Tuesday, November 21, 2017

خاطر غزنوی ایوارڈ





ادارہ. عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری. ہانگ گانگ


"محفل نظم نگری"
رودادِ مشاعرہ
مرتب-
علی مزمل. کراچی. پاکستان

ادارہ. عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری اپنے منفرد اور جداگانہ طرزِعمل کے باعث دنیائے ادب کے افق پر کثیرالجہت روشنیاں منعکس کرتے ستارے کی مانند جگمگا رہا ہے اور ان شاءاللہ وہ وقت زیادہ دور نہیں جب ادارہ. عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری چیئرمین جناب توصیف ترنل صاحب کی سربراہی میں "شمس الادب" کہلانے میں حق بجانب ہوگا-
فی زمانہ نظم اردو ادب کی ایک معروف صنف ہونے کے باوجود غیر محسوس طور پر پسِ پشت چلی گئی ہے ادارے نے اسی رجحان کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے "نظم نگری" کے عنوان سے ایک محفلِ مسابقت بسلسلہ " عالمی موضوعاتی. تنقیدی. نظمیہ " مورخہ- ۲۰۰۱۷-۱۱-۲۵ بروز ہفتہ بوقت ۷ بجے شام منعقد کئی جس میں بشمول پاکستان اور بھارت دنیا بھر کے معروف شعراء نے شرکت فرما کر محفل کو رونق افروز کیا-
آج کےعالمی موضوعاتی تنقیدی نظمیہ مشاعرہ کی خصوصیت یہ ہے کہ اول آنے والی نظم کو "خاطر غزنوی ایوارڈ" سے نوازہ جائے گا-
مشاعرہ کی صدارت محترمہ شہنازمزمل صاحبہ (پاکستان) اور محترمہ انبساط ارم صاحبہ (انڈیا) کو سونپی گئی-
جب کہ مہمانِ خصوصی کی مسندیں محترمہ جہاں آرا تبسم صاحبہ کوئٹہ (پاکستان) اور محترمہ مینانقوی صاحبہ ( انڈیا ) کو تفویض ہوئیں-
تنقید نگاری کے فرائض محترم جناب ڈاکٹر شفاعت فہیم صاحب اور محترم جناب میجر شہزاد نیر صاحب نے انجام دیئے-
محفل کی کامیابی میں جہاں بہت سے عوامل کار فرمارہے وہاں محترمہ ثمینہ ابڑو صاحبہ کی جاندار نظامت کا تذکرہ نہ ہوا تو گویا کفرانِ نعمت ہوا- آپ نے جس طرح سہج سہج کر نظامت کی اس نے محفل کو چارچاند لگا دیئے-
یاد رہے مذکورہ مشاعرہ موضوعاتی تھا جس کے موضوعات یہ تھے-
محبت
غمِ حیات
الہام
شہادت
امید
نارسائی
کیکٹس
خواب
شکوہ
کتھارسس- وغیرہ
مگر صدحیف کہ اکثر شرکاء نے اس پابندی کی پاسداری نہیں کی- خیر یار زندہ صحبت باقی کے مصداق آئندہ پر اٹھا رکھتے ہیں-

شروعات-

ادھر گھڑیال نے گجر بجا کر سات بجنے کا اعلان کیا ادھر ثمینہ ابڑو صاحبہ نے حمدِباری تعالیٰ کے لیئے جناب ڈاکٹر اشادخان صاحب کو دعوتِ کلامِ دی-

ڈاکٹرارشاد خان صاحب نے باگاہِ الٰہی میں حمدِباری تعٰالیٰ پیش کی اور تحسین اور دعاوں سے مالامال ہوئے-
بعدازاں محترمہ شہناز مزمل صاحبہ اور جناب وسیم ہاشمی صاحب نے حمدِباری تعالیٰ سے دلوں کو منور کیا-
حمدِپاک کے بعد کشمیر کے منفرد لہجے کے جواں سال جواں فکر شاعر جناب شوزیب کاشر کو ہدیہء نعت کی سعادت نصیب ہوئی- 
جناب شوزیب کاشر کی نعت نے شرکاء محفل کو رحمتوں اور برکتوں کی نوید دی-

