رپورٹ
از۔ ڈاکٹر ارشاد خان
ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری ، ہمیشہ ہی منفرد پروگرام پیش کرنے میں پیش پیش رہا ہے ۔ ہر پروگرام جداگانہ نوعیت لیے ہوئے ، حتیٰ کہ کسی پروگرام کا اعادہ نہ ہوا ۔ایک سے بڑھ کر ایک ،حسین سے حسین تر، بہتر سے بہترین اور کامیاب سے کامیاب ترین ۔ ریکارڈ پروگرام پیش کئے جسے دیکھ دیگر کی عقل دنگ اور زبان گنگ ہے اور لاشعوری طور پر بھونڈی نکالی پر مجبور ۔
یہی صفات اس ادارے کی شناخت بن چکی ہیں جس کا سہرا میرکارواں عزت مآب توصیف سر اور ان کی فعال ٹیم کے سرجاتاہے۔
ادارہ ہذا کا 143واں پروگرام بعنوان ،، غزل میں معائب ومحاسن،، ایک جداگانہ نوعیت لیے ہوئے تھاجس میں تین غزلوں اور ایک افسانے کو پیش کیا گیا ۔ ان پر ناقدین مسعود حساس صاحب اور شفاعت فہیم صاحب نے نہ صرف کھل کر تنقید کی بلکہ کلام کے محاسن کو بھی اجاگر کیا ۔
میری یادداشت جہاں تک ساتھ دیتی ہے محمد حسین آزاد نے آب حیات میں تذکرے بطورِ تبصرے کیے ۔ شعراء پر تنقیدی جائزہ برائے نام کر محاسن کو پیش کیا ۔ حالی نے یادگار غالب میں غالب کی شاعری کو جو ہمعصروں میں مغلوب تھی ، اسے غالب کیا ۔نیز مقدمہ شعر و شاعری میں ایک باب بعنوان غزل کے محاسن بیان کر نیچرل شاعری کی بنا ڈالی کہ ،
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب دیکھیے ٹھہرتی ہے جا کر نظر کہاں
پھر بھی تنقید کو میدان خالی رہا۔ علامہ شبلی نعمانی نے موازنہ انیس ودبیر میں انیس کو کسی قدر فوقیت دی کہ انیس کے کلام میں سے الفاظ کی نشست انگوٹھی میں نگینے کی طرح فٹ ہوتی کہ اس نعم البدل نہیں ہو سکتا ،
شبنم نے بھر دیےتھے کٹورے گلاب کے
اور
کھا کھا کی اوس اور بھی سبزہ ہرا ہوا
شبنم کو اوس کی جگہ اور اوس کو شبنم کی جگہ رکھ شعری حسن جاتا رہتا ۔ مابعد علامہ نیاز فتح پوری نے نگار میں تنقید کے وہ جھنڈے گاڑے کہ اچھے اچھوں کے پسینے چھوٹ گئے حتیٰ کہ شہنشاہِ تغزل جگر کا بھی جگر پارہ پارہ ہوگیا ۔ کلیم الدین احمد نے اردو شاعری پھر ایک نظر میں اردو شاعری اور خصوصاً غزل پر بھر پور تنقید کی اور قصیدوں کی تو بخیہ ادھیڑ دی ۔
گاہے بگاہے کچھ معاصرین پر تنقید کا اطلاق ہوتا رہا ۔ شارحین ماہر اقبالیات تو ماہر غالبیات ہوئے مگر ، کچھ نے اقبال کے ترانہ ہندی اور ترانہ ملی کے دو مصرعے جوڑ نظریات کے تضاد کی بات کہی ، ترانہ ملی ولایت سے واپسی ، سقوط ہسپانیہ کا دردلیے ہوئے تھا مگر تنقید مبنی بر حقیقت ،
مذہب نہیں سکھاتا ۔۔۔۔
خنجر ہلال کا ہے ۔۔۔۔
