Thursday, February 8, 2018

ادارہ، عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری پروگرام نظمیں بعنوان دُکھ مولانا الطاف حُسین حالی ایوارڈ سے نوازا جاۓ گا






आलमी बेस्ट उर्दू पोएट्री का 139वा इंटरनेशनल मुशायरा आयोजित।
चैयरमेन तौसीफ तर्नल ने इस ज़बरदस्त प्रोग्राम की सभी साथियों को दी मुबारकबाद।
मुरादाबाद ।10 फरवरी बरोज़ शनिवार को आलमी बेस्ट उर्दू पोएट्री ग्रुप की जानिब से 139वा ऑनलाइन मुशायरा एक अलग अंदाज में आयोजित किया गया जिसमे ग़ज़लों के बजाय नज़्मों पर आधारित एक बेहतरीन प्रोग्राम जिसका उनवान "दुख"था।इस शानदार प्रोग्राम का आयोजन सफलतापूर्वक ग्रुप के चैयरमेन तौसीफ तर्नल ओर सभी साथियों ने मिलकर अंजाम दिया ।नज़्मों के इस ऑनलाइन मुकाबले में जीतने वाले शायर को "मौलाना अल्ताफ हुसैन हाली"से नवाजा गया ।
प्रोग्राम की शुरुवात डॉ इरशाद खान ने हम्दो नात से की इसके बाद शायरों ने अपनी अपनी  नज़्म पेश की
शायरों में मुख्य रूप से अहमद अली बरकी(भारत),ज़िया शादानी(भारत),अमीन जसपुरी(भारत),अशरफ अली अशरफ(पाकिस्तान),अज़गर शमीम(भारत),डॉ समी शाहिद(कश्मीर),शोज़ेब काशिर(कश्मीर),सीमा गोहर (भारत),
अमीन उडवाई(पाकिस्तान),शहज़ाद नय्यर (पाकिस्तान),अहसन लखनवी(भारत),सबीहा सिद्दीक(भारत),खालिद सिरोही(पाकिस्तान),जहां आरा (पाकिस्तान)समेत कई शायरों ने अपनी नज़्में पेश कर जजेज़ कमेटी ओर साथियों से वाहवाही लूटी ।
जजेज़ कमेटी में शामिल ज़िया शादानी(भारत),अनवर कैफ़ी(भारत) और मीना नक़वी (भारत) तीनो जजो ने मिलकर वोटिंग की और अहमद अली बरकी (भारत) की नज़्म को सबसे प्यारी नज़्म चुनकर उन्हें मौलाना अल्ताफ हुसैन हाली पुरुस्कार से नवाज़ा।
प्रोग्राम की अध्यक्षता डॉ साबरा शाहीन(पाकिस्तान)ने की मुख्य अतिथि के रूप में डॉ मंज़ूर अहमद(कश्मीर),यूसुफ रज़ा (दिल्ली),हफीज़ मिनाज़गीरी(मुम्बई)और मुनव्वर पाशा मौजूद रहे।
प्रोग्राम का बेहतरीन संचालन ज़िया शादानी ने किया ।
प्रोग्राम के अंत मे  चैयरमेन तौसीफ तर्नल ने सभी शायरों ,जजेज़ और अतिथीयों का शुक्रिया अदा करते हुवे कहा कि वो काफी समय से उर्दू की तरक्की के लिए लगातार काम कर रहे हैं और आने वाले समय मे भी अपनी मज़बूत टीम के साथ आगे बढ़ते रहेंगे साथ ही बताया के ये ऑनलाइन ग्रुप दुनिया का पहला ऐसा ग्रुप है जिसमे शायरी और नज़्मो पर तनक़ीद की जाती है और दुनिया भर के बेहतरीन शायर इस ग्रुप में अपनी ग़ज़ले पेश करते हैं और उन पर बेझिझक तनक़ीद भी करवाते है
kamran zia from India


