Monday, February 26, 2018

کتاب :اک شجر دیمک زدہ شاعر شوزیب کاشر آزادکشمیر




ادارہ، عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری
کی جانب سے پیش کرتے ہیں 

شاعر کا نام: شوزیب صادق

آدبی تخلص: کاشر

والد کا نام: صادق حسین نثار

ملک اور شہر: راولاکوٹ آزادکشمیر

ازدواجی زندگی: شادی شدہ

اہم سنگِ میل: نوعمر صاحب کتاب شاعر ہونے پر حکومتِ پاکستان کی طرف سے گولڈ میڈل2004 میں 
پاکستان و ہندوستان کے نامور نعت خوانوں اور غزل گو گلوکاروں نے نعوت اور غزلیات کو گایا

کئی ویپسائٹز نے کلام کو اپنے صفحے پر نمایاں طور پر چھاپا
https://www.rekhta.org/poets/shozeb-kashir?lang=ur

http://touseefturnal.blogspot.hk/2017/11/shozaib-kashir.html?m=1

http://www.duaalipoetry.com/2017/11/Dua-Ali-Poetry.html?m=1

http://naatkainaat.org/index.php?title=%D8%B4%D9%88%D8%B2%D9%8A%D8%A8_%D9%83%D8%A7%D8%B4%D8%B1

https://drive.google.com/file/d/0B8jBRrHijFDkRVV6Xy1GWTBYSzA/view?usp=drivesdk

http://www.scholarsimpact.com/urdu/?p=3922

http://touseefturnal.blogspot.hk/2017/11/blog-post_22.html?m=1

https://onlineurdu.com/adbimanzarnama/shozaib-kashir-introduction/

ابتدائی اور اعلٰی تعلیم: میٹرک صدیق اکبر ماڈل سکول راولاکوٹ 
ماسٹرز ان انگلش آزاد کشمیر یونیورسٹی2011 

پروفیشن یا بزنس: پیشہ تدریس

ادبی زندگی کا آغاز: 2002 میٹرک سے

ادبی اساتذہ یا رہنما: لیاقت شعلان، توصیف ترنل عبد السلام ثمر ، شہزاد مجدی  

ادبی اصناف: نعت ، غزل
کل کتابوں کی تعدار:2 طبع شدہ میں نے پیار بیج دیا
نوائےخضر

زیر طباع کتابیں1شہِ لولاک نعت مناقب
مجھے راستے میں نہ چھوڑنا 
اک شجر دیمک زدہ

غیر ملکی دورے: کوئ  نہیں

ادبی آیوارڈز:گولڈ میڈل اوور آل پرفارمنس ایوارڈ2004
آل پاکستان  طرحی نعتیہ مقابلہ اول پوزیشن2007
 آل پاکستان یونیورسٹیز مقابلہ غزل اول پوزیشن2009
 ادارہ فروغِ نعت کے زیرِ اہتمام تنقیدی ردیفی مقابلوں میں متعدد بار نعت کو جید اساتذہ کی طرف سے اول پوزیشن سے نوازا
ادارہ نعت اکیڈمی کی طرف سے سال 2016 کی بہترین نعت مقابلہ میں سوم پوزیشن
ادارہ بیسٹ اردو پوئیٹری کی طرف سے متعدد ایوارڈز
احمد ندیم قاسمی ایوارڈ
سندِ اعزاز برائے ادبی خدمات
سندِ توصیف برائے ادبی خدمات

آدبی تنظیم یا ادبی تنظیموں سے وابستگی: پونچھ ادبی سوسائٹی راولاکوٹ بطور جنرل سیکرٹری
کشمیر سحرِ ادب نائب صدر

پریس اور میڈیا سے وابستگی: ادارہ بیسٹ اردو پوئیٹری
ریسرچ یا تحقیق:
مختصر پیغام: بےذرر ہونے سے لے کر نفع بخش ہونے کا سفر انسانیت کی معراج ہے
  
ویب سائٹ:
touseefturnal.blogspot.com

touseefturnal.tumblr.com

https://www.youtube.com/channel/UCvWq7-0Sdc107G-yPpoaOhA

ای میل:
shozaib.kashir@gmail.com

touseefturnal@gmail.com

سوشل میڈیا لنک
https://www.facebook.com/Shozaib.kashir.poet/

https://www.facebook.com/profile.php?id=100007536126185

نمونہ کلام
 الہ تو وحدہ احد تو لم یلد و لم یولد
تو لا شریک الصمد تو لم یلد و لم یولد
........................
پوشاکِ عمل جامۂ کردار پہن لوں 
سر تا بقدم اسوۂ سرکار پہن لوں
..................................
حسن کی دیوی کو مجھ پر رحم آیا اور کہا
میں تری دیمک اتاروں آ ادھر دیمک زدہ
...............................
ہم ایسے لوگ محبت کے خاندان سے ہیں
ہم ایسے لوگوں سے نفرت نہیں نہیں مرے دوست
.......................................
تشنۂ لمس رہیں وصل رُتیں بھی کاشر
اُس نے پہنا بھی کبھی مجھ کو آدھا پہنا
..........................................................
کاشر مرا وجود مکمل نہ ہو سکا
اس کے بغیر جیسے میں آدھا رہا سدا
.....................................
مفلسی ننگا ناچ سکتی ہے
سیٹھ جی جب کریں اشارہ جی
..................................
مکان ہے نہ مکیں ہے فنا ہے سب یعنی
یہاں جو ہے وہ نہیں ہے فنا ہے سب یعنی
...........................
جب بھی چاہا کہ اسے اپنا بنالوں کاشرؔ
بن گیا راہ کی دیوار مقدر میرا
............................................
کُن کہوں اور کام ہو جائے
آدمی ہوں کوئی خدا ہوں کیا
...............................
سب ایک جیسے حزیں دل تھے جمع ایک جگہ
یتیم بچوں کو دار الامان اچھا لگا
..................................
فقیہہِ وقت کے مسلک سے اختلاف کیا
سو مجھ پہ بنتا ہے فتویٰ کہ دہریہ ہوں میں
.........................................................
خارۂ و خشت و سنگ ہوں جو بھی ہوں تیرا رنگ ہوں
خود کو بتاؤں آئینہ میری سرشت میں نہیں
.....................................
دستِ سقراط پہ بیعت میں نے بھی کی ہوئی ہے
لازماََ زہر نگل جاؤں گا اک دن میں بھی
..................................
نو واردِ اقلیمِ سخن بندۂ ناچیز
اک عام سا شاعر ہوں میں غالب نہیں صاحب
.....................................................
کاشر میں ہوتا جون تو مصرعہ یہ باندھتا
میں فارہہ کے ساتھ ہوں تم کس کے ساتھ ہو 
..................................
بچھڑ گئے تھے کسی روز کھیل کھیل میں ہم
کہ ایک ساتھ نہیں چڑھ سکے تھے ریل میں
..................................
افسوس بہت دیر سے آیا ہے تُو کاشرُ
اِس پانچ مئی کو مری شادی ہے چلا جا
...................................
یہ دشت ہے اور اس کا ایک اصول ہے
ادھر اُدھر یہاں وہاں کوئی نہیں
........................................................
شوزیب کاشر کی چند تازہ غزلیں 

پیچھے کوئی رستہ ہے نہ آگے کوئی منزل
ایسا ہے تو افلاک سے اُترے کوئی منزل

اے عشق جنوں پیشہ تری آبلہ پائی
رستہ کوئی جانے ہے نہ جانے کوئی منزل

ہر آن سیاحت میں ہے مجھ پاؤں کا پہیّہ
گاہے کوئی منزل ہے تو گاہے کوئی منزل

ہر ایک کو ملتا ہے کہاں رہبرِ کامل
خوش بخت ہے تو ، پوچھ لے پگلے ، کوئی منزل

اے پیار میں اجڑی ہوئى وادى !! کوئی رستہ؟
اے درد کے مقبوضہ علاقے!! کوئی منزل؟

اس موڑ سے آگے کہیں جانے کا نہیں میں
خود لینے مجھے آئے تو آئے کوئی منزل

خود کاٹنا پڑتا ہے میاں کوہِ مسافت
ملتی نہیں گھر بیٹھے بٹھائے کوئی منزل

ہم جیسے جہاں گرد و جہاں دیدہ ہیں کم کم 
 رستے ہمیں پوچھیں کبھی ڈھونڈے کوئی منزل

دل خوش ہے بہت حلقۂ احباب میں آ کر
جیسے کوئی بھٹکا ہوا پا لے کوئی منزل

اندر سے میاں ہم بھی سمجھتے ہیں کہ حق ہے
وحشت کو بظاہر نہیں کہتے کوئی منزل

مجھ خاک نشیں پر وہ بھی ہنستے ہیں ، تعجب!!
کچھ لوگ جو خود کی نہیں رکھتے کوئی منزل

ہے قیس قبیلے کا شرف تیرا حوالہ
صحرائے جنوں ! میں ترے صدقے! کوئی منزل!!

اک عمر ریاضت میں جلا کرتے ہیں جذبے
تب جا کے ملا کرتی ہے پیارے ، کوئی منزل 

اخلاص نگر ، عشق سڑک ، نور حویلی
اس نام کی تو ہے نہیں ، جھوٹے، کوئی منزل

اُلجھی ہوئی راہوں کے وہی جال یہاں بھی
اے وقت کے پھیلے ہوئے نقشے ، کوئی منزل؟؟

اس فن کو غلط جاننے والوں کو خبر کیا 
یہ شاعری ایسے ہے کہ جیسے کوئی منزل

چلنے کا مزہ تب ہے کہ جب راہ بلائے
اور روتے ہوئے پاؤں سے لپٹے کوئی منزل

ہم جیسے انا زاد مسافر بھی عجب ہیں 
بیٹھے ہیں، بلاتی رہے چاہے کوئی منزل

تھک ہار کے بیٹھے ہیں سرِ راہ محبت
جانا تو کہیں بھی نہیں ویسے کوئی منزل؟؟

دو پل ہی سہی آ کے ٹھہرتا تو کوئی شخص
اے کاش کہ ہم لوگ بھی ہوتے کوئی منزل

اوروں کو کچل کر مجھے آگے نہیں بڑھنا
یوں ملتی نہیں عقل کے اندھے ، کوئی منزل

اے دشت نوردی کا صلہ پوچھنے والے
چلنا ہے تو چل ، میری بلا سے، کوئی منزل

ہم جونؔ کے تلمیذ ہمارے لیے صاحب
دانتے کوئی منزل ہے نہ نطشے کوئی منزل

اس تھل میں تو ہر سمت ہی پیروں کے نشان ہیں
چل کاشراؔ شاید نکل آئے کوئی منزل

شوزیب کاشرؔ

یہ جیسے توڑا ہے تُو نے مرا یقیں ، مرے دوست
مثال بنتی تو ہے '' مارِ آستیں'' مرے دوست

ہم ایسے لوگ محبت کے خانوادے سے ہیں 
ہم ایسے لوگوں سے نفرت؟؟ نہیں نہیں !! مرے دوست