یا پھر ،
کہ ہزار سجدے تڑپ رہے ہیں میری جبین نیاز میں
سجدہ مجسم نہیں کہ تڑپے مگر بطورِ استعارہ پیش کیا ، وہیں
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ خودکشی کرے گی
خودکشی میں ،، آپ ،، چہ معنی دارد؟
ابن صفی نے اپنے ایک ناول میں لکھا تھا ،
گرمی حسرتِ ناکام سے جل جاتے ہیں
،، کہ حسرت ناکام میں تو آہ سرد نکلتی ہے تو جل جاتے ہیں ؟
اسی طرح مجروح نہیں اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا
ہم سے دیکھی ہے ان آنکھوں کی مہکتی خوشبو ۔۔
خوشبو تو محسوس کی جاسکتی ہے ۔۔۔ اس کو دیکھنا ؟
یا ۔۔
کچھ تیز قدم رستے ، کچھ سست قدم راہوں میں ۔۔۔؟
تا حال مجتبیٰ حسین ، شمس الرحمٰن فاروقی اور گوپی چند نارنگ بہترین نقاد مانے گئے ہیں جو کہ محاسن ومعائب پر گہری نظر رکھتے ہیں ۔
ادارہ ہذا کا 143واں پروگرام شفاعت فہیم صاحب کی زیر صدارت اور ضیا شادانی صاحب کی زیر نظامت 10 مارچ 2018 کو منعقد ہوا ۔ بزم کا آغاز ڈاکٹر سراج گلاؤٹھوی صاحب کی تحریر کردہ حمد باری تعالی سے ہوا ،
تو ہے خلاق،مالک مراآسرا
میں ہوں بندہ تیرا ،تو ہے میرا خدا
ایسے دل اور زباں کردے مجھ کو عطا
عمر بھر میں کروں تیری حمدوثنا
اس کی بعد دوسرا حمدیہ کلام ڈاکٹر ارشاد خان کا پیش کیا گیا ،
ابتدا بھی وہی ، انتہا بھی وہی
نور وظلمات کا بادشاہ بھی وہی
مسعود حساس صاحب نے قوافی انتہا اور بادشاہ پر نظر ثانی کو مشورہ دیا دیگر اشعار کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ ،
قرآنی آیات کی روشنی میں اللہ سبحانہ کی حمدوثنا بیان کی گئی جو لائق ستائش ہے ۔
ناظم ضیا شادانی صاحب نے ڈاکٹر سراج گلاٹھوی کا نعتیہ کلام پیش کیا ،
ہے نزول قرآں ، مرحبا مرحبا
کنکروں نہیں بھی کلمہ پڑھا مرحبا
حساس صاحب نے قرآں کو ، قرآن ، تلفظ کی ادائیگی پر زور دیا کہ یہی بہتر ہوتا دیگر نعتیہ اشعار تلمیحات سے مزیّن تھے ۔
ضیا شادانی صاحب نے عمدہ نظامت فرائض انجام دیتے ہوئے پہلی غزل پیش کی ، جس میں مقطع نہیں تھا ۔ ناقدین کو سطر سطر تنقید کرنی تھی نامعلوم تخلیق کار کی تخلیق کی ،وہ شخصیت قدآور بھی ہو سکتی تھی ، نوآموز ، نوارد اور غیر معروف بھی ۔یہ بڑی ذمے داری اور جوکھم کو کام تھا کیونکہ یہ آن لائن تنقید تھی جو کہ دراک اور صاحب فہم شخصیت ہی کرسکتی وہ جو فہیم اور حساس بھی ہو بہرصورت ، فہیم صاحب اور حساس صاحب نے یہ فرائض بخوبی انجام دیے۔
غزل کا مطلع دیکھیے ،
وحشتوں کا آج بھی چرچا رہا
آج بھی یہ دل میرا ٹھہرا رہا