نعت کے چند اشعار

مری نس نس جو یوں مہکی ہوئی ہے
دیارِ جاں میں خوشبو نعت کی ہے
فرشتے چاسو سایہ فگن ہیں
درودِ پاک کی محفل سجی ہے

شوزیب کاشر کی نعتِ مبارکہ کے بعد جناب نصیر احمد گرواہ کو دعوتِ کلام دی گئی- جنہوں نے "محبت" کے عنوان سے ایک مختصر نظم پیش کرکے داد سمیٹی-
اس کے بعد عتیق العالم گرواہ صاحب کو دعوتِ کلام دی گئی- عتیق العالم گرواہ صاحب نے مختصر نظم بعنوان "نخلِ امید" پیش کی جسے ناقدین روائتی نظم کہا-
اس کے بعد شمعِ محفل انڈیا کے ہونہار شاعر جناب علیم طاہر کے رو بہ رو لائی گئی- علیم طاہر صاحب نے "محبت میرے دل میں تُو" کے عنوان سے دل کش نظم پیش کی تحریری نظم کے ساتھ ساتھ ان کے روائتی صوتی پیغام نے سامعین کی ارواح کو مرتعش کردیا- خوب سما بندھا-

نمونہء کلام ملاحظہ ہو-

محبت  روحوں کی آواز
محبت  ان دیکھا ہر ساز
محبت     البیلا     انداز
محبت دل کے  اندر   راز
محبت ظلمت میں جگنو
محبت  میرے   اندر   تو

جناب علیم طاہر صاحب کے بعد ڈاکٹر ارشاد خان صاحب نے اپنی نظم بعنوان "پیغامِ محبت" پیش کی جس پر ناقدین نے اپنی گراں قدر آرا سے نوازا-

پھر باری آئی استاد شاعر محترم امیرالدین امیر بیدر صاحب کی جن کا تعلق کرناٹک (انڈیا) سے ہے اور شعر گوئی میں یدِطولیٰ رکھتے ہیں اور کتب تصنیف کرچکے ہیں- آپ نے "تاج محل" کے عنوان سے نظم پیش کی اور خوب داد و تحسین کمائی- 

نمونہء کلام ملاحظہ ہو-

دفن ہیں جس میں دلِ شاہِ جہاں کی دھڑکنیں
لے رہی ہے ذرے ذرے میں محبت کروٹیں
سنگِ مرمر کی عمارت ہے محبت کا جمال
جیسے تصویرِ مصور جیسے شاعر کا خیال

امیرالدین امیر بیدر صاحب کے بعد دعوتِ کلام وادیء سندھ سے طلوع ہوتے خوش کلام شاعر جناب اشرف علی اشرف کو دی گئی-
آپ نے اپنی نظم "تمہیں معلوم ہے جاناں" پیش کی اور شرکاء کے لیے خوش گوار تسکین کا باعث بنے-

نمونہء کلام-

وہ اتنی خوب صورت ہے کہ جیسے
بارشوں کے بعد والی رات کا منظر
کہ جس میں آسماں کی نیلگوں چھت پر
ستارے جھلملاتے ہیں تو دل کو چین ملتا ہے

اب جگر تھام کے بیٹھو مری باری آئی- جی آپ درست سمجھے مجھ خاکسار ہی کو پکارا گیا لہٰذا تمام یاد آیات کا ورد کرتے ہوئے بغیر امام ضامن باندھے میدانِ کارزار میں اترے اور "محبت" کے عنوان سے نظم داغ دی- بس پھر کیا تھا ایک محشر بپا تھا داد وصول کرتے کرتے اور شکریہ ادا کرتے کرتے جبڑے کو لقوہ مارگیا-

نمونہء کلام-

محبت اس طرح تخلیق ہوتی ہے
کہ جب گہرا سمندر بھاپ کی صورت
ہوا کے دوش پہ پانی اٹھاتا ہو
جہاں پہ خشک سالی ہو
جہاں کھیتوں کی مٹی بھی
فقط اک بوند کی خاطر سوالی ہو
وہاں بادل گھٹائیں ٹوٹ کے برسیں
تو ایسے
زمیں پر آسمانوں سے محبت کا
نیا سندیس آتا ہے
تو پھر بے جان چیزوں میں بھی
اک تحریک ہوتی ہے
محبت اس طرح تخلیق ہوتی ہے

