Tuesday, November 28, 2017

احمد فراز ایوارڈ





*رپورٹ... نفیسؔ ناندوروی (بھارت)...*

*منفرد ادارہ،عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری* دورِ حاضر میں دنیا کا واحد ادارہ ہے جو اِس برقی ترقی یافتہ دَور میں شعراء, ادباء و مُصنفینِ زبانِ اردو ادب کی ذہنی آبیاری کرتا ہے اور نئے نئے لسّانیاتی پروگرامز منعقد کرتا ہے... ادارۂ ھٰذا میں تمام تر پروگرامز برائے تنقید کئے جاتے ہیں... عالمی سطح پر کامیابی کے ساتھ ادبی تنقیدی پروگرامز کا انعقاد یقیناً ادارۂ ھٰذا کی انفرادیت, مقبولیت مع کامیابی کا وثیقہ ہے ... محترم امین اڈیرائی صاحب کے دھماکہ خیز آئیڈیا اور محترم توصیف ترنل صاحب کی بے لوث جنونی ادبی خدمات نے اِس منفرد سفر کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے ادارے کی جانب سے 02/12/2017 بروز سنیچر, شام 7 بجے, 127واں پروگرام بہ عنوانِ 
*نئی ردیف(احمد فراز ایوارڈ)ایوارڈ مشاعرہ* منعقد کیا... ھٰذا مشاعرہ, آنلائن اردو ادب میں اپنی ایک منفرد تاریخ رقم کرگیا... اس محفلِ مشاعرہ کے *صدر* محترم انؔیس بھٹکلی صاحب (انڈیا) اور *مہمانانِ خصوصی* محترم مائل پالدھوی صاحب سورت (انڈیا) رہیں... نیز محترم علیم طاہر صاحب (انڈیا) نے اپنے منفرد لب ولہجہ اور دَمدار اندازِ نظامت سے محفلِ مشاعرہ میں جادوئی سَما باندھ دیا... 

مشاعرہ کا باقائدہ آغاز ربِّ ذوالجَلال کی پاک وشفّاف حَمد وثنا کے ساتھ محترم ڈاکٹر نبیل احمد نبیل صاحب (پاکستان) نے پیش کیا....فرماتے ہیں.... 

میرے مولا تری قدرت کو بیاں کیسے کروں
اپنے جذبات کو لفظوں سے عیاں کیسے کروں
*محترم ڈاکٹرنبیل احمدنبیل صاحب(پاکستان)* 

رسول اکرم نُور مُجسّم محمّدﷺ کی شانِ اقدس میں نعتیہ کلام کا نظرانۂ عقیدت محترم طارق تاسی صاحب لاہور پاکستان نے پیش کیا...حمدیہ اور نعتیہ کلام کے بعد معمول کے مطابق شعرائے عالم نے ذاتی مع نئی ردیف پر اپنے اپنے کلام اور کمالِ فن کے قیمتی موتی بکھیرتے ہوئے محفلِ مشاعرہ میں چار چاند لگا دئیے....نمونۂ کلام....

عشقِ نبی نہ پوچھ رِیا کار میں نہیں 
رَحمان کی عَطا سے محبّت نفیسؔ ہے 
*نفیس احمد نفیسؔ ناندوروی(انڈیا)*

دینے  لگے  ہیں  آج  حیا  کو  خراجِ  فن 
ا لفا ظ   تا جد ار   معانی   پرت   پرت
*محترمہ نفیسہ حیا صاحبہ(انڈیا)*

کرب  جیسی ہے تُو مرے اندر 
اشک جیسا بہوں حقیقت میں 
*محترم علیم طاہر صاحب (انڈیا)*

یہ  فیضِ  اخترؔ  و  احمد  فرازؔ  ہے  کاشرؔ
کہ میں بھی کہہ سکوں ہوں،ہےمعاملہ یوں ہے
*محترم شوزیب کاشر صاحب (کشمیر)*

ہوگئی  ہے  کیوں   ردائے   شرمساری  تار تار
بےحیامیں بھی نہ تھا,تم بھی نہ تھے,پھرکون تھا؟
*محترم شکیل انجم صاحب (انڈیا)* 

طبیعت بے قراری پر اُتر آئے ظہیر احمد
جو لے انگڑائی کوئی آرزو تو شعرہوتا ہے
*محترم ظہیر احمد صاحب(کشمیر)*

کیوں ارم مجھ میں چھایا سناّٹا 
ہر  طرف   بے   شمار  شور و غل
*محترمہ انبساط ارم صاحبہ(انڈیا)*

وہ سڑکیں ناپتا پھرتا ہے آج کل مختار
پرانا گھر جو سمجھ کر کمینہ بیچ آیا 
*محترم مختار تلہری صاحب(انڈیا)*

جسمیں چہروں کوپَرکھنےکا ہُنر ہو مائل
ایسی  تعلیم   دعاوں  میں   لٹائ  جاۓ
*محترم مائل پالدھوی صاحب(انڈیا)*

دنیا کو انتظار ہے جس صبح کا فصیح
وہ صبحِ انقلاب  مری دسترس میں ہے
*محترم شاہین فصیح ربانی صاحب(عمان)*

کون سنتا ہے وہاں تیری صدائیں "مینا"
اپنےگھر شہرِخموشاں کی طرح واپس آ
*محترمہ ڈاکٹر مینا نقوی صاحبہ(انڈیا)*

زندگی بخشی جسے دستِ گدائی نے امین 
اک  شہنشاہ  کی  شاہی نے  اسے  مار دیا
*محترم امین اڈیرائی صاحب(پاکستان)*

تو بنا کے پھر سے بگاڑ دے ، مجھے چاک سے نہ اُتارنا
رہوں کو زہ گر ترے سامنے، مجھے چاک سے نہ اُتارنا
*محترم شہزاد نیّر صاحب (پاکستان)* 