مسعود حساس صاحب نے کہا ، حالات حاضرہ پر بھر پور طنز ہے مگر دوسرے مصرعے میں غلو درآیا،
وادیوں میں زندگی مرتی رہی
،، زندگی مرتی رہی کی بجائے سسکتی رہی مفہوم لیے مستعمل لفظ بہتر ہوتا ۔
غزل کے دیگر اشعار خوب تھے ، حساس نے بہترین تجزیہ کر محاسن اجاگر کیے ( حساس صاحب نے )
دوسری غزل نظر نواز ہوئی ،
کبھی تو نفرت کے درمیاں بھی ، زبان الفت اثر کرے گی
وہ تلخ لہجے بھی برف ہوں گے ، کبھی شرافت اثر کرے گی
بقول حساس صاحب ، تلخ اور شرافت بے جوڑہیں۔
اگلا شعر ملاحظہ ہو ۔
جلا کے دل میں چراغ الفت انہی امیدوں پہ جی رہے ہیں
کبھی تو ان سے سلام ہوگا ، کبھی تو چاہت اثرات کرے گی
مسعود صاحب نے اس شعر کی بہت پذیرائی کی
راقم الحروف مذکورہ غزل کے املے پر توجہ دلانا چاہے گا کہ ،
کرے گی ۔۔ نہ کر کریگی ۔۔۔ اسی طرح دیگر ۔
تیسری غزل کی بحر کے تعلق سے حساس صاحب نے بلا تکلف اپنی لا علمی کا اظہار کیا جو قابل ستائش ہیں اور قابل تقلید بھی خصوصاً ان کے لیے جو بزعمِ خود کہتے ہیں ،
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
شفاعت فہیم صاحب نے ان کی رہنمائی کی ۔
تیسری غزل کا مطلع دیکھیے ،
دل سے تیرے خیال کو اس طرح کم کیا گیا
ہجر کی آیتیں پڑھیں پلکوں کو نم کیا گیا
مطلع میں محترم ناقد نے لفظ طرح کو گرفت میں لیا ۔
،،ہجر کی آیتوں کو پڑھ کر خیال کو کم نہیں کیا جاتا اسی طرح ایک شعر میں ،، ضم کیا گیا کو بھی بے معنی قریب دیا
شعر
سارے جہاں کی رنجشیں ، اہلِ جہاں کو ہم سے تھیں
لمحے ہنسی کے چھین کر ،ہم پہ ستم کیا گیا
کو خوب سراہا گیا ، بزم کے اختتام پر پیش کیے گئے افسانے ،پہچان ، کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ، افسانے کے کلائمس میں بقول ناقد ،، لفظ باپ،، کی بجائے ،، ابو ،، یا ،، پاپا ،، مستعمل ہوتا جس سے اپنائیت ٹپکتی ہے بدرجہ بہتر ہوتا ۔
دو گھنٹے سے زائد چلنے والے اس پروگرام میں ایک ٹھہراؤ تھا ۔ جو سبک رفتار سے اپنی منزل کی جانب رواں تھا ۔ کوئی جلد بازی یا ہڑبڑاہٹ اس محفل میں دیکھنے کو نہیں ملی یہی ایک چیز اس پروگرام کو ممیز کرتی ہے ۔۔
اظہارِ تشکّر کے بعد پروگرام اختتام پذیر ہوا ایک اور سنگ میل طے کرتے ہوئے ، کامیابی وکامرانی کے پرچم کو بلند کرتے ہوئے ۔
از۔ ڈاکٹر ارشاد خان
ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری ، ہمیشہ ہی منفرد پروگرام پیش کرنے میں پیش پیش رہا ہے ۔ ہر پروگرام جداگانہ نوعیت لیے ہوئے ، حتیٰ کہ کسی پروگرام کا اعادہ نہ ہوا ۔ایک سے بڑھ کر ایک ،حسین سے حسین تر، بہتر سے بہترین اور کامیاب سے کامیاب ترین ۔ ریکارڈ پروگرام پیش کئے جسے دیکھ دیگر کی عقل دنگ اور زبان گنگ ہے اور لاشعوری طور پر بھونڈی نکالی پر مجبور ۔