جناب علی مزمل کے بعد محترم جناب امین اڈیرائی کے نام کی پکار ہوئی- آپ نے قادرالکلام ہونے کے باوجود اپنی نہایت مختصر مگر جامع نظم "آس" پر اکتفاء کیا اور تحسین پائی-

آس
میں نے بس اتنا لکھا تھا
شاید مجھ کو بھول گئی ہو
اس نے کورے کاغذ پر  دو
نین بنا کر بھیج دیئے ہیں
جن میں اور نہیں کچھ لیکن
آس ملن کی جاگ رہی ہے

جناب امین اڈیرائی کے بعد محترم جناب میجرشہزاد نیر صاحب کو مدعو کیا گیا- آپ نے بھی امین اڈیرائی کی اقتداء میں مختصر نظم "گورستان" جو اختصار کے باوجود اپنے اندر معنویت کے خزائن سے لبریز تھی پیش کی-

گورستان-
میں نے کفنا کے تیری یادیں سبھی
اپنے سینے میں دفن کر ڈالیں
اب تو ایک آشنا میرا
اپنی ٹوٹی ہوئی محبت کی
لاش کاندھے پہ لے کے آتا ہے
یہ نگر پھیلتا ہی جاتا ہے

اس کے بعد مشاعرے کی مہمانِ خصوصی محترمہ مینا نقوی صاحبہ کو دعوتِ کلام دی گئی- آپ کا تعلق مرادآباد (انڈیا) سے ہے- آپ کے آٹھ مجموعہ ہائے کلام اپنے مستند کلام کا اعتراف کرا چکے ہیں مزید دو ایک مجموعے اشاعت کے مراحل میں ہیں-
آپ نے اپنی نظم بعنوان "بےچین قلم" پیش کی جسے اجتماعی طور پر سراہا گیا اور بار بار تحسین سے نوازا گیا-

نمونہء کلام

اُف یہ تنہائی کے آسیب زدہ سناٹے
پی گئے ہیں مرے الفاظ کی گویائی کو
منجمد ہوگئی اظہار کے ہونٹوں کی نمی
پاوں یادوں کے چلے دشت کی پیمائی کو

محترمہ مینا نقوی صاحبہ کے بعد مشاعرہ کی دوسری مہمانِ خصوصی محترمہ جہاں آرا تبسم صاحبہ کو دعوتِ کلام دی گئی جو کوئٹہ پاکستان سے تعلق رکھتی ہیں اور ادبی حلقوں کی روحِ رواں ہیں-
آپ نے اپنا کلام "ایک یاقوتی نظم" کے عنوان سے پیش کیا- ان کی نظم کی بہت تحسین ہوئی-

نمونہء کلام

اے مرے دوست مری ایک تمنا تھی کہ میں
تیری چاہت میں کوئی نظم لکھوں
اک ترے پیار کی حدت میں تپکتی ہوئی نظم
جس کا ہر لفظ ہو یاقوت کا لفظ
تیرے جذبات کی حدت سے
سلگتا یاقوت

محترمہ جہاں آرا تبسم کے بعد محترم ڈاکٹر شفاعت فہیم صاحب کو بصد احترام مدعو کیا گیا- ادارہ محترم شفاعت فہیم صاحب کا ہمیشہ شکرگزار رہے گا کہ آپ ناسازیء طبع کے باوجود اپنی کمی محسوس نہیں ہونے دیتے-
مشاعرہ میں آپ نے "انسداد" کے نام سے اپنی نظم پیش کی جس کی خوب تحسین ہوئی-

نمونہء کلام-

میں جب شام کو
اپنے دفتر سے
گھر لوٹتا ہوں
تو یہ دیکھتا ہوں
گھر کی دہلیز پر
وہ پرانی انگیٹھی
سلگنے کو رکھی ہوئی ہے
اور اس کا دھواں
گھر میں گھمڈا ہوا
گھر کی دیواروں سے اونچا اٹھتا ہوا
آسمانوں کی
راہوں سے ہوتا ہوا
جانے کن کن خلاوں کی جانب
رواں ہے