رپورٹ
از  ۔ ڈاکٹر ارشاد خان

ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری ہمیشہ ، ہمہ جہت پروگرام جو واہی سے ہٹ کر ، روایت سے بچ کر ، اپنی ایک الگ ڈگر جو قلب و نظر میں سما جائے ، جو روح کو تسکین اور جمالیاتی حس کو فرحت بخشے ۔
وہ جو کہتے ہیں نا کہ " جہاں نہ پہنچے روی وہاں پہنچے کوی " یہی مقولہ عزت مآب توصیف سر پر صادق آتا ہے جو نئے جہانوں کی تلاش میں سرگرداں ،  نت نئے گلستانوں سے گلہائے رنگارنگ اور عطر بیز ہوائیں مقید کرنے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں ۔ جو نہ صرف خود نچلا بیٹھتے ہیں بلکہ پوری ٹیم کو چکرانے پر مجبور کرتے ہیں ، جس کے نتیجے میں ہر پروگرام کی کامیابی کے بعد دوسرے گروپس کو چکر آنے لگتے ہیں اور آخر کار ، چکرویو، میں پھنس کر بھونڈی نقالی کرنے لگتے ہیں ۔
پر ۔۔۔ ظاہر ہے ،
چمکتا جو نظر آتا ہے سب سونا نہیں ہوتا
ادارہ ہذا کا 139واں پروگرام بعنوان ،، دکھ ،، جو موضوعاتی نظمیہ شاعری پر مشتمل تھا دس فروری 2018 کو پیش ہوا ۔پروگرام آئیڈیا امین اڈیرائی صاحب کا تھا ۔
حسب سابق یہ پروگرام بھی نیا موضوع لیے ہوئے تھا ۔وہ موضوع جو زندگی سے جڑا ہوا ہے ۔وہ موضوع جو احساسات سے جڑا ہے ۔ وہ موضوع جو غم ذات بھی ہے اور غمِ کائنات بھی ۔۔ سماجی بھی ، معاشرتی بھی ۔ جو انسان کو توڑنے والا بھی ، جو ذہنوں کو جھنجھوڑنے والا بھی ۔ جو درد تنہا بھی ہے تو غمِ زمانہ بھی ۔ جو حیوان ناطق کو کبھی کبھی حیوان مطلق بھی بنا دیتا ہے اور انسان ٹوٹ پھوٹ کر بکھر جاتا ہے ۔ وہ اپنی ذات کی کرچیاں اور جگر لخت لخت کو صفحہ قرطاس پر بکھیر دیتا ہے کبھی سعدی کی صورت تو کبھی شیرازی کی صورت ، تو کبھی میر وغالب کو اپنے قالب میں ڈھال کر ۔۔۔انتہا یہ کہ رنج کا خوگر ہوکر ۔۔ اپنی مشکلات کو آسانیاں سمجھ کر زندگی کی تکمیل کرتا ہے ۔
کون ہے وہ جو دکھ سے مبرا ہے ؟ کون ہے وہ جو غم شناس نہیں ؟ کون ہے وہ جو رنج سے خالی اور درد سے آشنا نہیں ؟۔۔۔انہی جذبات و احساسات کو الفاظ کی لڑی میں دورِ حاضرہ کے شعراء نے پرویا ہے ۔ جسے خوب ، بہت خوب ، خوب ترسے خوب ترین انداز میں پیش کیا گیا ۔
پروگرام کا آغاز پروردگار عالم کی حمد و ثنا سے ہوا ۔ حمد باری تعالی ڈاکٹر ارشاد خان نے پیش کی ،

سبھی بحر وبر میں   ہے لعل وگہر میں
تو خشکی میں تر میں ۔۔ہے شمس وقمر میں
ہر شے میں یارب
ہے جلوہ نمائی
تیری کبریائی
حمد باری تعالی کے بعد معروف شاعر شوزیب کاشر نے بارگاہ رسالت میں نعت کا نذرانہ پیش کیا ، جس کے لفظ لفظ سے ہویدا عشقِ رسول کی خوشبو دلوں کو معطر کرگئی ،

حم، منیر ، طہٰ ، یس
محتاج کرم ہے دہر غمگیں
نعت پاک کے بعد باقاعدہ پروگرام کو آغاز ہوا ۔ ناظم بزم جناب ضیا شادانی صاحب نے اشرف علی اشرف صاحب کو دعوت سخن دی ۔اشرف صاحب نے نظم ،
،،آج تو پاس نہیں ہے میرے ،، پیش کی ۔