یہی صفات اس ادارے کی شناخت بن چکی ہیں جس کا سہرا میرکارواں عزت مآب توصیف سر اور ان کی فعال ٹیم کے سرجاتاہے۔
ادارہ ہذا کا 143واں پروگرام بعنوان ،، غزل میں معائب ومحاسن،، ایک جداگانہ نوعیت لیے ہوئے تھاجس میں تین غزلوں اور ایک افسانے کو پیش کیا گیا ۔ ان پر ناقدین مسعود حساس صاحب اور شفاعت فہیم صاحب نے نہ صرف کھل کر تنقید کی بلکہ کلام کے محاسن کو بھی اجاگر کیا ۔
میری یادداشت جہاں تک ساتھ دیتی ہے محمد حسین آزاد نے آب حیات میں تذکرے بطورِ تبصرے کیے ۔ شعراء پر تنقیدی جائزہ برائے نام کر محاسن کو پیش کیا ۔ حالی نے یادگار غالب میں غالب کی شاعری کو جو ہمعصروں میں مغلوب تھی ، اسے غالب کیا ۔نیز مقدمہ شعر و شاعری میں ایک باب بعنوان غزل کے محاسن بیان کر نیچرل شاعری کی بنا ڈالی کہ ،
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب دیکھیے ٹھہرتی ہے جا کر نظر کہاں
پھر بھی تنقید کو میدان خالی رہا۔ علامہ شبلی نعمانی نے موازنہ انیس ودبیر میں انیس کو کسی قدر فوقیت دی کہ انیس کے کلام میں سے الفاظ کی نشست انگوٹھی میں نگینے کی طرح فٹ ہوتی کہ اس نعم البدل نہیں ہو سکتا ،
شبنم نے بھر دیےتھے کٹورے گلاب کے
اور
کھا کھا کی اوس اور بھی سبزہ ہرا ہوا
شبنم کو اوس کی جگہ اور اوس کو شبنم کی جگہ رکھ شعری حسن جاتا رہتا ۔ مابعد علامہ نیاز فتح پوری نے نگار میں تنقید کے وہ جھنڈے گاڑے کہ اچھے اچھوں کے پسینے چھوٹ گئے حتیٰ کہ شہنشاہِ تغزل جگر کا بھی جگر پارہ پارہ ہوگیا ۔ کلیم الدین احمد نے اردو شاعری پھر ایک نظر میں اردو شاعری اور خصوصاً غزل پر بھر پور تنقید کی اور قصیدوں کی تو بخیہ ادھیڑ دی ۔
گاہے بگاہے کچھ معاصرین پر تنقید کا اطلاق ہوتا رہا ۔ شارحین ماہر اقبالیات تو ماہر غالبیات ہوئے مگر ، کچھ نے اقبال کے ترانہ ہندی اور ترانہ ملی کے دو مصرعے جوڑ نظریات کے تضاد کی بات کہی ، ترانہ ملی ولایت سے واپسی ، سقوط ہسپانیہ کا دردلیے ہوئے تھا مگر تنقید مبنی بر حقیقت ،
مذہب نہیں سکھاتا ۔۔۔۔
خنجر ہلال کا ہے ۔۔۔۔
یا پھر ،
کہ ہزار سجدے تڑپ رہے ہیں میری جبین نیاز میں
سجدہ مجسم نہیں کہ تڑپے مگر بطورِ استعارہ پیش کیا ، وہیں
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ خودکشی کرے گی
خودکشی میں ،، آپ ،، چہ معنی دارد؟
ابن صفی نے اپنے ایک ناول میں لکھا تھا ،