محترم شفاعت فہیم صاحب کے بعد شمعِ محفل مشاعرہ کی صدر محترمہ انبساط ارم کے سامنے لائی گئی- جن کا تعلق (انڈیا) اہلِ ادب خانوادہ سے ہے- آپ نے "محبت" کے عنوان سے نظم پیش کی جسے بے حد پسند کیا گیا-

نمونہء کلام-

محبت جھیل کے پانی سطح پر کنول جیسی
محبت عشق میں محبوب پر پیاری غزل جیسی
محبت سات رنگوں کی دھنک میں جگمگاتی ہے
محبت چاندنی سے ظلمتوں میں مسکراتی ہے

محترمہ انبساط ارم صاحبہ کے بعد مشاعرہ کی آخری مہمان اور صدرِ مشاعرہ محترمہ شہناز مزمل صاحبہ سے درخواست کی گئی کہ وہ اپنا کلام پیش کریں- محترمہ نے "دائرے" کے عنوان سے دلکش نظم پیش کی جسے بے تحاشہ داد اور محبت سے نوازہ گیا-

نمونہء کلام-

دائروں کے درمیاں بنتے ہوئے اک شہر میں
بے در و دیوار سے کچھ گھر نظر آئے تو ہیں
میری نظریں دور تک اس پھیلتے گرداب میں
دھندلے دھندلے کتنے منظر دیکھتی ہیں رات دن

لیجئیے جناب مشاعرہ تو ختم ہوا مگر اول آنے والے خوش نصیب کی رونمائی ابھی باقی ہے- ہم کیوں نہ تب تک ادارے کے ہر اس فرد کا شکریہ ادا کردیں جو مشاعرے کے انعقاد میں معاون ثابت ہوا-
لہٰذا ادارہ اپنے تمام معزذ اراکین کا تہہ دل سے شکر گزار ہے جو اپنی سب سے قیمتی چیز ہم پر مفت نچھاور کرتے ہیں-
خصوصاَ ناقدین کا شکریہ جو اپنی تمام تر صلاحیتوں کو کام میں لاتے ہوئے ہمہ وقت ہماری رہنمائی کے لیے تیار رہتے ہیں-


*🌍ادارہ,عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری🌍*
کی جانب سے ایک اور منفرد پروگرام پیش کرتے ہیں...

*نوٹ* تمام شعراء دورانِ پروگرام اپنا کلام بذاتِ خود برائے تنقید پیش کریں گے...  تنقید کی پوری اجازت ہوگی...

ادارۂ ھٰذا دنیا کا واحد ادارہ ہے، جو اس برقی ترقی یافتہ دور میں شعراء,ادباء و مصنفینِ زبانِ اردو ادب کی ذہنی آبیاری کرتا ہے اور نئے نئے لسانیاتی پروگرامز منعقد کرتا ہے...
===========================
*We present 126th Unique Program*

ادار،عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری جو اپنی منفرد تحریکات کے سبب آسمان, ادب پر ایک درخشاں ستارے کی مانند جگمگا رہا ہے اور ہر صنف, ادب کی ترویج کے لیے کوشاں ہے۔
اسی ضرورت کے پیش, نظر آئندہ ہفتے 25-11-2017بوقت سات بجے شام بعنوان "نظم نگری" ایک محفل منعقد کرنے میں منہمک ہے۔
جس میں "عالمی موضوعاتی تنقیدی نظمیہ" شاعری کا امتحان ہوگا۔
اول آنے شاعر کو "خاطر غزنوی" ایوارڈ اور دوئم اور سوئم آنے والے احباب کی خدمت میں اسناد پیش کی جائیں گی۔
بعدازاں بہترین ناظم کا چناؤ عمل میں لایا جائے گا۔ جس کی سند اول آنے والے ناظم کو عطا کی جائے گی۔
عالمی موضوعاتی نظمیں ان عنوانات کے تحت کہی جا سکتی ہیں۔
1- محبت
2- غم, حیات
3- الہام
4- شہادت
5- امید
6- نارسائی
7- کیکٹس
8- خواب
9- شکوہ
10- کتھارسس
نظم کے لیے۔ پابند۔ آزاد اور نثر, لطیف (نثم) کے ذرائع استعمال کیے جا سکتے ہیں۔