بین الاقوامی سطح پر منعقد اس پروگرام میں دنیا بھر کے شعرائے اکرام نے نئی ردیف کے ذریعے اپنی ایک الگ پہچان بنانے کے لئے اپنی زمینوں میں غزلیں کہیں... اور پروگرام کے آخر میں ججیز کمیٹی نے بلا تفاوت اوّل نمبر پر آنے والی بہترین نئی ردیف کا اعلان کیا... *جس کی تخلیق کار محترمہ نفیسہ حیا صاحبہ(انڈیا) کو 🏆احمد فراز ایوارڈ🏆 سے نوازہ گیا...* بین الاقوامی سطح پر حالیہ منعقد پروگرام *"نئی ردیف (احمد فراز)ایوارڈ مشاعرہ"* کے ذریعہ بہترین ادبی کارنامہ سر انجام دیا گیا ہے جس نے ادب و ثقافت کو جلا بخشی اور طے پایا کہ *ادب اس مُشک کی مانند ہے جس کی خوشبو بِلا تفاوت ہر سمت پھیلتی ہے...* اس تاریخی پروگرام میں شریک معزّز موصوفیانِ اردو ادب اور تمامی رفقائے بزم کو ادارے کی جانب سے مبارکباد... ساتھ ہی *ادارۂ عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری کی انتظاميہ بالخصوص گولڈ میڈلسٹ محترم توصيف ترنل صاحب کو بے لوث خدمتِ اردو ادب کیلئے قلبی تہنیت پیش کرتا ہوں...*

✍احقرالعباد....
     *نفیس احمد نفیس ناندوروی...*
      *ضلع,بُلڈانہ,مہاراشٹر(انڈیا)...*

مقالہ..............نئی ردیف ...

                      مقالہ نگار 
         **     علیم طاہر ( انڈیا) 

             ادارہ یالمی بیسٹ اردو پوئیٹری کے زیرِ اہتمام  ایک سو ستائیس واں منفرد پروگرام بعنوان "  نئی ردیف" کا انعقاد عمل میں آگیا ہے ـ اس عنوان کے تحت تمام شعرائے کرام اپنی غزلیات سے ایسی غزل پیش کریں گے جو ان کے مطابق یا حقیقتاً بالکل نئی اور منفرد ہو ـ کمیٹی تین ایسی غزلوں کا انتخاب عمل میں لائے گی جو بہترین اور نئی ہو ـ پہلی پوزیشن حاصل کرنے والے شاعر کو احمد فراز ایوارڈ سے بھی نوازا جائے گا ـ اور دوسرے تیسرے نمبر پانے والے شعراء کو اسناد سے سرفراز کیا جائے گا ـ ایسی منفرد شرائط پر آج کے  عظیم الشان مشاعرہ  کا انعقاد بھی عمل میں آیا ہے ـ یہ بہت بڑی بات ہے ـ 
      برادر توصیف ترنل صاحب کی کاوشوں اور محنتوں سے بھی  ادارہ مسلسل آگے کی  سمت برق رفتاری سے روں دواں ہے ـ "آسمانِ ادب " ایک ماہ نامہ بھی کافی مقبولِ عوام ہو رہا ہے ـ جو اس ادارے کی شناخت قرار دیا جا سکتا ـ ہم مبارکباد پیش کرتے ہیں ادارے کے تمام اراکین اور برادر توصیف ترنل صاحب کو ـ  
           آئیے اب ہم گفتگو کریں "نئی ردیف " کے متعلق ـ شاعر کا کلام شاعر کی اپنی شناخت کہلاتا ہے ـ شاعر کی کہی ہوئی  غزل میں اس غزل کا قافیہ، اس غزل کا مواد، اس غزل کی ردیف، اس غزل کے فنّی تقاضے، اس غزل کی صحتِ  زبا ن، اس غزل کی روانی،اس غزل کی برجستگی،  اس غزل میں شعریت، اشاریت ،رمزیت، معنویت، کلاسیکیت، موسیقیت،  کی جاذبیت، وغیرہ تمام خوبیاں اہمیت کی حامل ہوتی ہیں ـ  
ان تمام خوبیوں میں نئی ردیف کی خوبی کو  نظر انداز قطعی نہیں کیا جا سکتا   ـ کیونکہ نئی ردیف کو نبھانے کے لیے بھی فنّی مہارت کی ضرورت پیش آتی ہے ـ زبان و بیان کی  علمیت کے  بغیر نئی ردیف کو بہتر سلیقے سے نبھایا نہیں جا سکتا ـ اکثر وبیشتر مشاہدے کے مطابق شعراء حضرات سینئر شعراء کی زمینوں اور ردیفوں میں طبع آزمائی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ـ اپنی نئی  ردیف نکالنے کی  زحمت نہیں کرتے ـ تقلیدی عمل میں سہولت کے سبب انہیں لطف محسوس ہوتا ہے ـ یا یوں کہہ لیجئے کہ پکا پکایا کھانا کھاتے ہیں ـ انسانی فطرت آسانیوں کی جانب زیادہ مائل ہوتی ہے ـ مگر سلام ان صلاحتوں کو جو ہمہ وقت نئے راستے تلاشنے اور ان پر نئی منزلیں کھوجنے میں مشغول رہتی ہیں ـ ایسی ہی صلاحتیں جب سے دنیا وجود میں آئی تب سے نہ صرف مقبولِ عوام رہی بلکہ قابلِ تقلید اور قابل ِ رشک بھی رہی ہیں ـ 
              آج   نئی ردیف پر توجہ مرکوز کرنے کا اہم مقصد یہ بھی ہے کہ شعرائے کرام  خودکفیل بنے ـ اپنی زمینیں اپنی ردیفیں اپنے قافیے نکالنے کی جانب پیش قدمی کریں ـ 
       ہر عہد کے شعری منظر نامے تبدیل ہوتے رہتے ہیں ـ لیکن فنّی تقاضے اپنی جگہ قائم رہتے ہیں ـ شعرائے کرام کو چاہیئے کہ اردو ادب کو مزید دلچشپ بنانے کے لیے انہیں ابھی مزید محنتیں درکار ہیں ـ اور اپنے تخلیقی الاؤ کو مزید دہکانے کی ضرورت ہے ـ 
         ہم برادر توصیف ترنل صاحب  کو مبارکباد پیش کرتے ہیں کہ وہ مسلسل ادارہ عالمی بیسٹ اردو  کے ذریعے اردو زبان و ادب کی خدمت کئے جارہے ہیں ـ برق رفتاری کے ساتھ مختلف پروگر امس دیئے جارہے ہیں ـ یہ واقعی تاریخی کارنامہ اور ناقابلِ فراموش خدمتِ اردو ادب ہے ـ جسے وقتِ مستقبل بھی وقتِ حال کی طرح سنہرے حرفوں سے یہ تحریر کرنے میں فخر محسوس کرے گا کہ " محترم توصیف ترنل صاحب  ناقابلِ فراموش شخصیت ہیں ـ "   
     میں آج کے اس مشاعرے میں شریک تمام شعرائے کرام کا شکریہ ادا کرتا ہوں ـ کہ اس منفرد پروگرا م سے ادبی دنیا میں نئی ردیف نکالنے اور نئی ردیف کو اہمیت دینے کا مزاج اور ماحول بنے گا ـ جو ادب کے فروغ ہی کا ایک اہم اور بنیادی حصہ ہے ـ