گرمی حسرتِ ناکام سے جل جاتے ہیں
،، کہ حسرت ناکام میں تو آہ سرد نکلتی ہے تو جل جاتے ہیں ؟
اسی طرح مجروح نہیں اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا
ہم سے دیکھی ہے ان آنکھوں کی مہکتی خوشبو ۔۔
خوشبو تو محسوس کی جاسکتی ہے ۔۔۔ اس کو دیکھنا ؟
یا ۔۔
کچھ تیز قدم رستے ، کچھ سست قدم راہوں میں ۔۔۔؟
تا حال مجتبیٰ حسین ، شمس الرحمٰن فاروقی اور گوپی چند نارنگ بہترین نقاد مانے گئے ہیں جو کہ محاسن ومعائب پر گہری نظر رکھتے ہیں ۔
ادارہ ہذا کا 143واں پروگرام شفاعت فہیم صاحب کی زیر صدارت اور ضیا شادانی صاحب کی زیر نظامت 10 مارچ 2018 کو منعقد ہوا ۔ بزم کا آغاز ڈاکٹر سراج گلاؤٹھوی صاحب کی تحریر کردہ حمد باری تعالی سے ہوا ،
تو ہے خلاق،مالک مراآسرا
میں ہوں بندہ تیرا ،تو ہے میرا خدا
ایسے دل اور زباں کردے مجھ کو عطا
عمر بھر میں کروں تیری حمدوثنا
اس کی بعد دوسرا حمدیہ کلام ڈاکٹر ارشاد خان کا پیش کیا گیا ،
ابتدا بھی وہی ، انتہا بھی وہی
نور وظلمات کا بادشاہ بھی وہی
مسعود حساس صاحب نے قوافی انتہا اور بادشاہ پر نظر ثانی کو مشورہ دیا دیگر اشعار کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ ،
قرآنی آیات کی روشنی میں اللہ سبحانہ کی حمدوثنا بیان کی گئی جو لائق ستائش ہے ۔
ناظم ضیا شادانی صاحب نے ڈاکٹر سراج گلاٹھوی کا نعتیہ کلام پیش کیا ،
ہے نزول قرآں ، مرحبا مرحبا
کنکروں نہیں بھی کلمہ پڑھا مرحبا
حساس صاحب نے قرآں کو ، قرآن ، تلفظ کی ادائیگی پر زور دیا کہ یہی بہتر ہوتا دیگر نعتیہ اشعار تلمیحات سے مزیّن تھے ۔
ضیا شادانی صاحب نے عمدہ نظامت فرائض انجام دیتے ہوئے پہلی غزل پیش کی ، جس میں مقطع نہیں تھا ۔ ناقدین کو سطر سطر تنقید کرنی تھی نامعلوم تخلیق کار کی تخلیق کی ،وہ شخصیت قدآور بھی ہو سکتی تھی ، نوآموز ، نوارد اور غیر معروف بھی ۔یہ بڑی ذمے داری اور جوکھم کو کام تھا کیونکہ یہ آن لائن تنقید تھی جو کہ دراک اور صاحب فہم شخصیت ہی کرسکتی وہ جو فہیم اور حساس بھی ہو بہرصورت ، فہیم صاحب اور حساس صاحب نے یہ فرائض بخوبی انجام دیے۔
غزل کا مطلع دیکھیے ،
وحشتوں کا آج بھی چرچا رہا
آج بھی یہ دل میرا ٹھہرا رہا
مسعود حساس صاحب نے کہا ، حالات حاضرہ پر بھر پور طنز ہے مگر دوسرے مصرعے میں غلو درآیا،
وادیوں میں زندگی مرتی رہی
،، زندگی مرتی رہی کی بجائے سسکتی رہی مفہوم لیے مستعمل لفظ بہتر ہوتا ۔
غزل کے دیگر اشعار خوب تھے ، حساس نے بہترین تجزیہ کر محاسن اجاگر کیے ( حساس صاحب نے )
دوسری غزل نظر نواز ہوئی ،