تُو اس کا عادی نہیں ہے سو احتیاط سے چل
ہمارے گاؤں کی پتھریلی ہے زمیں ، مرے دوست

جمال طرفہ ہے حدِ کمال اُس پر یہ
غضب کا شعر بھی کہتے ہو ، آفریں ، مرے دوست

سو وجہِ دوستی اِس کے علاوہ ہے بھی نہیں
کٹھور دل سہی لیکن ہے تُو حسیں ، مرے دوست

غزل کی فصل اگاتے ہیں حق اسامی پر
کہ سرقہ والے نہیں تیرے خوشہ چیں، مرے دوست

بس اک پکار پہ آ جائیں گے مدد کے لیے
غنیم ! دیکھنا ہوں گے یہیں کہیں ، مرے دوست

یہاں پہ چلتے نہیں تیرے جیسے موم بدن
ہمارے دل کا ہے ماحول آتشیں ، مرے دوست

یہ دشتِ عشق فقط قیس کی نہیں جاگیر
جہاں بھی دل کرے خیمہ لگا وہیں مرے دوست

غزل میں  قبلۂ اوّل ہے میرؔ درد سو ہم  
یہاں وہاں پہ جھکاتے نہیں جبیں ، مرے دوست

 یہ کیسے زہرِ ہلاہل بنے پتہ تو چلے
گئے دنوں میں ترے لب تھے انگبیں، مرے دوست

ہر ایک عشق میں انصاف پورا پورا کیا
کہیں کا غُصّہ اُتارا نہیں کہیں ، مرے دوست

تو اتفاق کرے یا کہ اختلاف کرے
یہاں پہ ترکِ تعلق ہے بہتریں،مرے دوست

عجیب قریۂ دہشت میں آ گیا کہ جہاں
جگہ جگہ پہ عدو ہیں کہیں کہیں مرے دوست

 مرا تو نام ہی کاشرؔ ہے سو میں جنتی ہوں
میں ایسا شخص ہوں کشمیر کا مکیں، مرے دوست

شوزیب کاشرؔ

شعورِ ضبط کا پہلا مقام راحت ہے
ہمارے ہاں تو اذیت کا نام راحت ہے

کہا تھا کس نے تجھے کر ہوا کے ساتھ سفر
تُو بن رہا تھا بڑا تیز گام ، راحت ہے؟؟

محبتی ہیں میاں کیسا دکھ ملامت کا
سو اس سفر میں ہمیں گام گام راحت ہے

تری طلب میں تکالیف کا حساب ہی کیا
تری قسم ہے کہ ہم پر حرام ، راحت ہے

ہمارے درد کی تشخیص ہو گئی تھی سو اب
 بفیضِ عشق علیہ السلام'' راحت ہے"*

تمہارے شہر میں کیا ہے مصیبتوں کے سوا؟؟ 
ہمارے گاؤں میں آنا، مدام راحت ہے 

تمہارے شہر میں قائم رواجِ استبداد
ہمارے گاؤں میں رائج نظام، راحت ہے

کسی دوا سے افاقہ نہیں ہوا تھا مجھے
پڑھا ہے میرؔ کا جب سے کلام ، راحت ہے
  
اُداس ہوں کہ بہت دن سے میں اُداس نہیں
بہت دنوں سے مجھے صبح شام راحت ہے!!

ہماری چھوڑ تُو اپنی سُنا ہوئی تسکین؟؟
ہمیں تو خیر سے اے خوش خرام ! راحت ہے

تڑپ رہا تھا بیجارہ کئی دنوں کا تشنہ
لنڈھائے شیخ نے دو چار جام ، راحت ہے

ابھی ابھی وہ عیادت کو آئے تھے میری
طبیبا ! اب نہ مری نبض تھام ، راحت ہے

ابھی ابھی وہ مسیحا اِدھر سے گزرا ہے
سو جی اُٹھے در و دیوار و بام، راحت ہے

وہ جن کا کام ہے دہشت سو اپنا کام کریں
خدا کے فضل سے اپنا تو کام راحت ہے

بدن کی چوٹوں پہ حبشی کو رشک آنے لگا
مرے حضور نے پوچھا ، غلام !! راحت ہے؟؟

ہمارا قاعدہ کُلیہ ہے  کچھ اُلٹ ، کاشرؔ
سہا نہ دردِ محبت تو خام راحت ہے

شوزیب کاشرؔ
________________________
باستفادہ عباس تابشؔ*

یہ دشتِ قیس کہ اب خاص کر کسی کا نہیں
بہ فیضِ عشق علیہ السلام میرا ہے

بےگل و بے آب و بے برگ و ثمر دیمک زده
ہم پرندوں کی محبت اک شجر دیمک زده

کھڑکیاں دیمک زدہ اور بام و در دیمک زدہ
ہم زبوں حالوں کا ہے سارا ہی گھر دیمک زدہ

آسماں کی جست ہم کیسے بھریں تم ہی کہو؟
بے دم و بے چارا و بے بال و پر دیمک زدہ

 تُو سراپا راحت و تمکین و سطوت اور ہم
خانماں برباد ، مضطر ، دربدر، دیمک زدہ

مجھ کو اک دیمک زدہ نے بددعا دی عشق میں
جا !! خدا تجھ کو بھی رکھے عمر بھر دیمک زدہ

میں تو پہلے ہی نہ کہتا تھا کہ مجھ سے کر حذر
جان پر اب بن رہی تو صبر کر !! دیمک زدہ

تُو تو اس بستی کا سب سے خوبصورت شخص تھا
یار تجھ کو کھا گئی کس کی نظر دیمک زده؟؟

حُسن کی دیوی کو مجھ پر رحم آیا اور کہا
میں تری دیمک اُتاروں آ ادھر دیمک زدہ!!

اول اول جب ہمیں دیمک لگی تو وصل تھا
ہجر میں ہونا پڑا بارِ دگر دیمک زدہ

اس علاقے میں ہم ایسے لوگ جا سکتے نہیں
اس علاقے سے ذرا جلدی گزر دیمک زدہ!!

میں تو ڈرتا ہوں کہ یہ دیمک مجھے بھی کھا نہ لے
تُو بتا! کس بات کا ہے تجھ کو ڈر،دیمک زده!!

کرم خوردہ لکڑیوں کا حال دیکھا ہے کبھی
ظاہر ان کا ٹھیک ٹھاک اندر مگر دیمک زدہ 

ورنہ میرا کھوکھلا پن مجھ پہ کھلتا کس طرح
وہ تو مجھ کو مل گیا اک ہمسفر دیمک زدہ

لوگ اک دیمک زدہ کی خستہ حالی پر ہنسے
کر دیا مجذوب نے سارا نگر دیمک زدہ

میں نے تم کو کب دیا ہے دوش مجھ حالات کا
مجھ سے تُو ناراض ہے کس بات پر ؟؟ دیمک زده!!

تُو جو فولادی صفت ہے میں بھی ہوں آبی صفت
کر بھی سکتا ہے تجھے میرا اثر دیمک زدہ

خستگی اندر ہی اندر کھا رہی اُس کا وجود
لیکن اپنے حال سے ہے بے خبر دیمک زدہ

جو بھی میری ٹیک  بننا چاہتا ہے سوچ لے
مجھ سے لگ کر ہو گیا وہ بھی اگر دیمک زده!!

رفتہ رفتہ چاٹتا ہے جسم کو آزارِ جاں
بے بسی کا ذائقہ محسوس کر دیمک زده!!

ہم اگر بچ کر نکل آئے تو یہ خوش قسمتی
ورنہ دشتِ خامشی تھا سربسر دیمک زدہ

کاشرؔ اس کمبخت جاں کے عارضوں کا کیا شمار
ہو رہے ہم عشق میں المختصر دیمک زدہ

شوزیب کاشر

یہ غزل چونکہ جناب احمد فرازؔ اور جناب اختر عثمانؔ سے متاثر ہو کر ہوئی ہے اس لیے یہ انہی دو کی نذر کرتا ہوں 

ہزار کہیے کہ یوں ہے معاملہ یوں ہے
جنوں تو پھر بھی جنوں ہے معاملہ یوں ہے

ہماری رائے سے دل متّفق نہیں کہ اسے
اِسی خلش میں سکوں ہے معاملہ یوں ہے

زمیں خفا ہے کہ پیڑوں کی اُس کے ہوتے ہوئے
ہوا سے دوستی کیوں ہے معاملہ یوں ہے

مجھے شکیب جلالیؔ بنا کے چھوڑے گا
مری رگوں میں جو خوں ہے معاملہ یوں ہے

جو ضد کی پوچھو تو اپنی جگہ ڈٹا ہوا ہوں
وگرنہ جاں تو زبوں ہے معاملہ یوں ہے

غزل بھی علمِ لدنّی کے خاندان سے ہے
یہ سرِّ کُن فیکوں ہے معاملہ یوں ہے 

ہزار ماجدؔ و احمد عطاؔ کہیں پہ نہیں
ہوس سے عشق فزوں ہے معاملہ یوں ہے

سرِ حسینؑ کا مدفن ہے وہ زمیں کہ جہاں
سرِ فلک بھی نگوں ہے معاملہ یوں ہے 

سخن میں کیسا تقابل کہ ہر کسی کا الگ
سلیقہ ہائے فسوں ہے معاملہ یوں ہے

ہماری فکر سے  قائم ہے ارتقاء کا وجود
کہ دم بہ دم ، گونگوں ہے معاملہ یوں ہے

تھی ابتدائے مراسم میں بےحساب للک
پہ اب دروں نہ بروں ہے معاملہ یوں ہے

یہ فیضِ اخترؔ و احمد فرازؔ ہے کاشرؔ
کہ میں بھی کہہ سکوں ہوں، ہے معاملہ یوں ہے

شوزیب کاشرؔ

یہ واقعہ بھی ہوا رونما تو سُن لینا
کہ بات کرنے لگے آئینہ تو سُن لینا

کہ اس طرح سے مسائل جنم نہیں لیتے 
بڑے بزرگ جو دیں مشورہ تو سن لینا

ہمیں پتہ ہے جدائی کے بعد کا عالم
بچھڑنے والا اگر دے صدا تو سُن لینا

ہماری چھوڑو ہمارا معاملہ ہے الگ
برائے سجدہ بلائے خدا تو سُن لینا

ملامتی ہیں میاں کیسا دکھ ملامت کا
برُا بھلا بھی کوئی کہہ گیا تو سُن لینا

ابھی تو عشق ہمارا یہ نامکمل ہے
اگر کبھی یہ فسانہ بنا تو سُن لینا

ابھی سمجھ نہیں آئے گی تم کو میری غزل
کبھی جنوں میں ہوئے مبتلا تو سُن لینا

ہمارے نامۂ اعمال میں لکھا کیا ہے
بروزِ حشر ہوا حوصلہ تو سُن لینا

تمہیں بھی نامہ بروں تک رسائی ناممکن
پیام بھیجوں بدستِ صبا تو سُن لینا

ہمیں تو خیر پرندوں کی بولی آتی ہے
یہ معجزہ ہو تمہیں بھی عطا تو سُن لینا

تمہارا مسئلہ یہ ہے کہ ٹوک دیتے ہو
ہمارا مسئلہ سننا پڑا تو سُن لینا

کسی کسی سے اُداسی کلام کرتی ہے
سنائی دے تمہیں چُپ کی صدا تو سُن لینا

میں جانتا ہوں محبت ، غزل نہیں پھر بھی
اگر کسی نے مکرر کہا تو سُن لینا

غلط دلیل تو سننے کے حق میں،میں بھی نہیں
دلیل ٹھیک لگے ہمنوا !! تو سُن لینا

ابھی تو پیار ہے پردہ میں پردہ رہنے دو
زبانِ عام یہ قصّہ ہوا تو سُن لینا

حسین لوگوں سے اچھائی کی امید نہیں
دُعا کے نام پہ دیں بد دُعا تو سُن لینا

یہ ایسا طبقہ کہ جس کی کوئی بھی سنتا نہیں
کریں سوال جو خواجہ سرا تو سُن لینا

ہمیں تو کچھ نہیں آتا سوائے عزلوں کے
وہ سننا چاہو سخن آشنا!! تو سُن لینا

ابھی تو میں بھی ذرا جلدی میں ہوں، قصۂ دل
دوبارہ پھر کبھی موقعہ ملا تو سُن لینا

مشاعرہ ابھی پوری طرح جما نہیں ہے
  جب آئے وقت کا جون ایلیا تو سُن لینا

ہمیں تو اذن ہے پیڑوں سے بات کرنے کا
تمہیں بھی اذن ہو سُن لینے کا تو سُن لینا 

بہت طویل ہے کاشرؔ کہانی اس دل کی
نہ کٹ رہا ہو کبھی راستہ تو سُن لینا

 شوزیب کاشرؔ

وہ دن گئے کہ تھے تعلقات اپنے آپ سے
کئی دنوں سے کی نہیں ہے بات اپنے آپ سے

شراب چھوڑ عشق چھوڑ نیز چھوڑ شاعری !! 
لیے تھے کتنے عہد ایک ساتھ اپنے آپ سے

اُسے نکالتے ہوئے یہ دھیان ہی نہیں رہا
نکل گیا تھا میں بھی اُس کے ساتھ اپنےآپ سے

یہ طے ہوا کہ خودکشی نہیں کروں گا عشق میں 
وہ غصہ تھا کہ لڑ پڑا میں رات اپنے آپ سے