خیراندیش
چیئرمین۔ توصیف ترنل
ادارہ،عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری
ہانگ کانگ
===========================


عالمی ماہنامہ آسمانِ ادب

سرپرست اعلیٰ- توصیف ترنل

مدیرِ اعلیٰ- علی مزمل

مدیر- مختار تلہری

معاون مدیر۔دعاعلی

سرورق ،ڈائزائنگ ۔دعاعلی

میگزین آرگنائزر- خالد سروحی

کمپوزنگ آرکیٹئکٹ- میھر خان

لیگل ایڈوائزر- جاوید حلیم ایڈووکیٹ ہائی کورٹ بار- کراچی

زیرِ انتظام:-
دارہ،عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری
 ہانگ کانگ
===========================
👑صدور 👑
محترمہ انبساط ارم صاحبہ بھارت

محترمہ شہناز مزمل صاحبہ پاکستان

مہمانانِ خصوصی
محترمہ جہاں آ را تبسم  صاحبہ بلوچستان پاکستان

محترمہ ڈاکٹر مینا نقوی صاحبہ مراداباد۔۔۔بھارت

رپوٹ
محترم علی مزمل صاحب پاکستان

مقالہ
 محترم ڈاکٹر ارشاد خان صاحب ممبرامہاراشٹرانڈیا

نظامت
محترمہ ثمینہ ابڑو صاحبہ پاکستان

 ناقدین
محترم شہزاد نیّر صاحب پاکستان

محترم شفاعت فہیم صاحب بھارت

===========================
*🌏آرگنائزر🌏*
 *توصیف ترنل ہانگ کانگ*

پروگرام آئیڈیا
محترم علی مزمل صاحب پاکستان

===========================
*📡 پبلشرز 📡*
محترم عثمان عاطس صاحب پاکستان
*📱ویب سائیٹ📱* onlineurdu.com

محترم منظور قادر بھٹی صاحب
(چیف ایڈیٹر عکسِ جمہور رسالہ)

محترم سردار امتیاز خان صاحب
 (چیف ایڈیٹر روزنامہ پرنٹاس اخبار)

توصیف ترنل
touseefturnal.blogspot.com

touseefturnal.tumblr.com

https://www.youtube.com/channel/UCvWq7-0Sdc107G-yPpoaOhA

egohater.wordpress.com

Graphic designer
 محترم داؤد حسین عطاری
بہاولپور پنجاب پاکستان

============================
1) *🍁حمدباری تعالیٰ🍁*
 محترم ڈاکٹر ارشاد خان صاحب ممبرامہاراشٹرانڈیا

2) *🍁نعتِ رسول عربیﷺ🍁*
محترم شوزیب کاشر صاحب آزادکشمیر

===========================

محترم نصیر حشمت صاحب گرواہ ، چنیوٹ پاکستان

محترم عتیق صاحب گرواہ چنیوٹ پاکستان

محترم علیم طاہر صاحب (انڈیا)