کبھی تو نفرت کے درمیاں بھی ، زبان الفت اثر کرے گی
وہ تلخ لہجے بھی برف ہوں گے ، کبھی شرافت اثر کرے گی
بقول حساس صاحب ، تلخ اور شرافت بے جوڑہیں۔
اگلا شعر ملاحظہ ہو ۔
جلا کے دل میں چراغ الفت انہی امیدوں پہ جی رہے ہیں
کبھی تو ان سے سلام ہوگا ، کبھی تو چاہت اثرات کرے گی
مسعود صاحب نے اس شعر کی بہت پذیرائی کی
راقم الحروف مذکورہ غزل کے املے پر توجہ دلانا چاہے گا کہ ،
کرے گی ۔۔ نہ کر کریگی ۔۔۔ اسی طرح دیگر ۔
تیسری غزل کی بحر کے تعلق سے حساس صاحب نے بلا تکلف اپنی لا علمی کا اظہار کیا جو قابل ستائش ہیں اور قابل تقلید بھی خصوصاً ان کے لیے جو بزعمِ خود کہتے ہیں ،
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
شفاعت فہیم صاحب نے ان کی رہنمائی کی ۔
تیسری غزل کا مطلع دیکھیے ،
دل سے تیرے خیال کو اس طرح کم کیا گیا
ہجر کی آیتیں پڑھیں پلکوں کو نم کیا گیا
مطلع میں محترم ناقد نے لفظ طرح کو گرفت میں لیا ۔
،،ہجر کی آیتوں کو پڑھ کر خیال کو کم نہیں کیا جاتا اسی طرح ایک شعر میں ،، ضم کیا گیا کو بھی بے معنی قریب دیا
شعر
سارے جہاں کی رنجشیں ، اہلِ جہاں کو ہم سے تھیں
لمحے ہنسی کے چھین کر ،ہم پہ ستم کیا گیا
کو خوب سراہا گیا ، بزم کے اختتام پر پیش کیے گئے افسانے ،پہچان ، کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ، افسانے کے کلائمس میں بقول ناقد ،، لفظ باپ،، کی بجائے ،، ابو ،، یا ،، پاپا ،، مستعمل ہوتا جس سے اپنائیت ٹپکتی ہے بدرجہ بہتر ہوتا ۔
دو گھنٹے سے زائد چلنے والے اس پروگرام میں ایک ٹھہراؤ تھا ۔ جو سبک رفتار سے اپنی منزل کی جانب رواں تھا ۔ کوئی جلد بازی یا ہڑبڑاہٹ اس محفل میں دیکھنے کو نہیں ملی یہی ایک چیز اس پروگرام کو ممیز کرتی ہے ۔۔
اظہارِ تشکّر کے بعد پروگرام اختتام پذیر ہوا ایک اور سنگ میل طے کرتے ہوئے ، کامیابی وکامرانی کے پرچم کو بلند کرتے ہوئے ۔
ادارہ، عالمی بیسٹ اردوپوئیٹری
کی جانب سے پیش کرتے ہیں ایک اور منفرد پروگرام
سب سے بہترین کاوش جس کی ہو گی اس پر تنقید کی جائے گی
ہر بار کی طرح اس بار بھی ایک منفرد پروگرام منعقد کرنے جا رہا ہے، ادارہ اس بار ایک،،،، تنقیدی اجلاس، ( بعنوان ) غزل میں معائب ومحاسن،،،، منعقد کرنے جا رہا ہے، پروگرام میں صرف ایک افسانہ اور بس تین غزلیں شامل ہوں گی
ادارۂ ھٰذا دنیا کا واحد ادارہ ہے، جو اس برقی ترقی یافتہ دور میں شعراء,ادباء و مصنفینِ زبانِ اردو ادب کی ذہنی آبیاری کرتا ہے اور نئے نئے لسانیاتی پروگرامز منعقد کرتا ہے...