              مقالہ نگار
    **   علیم طاہر ( انڈیا )




بسم الله الرحمٰن الرحیم

السلام علیکم
ادارہ، عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری جو اردو زبان و ادب کی بقاء ترقی اور ترویج کے سبب نیک شہرت رکھتا ھے۔ اور دنیا بھر میں پھیلے ھوئے محبان, اردو کو آئے دن ادب کی ایک نئی جہت سے روشناس کراتا ھے اب  عالمی ماہنامہ "آسمانِ ادب" کے نام سے ایک مکمل ادبی جریدہ پی ڈی ایف فارمٹ میں منظر, عام پر لانے کا متمنی ھے جس میں اردو ادب کی مختلف اصناف کی اشاعت ممکن بنائی جائے گی۔
۱- غزل۔ نظم۔ نثر پارے۔ نثر اور دیگر
۲- اداریہ۔ ادارہ کی طرف سے اداریہ تحریر ھوگا جس میں کسی بھی ادبی مسئلہ کو زیر, بحث لایا جا سکتا ھے۔
نیز مہمان اداریہ بھی ممکن بنایا جائے گا۔
۳- شعراء کی فہرست میں عموماً حفظِ مراتب کے مسائل کا سامنا رہتا ھے لہٰذا ناموں کی فہرست حروف, تہجی کے ذریعے مرتب کی جائے گی تاکہ شکر رنجی کا احتمال نہ رھے۔
۴- صرف معیاری کلام اشاعت کے لیے منتخب کیا جائے گا۔
۵- یاد, رفتگاں کے نام سے ایک گوشہ مرتب کیا جائے گا جس میں ازمنہ رفتہ کے ادباء و شعراء کی لافانی تخلیقات شائع کی جائیں گی تاکہ میدان, سخن کے نئے شرکاء کماحقہٗ اساتذہ کے کلام سے مستفیض ھو سکیں۔
۶- ابتدائی صفحات کی تعداد تیس تا پچاس ھوگی جو بتدریج بڑھائی جائے گی۔

آپ تمام احباب سے گزارش ھے کہ اپنی تخلیقات ہر ماہ کی سولہ تاریخ تک ادارہ کے مرکزی دفتر ہانگ کانگ بذریعہ ای میل۔ وٹس ایپ۔ پوسٹل ایڈرس روانہ کی جائیں۔

عالمی ماہنامہ آسمانِ ادب

بانی و سرپرست اعلیٰ- توصیف ترنل

مدیرِ اعلیٰ- علی مزمل

مدیر- مختار تلہری

معاون مدیر۔دعاعلی

سرورق ،ڈائزائنگ ۔دعاعلی

میگزین آرگنائزر- خالد سروحی

کمپوزنگ آرکیٹئکٹ- میھر خان

لیگل ایڈوائزر- جاوید حلیم ایڈووکیٹ ہائی کورٹ بار- کراچی

زیرِ انتظام:-
دارہ،عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری
 ہانگ کانگ

ادارہ، عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری
کی جانب سے پیش کرتے ہیں

عالمی ماہنامہ آسمانِ ادب(نومبر2017)

http://touseefturnal.blogspot.hk/2017...

http://www.duaalipoetry.com/2017/11/blog-post.html?spref=fb&m=1

https://m.youtube.com/watch?feature=share&v=iFBBgIuwYjQ

https://drive.google.com/file/d/1lImJvtU8hG-UU9K-cXLEx4dK9FBOUwpm/view?usp=drivesdk

اداریہ

اردو ادب میں سرقہ کا رجحان

اردو ادب میں سرقہ کا رجحان چنداں نیا نہیں مگرجو بات تشویش کا بوعث ہے وہ یہ کہ اب سرقہ باز کسی کی شبانہ روز عرق ریزی پر ڈاکہ ڈالتے ہوئے زرا پشیمان نہیں ہوتا بالکہ اسے اپنا بنیادی جمہوری حق سمجھتا ہے-
اگر گزشتہ پندرہ برس کی ادبی تاریخ کا مشاہدہ کیا جائے توحقیقت آشکار ہوتی ہے کہ جوں جوں سوشل میڈیا نے فروغ پایا ویسے ویسے حقیقی ادب کے فروغ کے ساتھ ساتھ غیر ادبی اور سہل پسند اشخاص بھی خودنمائی کے شوق میں خود رو طفیلیوں کی طرح نمو پاتے رہے اور اس مختصر عرصہ میں اردو ادب کے تناور درخت کو آکاس بیل کی مانند گرفت میں لے چکے ہیں- مبادہ کہ آکاس بیل اردو ادب کے درخت کو کھوکھلا کر دے محبانِ اردو کو خُم ٹھونک کر میدانِ عمل میں اترنا ہوگا تاکہ اس قبیح عمل کی حوصلہ شکنی کی جا سکے-
جس کے لیے مفادِ عامہ میں چند تجاویز پیش کی جا رہی ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر ممکنہ حد تک اپنی تخلیقات کو محفوظ کیا جاسکتا ہے-

 پہلی تجویز-

سنجیدہ ادب سے وابستہ افراد اپنی تخلیقات کی سوشل میڈیا پر تشہیر میں محتاط رہیں-

دوسری تجویز-

حقیقی ادب سے وابستہ افراد پرنٹ میڈیا یعنی کسی جریدے- شمارے اخبار کے ادبی صفحات یا دیگر ذرائع سے اپنی تخلیق کی اشاعت ممکن بنائیں تاکہ سرقہ کی صورت میں آپ کے پاس تحریر کی ملکیت کا دستاویزی ثبوت موجود ہو-

تیسری تجویز-

اگر استطاعت ہو اور اس قدر تحریری مواد موجود ہوکہ کتاب مرتب ہو سکے تو مستحسن ہے کہ کتاب کی اشاعت عمل میں لے آئیں-

چوتھی تجویز-

اگر اشاعت ممکن نہیں تو متعلقہ محکمہ سے اپنا مسودہ رجسٹرڈ کرا لیں جس میں زیادہ اخراجات نہیں آتے مگر آپ کی تخلیق سرقہ بازوں سے محفوظ ضرور ہو جاتی ہے-
اچھی بات یہ ہے کہ آپ اپنا ایک شعر یا ایک غزل بھی رجسٹرڈ کرا سکتے ہیں-