کہا کہ کس طرح مرے گا میرا نفس مرشدی!!
کہا کہ نوچ ڈال خواہشات اپنے آپ سے

یہ فور جی صدی ہے دیکھ ارتقا کے بام سے
کلام کر رہی ہے کائنات اپنے آپ سے

مرے سوا بھی اُس کے ساتھ تین چار لوگ ہیں 
سو اُس نے جھوٹ بولے پانچ سات اپنے آپ سے

بظاہر ایک دوسرے کی پشت پر کھڑے ہیں ہم
جو سچ کہوں تو کر رہے ہیں ہاتھ اپنے آپ سے

مکالمے ، مناظرے ، مطالبے ، مجادلے
جنوں کے ہیں سبھی معاملات اپنے آپ سے

تجھے بھی دل مکان میں جگہ ملے گی، انتظار!!
کہ چل رہی ہے یار میری بات اپنے آپ سے

مری نفی سے بات بنتی ہو تو میں بنا بھی لوں
میں کسطرح نکالوں تیری ذات اپنے آپ سے

نہ کُھل کے رو سکوں ہوں میں نہ کُھل کے ہنس سکوں ہوں میں
میں کب تلک چھپاؤں کیفیات اپنے آپ سے

او کاشراؔ !! تجھے بھی کچھ ملال ہے کہ تُو نے تو
دغا کیا ہے اُس کے ساتھ ساتھ اپنے آپ سے