===========================
*We present 143th Unique Program*
طریقہ یہ ہوگا کہ، غزل میں سے شاعر کا نام اور مقطع، حزف کر کے ،،، تنقید نگاروں،،، کو غزل بھیج دی جائے گی،،، برائے تنقید،،،
یہ پروگرام 10-03-2018 بروز ہفتہ، پاکستانی وقت کے مطابق، شام سات بجے، اور ہندوستانی وقت کے مطابق، شام ساڑھے سات بجے، ان شاءاللہ ، منعقد ہوگا، اسی وقت،،، تنقید نگار احباب،،، آن لائن تشریف لاکر غزل کے معائب ومحاسن، پر تنقید پیش فرمائیں گے،
آپ احباب سے بھی مؤدبانہ گزارش ہے، کہ وقتِ مقرہ پر تشریف لاکر پروگرام کو رونق بخشیں، اور ادارہ کو شکریہ کہنے کا موقع عنایت فرمائیں، کرم ہوگا،
منجانب، انتظامیہ
(( ادارہ، عالمی بیسٹ اردوپوئیٹری))
==========================
*🌏آرگنائزر🌏*
*توصیف ترنل ہانگ کانگ*
پروگرام آئیڈیا
توصیف ترنل
===========================
صدارت
محترم شفاعت فہیم صاحب بھارت
ناقدین
محترم مسعود حساس صاحب بھارت
محترم شہزاد نیّر صاحب پاکستان
نظامت
محترم ضیاء شادانی بھارت
رپورٹ
محترم ڈاکٹر ارشاد خان بھارت
حمد
محترم ڈاکٹر ارشاد خان بھارت
نعت
محترم سراج گلاؤٹھوی بھارت
برائے تنقید 1
کبھی تو نفرت کے درمیاں بھی زبانِ الفت اثر کریگی
وہ تلخ لہجے بھی برف ہونگےکبھی شرافت اثر کریگی
ہمارے دل پر سِحر بیانی کا کوئ جادو نہ چل سکیگا
لکھی ہے سینے پہ خونِ دل سے وہی عبارت اثر کریگی
جلاکے دل میں چراغِ الفت انہی امیدوں پہ جی رہے ہیں
کبھی تو ان سے سلام ہو گاکبھی تو چاہت اثر کریگی
زمانے بھر کی مصیبتوں سے پریشاں ہو کر نہ ٹوٹ جانا
یقین کامل رکھو خدا پرکبھی تو محنت ثر کریگی
وہ بجھ رہی ہے حیات کی لوَمگر یقیں دل کو ہو رہا ہے
وہ آئینگے میری تعزیت کو کبھی تو الفت اثر کریگی
غزل برائے تنقید 2
دل سے ترے خیال کو اس طرح کم کیا گیا
ہجر کی آئیتیں پڑھیں پلکوں کو نم کیا گیا
آنکھوں سے خواب چھین کر وقت نے جب کیا ستم
آئینہ روبرو کیا عکس کو ضم کیا گیا
سارے جہاں کی رنجشیں اہلِ جہاں کو ہم سے تھیں
لمحے ہنسی کے چھین کر ہم پہ ستم کیا گیا
اس کی عطا سےہی کھلے پھول ہمارے عزم کے
کانٹے بچھا کے راہ میں جود و کرم کیا گیا
نہرِ فرات عشق کی خشک ہوئی جفاؤں سے
حشر بپا وفاؤں کا زیرِ علم کیا گیا
چہروں کا نور چھن گیا آنکھوں سے روشنی گئی
رشتوں کو جب سے راہئی ملکِ عدم کیا گیا
میری کتابِ زیست کے روشن تھےباب اس لئے
صفحےلہو کئے گئے لفظ قلم کیا گیا
یونہی نہیں ملا ہمیں دنیا کو جیتنے کا فن