پانچویں تجویز-

اپنے تخلیقی مجموعہ کا نام مشتہر کرنے سے پہلے رجسٹر کرالیں ورنہ نام اچھا ہونے کی صورت میں کوئی بھی آپ سے قبل اُچک سکتا ہے اور آپ سے پہلے اپنی کتاب منظرِ عام پر لا سکتا ہے-

چھٹی تجویز-

کلام سرقہ ہونے کی صورت میں فوری طور پر اپنے علاقہ کے ایف آئی اے دفتر میں انٹلیکچول پراپرٹی پروٹیکشن یونٹ سے رابطہ کیا جائے جو آپ کو آپ کا حق دلانے میں مکمل تعاون کریں گے اگر آپ نے پہلے سے اپنی تخلیقات رجسٹر کرا رکھی ہوں یا آپ کے پاس تخلیق کو اپنا ثابت کرنے کی کوئی دستاویز ہو- بصورت دیگر آپ کو اپنی تخلیق سے ہاتھ دھونا پڑیں گے جو نہایت تکلیف دہ امر ہے-

ساتویں تجویر-

اپنی تخلیقات کی کم از کم دو یا تین نقول محفوظ اور مختلف مقامات پر رکھیں خدا نخواستہ کسی حادثہ کی صورت میں آپ کی تخلیقات محفوظ رہیں گی-

آٹھویں تجویز-

متشاعروں اور سرقہ بازوں سے مکمل پرہیز آپ کی ذہنی سکون کا ضامن ہے-

ادارہ

*🌍ادارہ,عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری🌍*
کی جانب سے ایک اور منفرد پروگرام پیش کرتے ہیں...
*نوٹ* تمام شعراء دورانِ پروگرام اپنا کلام بذاتِ خود برائے تنقید پیش کریں گے...  تنقید کی پوری اجازت ہوگی...
ادارۂ ھٰذا دنیا کا واحد ادارہ ہے، جو اس برقی ترقی یافتہ دور میں شعراء,ادباء و مصنفینِ زبانِ اردو ادب کی ذہنی آبیاری کرتا ہے اور نئے نئے لسانیاتی پروگرامز منعقد کرتا ہے...
===========================
*We present 127th Unique Program*
ایک اور شاندار غزلیات کا پروگرام
*نئی ردیف*
ادارے کی جانب سے پیش کیا جائے گا
*احمد فراز ایوارڈ*
آپ کی اپنی زمین آپ کی الگ پہچان بناتی ہے۔ شعرا اپنی زمینوں میں غزل کہیں گے۔
اس پروگرام میں تمام شعراء ایسی غزلیں پیش کریں گے جن کی ردیف ان کے خیال میں بالکل نئی ہو پروگرام کے آخر میں کمیٹی تین بہترین ردیفوں کا اعلان کرے گی تمام شعراء اور شاعرات کو اس مشاعرے میں شمولیت کی دعوت دی جاتی ہے
ان شاء اللہ بروز ہفتہ
تاریخ 2 دسمبر 2017ع
رات 7 بجے
منجانب
انتظامیہ ادارہ
===========================
👑صدور 👑
محترم انؔیس بھٹکلی صاحب کرناٹک انڈیا
محترم شاہین فصیح ربانی صاحب مسقط عمان
مہمانانِ خصوصی
محترم مائل پالدھوی صاحب سورت بھارت
محترم طارق تاسی صاحب لاہور پاکستان
رپوٹ
محترم نفیس احمد نفیس صاحب ناندوروی بھارت

مقالہ
محترم علیم طاہر صاحب (انڈیا)
نظامت
محترم علیم طاہر صاحب (انڈیا) 
===========================
ججیز پینل
محترم علی مزمل صاحب کراچی پاکستان
محترم امیرالدین امیر بیدر صاحب بھارت
محترم احمد کاشف صاحب بھارت
===========================
*🌏آرگنائزر🌏*
*توصیف ترنل ہانگ کانگ*
پروگرام آئیڈیا
محترم امین اڈیرائی صاحب پاکستان
===========================
*📡 پبلشرز 📡*
محترم عثمان عاطس صاحب پاکستان
*📱ویب سائیٹ📱* onlineurdu.com
محترم منظور قادر بھٹی صاحب
(چیف ایڈیٹر عکسِ جمہور رسالہ)
محترم سردار امتیاز خان صاحب
(چیف ایڈیٹر روزنامہ پرنٹاس اخبار)
توصیف ترنل
touseefturnal.blogspot.com
touseefturnal.tumblr.com
https://www.youtube.com/channel/UCvWq7-0Sdc107G-yPpoaOhA
egohater.wordpress.com
Graphic designer
محترم داؤد حسین عطاری
بہاولپور پنجاب پاکستان
============================
1) *🍁حمدباری تعالیٰ🍁*
محترم ڈاکٹر نبیل احمد نبیل صاحب پاکستان
محترم ڈاکٹرارشاد خان صاحب ممبرا مہاراشٹرانڈیا
2) *🍁نعتِ رسول عربیﷺ🍁*
محترم طارق تاسی صاحب لاہور پاکستان
محترم ڈاکٹر نبیل احمد نبیل صاحب پاکستان
===========================
1-محترم علیم طاہر صاحب (انڈیا)
2-محترم شوزیب کاشر صاحب آزادکشمیر
3-محترم شکیل انجم صاحب جلگاؤں مہاراشٹر انڈیا
4-محترم ارسلان گوشی صاحب سیالکوٹ رڈیال پاکستان
5-محترم ظہیر احمد مغل صاحب حویلی کہوٹہ آزاد کشمیر
6-محترم نفیس احمد نفیس صاحب ناندوروی بھارت
7-محترم مصطفی دلکش صاحب ممبئی مہاراشٹر انڈیا
8-محترمہ انبساط ارم صاحبہ(انڈیا)
9-محترم ڈاکٹرارشاد خان صاحب ممبرا مہاراشٹرانڈیا
10-محترم عبدالحمید ابنِ ربانی صاحب پاکستان
11-محترمہ ڈاکٹر مینا نقوی صاحبہ۔۔مراداباد۔۔بھارت
12-محترم امین اڈیرائی صاحب پاکستان

13-محترم شہزاد نیّر صاحب پاکستان

Tuesday, November 21, 2017

ڈاکٹر مینا نقوی۔۔۔مرادابار ۔۔بھارت (نام کتاب:شفق رنگ)