محترم ڈاکٹر ارشاد خان صاحب ممبرامہاراشٹرانڈیا

محترم امیرالدین امیر بیدر صاحب بھارت

محترم اشرف علی اشرف صاحب سندھ پاکستان

محترم علی مزمل صاحب پاکستان

محترم امین اڈیرائی صاحب پاکستان

محترم شہزاد نیّر صاحب پاکستان

بسم تعالیٰ
رب زدنی علما

ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری جو اپنی انفرادیت کا لوہا منوا چکا ہے ۔ ادارہ تسلسل کے ساتھ  126 پروگرام پیش کرچکا ہے ۔ متنوع ، منفرد اور کامیاب ترین ۔ اس جہد مسلسل اور ٹیم ورک کے پس پردہ ، عزت مآب توصیف ترنل صاحب کی اردو کے تئیں سچی عقیدت اور بے پناہ محبت صاف جھلکتی ہے ۔ ہر پروگرام انفرادیت لیے نیز تمام اصناف سخن کا احاطہ کیے پیش کئے جاچکے ہیں ۔
ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری کے 126ویں پروگرام کا موضوع بھی نادر و انوکھا ہے جو شعراء کی فنی کسوٹی پرکھنے کے لیے ایک منفرد قدم ، ایک انوکھا خیال ، ایک علیحدہ روش۔ عام ڈگر سے ہٹ کر ایک شام بعنوان ،، نظم نگری ،، کی محفل سجانے کی کامیاب کوشش میں منہمک ہے ۔ جس میں عنوان کے تحت ،، عالمی موضوعاتی تنقیدی نظمیں ،، پیش کی جائیں گی ۔
،نظم ،، غزل سے ہٹ کر ایسی صنف سخن ہے جس میں فنکار کا قافیہ تنگ نہیں ہوتا ۔ اس کے بیان کو وسعت ملتی ہے ۔ قلی قطب شاہ اولین صاحب دیوان شاعر نے اس طرح برتا کہ ہر موضوع کو نظم میں سمو دیا وہ ،، عید ،، ہو ،، دیوالی ،، ہو یا ،، ہولی ،، ۔ جنوبی ہند سے شمال کا رخ کریں تو نظیرؔ اکبرآبادی کا نام ذہن میں ابھر تا ہے ۔ نظیرؔ نے نظمانڈیا

عری کو عوامی شاعری بنادیا ۔ آدمی نامہ سے لے کر روٹی اور برسات سے لے کر جاڑا تک ، اس بنجارے نے ، ربع، خمسہ ، مسدس ہر فارم میں اپنے تجربات ومشاہدات کو اس خوبصورتی سی پرویا کہ کلیم احمد کو غزل نیم وحشی صنف سخن لگی اور سودا و ذوق کے قصیدے درباری ، جن کے قافیے گنجلک اور غیر مانوس ۔ نظمیہ شاعری میں اگلا قدم حالی نے بڑھایا ،مد وجذر اسلام ، جس نے ، مسدس حالی، کے نام سے شہرت پائی ۔ اس نے فردوسی کی یاد تازہ کردی ۔
انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں اقبال نظمیہ شاعری میں ایک معتبر نام بن کر ابھرے جنہوں نے نظم میں فلسفہ ، ادب اور اسلام کو جذب کردیا ۔ ان کی نظموں میں نئے موضوعات کی عکاسی صاف جھلکتی ہے ۔ ،، چاند اور تارے ، شکوہ جواب شکوہ ، ساقی نامہ ، مکالمہ جبرئیل و ابلیس وغیرہ چند مثالیں ہیں ۔
ترقی پسند تحریک نے غزل سے روگردانی کرکے نظم کو فروغ دیا ۔ ترقی پسند تحریک سے جڑے ، فیض، مخدوم ، مجاز ، جوش وغیرہ معتبر نام ہیں جنھوں نے نظم کے کینواس کو وسیع کیا ۔ فیض کی نظم ، تنہائی ، مخدوم کی نظم ، سرخ سویرا ، مجاز کی آوارہ نے شہرت دوام پائی ۔ بعدازاں اخترالایمان نے نثری وغیر مقفیٰ نظمیہ شاعری میں کمال حاصل کیا ۔ ،، ایک لڑکا ،، ان کی بے مثال نظم ہے ۔ ن ، م راشد نے نظم معریٰ میں بہت سے تجربے کیے ۔ کیفی اعظمی ، جانثار اختر اور سردار جعفری نے بھی نظم کو فروغ دیا مگر ترقی پسندوں کی شاعری نعرہ بازی سے آگے نہ بڑھ سکی کیونکہ یہ کمیونزم سے کمٹمنٹ اور سرمایہ داری سے بغاوت بن کر ابھری نیز سقوط سرخ کے بعد خود دم توڑ گئی ۔ البتہ جدیدیت اور مابعد جدیدیت نے اسے اور وسعت دی جو کہ اخترالایمان اور اختر شیرانی میں صاف جھلکتی ہے ۔
دورِ حاضر میں قتیل ، فراز ، شعری ، حمایت علی ، پروین ، بدر، قیصر الجعفري ، راحت مجروح وشکیل نے غزل کا رخ کیا ۔ ساحر نے نظم کے موضوعات کو بے پناہ وسعت دی  انہوں نے غمِ ذات سے غمِ زمانہ سبھی پر خوب خامہ فرسائی کی ۔
پروگرام ہذا اسی روایت کو آگے بڑھا نے کی کوشش ، ایک کامیاب پیش قدمی ، ایک اور سنگِ میل قائم کرنے کی سعی ہے جو اردو قارئین کے ذہنوں پر انمٹ نقوش چھوڑے گا ۔
ان شاءاللہ ۔