آج تو پاس نہیں ہے میرے
آج میں کس قدر فسردہ ہوں
آج میں کس قدر ہوں گھبرایا

شریک بزم شعراء نے اس نظم کو بہت سراہا ۔ ناقدین نے اپنے تاثرات پیش کیے ۔ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری کی یہ انفرادیت رہی ہے کہ صرف واہ واہی نہیں ہوتی بلکہ تنقید برائے اصلاح بھی ہوتی ہے ۔ جسے تخلیق کار خندہ پیشانی سے قبول کرتے ہیں ۔
اس کے بعد ضیا شادانی صاحب نے اصغر شمیم صاحب کو آواز دی جن کا تعلق کولکتہ بھارت سے ہے ۔ ان کی نظم کا عنوان تھا ۔  ،، کہ دکھ کا بھی کچھ حساب ہوتا ،،
مذکورہ نظم کا یہ شعر خصوصی طور پر دیکھیے ،

سبھی کو ملتا بساط بھر یہ
کہ دکھ کا بھی کچھ حساب ہوتا

شرکائے محفل نے اس نظم کی خوب پذیرائی کی اور داد وتحسین سے نوازا ۔
اس کے بعد ناظم مشاعرہ نے ڈاکٹر سمی شاہد صاحب کو دعوت سخن دی ، ڈاکٹر صاحب نے ایک منفرد موضوع پر اپنی نظم ،، کشمیر کا دکھ ،، پیش کی ۔

یہ وادیاں ، یہ ندیاں ، یہ مرغزار سارے
یہ پہاڑیاں ، یہ داماں ، یہ کہسار پیارے

ڈاکٹر صاحب نے بہترین منظر کشی کی جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے ۔کشمیر کے دکھ کو دلکش انداز میں پیش کیا اور جنت ارضی کے دکھ کو کرہ ارض کے کونے کونے میں پہنچا دیا ۔
اس کے بعد ارسلان فیض صاحب جن کا تعلق پسرور سیالکوٹ سے ہے ، سیالکوٹ کی سرزمیں سے اقبال اور فیض جیسی شخصیات کا تعلق رہا ہے ۔اسی مردم خیز سرزمیں سے ارسلان صاحب کے اپنی نظم ،، دکھ ،، پیش کی ۔

کبھی تم سناتے
کبھی ہم سناتے
مگر کیا کریں ہم
بہت دکھ ہے ورنہ
لبوں سے سنائیں
تجھے گیت اپنے

اس نظم نے فیض کی نظم ،، مجھ سے پہلی سی محبت ۔۔۔۔،، کی یاد دلادی ۔ اس نظم کو خوب داد وتحسین سے نوازا گیا ۔ضیا شادانی صاحب کی نظامت نے محفل میں چار چاند لگادیے۔
اس کی بعد خالد سروجی صاحب گکھڑ سٹی نے اپنی آزاد نظم ،، دکھ اپنی جگہ ،، پیش کی ،

کیا ؟ ہمیں کو سہنا تھا یہ دکھ
کیا ؟ ہمیں میں رہنا تھا یہ دکھ
ہم نے ترا آئینہ بن کر

اس نظم کو بہت پسند کیا ۔
اس کے بعد سیماگوہر صاحبہ نے اپنی آزاد نظم ،، میری تقدیر کی یہ زنجیریں ،، پیش کی ،

کیا کوئی توڑ پائے گا آکر
کیا میرے دکھ کا کچھ مداوا ہے
کیا میرے خواب یوں ہی بکھریں گے ؟
اس نظم کی خوب پذیرائی ہوئی ، ناقدین نے سیرحاصل اور بے لاگ تبصرے کیے ۔یہ کاروانِ سخن یوں ہی آگے بڑھتا رہا ۔ ڈاکٹر ارشاد خان نے اپنی منفرد نظم ،، احساس غم،، سامعین کی نذر کی ،