شوزیب کاشرؔ


زائرو حدِ ادب لاترفعوا اصواتکم
ہے درِ شاہِ عرب لاترفعوا اصواتکم
طبعِ سرور کی نزاکت کا رہے ہر دم لحاظ
ہے یہی فرمانِ رب لاترفعوا اصواتکم
چھوٹنے پائے نہ دامن ہاتھ سے تکریم کا
چاہے دن ہو یا ہو شب لاترفعوا اصواتکم
کوچۂ سرکار میں آواز مت کرنا بلند
خبط ہو جائے نہ سب لاترفعوا اصواتکم
دوسرے پیغمبروں کا مرتبہ ایسا کہاں
اُن کی ہے عظمت عجب لاترفعوا اصواتکم
ذہن میں ہے آیتِ مذکور اُٹھتے بیٹھتے
خامشی کا ہے سبب لاترفعوا اصواتکم
کاشرؔ اُن کی بارگہ میں قدسی و جن و بشر
کہہ رہے ہیں زیرِ لب لاترفعوا اصواتکم
شوزیب کاشرؔ
*ادارہ,عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری*
کی جانب سے  ایک اور منفرد پروگرام پیش کرتے ہیں
https://m.youtube.com/watch?v=pjc0dhuA0hE&feature=youtu.be
Poetry Shozaib Kashir sung by Wazir Ahmed Bajwati
Published on 3 Nov 2017
Poet: Shozaib Kashar
Naat Khuan: Wazir Ahmed Bajwati
Video & Edit: Futura Islamic Studio
Audio: Shahdab Studio
شوزیب کاشرؔ
گزشتہ رات ''نعت اکیڈمی'' کے فورم پر منعقدہ فی البدیہہ طرحی نعتیہ ایونٹ میں کہی گئی نعتِ پاک ﷺ
مری نس نس جو یوں مہکی ہوئی ہے
دیارِ جاں میں خوشبو نعت کی ہے
دلوں میں زندہ شوقِ پیروی ہے
''یہ سب عشقِ نبی کی روشنی ہے''
نبی کی سیرت و سنت پہ چل کر
حیات آسودہ خاطر کٹ رہی ہے
زمین و آسماں پر تا قیامت
حکومت آپ کی تھی آپ کی ہے
ارے او زائرِ کوئے رسالت
ادب سے جا ! حضوری کی گھڑی ہے
مکمل آپ پر قصرِ نبوّت
یہی تھی جو کہ خشتِ آخری ہے
شفاعت کا جسے مژدہ سنا دیں
وہ عاصی تو مقدر کا دھنی ہے
اغثنی یا رسول اللہ اغنی
چلے آؤ کہ وقتِ جاں کنی ہے
فرشتے چار سو سایہ فگن ہیں
درود ِ پاک کی محفل سجی ہے
جو اپنے دشمنوں کو بھی اماں دے
کمال اس شاہ کی دریا دلی ہے
جو پتھر کھا کے بھی پیہم دعا دے
مرے سرکار جیسا کیا کوئی ہے
پسِ مرگ آپ کا جلوہ عطا ہو
یہی میری تمنا آخری ہے
ثنائے مصطفی  پر صرف ہو گی
خدایا تو نے جو توفیق دی ہے
ملک عارض بچھائے منتظر ہیں
سواری مصطفی کی آ رہی ہے
دلوں کے بھید جانت ہے مرا رب
مری نیت کہاں اس سے چپھی ہے
علی شیرِ خدا ہے شاہ مرداں
علی خیبر شکن، سیف الجلی ہے
علی کو واقفِ اسرارِ کُن، جان
علی تو بابِ شہرِ آگہی ہے
بحمد اللہ حسینی ہوں حسینی
مارا ملجا مرا ماویٰ علیؓ ہے
علامانِ علی کی شاں نرالی
قلندر مست نعرہ حیدری ہے
اسے کیا فکرِ محشر ،خوفِ دوزخ
نبی کا امتی جو پنجتنی ہے
تمہارے شہر کی آب و ہوا میں
کشش جیسے کہ مقناطیس کی ہے
نکل جائے نہ ساعت حاضری کی
اسی کارن ہمیں جلدی پڑی ہے
مرے وارے نیارے ہو گئے ہیں
مدینے میں ڈیوٹی لگ گئی ہے
وہ جب سے خواب میں تشریف لائے
مرے اندر کی حالت دیدنی یے
اسی کارن ہوں میں خوشحال  کاشر
فروغِ نعت میری نوکری ہے
فروغِ نعت کا صدقہ ہے کاشرؔ
جو دنیا میں مجھے عزت ملی ہے
اک پل کو بھی کر دیں وہ اگر فیضِ نظر،بند
کونین کے ہو جائیں وہیں قلب و جگر بند
مایوس ِ کرم لوٹ کر آتا نہیں کوئی
ہوتا نہیں منگتوں پہ کبھی آپ کا در بند
کس در پہ کہاں جاتی خدائی پئے بخشش
بشری کہ نہیں بابِ شہنشاہِ اَبَر بند
امداد کو آجانا وہاں بھی شہِ والا
محشر میں ہوا ہم پہ اگر بابِ ظفر بند
لاشے سے بھی آئے گی صدا صل علی کی
ہو جائیں گے جس دم یہ مرے قلب و نظر بند
جس سمت قدم رنجہ ہوئے جاگ اٹھے باگ
جا کھولے کئی آپ کی تشریف نے گھر بند
خود  اپنی حفاظت  میں اسے لے کے خدا نے
فرما دیا قرآن میں تحریف کا در بند
خواہش نہ رہے مجھ کو کہیں اور سفر کی
یوں جا کے میں ہو جاؤں مدینے میں نظر بند
اے کاش میں اس دور میں ہوتا تو اٹھا لیتا
سرکار کی کفشیں کبھی کوزہ کبھی سر بند
اب اور وسیلوں کی،دعاؤں میں طلب کیا
مخلوق پہ وا کر دئیے ابوابِ اثر بند
جب چاہوں مدینے میں پہنچ سکتا ہوں کاشر
مجھ ایسے تصور کا پرندہ نہیں پر بند
شوزیب کاشر
ﻧﻌﺖِ ﺭﺳﻮﻝِ ﻣﻘﺒﻮﻝ
پوشاکِ عمل جامۂ کردار پہن لوں
سر تا بقدم اسوۂ سرکار پہن لوں
ایماں کے لیے حسنِ عمل بھی ہے ضروری
یہ کیا کہ فقط جبۂ و دستار پہن لوں
آنکھوں میں رہے خاکِ درِ شاہ کا سرمہ
صافے کی جگہ طیبہ کے میں خار پہن لوں
حرمت ترے قربانیاں مانگے تو میں حاضر
زنجیرِ قضا شوق سے سوبار پہن لوں
کھائی ہے قسم دینِ محمد سے وفا کی
کیوں طوقِ جبیں سائیِ اغیار پہن لوں
مل جائے سگِ کوئے محمد کا گلوبند
مر جاؤں خوشی سے اگر اک بار پہن لوں
طیبہ سے بلاوا کبھی آئے تو میں کاشر
کچھ ایسے چلوں وقت کی رفتار پہن لوں
شوزیب کاشر
بےگل و بے آب و بے برگ و ثمر دیمک زده
ہم پرندوں کی محبت اک شجر دیمک زده
کھڑکیاں دیمک زدہ اور بام و در دیمک زدہ
ہم زبوں حالوں کا ہے سارا ہی گھر دیمک زدہ
آسماں کی جست ہم کیسے بھریں تم ہی کہو؟
بے دم و بے چارا و بے بال و پر دیمک زدہ
تُو سراپا راحت و تمکین و سطوت اور ہم
خانماں برباد ، مضطر ، دربدر، دیمک زدہ
مجھ کو اک دیمک زدہ نے بددعا دی عشق میں
جا !! خدا تجھ کو بھی رکھے عمر بھر دیمک زدہ
میں تو پہلے ہی نہ کہتا تھا کہ مجھ سے کر حذر
جان پر اب بن رہی تو صبر کر !! دیمک زدہ
تُو تو اس بستی کا سب سے خوبصورت شخص تھا
یار تجھ کو کھا گئی کس کی نظر دیمک زده؟؟
حُسن کی دیوی کو مجھ پر رحم آیا اور کہا
میں تری دیمک اُتاروں آ ادھر دیمک زدہ!!
اول اول جب ہمیں دیمک لگی تو وصل تھا
ہجر میں ہونا پڑا بارِ دگر دیمک زدہ
اس علاقے میں ہم ایسے لوگ جا سکتے نہیں
اس علاقے سے ذرا جلدی گزر دیمک زدہ!!
میں تو ڈرتا ہوں کہ یہ دیمک مجھے بھی کھا نہ لے
تُو بتا! کس بات کا ہے تجھ کو ڈر،دیمک زده!!
کرم خوردہ لکڑیوں کا حال دیکھا ہے کبھی
ظاہر ان کا ٹھیک ٹھاک اندر مگر دیمک زدہ
ورنہ میرا کھوکھلا پن مجھ پہ کھلتا کس طرح
وہ تو مجھ کو مل گیا اک ہمسفر دیمک زدہ
لوگ اک دیمک زدہ کی خستہ حالی پر ہنسے
کر دیا مجذوب نے سارا نگر دیمک زدہ
میں نے تم کو کب دیا ہے دوش مجھ حالات کا
مجھ سے تُو ناراض ہے کس بات پر ؟؟ دیمک زده!!
تُو جو فولادی صفت ہے میں بھی ہوں آبی صفت
کر بھی سکتا ہے تجھے میرا اثر دیمک زدہ
خستگی اندر ہی اندر کھا رہی اُس کا وجود
لیکن اپنے حال سے ہے بے خبر دیمک زدہ
جو بھی میری ٹیک  بننا چاہتا ہے سوچ لے
مجھ سے لگ کر ہو گیا وہ بھی اگر دیمک زده!!
رفتہ رفتہ چاٹتا ہے جسم کو آزارِ جاں
بے بسی کا ذائقہ محسوس کر دیمک زده!!
ہم اگر بچ کر نکل آئے تو یہ خوش قسمتی
ورنہ دشتِ خامشی تھا سربسر دیمک زدہ
کاشرؔ اس کمبخت جاں کے عارضوں کا کیا شمار
ہو رہے ہم عشق میں المختصر دیمک زدہ
شوزیب کاشر
آج وفا تو کل جفا، لہر کا اعتبار کیا
شہر تو یار شہر ہے، شہر کا اعتبار کیا
قتلِ عدو پہ خوش نہ ہوں خیر منائیں اپنی یار
آج وہاں تو کل یہاں ، قہر کا اعتبار کیا
اپنے ہی بل پہ چلنا سیکھ آپ ہی اپنا بوجھ اٹھا
وقت پہ ساتھ دے نہ دے ، دہر کا اعتبار کیا
جسم پہ سنگ باندھ کر ، ٹھیک سے پھینک قاتلا
لاش اگل نہ دے کہیں ، نہر کا اعتبار کیا
مجھ سے بوقتِ خودکشی کہنے لگی یہ زندگی
سینے میں داغ گولیاں ، زہر کا اعتبار کیا
کھیل ہے سارا وقت کا ، سوچ سمجھ کے کاشرا
آج بھلا تو کل برا ، پہر کا اعتبار کیا
شوزیب کاشر
دل پر نہ لیا کچھ بھی اثر سوچ سمجھ کر
ہم نے بھی کیا عشق مگر سوچ سجھ کر
ہر  بار    اٹھانا   پڑا   نقصان    زیادہ
آغاز کیا جب بھی سفر سوچ سمجھ کر
گھر جل گیا اپنا بھی تو کس بات کا شکوہ
کیا تم نے جلایا تھا نگر سوچ سمجھ کر
اب جان پہ بن آئی تو کیوں کوس رہے ہو
تم نے تو ملائی تھی نظر سوچ سمجھ کر
سوچا تھا کہ بھولے سے بھی اب پیار نہ ہو گا
پھر کر ہی لیا بارِ دگر سوچ سمجھ کر
جس عمر میں جذباتی ہوا کرتا ہے انسان
وہ عمر بھی کی ہم نے بسر سوچ سمجھ کر
ایندھن کے لیے کاٹ دیا جاتا اسے بھی
بدلہ ہے پرندوں نے شجر سوچ سمجھ کر
گھر تک نہ چلا آئے زمانے کا تعفّن
رکھا نہیں دیوار میں در سوچ سمجھ کر
مر کر بھی نہیں مرتے شہیدانِ رہِ شوق
کٹوائے گئے دین پہ سر سوچ سمجھ کر
ہیہات ! ''لَفِی خُسر'' کا مصداق یہ انسان
خود اس نے چنا جادۂ شر سوچ سمجھ کر
کچھ لوگ بھی خودغرض تھے کچھ ہم نے بھی کاشرؔ
رشتوں سے کیا صرفِ نظر سوچ سمجھ کر
شوزیب کاشرؔ
دو غزلیں
=========================
بچھڑ گئے تھے کسی روز کھیل کھیل میں ہم
کہ ایک ساتھ نہیں چڑھ سکے تھے ریل میں ہم
ذرا سا شورِ بغاوت اٹھا اور اس کے بعد
وزیر تخت پہ بیٹھے تھے اور جیل میں ہم
پتہ چلا وہ کوئی عام پینٹنگ نہیں ہے
اور اسکو بیچنے والے تھے آج سیل میں ہم
جفا کی ایک ہی تیلی سے کام ہو جاتا
کہ پورے بھیگے ہوئے تھے انا کے تیل میں ہم
جو شر پسند ہیں، نفرت کے بیج بوتے رہیں
جٹے رہیں گے محبت کی داغ بیل میں ہم
بس ایک بار ہمارے دلوں کے تار ملے
پھر اس کے بعد نہیں آئے تال میل میں ہم
یہ شاعری تو مری جاں بس اک بہانہ ہے
شریک یوں بھی نہیں ہوتے کھیل ویل میں ہم
سخن کا توسنِ چالاک بےلگام نہیں
ہمیں ہے پاسِ روایت ، سو ہیں نکیل میں ہم
وہاں ہمارے قبیلوں میں جنگ چھڑ گئی تھی
سو تھر کے بھاگے ہوئے آ بسے تھے کیل میں ہم
یہ ایک دکھ تو کوئی مسئلہ نہیں کاشرؔ
پلے بڑے ہیں اسی غم کی ریل پیل میں ہم
==========================
نکلنے والے نہ تھے، زندگی کے کھیل سے ہم
کہ چین کھینچ کےاترے تھے خود ہی ریل سے ہم
رہا نہیں بھی وہ کرتا تو مسئلہ نہیں تھا
فرار یوں بھی تو ہو جاتے اس کی جیل سے
سخن میں شعبدہ بازی کے ہم نہیں قائل
بندھے ہوئے ہیں روایات کی نکیل سے ہم
جسے بھی دیکھو لبھایا ہوا ہے دنیا کا
سو بچ گئے ہیں میاں کیسے اس رکھیل سے ہم
اگر یہ طے ہے کہ فرہاد و قیس مردہ باد
تو باز آئے محبت کی داغ بیل سے ہم
اکیلے رہتے تو شاید نہ دیکھتا کوئی
ستارہ ہو گئے اک روشنی کے میل سے ہم
ہم ایسے پیڑ بس اتنی سی بات پر خوش تھے
کہ بیل ہم سے لپٹتی ہے اور بیل سے ہم
خدا نے قعرِ فلاکت میں ہم کو جھونک دیا
  بگڑ گئے تھے سہولت کی ریل پیل سے ہم
شوزیب کاشر
اس کا بدلنے والا رویّہ تو ہے نہیں
دل گول گھوم جائے پہیّہ تو ہے نہیں
تجھ تک میں کیسے آؤں بڑی برف ہے یہاں
کشمیر میں پھنسا ہوں یہ لیّہ تو ہے نہیں
تم نے تو اوپر آنے میں گھنٹہ لگا دیا
ٹیرس ہے یار بامِ ثریّا تو ہے نہیں
پھر کیسے بات ہو گی اب اس ویک اینڈ پر
گاؤں میں اس کے فون مہیّہ تو ہے نہیں
منصور کے مرید رہیں چپ تو کسطرح 
مسلک میں اپنے شیخ تقیّہ تو ہے نہیں
ترکِ تعلقات بھی کر لیں گے دوستا!!
الفت میں دین جیسا  تہیّہ تو ہے نہیں
کاشرؔ اب ایسے ویسوں کی Respect مائی فٹ!!
مجھ پر کسی کا قرض بقّیہ تو ہے نہیں
شوزیب کاشر
احساس کی دیوار گرا دی ہے چلا جا !!
جانے کے لیے یار جگہ دی ہے چلا جا  !!
اے قیس نما شخص یہاں کچھ نہیں تیرا
تجھ نام کی صحرا میں منادی ہے چلا جا  !!
دنیا تو چلو غیر تھی شکوہ نہیں اس سے
تو نے بھی تو اوقات دکھا دی ہے چلا جا !!
تا کوئی بہانہ ترے پیروں سے نہ لپٹے
دیوار سے تصویر ہٹا دی ہے چلا جا !
یکطرفہ محبت کا خسارا ہے مقدر
تجھ خواب کی تعبیر بتا دی ہے چلا جا !!
ہم ایسے فقیروں میں نہیں مادہ پرستی
تیرا تو میاں شعر بھی مادی ہے چلا جا !!
ہے کون رکاوٹ جو تجھے روک رہی ہے
میں نے تو مری ذات بھی ڈھا دی ہے چلا جا !!
اس شہر کے لوگوں میں نہیں قوتِ برداشت
یہ شہر تو سارا ہی فسادی ہے چلا جا !
دستک کے لیے اٹھا ہوا ہاتھ نہ گرتا
خاموشی نے تعزیر سنا دی ہے چلا جا
کچھ جونؔ قبیلے سے نہیں تیرا تعلق
ہر لڑکی یہاں فارہہ زادی ہے چلا جا
جانا تری فطرت ہے بلانا مری قسمت
تو آ کے چلے جانے کا عادی ہے چلا جا
لگتا ہے تو قابُل میں نیا آیا ہے پیارے
افغان کا بچہ بھی جہادی ہے چلا جا
اے موم بدن تیرا گزارا نہیں ممکن
یہ آگ میں جلتی ہوئی وادی ہے چلا جا
افسوس بہت دیر سے آیا ہے تو کاشرؔ
اس پانچ مئی کو مری شادی ہے چلا جا
شوزیب کاشرؔ
صحرا میں کڑی دھوپ کا ڈر ہوتے ہوئے بھی
سائے سے گریزاں ہوں شجر ہوتے ہوئے بھی
ماں باپ کا منظورِ نظر ہوتے ہوئے بھی
محرومِ وراثت ہوں پسر ہوتے ہوئے بھی
یہ جبرِ مشیت ہے کی تنہائی کی عادت
میں قید ہوں دیوار میں در ہوتے ہوئے بھی
ہم ایسے پرندوں کی ہے اک پیڑ سے نسبت
اُڑ کر کہیں جاتے نہیں پر ہوتے ہوئے بھی
ہر چیز لُٹا دینا فقیروں کا ہے شیوہ
کم ظرف ہیں کچھ صاحبِ زر ہوتے ہوئے بھی
اُس دیس کا باسی ہوں کی جس دیس کا ہاری
مایوس ہے شاخوں پہ ثمر ہوتے ہوئے بھی
سورج سے کرے دوستی اک کُور بسر کیا
جلوے کی نہیں تاب نظر ہوتے ہوئے بھی
کچھ ہار گئے جبر کے باوصف بھی ظالم
کچھ جیت گئے نیزوں پہ سر ہوتے ہوئے بھی
تجھ جیسا عدد اپنے تئیں کچھ بھی نہیں ہے
میں تیری ضرورت ہوں صفر ہوتے ہوئے بھی
ہسنا مری آنکھوں کا گوارا نہیں اُس کو
اور دیکھ نہیں سکتا ہے تر ہوتے ہوئے بھی
پھر دشت نوردی نے دکھائی یہ کرامت
میں شہر میں تھا شہر بدر ہوتے ہوئے بھی
اس بار تھے کچھ دوست مرے مدِّ مقابل
سینے پہ سہے وار سپر ہوتے ہوئے بھی
ایسے بھی زبوں حال کئی لوگ ہیں کاشرؔ
بےگھر ہیں اسی شہر میں گھر ہوتے ہوئے بھی
شوزیب کاشرؔ
صلح   میں    کیسا  استخارہ  جی !
امن    تو    دین     ہے    ہمارا   جی
تُو  نے مانگی  تو  میں نے  رائے  دی
آگے  اے  شخص  !  جو  تمہارا  جی
وہ   کسی   بات    پر   پریشاں  ہیں
اور    نہیں    لگ    رہا    ہمارا   جی
بے   ضرر   نفع   بخش   لوگوں  سے
کوئی  کرتا  ہے   یوں   کنارہ   جی ؟
ایک   ہی  بار   ہے    یہ   عمرِ   رواں
بن  پڑے  جس  طرح بھی یارا ، جی
موت   آنے   میں   دیر     کر    دیتی 
ہم   نے  بروقت  خود   کو  مارا  جی
آپ   بھی   وقت  پر   نہ آئے  کیوں؟
ہم   کو  تھا   آپ    کا   سہارا   جی
ہجر    میں    زندگی    قیامت   تھی
جیسے     تیسے    کیا    گزارا    جی
آپ      کا      لہجہ      عامیانہ     ہے
شعر    کہیے     کوئی     کرارا    جی
ہم    کو    پُرسہ   عطا   ہو  شہزادی
ہم   سے   عاشق  نہیں  دوبارہ  جی
چار   سُو   اس   کا   ہے  شہود  مگر
حسبِ    توفیق     ہے    نظارہ   جی
جو  بھی  اُس  روشنی کے ساتھ چلا
خاک    سے    ہو    گیا    ستارہ   جی
دل کی آنکھوں سےدیکھتا کوئی نئیں
حُسن    ہے     ورنہ     آشکارا     جی
ایسی   لڑکی    کو   تتلی   مت  کہیے
خود   ہے    وہ   اپنا    استعارہ   جی
مذہبِ    عشق     پر    یقین    نہیں ؟
اس  کا  تو  کچھ  نہیں  ہے چارہ جی
ہاں  تو  کیا عشق پھر سے فرما لیں؟
ہاں  جی   منظور   ہے   خسارہ  جی؟
مفلسی    ننگا     ناچ     سکتی    ہے
سیٹھ   جی  جب  کریں  اشارہ  جی
ختم    شد     اختیارِ     کوزہ    گری
شکل   میں   ڈھل  چکا  ہے گارا جی
عشق   چشمے  سے  پانی  بھرتی جا
اس   کا  پانی  نہیں  ہے  کھارا  جی
فارہہ   !    جونؔ    مر     گیا    یعنی
ایلیا    آپ     کا     وہ    پیارا   جی
اس  نے  آنا   تھا   دس  بجے  کاشرؔ
ہو  گئے  اب   تو   پورے   بارہ  جی
#شوزیب_کاشرؔ
پھر خدا سے اُلجھ پڑا ہوں کیا
اپنی حد سے نکل گیا ہوں کیا
تو مجھے دیکھنے سے ڈرتا ہے
لن ترانی کا سلسلہ ہوں کیا
اتنا کیا کان دھر کے سنتا ہے
میں بہت دور کی صدا ہوں کیا
پیرہن پھاڑ کر میں رقص کروں
عشق وحشت میں مبتلا ہوں کیا
بات دشنام تک چلی گئی ہے
سچ بتاؤ بہت برا ہوں کیا
کیا کہا تُو بھگت رہا ہے مجھے
میں کسی جرم کی سزا ہوں کیا
آ رہے لوگ تعزیت کے لیے
میں حقیقت میں مر گیا ہوں کیا
لوگ جھوٹا سمجھ رہے ہیں مجھے
یار میں کوئی گڈریا ہوں کیا
کن کہوں اور کام ہو جائے
آدمی ہوں کوئی خدا ہوں کیا
ہر کوئی بور ہونے لگتا ہے
وجہ بے وجہ بولتا ہوں کیا
جس طرح چاہے گا برت لے گا
تجھ غزل کا میں قافیہ ہوں کیا
ایک ہی فارہہ سے پیار کروں
میں کوئی جون ایلیا ہوں کیا
میں انا الشوق انا الوفا ، کاشرؔ
بندۂ عشق دہریہ ہوں کیا
شوزیب کاشر
پیچھے کوئی رستہ ہے نہ آگے کوئی منزل
ایسا ہے تو افلاک سے اُترے کوئی منزل
اے عشق جنوں پیشہ تری آبلہ پائی
رستہ کوئی جانے ہے نہ جانے کوئی منزل
ہر آن سیاحت میں ہے مجھ پاؤں کا پہیّہ
گاہے کوئی منزل ہے تو گاہے کوئی منزل
ہر ایک کو ملتا ہے کہاں رہبرِ کامل
خوش بخت ہے تو ، پوچھ لے پگلے ، کوئی منزل
اے پیار میں اجڑی ہوئى وادى !! کوئی رستہ؟
اے درد کے مقبوضہ علاقے!! کوئی منزل؟