بیسٹ اردو پوئیٹری کے لئے 25 غزلیں 

غزل۔۔1

یہ مت سمجھنا فقیر ہوں میں

انا کے حق میں کثیر  ہوں  میں


مجھے ستارہ  سمجھنے  والوں

فلک   پہ بدرِ   منیر   ہوں  میں


ہے منصفی میرے  دم  سے قائم

عدالتوں  کی  مشیر  ہوں   میں


ہے مجھ  میں زنجیر  چاہتوں کی 

محبتوں    کی   اسیر    ہوں  میں


حقیقتیں مجھ میں خیمہ زن ہیں

صداقتوں  کی  سفیر    ہوں  میں


کہاں گئٰ   عشق  کی   وہ  شدّت

نہ تو  وہ رانجھا  نہ  ہیر  ہوں میں


کہاں   رہا    تیرگی    کا    عالم

ازل  سے  روشن  ضمیر  ہوں میں


مثال    میری   نہیی  ملے  گی

کہ  آپ  اپنی  مثال  ہوں  میں


سجا  ہے  شعروں  میں  درد " مینا'

غزل  کے لحجے  کی  میر ہوں میں


غزل۔۔۔2

دھوپ آئ نہیں مکان میں کیا

ابر گہرا ھے آسمان میں کیا


آہ کیوں بےصدا ھے ہونٹوں پر

لفظ باقی نہیں زبان میں کیا


ہو گیا نیل گوں بدن سارا 

تیر زہریلے تھے کمان میں کیا


سارے کردار ساتھ چھوڑ گئے

آ گیا موڑ داستان میں کیا


جھلسا جھلسا ھے کیوں بدن سارا

آ گئی دھوپ سائبان میں کیا


ناشناسا ھے چاند سے کیوں دل

صرف تارا تھا آسمان میں کیا


روز و شب کس کی راہ تکتی ہو

تم ہو " مینا" کسی  گمان میں کیا


غزل۔۔۔3

وہ ھے اپنا یہ جتانا بھی نہیں چاہتے ہم

د ل کو اب اور دکھانا بھی نہیں چاہت ہم


آرزو ھے کہ وہ ہر بات کو خود ہی سمجھے

دل میں کیا کیا ہے دکھانا بھی نہیں چاہتے ہم


ایک پردے نے بنا رکھا ہے دونوں کا بھرم

اور وہ پردہ ہٹانا بھی نہیں چاہتے ہم


تہمتیں کتنی بھی لگتی رہیں ہم پر لیکن 

آسماں سر پہ اٹھا نا بھی نہیں چاہتے ہم 


خودنمائ ہمیں منظور نہیں ہے ہرگز

ایسے قد اپنا بڑھانا بھی نہیں چاہتے ہم


دس سے ملنا ہے اسے ایک ہیں ان میں ہم بھی

اس طرح اس کو بلانا بھی نہیں چاہتے ہم


ہم سے ملنے کی تڑپ جب نہیں اس کو " مینا"

ہاتھ پھر اس سے ملانا بھی نہیں چاہتے ہم


غزل۔۔۔4

بلندیوں کا تھا جو مسافر ؛ وہ پستیوں سے گزر رہا ہے

کہ جیسے دن کا سلگتا سورج ؛ سمندروں میں اتر رہا ہے


تمہاری یادوں کے پھول ایسے ؛ سحر کو آواز دے رہے ہیں

کہ جیسے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ؛ مری گلی سے گزر رہا ہے