ہاتھوں کو جوڑ کر رکھا سر کو بھی خم کیا گیا
برائے تنقید 3
وحشتوں کا آج پھر چرچا رہا
آج پھر یہ دل میرا ٹھہرا رہا
وادیوں میں زندگی مرتی رہی
درد آ کھوں سے میرے بہتا رہا
پتھروں کے وار وہ سہتے گئے
آئینوں کے ساتھ یہ قصہ رہا
مسئلے شمع بجھا کر تھک گئے
شوق کا سورج مگر جلتا رہا
زندگی اپنا سفر کرتی گئ
روبرو آ نکھوں کے ایک چہرہ رہا
منتشر تھے دھڑکنوں کے ساز بھی
دل مسلسل رات بھر تنہا رہا
زخم دیکر تھک گئ یہ زندگی
خواب آنکھوں میں مگر ٹھہرا رہا
مختصر افسانہ
برائے تنقید
*پہچان*
سیٹھ جی کو جیسے ہی پتہ چلا کہ جمنا بائی کے آنگن میں نیا پھول کِھلا ہے تو وہ رات ہوتے ہی کاروبار بند کر کے جمنا بائی کے مسکن کی طرف چل دئے انہوں نے اپنے چہرے کو بڑے رومال سے ڈھانپ لیا تھا کہ جیسے کوئی انہیں پہچان نہ سکے ویسے کچھ سردی بھی تھی. وہ جب بھی جمنا بائی کے عیش کدے پر جاتے تو اسی طرح جاتے تھے وہاں بھی وہ اپنے چہرے سے رومال نہیں ہٹاتے تھے جمنا بائی کے سوا اور کوئی ان کو نہیں جانتا تھا جمنا بائی کی انہوں نے برے وقتوں میں بڑی مدد کی تھی سو وہ اسی طرح ان کا احسان اتارتی رہتی تھی جبکہ سیٹھ جی اپنے علاقے کے معززین میں شمار ہوتے تھے لیکن کسی کو بھی ان کے اس روپ کا علم نہیں تھا سیٹھ جی نے مطلوبہ جگہ پہنچ کر اپنی سانسوں کو درست کیا تو جمنا بائی نے آواز دی
"اری جھرنا ادھر آؤ..!!"
دوسرے کمرے سے حسن اور جوانی کا جگمگاتا ہوا ماہتاب طلوع ہوا ایک لمحے کے لیے آنکھیں چار ہوئیں اور اکدم چندا کی چاندنی مانند پڑ گئی اور آنکھیں زمین میں گڑ گئیں سیٹھ جی کو حیرت ہوئی لیکن انہوں نے اظہار نہیں کیا جمنا بائی نے اٹھتے ہوئے کہا
"اب آپ لوگ اپنی تسکین کا سامان کریں میں چلتی ہوں"
جمنا بائی کے جانے کے بعد سیٹھ جی نے اس پری وش کو اپنی جانب متوجہ کرنے کی بہت کوشش کی لیکن بیکار اس نازنین نے پھر آنکھیں اوپر نہیں کیں سو نہیں کیں اور یونہی نظریں جھکائے قریب بیٹھ گئی سیٹھ جی کو عجیب کوفت سی محسوس ہوئی تو آخر انہوں نے پوچھ ہی لیا
"تم میری آنکھوں میں کیوں نہیں دیکھ رہی؟"
وہ خاموش رہی سیٹھ جی نے اپنا سوال دہرایا تو اس نے کہا
"اگر میں نے آپ کی آنکھوں میں دیکھا تو کپڑے نہیں اتار سکوں گی..!!"
سیٹھ جی کو حیرت ہوئی ان کے منہ سے بے ساختہ نکلا
" کیوں ..!!؟ "
اس کی آنکھیں بھر آئیں اس نے دونوں ہاتھوں سے آنکھوں کو صاف کیا اور آہستہ سے کہا
"آپ کی آنکھیں میرے باپ کی آنکھوں جیسی ہیں...!!!"
امین اڈیرائی
No comments:
Post a Comment