اس موڑ سے آگے کہیں جانے کا نہیں میں
خود لینے مجھے آئے تو آئے کوئی منزل
خود کاٹنا پڑتا ہے میاں کوہِ مسافت
ملتی نہیں گھر بیٹھے بٹھائے کوئی منزل
ہم جیسے جہاں گرد و جہاں دیدہ ہیں کم کم
رستے ہمیں پوچھیں کبھی ڈھونڈے کوئی منزل
دل خوش ہے بہت حلقۂ احباب میں آ کر
جیسے کوئی بھٹکا ہوا پا لے کوئی منزل
اندر سے میاں ہم بھی سمجھتے ہیں کہ حق ہے
وحشت کو بظاہر نہیں کہتے کوئی منزل
مجھ خاک نشیں پر وہ بھی ہنستے ہیں ، تعجب!!
کچھ لوگ جو خود کی نہیں رکھتے کوئی منزل
ہے قیس قبیلے کا شرف تیرا حوالہ
صحرائے جنوں ! میں ترے صدقے! کوئی منزل!!
اک عمر ریاضت میں جلا کرتے ہیں جذبے
تب جا کے ملا کرتی ہے پیارے ، کوئی منزل
اخلاص نگر ، عشق سڑک ، نور حویلی
اس نام کی تو ہے نہیں ، جھوٹے، کوئی منزل
اُلجھی ہوئی راہوں کے وہی جال یہاں بھی
اے وقت کے پھیلے ہوئے نقشے ، کوئی منزل؟؟
اس فن کو غلط جاننے والوں کو خبر کیا
یہ شاعری ایسے ہے کہ جیسے کوئی منزل
چلنے کا مزہ تب ہے کہ جب راہ بلائے
اور روتے ہوئے پاؤں سے لپٹے کوئی منزل
ہم جیسے انا زاد مسافر بھی عجب ہیں
بیٹھے ہیں، بلاتی رہے چاہے کوئی منزل
تھک ہار کے بیٹھے ہیں سرِ راہ محبت
جانا تو کہیں بھی نہیں ویسے کوئی منزل؟؟
دو پل ہی سہی آ کے ٹھہرتا تو کوئی شخص
اے کاش کہ ہم لوگ بھی ہوتے کوئی منزل
اوروں کو کچل کر مجھے آگے نہیں بڑھنا
یوں ملتی نہیں عقل کے اندھے ، کوئی منزل
اے دشت نوردی کا صلہ پوچھنے والے
چلنا ہے تو چل ، میری بلا سے، کوئی منزل
ہم جونؔ کے تلمیذ ہمارے لیے صاحب
دانتے کوئی منزل ہے نہ نطشے کوئی منزل
اس تھل میں تو ہر سمت ہی پیروں کے نشان ہیں
چل کاشراؔ شاید نکل آئے کوئی منزل
شوزیب کاشرؔ
یہ جیسے توڑا ہے تُو نے مرا یقیں ، مرے دوست
مثال بنتی تو ہے '' مارِ آستیں'' مرے دوست
ہم ایسے لوگ محبت کے خانوادے سے ہیں
ہم ایسے لوگوں سے نفرت؟؟ نہیں نہیں !! مرے دوست
تُو اس کا عادی نہیں ہے سو احتیاط سے چل
ہمارے گاؤں کی پتھریلی ہے زمیں ، مرے دوست
جمال طرفہ ہے حدِ کمال اُس پر یہ
غضب کا شعر بھی کہتے ہو ، آفریں ، مرے دوست
سو وجہِ دوستی اِس کے علاوہ ہے بھی نہیں
کٹھور دل سہی لیکن ہے تُو حسیں ، مرے دوست
غزل کی فصل اگاتے ہیں حق اسامی پر
کہ سرقہ والے نہیں تیرے خوشہ چیں، مرے دوست
بس اک پکار پہ آ جائیں گے مدد کے لیے
غنیم ! دیکھنا ہوں گے یہیں کہیں ، مرے دوست
یہاں پہ چلتے نہیں تیرے جیسے موم بدن
ہمارے دل کا ہے ماحول آتشیں ، مرے دوست
یہ دشتِ عشق فقط قیس کی نہیں جاگیر
جہاں بھی دل کرے خیمہ لگا وہیں مرے دوست
غزل میں  قبلۂ اوّل ہے میرؔ درد سو ہم 
یہاں وہاں پہ جھکاتے نہیں جبیں ، مرے دوست
یہ کیسے زہرِ ہلاہل بنے پتہ تو چلے
گئے دنوں میں ترے لب تھے انگبیں، مرے دوست
ہر ایک عشق میں انصاف پورا پورا کیا
کہیں کا غُصّہ اُتارا نہیں کہیں ، مرے دوست
تو اتفاق کرے یا کہ اختلاف کرے
یہاں پہ ترکِ تعلق ہے بہتریں،مرے دوست
عجیب قریۂ دہشت میں آ گیا کہ جہاں
جگہ جگہ پہ عدو ہیں کہیں کہیں مرے دوست
مرا تو نام ہی کاشرؔ ہے سو میں جنتی ہوں
میں ایسا شخص ہوں کشمیر کا مکیں، مرے دوست
شوزیب کاشرؔ
اے مرے دیس باوقار ! صبح بخیر شب بخیر
کره _ارض _خوشگوار !صبح بخیر شب بخیر
اے چمن _ سدابہار ! صبح بخیر شب بخیر
شاخ _ ثمار و برگ و بار صبح بخیر شب بخیر
تیری زمین گرم جوش تیرے پہاڑ برف پوش
تیری فضائیں مشکبار صبح بخیر شب بخیر
دین _ نبی کے نام پر رب سے لیا تھا مانگ کر
خطہ _ امن و اعتبار  صبح بخیر شب بخیر
نور_افق افق کی خیر رنگ_شفق شفق کی خیر
صبح _ طرب شب _ قرار صبح بخیر شب بخیر
چاہے خدا سے ہر گھڑی قوم تری سلامتی
مانگے دعائیں بے شمار صبح بخیر شب بخیر
تیری  بنا ہے لاالہٰ تجھ کو نہ آئے گی فنا
تیری بقا ہے پائیدار صبح بخیر شب بخیر
تیری رگوں میں ہےرواں لاکھوں شہیدوں کالہو
تجھ پر سلام صد ہزار صبح بخیر شب بخیر
میرا سکوں مری حیات میرا جنوں مری ممات
تیری بقا پہ سب نثار صبح بخیر شب بخیر
اے وطن _ عزیز تر کٹ مریں تری آن پر
تیرے  مکیں وفا شعار صبح بخیر شب بخیر
اب کے یہاں گلی گلی ایسی بلا کی لو چلی
سارے اجڑ گئے دیار صبح بخیر شب بخیر
خرمن _ جان جل گیا خاک میں دیس ڈھل گیا
پھیلا ہے ایسا انتشار صبح بخیر شب بخیر
چلتی ہیں روز گولیاں  دیکھ لہو کی ہولیاں
گنگ  ہیں  اہل _اقتدار صبح بخیر شب بخیر
دیکھ کے تیرا حال زار کاشر _جان و دل فگار
صبح و مسا ہے اشک بار صبح بخیر شب بخیر
Poetry Shozaib Kashir
شعورِ ضبط کا پہلا مقام راحت ہے
ہمارے ہاں تو اذیت کا نام راحت ہے
کہا تھا کس نے تجھے کر ہوا کے ساتھ سفر
تُو بن رہا تھا بڑا تیز گام ، راحت ہے؟؟
محبتی ہیں میاں کیسا دکھ ملامت کا
سو اس سفر میں ہمیں گام گام راحت ہے
تری طلب میں تکالیف کا حساب ہی کیا
تری قسم ہے کہ ہم پر حرام ، راحت ہے

ہمارے درد کی تشخیص ہو گئی تھی سو اب
بفیضِ عشق علیہ السلام'' راحت ہے"*
تمہارے شہر میں کیا ہے مصیبتوں کے سوا؟؟
ہمارے گاؤں میں آنا، مدام راحت ہے
تمہارے شہر میں قائم رواجِ استبداد
ہمارے گاؤں میں رائج نظام، راحت ہے
کسی دوا سے افاقہ نہیں ہوا تھا مجھے
پڑھا ہے میرؔ کا جب سے کلام ، راحت ہے
 
اُداس ہوں کہ بہت دن سے میں اُداس نہیں
بہت دنوں سے مجھے صبح شام راحت ہے!!
ہماری چھوڑ تُو اپنی سُنا ہوئی تسکین؟؟
ہمیں تو خیر سے اے خوش خرام ! راحت ہے
تڑپ رہا تھا بیجارہ کئی دنوں کا تشنہ
لنڈھائے شیخ نے دو چار جام ، راحت ہے
ابھی ابھی وہ عیادت کو آئے تھے میری
طبیبا ! اب نہ مری نبض تھام ، راحت ہے
ابھی ابھی وہ مسیحا اِدھر سے گزرا ہے
سو جی اُٹھے در و دیوار و بام، راحت ہے
وہ جن کا کام ہے دہشت سو اپنا کام کریں
خدا کے فضل سے اپنا تو کام راحت ہے
بدن کی چوٹوں پہ حبشی کو رشک آنے لگا
مرے حضور نے پوچھا ، غلام !! راحت ہے؟؟
ہمارا قاعدہ کُلیہ ہے  کچھ اُلٹ ، کاشرؔ
سہا نہ دردِ محبت تو خام راحت ہے
شوزیب کاشرؔ
________________________
باستفادہ عباس تابشؔ