الگ ہیں نظریں'ا لگ نظارے؛ عجب ہیں راز و نیاز سارے

کسی کے جذبے مچل رہے ہیں ؛ کسی کا احساس مر رہا ہے


عجیب جوشِ جنوں ہے اس کا: عجیب طرزِ وفا ہے میرا

میں لمحہ لمحہ سمٹ رہی ہوں؛ وہ ریزہ ریزہ بکھر رہا ہے


نظر میں رنگین شامیانے؛ محبتوں کے نئے فسانے

یہ کون ہے دل کے وسوسوں میں؛ جو مجھ کو بے چین کر رہا ہے


تمام الفاظ مٹ چکے ہیں : بس ایک صفحہ ابھی ھے باقی

اسے مسلسل میں پڑھ رہی ہوں؛ جو نقش دل پر ابھر رہا ہے


وہ میرے اشکوں کے آئینے میں؛ سجا ہے "مینا" کچھ اس طرح سے

کہ جیسے شبنم کے قطرے قطرے میں؛ کوئ سورج سنور رہا ہے


غزل۔۔5

ہیں اجنبی راستوں کے منظر؛ شناسا کوئی ڈگر نہیں ہے

قدم قدم پر صعوبتیں ہیں ؛ سفر تو ہے ہم سفر نہیں ہے


چمن کے شیدائیوں سے اک دن ؛سوال یہ پوچھنا ہے مجھ کو

کھلا جو پرخار جنگلوں میں؛ وہ پھول کیوں معتبر نہیں ہے


میں بند آنکھوں کے آئینوں میں؛ تمہیاری آمد کی منتظر ہوں 

چلے بھی آؤ ؛ مری محبت کا راستہ پر خطر نہیں ہے


تمہاری خوشبو چرا رہی ہوں؛ مثالِ باد سحر. میں لیکن

نگاہ سورج کی چبھ رہی ہے؛تمہیں یہ شاید خبر نہیں ہے


یہ غزلیں ، نظمیں، یہ دل کے جذبے؛یہ مہکے مہکے خیال "مینا"؛ 

سجا رہی ہوں میں لفظ اپنے؛  کسی کی مجھ پر نظر نہیں ہے


غزل۔۔6

غم نہیں ہے چاہے جتنی تیرگی قائم رہے

مجھ پہ بس تیری نظر کی چاندنی قائم رہے


اس لئے اوڑھے ہوئے ہوں میں خزاؤں کی ردا 

میرے گلشن کی فضا میں تازگی قائم رہے


ہم نشیں.!  اتنا بتا دے کیا کروں تیرے بغیر

کس طرح سانسوں سے عاری زندگی قائم رہے


رنگِ الفت کی بقا کے واسطے میرے خدا

عاشقی قائم رہے اور دلبری قائم رہے



کھارے پانی کا سمندر یوں ہوا مجھ کو عطا 

عمر بھر ہونٹوں پہ میرے تشنگی قائم رہے


جب حریفِ جاں ہی دل کی دھڑکنوں میں آ بسے

غیر ممکن ہے کسی سے دوستی قائم رہے


بوئے"مینا" رات کے کھیتوں میں یوں سورج کے بیج

اپنی  کوشش  ہے جہاں میں روشنی قائم رہے


غزل۔۔۔7

خودی  کو  آ  گئی   ہنسی ؛     امید    کے    سوال     پر

اندھیرے    تلملا   اٹھے؛  چراغ  کی    مجال   پر


یہ چاہتوں کا  درد  ہے  ؛ یہ  قربتوں  کا حشر   ہے

جو دھوپ چھپ کے روئی؛  آفتاب کے  زوال پر


یہ جان کر کہ چاند میرے، گھر میں جگمگائے گا

ستارے  آج  شام سے  ہی  ،  آگئے  کمال  پر


نظر میں  زندگی  کی ،  پھول  معتبر نہ    ہو  سکے

خزاں کو اعتراض تھا، بہار سے وصال پر

خبر یہ   دیر سے اڑی کہ موت سے مفر نہیں 

پرند جب  اتر  چکے؛  شکاریوں  کے  جال  پر


زمانہ جس  کی  زندگی  میں  ، قدر   کچھ   نہ کر  سکا

اب آسمان رو رہا ہے ،اس کے انتقال پر


کہاں  وہ "مینا"  چاہتوں   کی  شدتوں  کا    سلسلہ

کہاں یہ بے نیازیاں ہمارے عرضِ حال پر


غزل۔۔8

آساں ہر ایک ہو گئی مشکل مرے لئے

جس دن سے محترم ہوا قاتل مرے لئے


میں وحشتوں  میں دشت و بیاباں کی ہو گئی

مدت سے ملتمس ہے مرا دل مرے لئے


یوں راستوں سے ان دنوں دلچسپیاں بڑھیں 

قدموں کی خاک ہو گئی منزل مرے لئے


آسانیاں نظر کو بچا کر چلی گئیں

ٹھہرے رہے تمام مسائل مرے لئے


آواز میرے حق میں یہ کس نے اٹھائی ہے

اس بھیڑ میں یہ کون ہے عادل مرے لئے


یہ اور بات ہے کہ تجھے کچھ خبر نہیں

"مینا" ترا خیال ہے کامل مرے لئے


غزل۔۔۔9

  ہیں  اہلِ  نظر  یہاں   پہ  سبھی  ،  غلط  کوئی کام ہو نہ سکے

شراب  ِ کہن وہ  پی کے چلے ،   جو  مست   خرام  ہو نہ سکے


نہ کوئی لگن ، نہ دل میں چبھن، نہ رشکِ سخن، نہ رنگِ چمن

نہیں  تھا  جنہیں  شعو رِ وفا   ،  وہ   عالی   مقام   ہو  نہ   سکے


جو تیرہ  شبی  نے چھوڑا  مجھے ، تو دل سے مرے  اٹھی یہ  صدا

اجالے   ذرا    خیال    رہے ،  سحر  کبھی   شام   ہو   نہ   سکے


تھے  ہونٹ مرے  اسی  کے لئے ،  زمانے  سے بےقرار مگر

یہ   قید  مجھے  لگا  دی  گئی ، کہ  لب  پہ  وہ   نام  ہو   نہ سکے


لہو  میں  نہا  کے  وہ  ہی  چلا ، لکھا تھا جبیں  پہ  جس  کی خدا

تھے   اور  بھی   دعوے دار  یہاں ، مگر وہ  امام  ہو  نہ  سکے


خرید  کے لا  نہ  پاؤگے  تم ، ملیں گے  نہیں دوکاں پہ اصول

تھے  صاحبِ زر  ہزار  مگر  ، وفا    کے   غلام   ہو   نہ    سکے


بندھا  کے مری امید کسی ، نے   دور   کہیں  کھلائے   گلاب 

" تھا   شوق ِ جنوں   بلا  کا  مگر  ،  پیام  و سلام   ہو نہ سکے "