یا الہٰی ، میری قسمت میں اندھیرے کب تک ؟
میرے گلشن میں خزاں رنگی کے ڈیرے کب تک ؟
ہوں گے معدوم چمک دار سویرے کب تک ؟
اس نظم خوب داد ملی ۔
ناظم مشاعرہ کی دعوت پر نیر رانی شفق صاحبہ نے اپنی نظم بعنوان ،، یہ وہ آنکھیں نہیں جاناں ،، حاضرین کی نذر کی جو مخصوص نسائ لب و لہجہ لیے دل پر انمٹ نقوش چھوڑ گئی ۔
نیلم کو تضادی زرد ، کہہ کر چبھتا سوال ،، کیوں ،، ندرتِ خیال ہے جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے ۔ مبصرین اور ناظرین نے اس نظم کا پرجوش استقبال کیا ۔ محفل کا رنگ بام عروج پر تھا اسی بیچ اروا سجل صاحبہ اپنی سجی سجائی نظم لے کر رونق افروز ہوئیں ،

یہ مجھ سے پوچھتے کیوں ہو
کہ کیا غم ہے مرے اندر
اداسی موجزن کیوں ہے !

رواں دواں الفاظ ہیں دریا ،سرگمی ردم لیے بہتا رہا ، تشنہ لبوں کی پیاس بجھاتا رہا ،دلوں کے تار جھنجھوڑ تا رہا ۔۔۔بہت داد وتحسین سے نوازا گیا ۔
امین جس پوری صاحب نے اپنی کاوش ،، دکھ ،، پیش کی ،

ہماری زندگی کے ہر ورق پر
بزمِ ہستی میں
کوئی ایسی عبارت روز ہی
تحریر ہوتی ہے

اہلِ محفل کی داد اس پر نظامت گویا سونے پہ سہاگہ ۔
استاد محترم امین اڈیرائی صاحب اپنی نظم ،، بعنوان دکھ لے کر حاضر ہوئے ، محفل اپنے پورے شباب پر تھی ۔ کلام استاد دیکھیے ،

کون ہیں جو رستوں پر
نقش پا بناتے ہیں
منزلوں کی خواہش میں
ہاتھ چھوٹ جاتے ہیں

بہترین کاوش جسے بے حد پسند کیا گیا ۔ڈاکٹر عدیل صاحب نے اپنے بیٹے کے سانحہ ارتحال پر کہی گئی نظم ،، تلاش گمشدہ ،، اہل بزم کو نمناک کرگئی ، حفیظ مینا نگری کی ،، دکھ ،، کے عنوان پر کہی گئی نظم کے اشعار ملاحظہ ہوں ،

سنو اے لوگو
سنو یہ دکھ
یہ دکھ بھی بڑا عجیب ہے

نے سماں باندھ دیا ۔ڈاکٹر صابرہ شاہین کی نظم نسوانی احساسات کی بہترین ترجمان تھی ، نیز ڈاکٹر منظور صاحب کی پیش کردہ نظم ،، دکھ ،، کے مصرع دیکھیے ،

میں تم کو کیسے سمجھاؤں
میری آنکھوں میں
میرے ذہن میں
نادر تشبیہات اور استعاروں سے سجی یہ نظم بھر پور تاثر چھوڑ گئی ۔
اخیر میں ہندوستان کے دل ،، نئی دلی ،، سے نوارد شاعر احمد علی برقی اعظمی صاحب اپنی شاہکار نظم
،،مجھ سے دیکھا نہیں جاتا کسی انسان کا دکھ ،،
پیش کی ،

ان کو ہے اپنی فقط گھٹتی ہوئی شان کا دکھ
مجھ سے دیکھا نہیں جاتا کسی انسان کا دکھ

اس ماسٹر پیس نظم کو ججیز کے پینل نے ،، مولانا الطاف حسین حالی پانی پتی ،، جو بہرحال غالب کے مرشد اور دلی میں متمکن رہے ۔۔۔ تو دلی کا ایوارڈ ۔۔۔ دلی کو ۔۔۔ کیا خوب دل سے دل ملے !!
ڈھیروں مبارکباد احمد علی برقی صاحب کو ، عزت مآب توصیف ترنل صاحب اور ان کی انتظامیہ کو جو یونیک پروگرام منعقد کرتی ہے ۔ یہ پروگرام مسلسل تین گھنٹے تک چلتا رہا جو آنکھوں کو ٹھنڈک اور روح کو فرحت بخشتا
رہا ۔