یہ دشتِ قیس کہ اب خاص کر کسی کا نہیں
بہ فیضِ عشق علیہ السلام میرا ہے
❊❊❊❊❊ غزل ❊❊❊❊❊
زمیں کو جان کر بستر پڑا ہوں
فلک کی اوڑھ کر چادر پڑا ہوں
کوئی کیوں خواہ مخواہ آنکھیں دکھائے
ارے کیا میں کسی کے در پڑا ہوں !!
امیروں کے جہاں پکّے مکاں ہیں
وہیں پر ڈال کر چھپّر پڑا ہوں
تمہیں معلوم کیا دکھ مفلسی کا
شکم پر باندھ کر پتھر پڑا ہوں
کچل دے ، روندھ دے ، پامال کر دے
ترے قدموں کی ٹھوکر پر پڑا ہوں
اُسے رستہ بدلنا ہی پڑا ہے
میں اُس کی راہ میں اکثر پڑا ہوں
مجھے بس وہ حزیں دل جانتے ہیں
جنوں بن کر میں جن کے سر پڑا ہوں
مری تصویر کیِسے میں رکھی ہے
میں اُس کی جیب کے اندر پڑا ہوں
خدا معلوم نیّت کوزہ گر کی
ابھی تو چاک کےاُوپر پڑا ہوں
بڑی صحرا نوردی ہو گئی تھی
پئے آرام اب تو گھر پڑا ہوں
مجھے اغیار میں مت بانٹ لینا
تمہارے پاس مثلِ زر پڑا ہوں
تمہارے ساتھ ہی ہریالیاں تھیں
تمہارے بعد میں بنجر پڑا ہوں
تمہاری یاد جس میں دفن کی تھی
اسی تابوت کے اندر پڑا ہوں
بہت دن بعد کاشرؔ اتّفاقاً
جو دیکھا آئینہ تو ڈر پڑا ہوں
شوزیب کاشرؔ
یہ واقعہ بھی ہوا رونما تو سُن لینا
کہ بات کرنے لگے آئینہ تو سُن لینا
کہ اس طرح سے مسائل جنم نہیں لیتے
بڑے بزرگ جو دیں مشورہ تو سن لینا
ہمیں پتہ ہے جدائی کے بعد کا عالم
بچھڑنے والا اگر دے صدا تو سُن لینا
ہماری چھوڑو ہمارا معاملہ ہے الگ
برائے سجدہ بلائے خدا تو سُن لینا
ملامتی ہیں میاں کیسا دکھ ملامت کا
برُا بھلا بھی کوئی کہہ گیا تو سُن لینا
ابھی تو عشق ہمارا یہ نامکمل ہے
اگر کبھی یہ فسانہ بنا تو سُن لینا
ابھی سمجھ نہیں آئے گی تم کو میری غزل
کبھی جنوں میں ہوئے مبتلا تو سُن لینا
ہمارے نامۂ اعمال میں لکھا کیا ہے
بروزِ حشر ہوا حوصلہ تو سُن لینا
تمہیں بھی نامہ بروں تک رسائی ناممکن
پیام بھیجوں بدستِ صبا تو سُن لینا
ہمیں تو خیر پرندوں کی بولی آتی ہے
یہ معجزہ ہو تمہیں بھی عطا تو سُن لینا
تمہارا مسئلہ یہ ہے کہ ٹوک دیتے ہو
ہمارا مسئلہ سننا پڑا تو سُن لینا
کسی کسی سے اُداسی کلام کرتی ہے
سنائی دے تمہیں چُپ کی صدا تو سُن لینا
میں جانتا ہوں محبت ، غزل نہیں پھر بھی
اگر کسی نے مکرر کہا تو سُن لینا
غلط دلیل تو سننے کے حق میں،میں بھی نہیں
دلیل ٹھیک لگے ہمنوا !! تو سُن لینا
ابھی تو پیار ہے پردہ میں پردہ رہنے دو
زبانِ عام یہ قصّہ ہوا تو سُن لینا
حسین لوگوں سے اچھائی کی امید نہیں
دُعا کے نام پہ دیں بد دُعا تو سُن لینا
یہ ایسا طبقہ کہ جس کی کوئی بھی سنتا نہیں
کریں سوال جو خواجہ سرا تو سُن لینا
ہمیں تو کچھ نہیں آتا سوائے عزلوں کے
وہ سننا چاہو سخن آشنا!! تو سُن لینا
ہمیں تو اذن ہے پیڑوں سے بات کرنے کا
تمہیں بھی اذن ہو سُن لینے کا تو سُن لینا
بہت طویل ہے کاشرؔ کہانی اس دل کی
نہ کٹ رہا ہو کبھی راستہ تو سُن لینا
شوزیب کاکاشرؔ
یہ غزل چونکہ جناب احمد فرازؔ اور جناب اختر عثمانؔ سے متاثر ہو کر ہوئی ہے اس لیے یہ انہی دو کی نذر کرتا ہوں
ہزار کہیے کہ یوں ہے معاملہ یوں ہے
جنوں تو پھر بھی جنوں ہے معاملہ یوں ہے
ہماری رائے سے دل متّفق نہیں کہ اسے
اِسی خلش میں سکوں ہے معاملہ یوں ہے
زمیں خفا ہے کہ پیڑوں کی اُس کے ہوتے ہوئے
ہوا سے دوستی کیوں ہے معاملہ یوں ہے
مجھے شکیب جلالیؔ بنا کے چھوڑے گا
مری رگوں میں جو خوں ہے معاملہ یوں ہے
جو ضد کی پوچھو تو اپنی جگہ ڈٹا ہوا ہوں
وگرنہ جاں تو زبوں ہے معاملہ یوں ہے
غزل بھی علمِ لدنّی کے خاندان سے ہے
یہ سرِّ کُن فیکوں ہے معاملہ یوں ہے
ہزار ماجدؔ و احمد عطاؔ کہیں پہ نہیں
ہوس سے عشق فزوں ہے معاملہ یوں ہے
سرِ حسینؑ کا مدفن ہے وہ زمیں کہ جہاں
سرِ فلک بھی نگوں ہے معاملہ یوں ہے
سخن میں کیسا تقابل کہ ہر کسی کا الگ
سلیقہ ہائے فسوں ہے معاملہ یوں ہے
ہماری فکر سے  قائم ہے ارتقاء کا وجود
کہ دم بہ دم ، گونگوں ہے معاملہ یوں ہے
تھی ابتدائے مراسم میں بےحساب للک
پہ اب دروں نہ بروں ہے معاملہ یوں ہے

یہ فیضِ اخترؔ و احمد فرازؔ ہے کاشرؔ
کہ میں بھی کہہ سکوں ہوں، ہے معاملہ یوں ہے
شوزیب کاشرؔ
بہت بڑا تو امتحاں کوئی نہیں
ہیں کوئی دم اداسیاں کوئی نہیں!!
تُو شاد رہ، ہمارا کیا ہے ہجر میں
گزر ہی جائے گی میاں، کوئی نہیں!!
اب اِس سے آگے کون سمت جائیے
وہاں تک آ گئے جہاں، کوئی نہیں
خوشی تو دل پہ دے رہی تھی دستکیں
جواب آیا جا! یہاں کوئی نہیں
یہ حادثے بھی زندگی کا حصہ ہیں
تو کیا ہوا ہے جانِ جاں کوئی نہیں
  دلا!! یہ تیرا وہم ہے غلط کہ تُو
خجل ، خراب خانماں کوئی نہیں
تُو کاغذی گلاب ہے نہ بُو نہ رَس
سو تیرے پاس تتلیاں کوئی نہیں
تُو اب تو کُھل کے بات کر ، نظر ملا
یہاں ہمارے درمیاں کوئی نہیں
وہ کرفیو ہے شہر میں کہ ذی نفس
کسی بھی راہ پر رواں کوئی نہیں
تُو بے وفا ہے اور بے وفاؤں سے
مصالحت ہمارے ہاں کوئی نہیں
یہ دشت ہے اور اس کا ایک اصول ہے
اِدھر اُدھر یہاں وہاں کوئی نہیں
یہ نقشۂ زرِ خودی سنبھال رکھ
کہ گم ہوا تو پھر نشاں کوئی نہیں
یہیں پہ جتنا بیٹھنا ہے بیٹھ لے
کہ اِس سے آگے سائباں کوئی نہیں
ہم ایسی کشتیوں کے مسئلے نہ پوچھ
کہ ماجھی ہے تو  بادباں کوئی نہیں
کمالِ رائگانئ جنون ہے
کہ رائگانی رائگاں کوئی نہیں
وہ جون ایلیاؔ ہے بھائی میں کہاں
مرے سخن میں وہ بیاں کوئی نہیں
کرم کی بوند بوند کو ترستی ہے
وہ جس زمیں کا آسماں کوئی نہیں
عجیب ہے کہ ان دنوں میں کاشراؔ
اداس ہوں کہ بےاماں کوئی نہیں 
شوزیب کاشرکاشر
احمد فراز کی نذر
A tribute to great Ahmed Faraz
اپنے خوابوں کو حقیقت کا لبادہ پہنا
فکر کو ولولے ، خواہش کو ارادہ پہنا
Apnay khabon ko haqiqat ka libada phna
Fikr ko walwaly , khwahish ko irada phna
آبلے زخم نہیں پھول ہیں،اکثر جن کو
ہم نے پاپوش کیا جادہ بہ جادہ پہنا
Ablay zakhm nahein phool hain ,aksar jin ko
Ham nay papoosh kiya jada ba jada phna
تاکہ ناموس برہنہ کبھی اپنی بھی نہ ہو
سب کو چادر یہ زیادہ سے زیادہ پہنا
Ta kay namoos barahna kabi apni bi na ho
Sab ko chadar ya zayada sey zayada phna
میں نے کب اطلس و کمخواب کی فرمائش کی
پیرہن جو بھی ملا خستہ و سادہ پہنا
Main nay kab atlas o kamkawab ki farmaish ki
Parhan jo bi mila khasta o sada phna
معتدل وہ بھی تھا سو ہم نے محبت جامہ
نہ اتارا ، نہ ادھیڑا ، نہ زیادہ پہنا
Motadil wo bi tha so ham nay muhabbat jama
Na utara , na udheira , na zayada Phna
مرشدِ عشق کا فرمان تھا ایمان اٹل
زیرِ خنجر بھی اطاعت کا قلادہ پہنا
Morshid-E-Ishaq ka farman tha imaan atal
Zair-E-Khanjar bi ata'at ka qalada Phna
جاں خلاصی یوں بھی ممکن تھا ولیکن افسوس
موت کا طوق بھی گردن سے کشادہ پہنا
Jan khalasi yun b momkin thi walaikin afsoos!!
Moot ka toq bhi gardan sey kushada Phna
اور توہینِ بشر اس سے زیادہ کیا ہو
گُرگ شرمندہ کہ انساں کا لبادہ پہنا
Oor toheen-E-Bashr is sy zayada kaya ho ?
Gurg sharminda kay insan ka libada Phna
یعنی انسان بھی ابلیس سے کچھ کم نہیں ہے
بھیس بدلا تو فرشتوں کا لبادہ پہنا
Yani insan bhi iblees sey kuch kam nahein hai
Bhais badla to fareeshton ka libada Phna
دوستی یاری اداکاری ملمّع سازی 
یعنی بہروپ   ''سرِ محفلِ اعدا پہنا
Dosti yaari adakari molam'ma sazi
Yani bhroop Sir-E-Mehfil-E-Aeda Phna
تشنۂ لمس رہیں وصل رُتیں بھی کاشرؔ
اس نے پہنا بھی کبھی مجھ کو تو آدھا پہنا
Tishna-E-Lams rahein wasl rotain bhi Kashir
Us nay phna bhi kabi mjh ko to Aada Phna
Shozaib Kashir
شوزیب کاشر
عشق شراب پی کے جھوم وجد میں آ دھمال ڈال
خون نکال پاؤں سے رنگ جما دھمال ڈال
فقر پہ جو فدا نہیں صوفی وہ با صفا نہیں
تیری بقا اِسی میں ہے خود کو مٹا دھمال ڈال
حُلیے سے بھی پتہ چلے تُو بھی کوئی ملنگ ہے
گدڑی  پہن کڑے چڑھا بال بڑھا دھمال ڈال
چلہ کشی کا شوق ہے بیٹھ کسی مزار پر
یہ بھی ہے اک مراقبہ صبح و مسا دھمال ڈال
تُو ہے اگر ملامتی آیتیں رٹ خلوص کی
باندھ لے گھنگھرو صبر کے خاک اُڑا دھمال ڈال
ضبط کو آزما کے دیکھ درد میں مسکرا کے دیکھ
تجھ پہ بھی کچھ کھلے کہ عشق رمز ہے کیا دھمال ڈال