غزل۔۔۔10

مزاج اپنے کہاں آج ہیں ٹھکانے پر

حضور آئے ہیں میرے غریب خانے پر


پگھل رہی ہے مسلسل جو برف آنکھوں سے

عجیب دھوپ ہے پلکوں کے شامیانے پر


نہ جانے آ گئے کیوں اس کی آنکھ میں آنسو

جو ہنس رہا تھا مرے درد کے فسانے پر


ذرا سی سمت بدل لی جو اپنی مرضی سے

تو ناؤ آ گئی طوفان کے نشانے پر


خدا بچا کے رکھے "مینا" اس گھڑی سے ہمیں 

کہ بات ٹھہرے کبھی اس کے آزمانے پر


غزل۔۔11

اہل ِ دانش  کو  خبر  کیا،   کیا  ہے   پاگل  کا    مزاج

سنگ باروں کو ہے کب، معلوم  گھائل کا مزاج


کس طرف سے ہے گزرنا، اور برسنا ہے کہاں 

 بس  ہواؤں  کو  پتہ  رہتا  ہے  ،  بادل   کا    مزاج


میرے سر پر رہ کے بھی ،  مجھ پر نہ سایہ کر سکا

میری قسمت سے کہاں ملتا ہے ، آنچل کا مزاج


تجھ کو پلکوں میں چھپا کر ، میں پرستش کر تو لوں 

 آنسوؤں کے ساتھ بہہ جاتا ہے ،  کاجل کا مزاج


جتنا  بھی  چاہوں  نکلنا  ،  ڈوبتی  جاتی  ہوں   میں

تیری یادوں میں  ملا ہے ، مجھ کو دلدل کا  مزاج


"مینا"صدیاں آیئں اور تاریخ بن کر رہ گئیں

 لمحہ  لمحہ  جانتا  ہے ،  میرے  ہر  پل  کا    مزاج


غزل۔۔۔12

سورج  سرک کے آ گیا   شب کی    پناہ  میں

    منظر   لہو   سا  بھر   گیا  جاں  کی نواہ  میں


سانسوںمیں شور کرتی ہیں  کچھ بےقراریاں

کچھ حسرتیں  ہیں گریہ کناں  غم کی  راہ  میں


شاید کوئی نویدِ  طرب  لے  کے آ  ہی  جائے

جگنو    سا   کچھ  چمکتا   ہے  تاریک   راہ    میں


ہے   دشت   کو  بھی   بزمِ  غزالاں   کی  جستجو             

میرا   ہی    نام  لکھا   گیا   کیوں     گناہ     میں


مجھ  کو بھی  پیشِ رفت  سے روکی تھی بے بسی

اس  کو بھی  پیش و پس  رہا  مجھ  سے  نباہ  میں


کس     کو   کنیز   ِ خاص   کا    ہو   مرتبہ     عطا

"مینا"    ہے   کشکمکش      دل  ِ  عالم    پناہ   میں


غزل۔۔۔13


دل سے کوئی سوال کسی نے نہیں کیا

حیرت ہے یہ کمال کسی نے نہیں کیا


مل جل کے سب نے بانٹ لیں دولت حیات کی

لیکن مرا خیال کسی نے نہی کیا


پہنچا نہ کوئی روح کی گہرائیوں تلک

جسموں سے انتقال کسی نے نہیں کیا


شاخوں سے ٹوٹنے پہ ہوئے خود ہی در بدر

پتوں کو پائمال کسی نے نہیں کیا


میں سب کے ساتھ ساتھ رہی غم کے دور میں

غم.کا مرے ملال کسی نے نہیں کیا


اوروں میں عیب جوئی میں سب عمر بھر رہے

خود کو مگر مثال کسی نے نہیں کیا


غزل۔۔14

سرد سرد موسم میں ; بھیگتے اندھیرے میں زندگی گزرتی ہے

شکل ایک مبہم سی,آیئنے میں  آنکھوں کے چپکے سے سنورتی ہے


عمر کٹ گئی ساری. یونہی دشت و صحرا میں ,اک تلاشِ ہیہم میں .

جانے کس لئے پھر بھی, راستوں پہ , لاحاصل جستجو ٹھہرتی ہے


حبس کی ہواؤں میں, یوں تو سارے منظر پر ایک ہو کا عام ہے

پھر بھی ایک خوشبو سی, ذہن و دل کے گلشن سے روح میں اترتی ہے


عمر بھر کی تنہائی, لمحہ بھر کی قربت کو بھول ہی نہیں پائی

انتظار کیوں جانے اب بھی اس کے آنے کا زندگانی کرتی ہے


جیسے کوئی پاگل ہو,روح اک بھٹکتی ہے  جسم و جاں کے جنگل میں ,  

روز شام ڈھلتے ہی , اس خموش وادی میں اک صدا ابھرتی ہے


غزل...15

گردشِ وقت کچھ زیرِ لب کہہ گئٰی

زندگی برف تھی دھوپ میں بہہ گئی


موت زیر و زبر روز کرتی رہی 

آرزو زیست کی  منجمد رہ گئی


جانے کس شاہزادے کی تھی منتظر

وہ پرانی حویلی جو کل ڈھ گئی


منزلوں کے مسافر تمہیں کیا خبر

تم سے بچھڑی کوئی رہ گزر رہ گئی


رقص گرداب کرنے لگے جا بجا

موج ساحل کے کچھ کان میں کہہ گئی


حال "مینا"کا ہم کیا بتائیں تمہیں 

چاند جب چھپ گیا چاندنی گہہ گئی


غذل۔۔16

رات ماضی کے خیالات میں ڈھل جاے گی 

نیند پلکوں کی منڈیروں سے پھسل جاے گی


مجھ کو دہلیز کے اس پار نہ جانے دینا 

گھر سے نکلوں گی تو پہچان بدل جاے گی.


مانگ لوں اس کو وہ مل جاے گا مجھ کو ؛ لیکن 

میری خوددار انا مجھ کو نگل جاے گی


یاد کی کشتیاں جب ڈوب کے ابھریں گی کبھی 

موج اک غم کے سمندر میں اچھل جاے گی


"مینا" نکلے گی محبت کی ذرا رھوپ اگر 

اجنبیت کی بھی یہ برف پگھل جاے گی  

غزل۔۔۔17

آشنائ کی ردا اس دھوپ میں تانے  کون

ایسی انجانی فضا میں ہم کو پہچانے گا کون


آبلا پا, جسم زخمی ,اشک آنکھیں, دل لہو

خاک میرے بعد صحراؤں کی یوں چھانے گا  کون


جب محبت  کے دیوں سے روشنی اڑ جائے گی

چاند تارے توڑ کر لانے کی پھر ٹھانے گا کون


روشنی کو تیرگی کی دوستی راس آ گئ

جھوٹ کی بستی میں سچّی بات اب مانے گا کون


زندگی کی اس خزاں میں ہم کو اپنے ساتھ رکھ

شاخ سے ٹوٹے ہوئے پتّوں کا دکھ جانے گا کون


ٹانک دو جذبوں کے موتی شاعری میں جا بجا

ورنہ اس دنیا میں "مینا" تم کو پہچانے گا کون


غزل۔۔18

ہنر پہ بھی ہمارے عیب کی شمشیر چلتی ہے
یہ لگتا ہے حکومت اس کی عالمگیر چلتی ہے

کبھی دیکھا تھا اس نے مجھ کو چاہت کی نگاہوں سے
نظر کے سامنے اب تک وہی تصویر چلتی ہے

ستاروں پر کمندیں ڈالنا چاہا توتھالیکن
ہمیشہ دو قدم آگے مری تقدیر چلتی ہے


 سفینہ بادباں کے  رخ پہ چلتا ہے سدا جیسے
سمندر پر ہوا اور موجوں کی جاگیر چلتی ہے


محبت اور وفا کی جستجو ہر دم رہی "مینا"
مگر تقدیر کے آگے کہاں تدبیر چلتی ہے


غزل۔۔19

یہ کم تو نہیں اس کی وفا میرے لئے ہے
ظلمت میں بھی اک جلتا دیا میرے لئے ہے


دہلیز پہ آنکھیں رکھوں ، رستہ بھی تکوں میں 
یہ قرب کے لمحوں کی سزا میرے لئے ہے



میں شاخ سے بچھڑی ہوئی اک برگ ہوں شاید
صحرا میں چلی تیز ہوا میرے لئے ہے


بخشی ہے خدا نے جو تمہیں   شوخئ گفتار
یہ  فخر مجھے ہے کہ حیا میرے لئے ہے


سورج کی تپش کیا ہے اگر ساتھ ہے اس کا
بادل ہے مرے نام گھٹا میرے لئے ہے


چھو کر اسے آئی تو مہکنے لگی مجھ میں 
محسوس ہوا بادِ صبا میرے لئےہے


آئیندہ زمانوں میں بھی زندہ میں رہوں گی
معصوم فرشتوں کی دعا میرے لئے ہے


غزل۔۔۔20

یوں تو ہر سانس سے لپٹا ہے وہ خوشبو کی طرح
پھر بھی بیچین ہے دل دشت میں آہو کی طرح


بن کے سیلاب بہا لے گیا دل کی بستی
پھر بھی آنکھوں میں رہا جذب وہ آنسو کی طرح


دل کی کٹیا سے جو خوشبو کا دھواں اٹھتا ہے
کون ہے دھونی رمائے ہوئے سادھو کی طرح


تیری یادیں تیرے ہونے کا پتہ دیتی ہیں
سر کا تکیہ بھی ہو جیسے ترے بازو کی طرح


ا اس کو سوچا ہے جو "مینا"، یہی محسوس ہوا
دل کی رفتار ہوئ جاتی ہے آہو کی طرح


غزل۔۔۔21

یوں عشق میں نقصان سے کرتے ہیں مفر لوگ

رکھتے ہیں تجارت کو فقط پیشِ نظر لوگ


پسپا ہوئے احساس سے جذبات تو جانا

غمگین ہی. کیوں  بستی میں کچھ سینہ سپر لوگ


سنتے ہیں کہ بن بیٹھے ہیں وہ چھاؤں کے مالک

ہیں دھوپ کے رستے میں جو بے شاخ و ثمر لوگ


دن ہو گئے محرومِ نظر اس لئے شاید

راتوں کے تحفظ میں ہیں سب شمس وقمر لوگ


شفقت بھی, محبت بھی عطا کر دیں جو " مینا"