*🌍ادارہ,عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری🌍*
کی جانب سے ایک اور منفرد پروگرام پیش کرتے ہیں
پروگرام بعنوان " دُکھ
جس میں جیتنے والے کو
*مولانا الطاف حُسین حالی ایوارڈ*
سے نوازا جاۓ گا
*نوٹ-* 👇
ناقدین کو تنقید کی پوری اجازت ہو گی۔
پروگرام بعنوان " دُکھ میں سب سے اچھی کہی جانے والی نظم پر مولانا الطاف حُسین حالی ایوارڈ سے نوازا جاۓ گا۔
ڈاکٹر سید بشیر احمد لکھتے ہیں اردو اصناف شاعری میں نظم ایک اہم صنف ہے ۔ اردو زبان کے ابتدائی دور میں حضرت امیر خسرو نے اس صنف میں وقیع اضافہ کیا ۔ اردو کے پہلے صاحب دیوان شاعر قلی قطب شاہ نے بھی اس صنف سخن کے احیاء میں اپنا حصہ ادا کیا ۔ نظیر اکبرآباد میں صنف کے اہم شاعر ہیں ۔ انہوں نے ہندوستان کے موسم ، میوے ، تہوار اور موسموں وغیرہ کا اپنی نظموں میں احاطہ کیا ہے ۔
اسد معیل میرٹھی نے بچوں کے لئے نظمیں لکھیں ۔ نظیر اکبر آبادی سے علامہ اقبال کے دور تک نظم نگاری کا طرز پابند نظم ہی تھا ۔ علامہ اقبال نے نظم کو ایک ایسا اندرونی آہنگ دیا کہ ہم آسانی سے نظم کو اس کی ہیئت کی وجہ سے شناخت کرسکتے ہیں ۔ تمثیلی الفاظ ، موضوعاتی ندرت ، وطنی اور قومی نظمیں اور اخلاقی نظمیں بچوں کے لئے بھی نظمیں لکھی گئیں ۔ اکبر الہ آبادی نے ظریفانہ نظمیں لکھ کر اس صنف کو استحکام بخشا ۔ اکبر الہ آبادی بھی پابند نظم کے شاعر کی حیثیت سے مقبولیت حاصل کی ۔ 
آزاد نظم : 1930 میں آزاد نظم لکھنے کی ابتداء ہوئی ۔ سب سے پہلے فرانسیسی ادب میں اسے رواج ہوا ۔ فرانسیسی سے انگریزی اور انگریزی ادب سے اردو میں اس کا ورد ہوا ۔ اسمعیل میرٹھی نے اس دور میں پہلی آزاد نظم ’’چڑیا کا بچہ‘‘ لکھا ۔ ن م راشد آزاد نظموں کے لکھنے والوں کے قافلہ میں سب سے آگے ہیں ۔ ان کے دو شعری مجموعے ’’ماوری‘‘ اور ’’جرات پرواز‘‘ زیور طبع سے آراستہ ہو کر شائع ہوچکے ہیں ۔ پابند نظم میں شروع سے آخر تک بحر کی پابندی کی جاتی ہے ۔ اس کے برخلاف آزاد نظم میں ارکان کو توڑ کر مصرعوںکو چھوٹا یا بڑا کیا جاسکتا ہے