روح پہ اپنی دھیان دے بندگی کا گیان لے
یہ ہے سلوکِ عاشقاں گھومتا جا ڈھمال ڈال
خود کو نیاز مند کر کاسۂ دل بلند کر
ہو گی نگاہِ التفات ایک ذرا دھمال ڈال
تجربہ کار لوگ ہیں دیکھ ہمارا تال میل
تُو بھی ہمارے پاؤں سے پاؤں ملا دھمال ڈال
میں نے کہا کہ مُرشدی کوئی علاج ہجر کا؟؟
درد بہت شدید تھا حُکم ہوا دھمال ڈال
مست الست ہو کے جی عشق پرست ہو کے جی
عشق نہیں تو کچھ نہیں عشق نبھا دھمال ڈال
عشق ہے آسمانی چیز عشق ہے غیر فانی چیز
جان ہے آنی جانی چیز ڈرتا ہے کیا دھمال ڈال
رقص بشکلِ دائرہ کرتا ہے یوں کوئی کوئی
تجھ کو بھی اذن ہے اگر سامنے آ دھمال ڈال
حالتِ سُکر کا نشہ حالتِ صَحو کا مزہ
تجھ پہ ہوں دونوں کیفیات عقدہ کُشا، دھمال ڈال
حال ہے اضطراری حال ، حال پہ کیسی قیل و قال
فتوی زنوں پہ تین حرف جلوہ دکھا دھمال ڈال
اپنی تلاش سے ہنوز مُکتی نہیں ملی تجھے
دشت نوردی کی بہت ، قیس نما  دھمال ڈال
حُبِ علی تو اصل میں حُبِ خدا ہے دوستا
ٹھوک بجا کے حیدری نعرہ لگا دھمال ڈال
جوگی بنا ہوا ہے تُو کیا یہ منافقت نہیں؟؟
سلسلۂ قلندری چھوڑ دے یا دھمال ڈال
جنس میں نقص ہے تو ہے اِس میں ترا قصور کیا
اِس کو خدا کی مرضی جان خواجہ سرا !! دھمال ڈال

کیل سے میرپور تک  تیری غزل کی دھوم ہے
خاص ہے تجھ پہ کاشراؔ !! رب کی عطا، دھمال ڈال
شوزیب کاشرؔ
وہ دن گئے کہ تھے تعلقات اپنے آپ سے
کئی دنوں سے کی نہیں ہے بات اپنے آپ سے
شراب چھوڑ عشق چھوڑ نیز چھوڑ شاعری !!
لیے تھے کتنے عہد ایک ساتھ اپنے آپ سے
اُسے نکالتے ہوئے یہ دھیان ہی نہیں رہا
نکل گیا تھا میں بھی اُس کے ساتھ اپنے سے
یہ طے ہوا کہ خودکشی نہیں کروں گا عشق میں
وہ غصہ تھا کہ لڑ پڑا میں رات اپنے آپ سے

کہا کہ کس طرح مرے گا میرا نفس مرشدی!!
کہا کہ نوچ ڈال خواہشات اپنے آپ سے
یہ فور جی صدی ہے دیکھ ارتقا کے بام سے
کلام کر رہی ہے کائنات اپنے آپ سے
مرے سوا بھی اُس کے ساتھ تین چار لوگ ہیں
سو اُس نے جھوٹ بولے پانچ سات اپنے آپ سے
بظاہر ایک دوسرے کی پشت پر کھڑے ہیں ہم
جو سچ کہوں تو کر رہے ہیں ہاتھ اپنے آپ سے
مکالمے ، مناظرے ، مطالبے ، مجادلے
جنوں کے ہیں سبھی معاملات اپنے آپ سے
تجھے بھی دل مکان میں جگہ ملے گی، انتظار!!
کہ چل رہی ہے یار میری بات اپنے آپ سے
مری نفی سے بات بنتی ہو تو میں بنا بھی لوں
میں کسطرح نکالوں تیری ذات اپنے آپ سے
نہ کُھل کے رو سکوں ہوں میں نہ کُھل کے ہنس سکوں ہوں میں
میں کب تلک چھپاؤں کیفیات اپنے آپ سے
او کاشراؔ !! تجھے بھی کچھ ملال ہے کہ تُو نے تو
دغا کیا ہے اُس کے ساتھ ساتھ اپنے آپ سے

شوزیب کاشرؔ
ناف پیالہ مے بہ مے ، ہاں مرا خواب ہے تو کیا!!
ہونٹ نہیں لگاؤں گا  بادۂ ناب ہے تو کیا!!
آپ کے ناز اُٹھا چکا ، اب میں کسی حسین کے
ناز نہیں اُٹھاؤں گا اس میں ثواب ہے تو کیا؟؟
غم سے نباہ کیوں کیا؟ خود کو تباہ کیوں کیا ؟
اِس کا جواب کیا میں دوں اِس کا جواب ہے تو کیا؟؟
عین: سے عشق عارضہ ، قاف: قضا پہ کھیل ختم
شین: شعور،شعر،شوق،شعلہ،شباب ہے تو کیا!!
ایک ذرا سے رنج پر خواہشِ مرگ کس لیے ؟؟
کوئی جواز بھی تو ہو یعنی عذاب ہے تو کیا؟؟
تیری تلاش تھی سو تھی تیری تلاش ہے سو ہے
تیری تلاش کا سفر مانا سراب ہے تو کیا!!
میری بیاضِ عمر میں ایک سے ایک باب تھا
ایک ہی باب رہ گیا ، اور وہ باب ہے تو کیا؟؟
صفحہ بہ صفحہ لا بہ لا  دل کی کتاب پھاڑ دی
دل کی کتاب پھاڑ دی!! دل کی کتاب ہے تو کیا؟؟
جونؔ کی پیروی میں ہم خانہ خراب جونیے
خوش ہیں کہ خون تھوکیے خانہ خراب ہے تو کیا !!
سچے سخی کسی کو یوں دیتے نہیں ہیں جھڑکیاں
دل کا ہے تو بخیل شخص نام نواب ہے تو کیا!!
کاشرا کارِ عشق میں عمر جو رائگاں ہوئی
اُس کا حساب کون دے؟؟ اُس کا حساب ہے تو کیا؟؟
شوزیب کاشر
اب میری محبت ہے جفا نام کی لڑکی
جا تجھ سے خفا ہوں میں ، وفا نام کی لڑکی!
تو واقعتا لڑکی ہے یا نام کی لڑکی!
جا نام  کی لڑکی ہے تو ، جا نام کی  لڑکی!
ہم ایسے پرندوں کی سہیلی ہے فقط ایک
افلاک کی شہزادی، ہوا نام کی لڑکی
کہنے کو تو پردہ ہے شریعت کے مطابق
کیا تجھ میں حیا ہے بھی؟ حیا نام کی لڑکی!
سگریٹ کا دھواں  بھرتے ہی مر جائے گی پاگل
سینے سے نکل بھاگ ، خلا نام کی لڑکی!
پھر دیکھتے رہ جائیں گے دشمن یہ تماشا
لے لے گی مری جان، قضا نام کی لڑکی
رب جانے کہ اب کون محلے میں ہے آباد
ہمسائے میں رہتی تھی وہ کیا نام کی لڑکی
غربت کے سبب جسم فروشی پہ ہے مجبور
حوّا کی یہ بیٹی یہ ردا نام کی لڑکی
اتنی ہی تو سچی ہے تو آ تھام مرا ہاتھ*
دن رات یونہی قسمیں نہ کھا نام کی ، لڑکی!!
نیلوفر و نسرین کی تشبیہ غلط ہے
ہے اپنی مثال آپ ، ھما نام کی لڑکی
مجھ کاشرِ ناچیز میں کیا جونؔ سا دیکھا
کیوں فارہہ بن بیھٹی؟ صبا نام کی لڑکی
شوزیب کاشرؔ


شوزیب کاشر کی اردو شاعری

شوزیب کاشر جی کو میں بذات خود نہیں جانتی لیکن ان کی شاعری کا مطالعہ کرنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ وہ روایت کے ساتھ ساتھ جدید لہجہ اپنانے میں بڑی حد تک کامیاب ہوئے ہیں دورِ حاضر میں نئی نسل نے غزل کو اپنی فکر کا محور بنایا ہے جہاں لہجوں کی یکسانیت کے باعث غزل کے منفرد لہجے نایاب ہوگئے ہیں دورِ حاضر کے قاری کو تازہ حوالے کی ضرورت تھی شوزیب کاشر جی کی غزلیں پڑھنے کے بعد ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ وہ اپنی تخلیق کو منفرد بنانے کے ہنر سے خوب واقف ہیں اُن کا منفرد لب ولہجہ ہی ان کو سب سے منفرد بناتا ہے
اس میں کچھ شک نہیں کہ شوزیب کاشر جی میں بڑ ا " پوٹینشل " ہے ا ن کی غزلیں فکر وآگہی کی نئی راہیں متعین کرنے کا کام انجام دے رہی ہیں شوزیب کاشر جی کے لفظیات سادہ مگر پر شکوہ ہیں اور قاری کے دل میں اُترنے کی صلاحیت رکھتے ہیں
دعاعلی

 مجھے راستے میں نہ چھوڑنا کے شاعر  شوزیب کاشر
اہل فن کے فنی کمالات - شوزیب کاشر منفرد لب و لہجے کے شاعر

قلمی نام : شوزیب کاشر ۔۔۔۔
اصل نام: شوزیب صادق ۔۔۔۔۔
تاریخ پیدائش : نومبر  12 اور 1986 ۔۔۔۔
جائے پیدائش: راولاکوٹ ، ضلع پونچھ آزادکشمیر ۔۔۔
سکونت: راولاکوٹ
تعلیم۔۔۔۔ میٹرک :صدیق اکبر ماڈل سکول راولاکوٹ 2002   ۔۔۔۔۔۔
آخری ڈگری :ایم اے انگلش ، اے جے کے یونیورسٹی مظفرآباد آزاد کشمیر  ۔۔۔۔۔
پیشہ: تدریس  ۔۔۔۔
شاعری کا آغاز: میٹرک سے یعنی 2002 ۔۔
ادبی سرگرمیاں: ادبی تنظیمات  کشمیر سحر ادب کے نائب صدر
، پونچھ ادبی سوسائٹی کے جنرل سیکٹری ، آل جموں و کشمیر ادبی کونسل پونچھ کے جنرل سیکٹری کی حیثیت سے مختلف پروگرامات ، مشاعروں، سیمینارز کا کشمیر کی سطح پر انعقاد
اس کے علاوہ سوشل میڈیا: فیس بک اور وٹس ایپ کے نمائندہ ادبی گروپ 'ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری'' کے ذریعے فروغِ ادب کے لیے دن رات کام کرنا
اگر کوئی کتاب شائع ہوئی تو اس کا  نام اور سن اشاعت :
پہلا مجموعہ کلام( عزلیات) ، میں نے پیار بیچ دیا
2002 سن اشاعت:
گورنمٹ آف پاکستان کی طرف سے کمسن صاحب کتاب شاعر پر سندِ اعزاز اور گولڈ میڈل سے نوازا گیا
دوسرا مجموعہ(حمد، نعت ، مناقب) : نوائے خضر
سنِ اشاعت:  2005
تیسرا مجموعہ: غزلیات : مجھے راستے میں نہ چھوڑنا
زیر طبع
چھوتا مجموعہ:(حمد، نعت ، مناقب): مسیحائی
زیرِ طبع
نمونۂ کلام :