آتے ہیں کہاں ایسے زمانے میں نظر لوگ


غزل۔۔22

عیادتوں کے لیے چارہ گر نہیں منظور

ہم اہلِ دل کو کرایے کا  گھر نہیں منظور


ہمارے ساتھ چلو زندگی کے آخر تک

برائے نام  ہمیں ہمسفر نہیں منظور


یہ قید ہو نہیں سکتیں کسی کی مٹّھی میں

یہ خوشبویئں ہیں انہیں  کوئی در نہیں منظور


نہ آسرا  نہ حفاظت نہ کوئی دلجوئی

سلگتی دھوپ کو ایسا شجر نہیں منظور


جو خودپرستی کے تالاب میں ہیں ڈوبے ہوئے

انہیں صدف کے تہوں  سے گہر نہیں منظور


عمل ہمارا سبھی کو سکون دے" مینا"

جو دل دکھائے  ہمیں وہ ہنر نہیں منظور


غزل۔۔23

طوفاں   سے   نکل آئی کشتی مری ساحل تک

آواز       لگی       دینے          صد آفریں   منزل    تک


   امید    کی  آنکھیں  تھیں  دہلیز  کی   آہٹ   پر

  اور ساتھ رہا میرے  اس شب مہ کامل تک 


اک   راز  کے       ہونٹوں      پر الفاظ مقفل تھے

حالانکہ   شناسا    تھے   مقتول  سے   قاتل تک  


پھولوں سے ہو کیا نسبت احساس نہیں جس میں 

۔جذبات سے عاری ہے پتھر کی طرح دل تک۔۔۔۔۔یہ رکھیں


جب چاند ستارے بھی کھو جایئں اندھیرے میں 

تب   راہ   دکھاتی   ہے   اک  جگنو   کی جھلمل     تک


 اک اس کے نہ آنے سے یوں جان پہ بن آئ 

 سانسوں   کو   مری.  جیسے    پہنچا  دیا  مشکل     تک


کیا لطف عجب آئے یوں  سجنے سنورنے میں 

آئینہ جب آ جائے  خود    میرے    مقابل تک 
                                      پرچھائیاں یادوں کی, ہم رقص ہیں "مینا" کی.

 اک  وجد  کا  عالم ہے تنہائی  سے محفل تک              


غزل۔۔24

پہچان  کبھی     اپنی   بدلنے  کی    نہیں       ہوں

شرطوں  پہ  تری  میں  کبھی  چلنے کی نہیں ہوں


میں   بن  کے  اجالا  ترے آنگن میں رہوں گی

مانند  مگر  دھوپ   کے   جلنے   کی   نہیں   ہوں


معلوم     ہے     پتھر    مجھے    سمجھے    گا     زمانہ

میں   برف   کی   مانند   پگھلنے   کی   نہیں   ہوں


اس   درجہ   زمانے   کے   ہوں   آزار   اٹھائے

باتوں  سے  کسی  طور   بہلنے   کی  نہیں     ہو ں


خوشبو ہوں ، گلو ں  سے مرا رشتہ ہے ازل سے

میں  کانٹوں  کے  ماحول میں پلنے کی نہیں ہوں


غزل..21

جذب آنکھوں میں اگر خواب نہیں ہونے کے

معتبر  عشق   کے   آداب   نہیں   ہونے    کے


بس   مری   کشتی   سے   ہی  بیر تھا طوفانوں کو

اب  سمندر  کبھی  گرداب   نہیں  ہونے     کے


ہم   نے   پلکوں   میں  چھپا رکھے ہیں اپنے آنسو

رائیگاں    گوہر      نایا ب   نہیں    ہونے     کے


بے   حسی   لے   گئی   جذبات   کی   ساری خوشبو

اب   یہ   غنچے   کبھی   شاداب    نہیں ہونے کے


اس   سے  ملنے کی   تمنا   کبھی    خواہش   اس کی

یہ   سفینے   کبھی   غرقاب    نہیں   ہونے      کے


ٹمٹماتے   ہیں   ابھی  یادوں   کے   بوسیدہ   چراغ

کیا   یہ   جگنو   کبھی   مہتاب   نہیں   ہونے    کے


تو   سمندر   ہے  مگر  پیاس  سے  تڑپے  ہم  لوگ

تلخ   پانی  سے   تو   سیراب     نہیں   ہونے   کے


پھر   سرِ   شام   سے    ہے  یادوں کی دستک "مینا"

آج   پھر  نیند  کے   اسباب    نہیں    ہونے   کے


غزل۔۔25

غزل کے لہجے کو یوں'  میر' کر رہی ہوں میں

کہ   اپنا دل   تہہِ شمشیر کر   رہی   یوں   میں


نفس   نفس کی  گھٹن   سے   نجات   پانے   کو

تعلقات    کو      زنجیر     کر   رہی   ہوں    میں


محبتوں    کی    خطائیں   معاف ہو    بھی    چکیں  

وفا   کی  آج   بھی   تقصیر  کر  رہی   ہوں  میں


ترے    خلوص     پہ     اتنا    ہے  اعتبار      مجھے

کہ دھندلے عکس  کو تصویر   کو رہی  ہوں  میں


یہ جان  کر  بھی  کہ  پتھر  میں حس  نہیں  ہوتی  

تمام    جذبوں   کی    تشہیر    کر   رہی  ہوں  میں


کبھی   تو     چمکے      گا     کارِ    حیات     کا      جگنو

کہ    ایک   خواب   کو تعبیر  کر   رہی  ہوں  میں


غزل میں رکھتی ہوں" مینا" میں دھڑکنیں  دل کی

یوں    اپنی    فکر    کو  تحریر  کر    رہی  ہوں  میں