نظم کی چار قسمیں ہیں (۱) پابند نظم (۲) آزاد نظم (۳) معری نظم (۴) نثری نظم ۔
۱) پابند نظم : پابند نظم درحقیقت ہیئت کی پابند ہے ۔
ادارۂ ھٰذا دنیا کا واحد ادارہ ہے، جو اس برقی ترقی یافتہ دور میں شعراء,ادباء و مصنفینِ زبانِ اردو ادب کی ذہنی آبیاری کرتا ہے اور نئے نئے لسانیاتی پروگرامز منعقد کرتا ہے...
===========================
*We present 139th Unique Program*
اداراہ  کی جانب سے ایک اور خوبصورت پروگرام بعنوان " دُکھ "تمام شعراء سے گذارش ہے کہ اس عنوان پر اپنی خوبصورت نظمیں پیش کر سکتے ہیں
ان شاء اللہ 10.02.2018 بوقت سات بجےجو شعراء شامل ہونا چاہیں اپنا نام لکھیں
نوٹ 👇
ان شاء اللہ بروز ہفتہ
تاریخ 10 فروری 2018
رات 7 بجے
منجانب
انتظامیہ ادارہ
===========================
*🌏آرگنائزر🌏*
*توصیف ترنل ہانگ کانگ*
پروگرام آئیڈیا
محترم امین اڈیرائی صاحب پاکستان
===========================
صدارت
27-محترمہ ڈاکٹر صابرہ شاہین ڈیرہ غازی خان پاکستان
مہمانانِ خصوصی
26-ڈاکٹر منظور احمد  کشمیر انڈیا
25-محترم یوسف رضا یوسف دہلی انڈیا
مہمانانِ اعزازی
24-محترم حفیظ مینانگری مہاراشٹر بھارت
23-محترم منور پاشاہ ساحل تماپوری بھارت
ناقدین برائے تنقید بات کریں گے
محترم شفاعت فہیم صاحب بھات
محترم سعید اقبال پسروری صاحب لاہور پاکستان
نظامت
محترم ضیاء شادانی۔ مرادآباد۔ انڈیا
رپورٹ
محترم ڈاکٹر ارشاد خان  بھارت
ججزپینل اول پوزیشن کا فیصلہ کریں گے
محترم انور کیفی صاحب بھارت
محترم ضیاء شادانی۔ مرادآباد۔ انڈیا
محترمہ ڈاکٹر مینا نقوی۔۔۔ مراداباد۔۔۔ ۔بھارت
حمدِ باری تعالی ﷻ:
1-محترم ڈاکٹر ارشاد خان  بھارت
نعتِ شافعِ محشر ﷺ:
2-محترمہ ڈاکٹر صابرہ شاہین ڈیرہ غازی خان پاکستان
3-محترم شوزیب کاشر راولاکوٹ آزاد کشمیر
===========================
4-محترم اشرف علی اشرف۔ سندھ۔ پاکستان
5-محترم اصغر شمیم، کولکاتا، انڈیا
6-محترم اسامہ  زاہروی ڈسکہ سیالکوٹ  پاکستان
7-محترم عبدالحمید ابن ربانی پاکستان
8-محترم ڈاکٹر سمی شاہد بھمبر آزاد کشمیر
9-محترم ارسلان فیض کھوکھر پسرور سیالکوٹ
10-محترم خالد سروحی گکھڑ سٹی گوجرانوالہ پاکستان
11-محترمہ جہاں آراء تبسم پاکستان
12-محترمہ سیما گوہر بھارت
13-محترم ڈاکٹر ارشاد خان  بھارت
14-محترمہ نیر رانی شفق ڈیرہ غازی خان
15-محترمہ ارویٰ سجل.... چکوال پاکستان
16-محترمہ صبیحہ صدف انڈیا
17-محترم امین جس پوری بھارت
18-محترم احسن لکھنوی صاحب بھارت
19-محترم احمد علی برقی اعظمی ، نئی دہلی
20-محترم ضیاء شادانی۔ مرادآباد۔ انڈیا
21-محترم امین اڈیرائی صاحب پاکستان

22-محترم شہزاد نیّر صا حب پاکستان

2 comments:

  1. Khoob hai Touseefturnal ka blog
    Ho yunhi yeh sab ka manzoor e nazar
    Kar raha hai khidmat e sher o adab
    Hai yeh ek nakhl e saadat ka samar
    Is ki bazm aaraiyaan haiN dilnasheen
    Ho na kyoN noor e nigaah e deedahwar
    Hali se mansoob hai is ki yeh bazm
    The jo Barqi marja e ahl e nazar
    Dr. Ahmad Ali Barqi Azmi

    ReplyDelete