ڈاکٹر ارشاد خان
ممبرا   مہاراشٹر    انڈیا

صدارتی کلمات
میں شکر گزار ہوں توصیف ترنل کی وہ اتنی اچھی ادبی تقریبات کا اہتمام کرتے ہیں اور مجھ ذرہء ناچیز کو صدارت کا اعزاز بخشتے ہیں
معیاری کلام سننے کو ملتا ہے
یقیناً توصیف مبارکباد کے مستحق ہیں۔ثمینہ آبرو کی نظامت ۔شفاعت فہیم کی تنقید۔علی مزمل کا تبصرہ محفل کو چار چاند لگا دیتا ہے۔ماشاللہ یہ پروگرام فروغ اردو ادب کا بہترین ذریعہ ہیں
جس کے لئے میں توصیف ترنل اور انکی ٹیم کو تہہ دل سے مبارکباد پیش کرتی ہوں
شہزاد نیر کی راہنمائی پروگرام میں رنگ بھر دیتی ہے ان کی اور علی مزمل کی بے لوث خدمات کو ہمیشہ سراہتی اور قدر ک نگاہ سے دیکھتی ہوں
شہنازمزمل پاکستان

خطبہء صدارت

آج کے کامیاب ترین یونک پروگرام کی صدارت مجھ ناچیز کو سوپنی گئی میں تہہ دل سے محترم توصیف ترنل صاحب کا  شکریہ ادا کرتی ہوں ـ   تمام شعرائے کرام کو اپنے اپنے مقام پر کامیاب ہونے پر مبارکباد بھی پیش کرتی ہوں ـ ناقدین، مبصرین ناظمِ مشاعرہ ثمینہ ابڑو صاحبہ کو بھی خوب مبارکباد ـ  واقعی ایک نئی تاریخ پھر مرتّب ہوئی  ہے ـ جس کے لیے آپ سب مبارکباد کے مستحق ہیں با الخصوص محترم توصیف ترنل صاحب ـ خدا سب کو سلامت رکھے ـ آمین ـ
     **   انبساط ارم ( انڈیا)

" نظم نگری " آج کا عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری کا 126 واں منفرد  پروگرام بے حد کامیابی سے ہمکنار ثابت ہوا ـ
    تمام نظم گو شعرائے کرام نے واقعی متاثر کن نظمیں پیش کرکے داد و تحسین حاصل کیں ـ محترم شفاعت فہیم صاحب اور شہزاد نیّر صاحب  نے اون دی اسپاٹ تنقید برائے اصلاح کرکے اپنی اہم ذمہ داری کو بخوبی نبھایا ـ ماشا ء اللہ ـ ہم سب کو مبارکباد پیش کرتے ہیں ـ
     برادر توصیف ترنل صاحب ادارے کے چیئر مین کی خدمت میں ڈھیروں مبارکباد کہ انہوں نے کئی ریکارڈس بنا لیے ـ اور کئی ریکارڈ س باہر کے  توڑ بھی دیئے ـ انہوں نے بہت قلیل عرصے میں بے پناہ منفرد  سرگرمیاں پیش کرکے اردو دنیا کو ششدر کر دیا ـ واقعی انہیں گنیز بک میں مقام ملنا چاہیئے ـ
اللہ انہیں سلامت رکھے کہ وہ یوں ہی ادب کی برق رفتاری سے خدمات انجام دیتے رہیں ـ آمین

         ***    علیم طاہر (انڈیا)

ادارہ. عالمی اردو بیسٹ پوئیٹری اب تک لاتعداد منفرد اور اچھوتے پروگرامز کامیابی سے مکمل کرچکا ہے- اسی سلسلے کا ایک زبردست پروگرام بعنوان "نظم نگری" عالمی موضوعاتی- تنقیدی نظمیہ مشاعرہ منعقد کیا گیا- جس میں دنیا بھر سے معروف شعراء نے شرکت فرما کر محفل کو رونق بخشی جس کے لیے ادارہ شرکائے محفل کا فرداَ فرداَ شکرگزار ہے-

No comments:

Post a Comment