاؤں کو معاف فرما یا اللہ ہم سب کے صغیرہ کبیرہ تمام گناہوں کو معاف فرما
یا اللہ جو پریشان حال ہیں انکی پریشانی کو دور فرما
تمام مسلم مرحومین کی مغفرت فرما
کروٹ کروٹ چین عطا فرما
جنت میں اعلی مقام عطا فرما ۔آمین یا رب العالمین ۔
شمس الحق ناطق لکھنوی انڈیا
ترا نور پھیلا ہے چار سو،تری شان جل جلالہ
ترے دم سے دنیا میں رنگ و بو، تری شان جل جلالہ
اس کے بعد باقاعدہ شعراء و شاعرات نے اپنا اپنا کلام پیش فرما کر جہاں داد و تحسین سمیٹی وہیں ناقدین کی قابل قدر آرا سے بھی مستفید ہوئے نمونہ کلام پیش خدمت ہے____
حمد
تو ہی رب کون و مکاں بھی ہے، تو ہی خالق دو جہاں بھی ہے
کہ ہے مظہر بے مثال تو، تری شان جل جلالہ
تری ذات سب سے عظیم ہے،تو ہی میرا رب کریم ہے
تری شان جل جلالہ تری شان جل جلالہ
غزالہ انجم
_________________________
نعت رسول مقبول
رسول اللہ کو زیبا ہے اہل ِمنزلت کہنا
حدیثِ حق ہے ان کو لائقِ ِصد مرتبت کہنا
عثمان محمود
_____________________________
نعت کے بعد محترمہ گلِ نسرین صاحبہ کی نثری کتاب *ماسی نامہ* کی تقریب رونمائی ہوئی اور اس کتاب کو مشتاق احمد یوسفی کے نام کیا گیا..
کتاب کے ابواب حسبِ زیل ہیں
فوائد ماسی
سیلکیشن آف ماسی ۔۔۔۔
1۔۔۔ عارضی ماسی۔
2۔۔۔ مستقل ماسی ۔۔۔
ماسیوں کی اقسام ۔
1۔۔۔۔۔۔ٹیڈی ماسی
2۔۔۔۔۔گلابی ماسی
3۔۔۔۔دیسی ماسی
4۔۔۔۔چارن ماسی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماسی نامہ کی رونمائی کے بعد شعراء نے اپنا مزاحیہ کلام پیش کیا
شعر پڑھتے ہیں اچھل کر بزم میں
ایسا لگتا ہے کہ بندر ہو گئے
اصغر شمیم،کولکاتا،بھارت
________________________
*قیاس آرائیاں*
کبھی چاولوں کا آملیٹ کھایا تو کبھی انڈے کا شوربا،کبھی نہاری کے نام پہ بھرتے سے ناشتہ کیا تو کبھی کدو کی بھجیا سے،
سہتے سہتے ہم بھنڈی کی کھچڑی تک پہنچ گئے۔
تو پتہ چلا کہ ہماری سوچ سچ ثابت نہ ہو گی کبھی
اب جا کر تہیہ کر لیا کہ کبھی قیاس آرائی نہ کریں گے۔
ڈاکٹر سمی شاہد کشمیر
_________________________
شادی ہے ایک بربادی
"ایک دن یارو پھر اچانک سے
چھت سے دن کو پڑوس میں جھانکا
میاں بیوی کو ساتھ میں دیکھا.
چمٹا بیوی کے ہاتھ میں دیکھا
جو وہ برسا رہی تھی شوہر پر
چیختا تھا اکیلا وہ گھر پر
دیکھ کر میری آنکھ بھر آئی
سونے کمرے کی پھر قدّر آئی
آرزو شادی کی مِٹا ڈالی
حُسن کی وہ پری بھلا ڈالی"
ارسلان فیض کھوکھر پسرور سیالکوٹ
_________________________
مزاح رنگ
گھر پر تو کسکنے کی بھی ہمت نہیں پاتے
یاروں میں نظر آتے ہیں پردھان وغیرہ
عامر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شادی نامہ
چاہتے ہو تم اگر کوئی بِچارہ دیکھنا
اک نظر دیکھو ہمیں پھر نہ دوبارہ دیکھنا
عقیل احمد رضی، ممبئی، بھارت
_________________________
پچھلے ہفتے سے میں اکیلا تھا،
اہلیہ اپنے مائیکے میں تھی
میں بھی آزاد ہو کے سوتا تھا
اطہر حفیظ فراز، پاکستان
________________________
ہم نے جس جا بھی پایا سَنّاٹا
ہنس کے فورأ بَھگایا سَنّاٹا
نفیس ناندوروی(انڈیا)
________________________..
پتہ کیا پوچھتی ہے چاۓ خانوں میں ملوں گا میں
سموسوں اورکبابوں کی دکانوں میں ملوں گا میں
ڈاکٹر عدیل ارشد خان
کھامگاؤں
مہاراشٹر
انڈیا
_______________________
دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی
تازہ مرغی کہیں پکی ہے ابھی
غزالہ انجم
__________________________
افطاری میں کل جو ملے دو چار پکوڑے
چھوڑے نہیں مجھ سے گئے پھر یار پکوڑے
اقبال شاہ
___________________________
کون سنتا ہے گھر جمائی کی
آج سالوں نے پھر پٹائی کی
علی شیداّ کشمیر
________________________
چارپائی پہ مری دیکھ کے جالی مچھّر
میرے ہی سر پہ مجھے بکتے ہیں گالی مچھّر
امین جس پوری
___________________________
ہمارے ملک میں پایا گیا ہےاسقدر لوٹا
سیاست کے امیروں کا ہوانورِ نظر لوٹا
علی اکبر ملتان پاکستان
____________________________
اتنا بھی میں احمق نہیں بیگم سنو یہ بات
عزّت بہت دیا تمہیں اب کھا ؤ میری لات
اچھّا ہی ہو گا تم سے تو مل جائے گی چُھٹّی
گڈّھے میں تم اترو گی تو ڈالوں گا میں مٹِّی
علیم طاہر انڈیا
_________________________
ساتھ غالب کے نیوٹن کا ملاتی ہوں میں نام
خود کومیں سقراط کہنے پر بڑی مسرور ہوں
نیر رانی شفق۔۔۔۔۔۔۔ پاکستان
________________________
احمد علی برقی اعظمی
ہمت نہیں کسی میں ہے اُس سے سوال کی
’’ وہ تیس سال سے ہے وہی بیس سال کی ‘‘
_________________________
اس خوبصورت محفل کے اختتام پر محترم امین جس پوری صاحب نے بھارت سے صدارتی خطبہ پیش کیا جس میں انہوں نے اس مشاعرے کو سراہتے ہوئے ماہنامہ آسمان ادب کی آئندہ اشاعت کے حوالے سے گفتگو کی... احباب اس خوب صورت اور قہقہ بار محفل کے آخیر میں صدارتی خطبہ کے ساتھ ہی یہ حسین و چنچل محفل اختتام پذیر ہوگئ
_________________________________
No comments:
Post a Comment