 الہ تو وحدہ احد تو لم یلد و لم یولد
تو لا شریک الصمد تو لم یلد و لم یولد
........................
پوشاکِ عمل جامۂ کردار پہن لوں
سر تا بقدم اسوۂ سرکار پہن لوں
..................................
تمہارے ساتھ ہی ہریالیاں تھیں
تمہارے بعد میں بنجر پڑا ہوں
...............................
مرے ہمقدم مرے ہمسفر مجھے راستے میں نہ چھوڑنا
بڑی پُرخطر ہے یہ رہگزر مجھے راستے میں نہ چھوڑنا
.......................................
نظر افسردہ چہرہ پُر الم ہے جھوٹ مت بولو
کوئی تو بات ہے جو وجہِ غم ہے جھوٹ مت بولو
..........................................................
کاشر مرا وجود مکمل نہ ہو سکا
اس کے بغیر جیسے میں آدھا رہا سدا
.....................................
دل کی ضد ہے کے اسے ٹوٹ کے چاہوں کاشر
جانتا بھی ہوں کے وہ میری ہتھیلی میں نہیں
..................................
مکان ہے نہ مکیں ہے فنا ہے سب یعنی
یہاں جو ہے وہ نہیں ہے فنا ہے سب یعنی
...........................
جب بھی چاہا کہ اسے اپنا بنالوں کاشرؔ
بن گیا راہ کی دیوار مقدر میرا
............................................
سچ کہا ہے کب میں نے
سی لیے ہیں لب میں نے
.............................................
آخری خط میں اسے میں نے لکھا تھا کاشر
معذرت اپنے مقدر پہ نہیں حق میرا
..............................
اب وہ ہے کہیں اور میں ہوں کہیں
عمر کٹے گی تنہا تنہا
.................................
اے مرے دیس باوقار ! صبح بخیر شب بخیر
 کرۂ ارضِ خوشگوار !صبح بخیر شب بخیر
....................................
آبلے زخم نہیں پھول ہیں جن کو اکثر
ہم نے پاپوش کیا جادہ بہ جادہ پہنا
...............................
سب ایک جیسے حزیں دل تھے جمع ایک جگہ
یتیم بچوں کو دار الامان اچھا لگا
..................................
فقیہہِ وقت کے مسلک سے اختلاف کیا
سو مجھ پہ بنتا ہے فتویٰ کہ دہریہ ہوں میں
.........................................................
خارۂ و خشت و سنگ ہوں جو بھی ہوں تیرا رنگ ہوں
خود کو بتاؤں آئینہ میری سرشت میں نہیں
.....................................
دستِ سقراط پہ بیعت میں نے بھی کی ہوئی ہے
لازماََ زہر نگل جاؤں گا اک دن میں بھی
..................................
نو واردِ اقلیمِ سخن بندۂ ناچیز
اک عام سا شاعر ہوں میں غالب نہیں صاحب
.....................................................
کاشر میں ہوتا جون تو مصرعہ یہ باندھتا
میں فارہہ کے ساتھ ہوں تم کس کے ساتھ ہو

ادارہ،عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری
Date 16-06-2017
No 13
تعارف
اہل فن کے فنی کمالات - شوزیب کاشر منفرد لب و لہجے کے شاعر

قلمی نام : شوزیب کاشر ۔۔۔۔
اصل نام: شوزیب صادق ۔۔۔۔۔
تاریخ پیدائش : نومبر  12 اور 1986 ۔۔۔۔
جائے پیدائش: راولاکوٹ ، ضلع پونچھ آزادکشمیر ۔۔۔
سکونت: راولاکوٹ
تعلیم۔۔۔۔ میٹرک :صدیق اکبر ماڈل سکول راولاکوٹ 2002   ۔۔۔۔۔۔
آخری ڈگری :ایم اے انگلش ، اے جے کے یونیورسٹی مظفرآباد آزاد کشمیر  ۔۔۔۔۔
پیشہ: تدریس  ۔۔۔۔
شاعری کا آغاز: میٹرک سے یعنی 2002 ۔۔
ادبی سرگرمیاں: ادبی تنظیمات  کشمیر سحر ادب کے نائب صدر
، پونچھ ادبی سوسائٹی کے جنرل سیکٹری ، آل جموں و کشمیر ادبی کونسل پونچھ کے جنرل سیکٹری کی حیثیت سے مختلف پروگرامات ، مشاعروں، سیمینارز کا کشمیر کی سطح پر انعقاد
اس کے علاوہ سوشل میڈیا: فیس بک اور وٹس ایپ کے نمائندہ ادبی گروپ 'ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری'' کے ذریعے فروغِ ادب کے لیے دن رات کام کرنا
اگر کوئی کتاب شائع ہوئی تو اس کا  نام اور سن اشاعت :
پہلا مجموعہ کلام( عزلیات) ، میں نے پیار بیچ دیا
2002 سن اشاعت:
گورنمٹ آف پاکستان کی طرف سے کمسن صاحب کتاب شاعر پر سندِ اعزاز اور گولڈ میڈل سے نوازا گیا
دوسرا مجموعہ(حمد، نعت ، مناقب) : نوائے خضر
سنِ اشاعت:  2005
تیسرا مجموعہ: غزلیات : مجھے راستے میں نہ چھوڑنا
زیر طبع
چھوتا مجموعہ:(حمد، نعت ، مناقب): مسیحائی
زیرِ طبع
نمونۂ کلام :
1
 صحرا میں کڑی دھوپ کا ڈر ہوتے ہوئے بھی
سائے سے گریزاں ہوں شجر ہوتے ہوئے بھی

ماں باپ کا منظورِ نظر ہوتے ہوئے بھی
محرومِ وراثت ہوں پسر ہوتے ہوئے بھی

یہ جبرِ مشیت ہے کی تنہائی کی عادت
میں قید ہوں دیوار میں در ہوتے ہوئے بھی

ہم ایسے پرندوں کی ہے اک پیڑ سے نسبت
اُڑ کر کہیں جاتے نہیں پر ہوتے ہوئے بھی

ہر چیز لُٹا دینا فقیروں کا ہے شیوہ
کم ظرف ہیں کچھ صاحبِ زر ہوتے ہوئے بھی

اُس دیس کا باسی ہوں کی جس دیس کا ہاری
مایوس ہے شاخوں پہ ثمر ہوتے ہوئے بھی

سورج سے کرے دوستی اک کُور بسر کیا
جلوے کی نہیں تاب نظر ہوتے ہوئے بھی

کچھ ہار گئے جبر کے باوصف بھی ظالم
کچھ جیت گئے نیزوں پہ سر ہوتے ہوئے بھی

تجھ جیسا عدد اپنے تئیں کچھ بھی نہیں ہے
میں تیری ضرورت ہوں صفر ہوتے ہوئے بھی

ہسنا مری آنکھوں کا گوارا نہیں اُس کو
اور دیکھ نہیں سکتا ہے تر ہوتے ہوئے بھی

پھر دشت نوردی نے دکھائی یہ کرامت
میں شہر میں تھا شہر بدر ہوتے ہوئے بھی

اس بار تھے کچھ دوست مرے مدِّ مقابل
سینے پہ سہے وار سپر ہوتے ہوئے بھی

ایسے بھی زبوں حال کئی لوگ ہیں کاشرؔ
بےگھر ہیں اسی شہر میں گھر ہوتے ہوئے بھی

2

احساس کی دیوار گرا دی ہے چلا جا !!
جانے کے لیے یار جگہ دی ہے چلا جا  !!

اے قیس نما شخص یہاں کچھ نہیں تیرا
تجھ نام کی صحرا میں منادی ہے چلا جا  !!

دنیا تو چلو غیر تھی شکوہ نہیں اس سے
تو نے بھی تو اوقات دکھا دی ہے چلا جا !!

تا کوئی بہانہ ترے پیروں سے نہ لپٹے
دیوار سے تصویر ہٹا دی ہے چلا جا !

یکطرفہ محبت کا خسارا ہے مقدر
تجھ خواب کی تعبیر بتا دی ہے چلا جا !!

ہم ایسے فقیروں میں نہیں مادہ پرستی
تیرا تو میاں شعر بھی مادی ہے چلا جا !!

ہے کون رکاوٹ جو تجھے روک رہی ہے
میں نے تو مری ذات بھی ڈھا دی ہے چلا جا !!

اس شہر کے لوگوں میں نہیں قوتِ برداشت
یہ شہر تو سارا ہی فسادی ہے چلا جا !

دستک کے لیے اٹھا ہوا ہاتھ نہ گرتا
خاموشی نے تعزیر سنا دی ہے چلا جا

کچھ جونؔ قبیلے سے نہیں تیرا تعلق
ہر لڑکی یہاں فارہہ زادی ہے چلا جا

جانا تری فطرت ہے بلانا مری قسمت
تو آ کے چلے جانے کا عادی ہے چلا جا

لگتا ہے تو قابُل میں نیا آیا ہے پیارے
افغان کا بچہ بھی جہادی ہے چلا جا

اے موم بدن تیرا گزارا نہیں ممکن
یہ آگ میں جلتی ہوئی وادی ہے چلا جا

افسوس بہت دیر سے آیا ہے تو کاشرؔ
اس پانچ مئی کو مری شادی ہے چلا جا

3

پھر خدا سے اُلجھ پڑا ہوں کیا
اپنی حد سے نکل گیا ہوں کیا

تو مجھے دیکھنے سے ڈرتا ہے
لن ترانی کا سلسلہ ہوں کیا

اتنا کیا کان دھر کے سنتا ہے
میں بہت دور کی صدا ہوں کیا

پیرہن پھاڑ کر میں رقص کروں
عشق وحشت میں مبتلا ہوں کیا

بات دشنام تک چلی گئی ہے
سچ بتاؤ بہت برا ہوں کیا

کیا کہا تُو بھگت رہا ہے مجھے
میں کسی جرم کی سزا ہوں کیا

آ رہے لوگ تعزیت کے لیے
میں حقیقت میں مر گیا ہوں کیا

لوگ جھوٹا سمجھ رہے ہیں مجھے
یار میں کوئی گڈریا ہوں کیا

کن کہوں اور کام ہو جائے
آدمی ہوں کوئی خدا ہوں کیا

ہر کوئی بور ہونے لگتا ہے
وجہ بے وجہ بولتا ہوں کیا

جس طرح چاہے گا برت لے گا
تجھ غزل کا میں قافیہ ہوں کیا

ایک ہی فارہہ سے پیار کروں
میں کوئی جون ایلیا ہوں کیا

میں انا الشوق انا الوفا ، کاشرؔ
بندۂ عشق دہریہ ہوں کیا

1 :۔ سب سے پہلے ایک روائتی سوال لفظوں سے رشتہ کب جڑا ؟ پہلا شعر کونسا  کہا اگر یاد ہو ؟
مری پہلی کتاب '' میں نے پیار بیچ دیا'' چونکہ میں پبلش ہوئی تھی جب میں صرف میٹرک میں تھا اسی بات سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ شعر و سخن سے میرا تعلق بہت نو عمری میں جڑ گیا تھا اگزکٹلی بتانا ذرا مشکل ہے غالبا جب میں ساتویں یا آٹھویں جماعت کا طالبِ علم تھا اور رہا پہلے شعر کا سوال تو وہ کوئی سترہ اٹھارہ سال پرانی بات ہو گئی ہے یاد نہیں
2:۔ والدین کو جب پتہ چلا کہ ان کا صاحبزادہ شعر کہتا ہے تو ان کا ردِ عمل کیا تھا ؟
میرے والدین نے ہمیشہ مری حوصلہ افزائی کی اور مزید لکھنے پر تحریک کا باعث بنے . مری والدہ،بہنیں،جملہ دوست احباب اور بالخصوص بڑے بھائی توصیف ترنل ؔ نے بہت سپورٹ کیا . مأخر الذکر چونکہ خود بھی ایک عمدہ شاعر، سخن فہم اور سخن دوست ہیں انھوں نے ہر مرحلے پر نہ صرف مری حوصلہ افزائی و راہنمائی کی بلکہ ہمیشہ مری تشہیر و اشاعت کو خود پر ترجیح دی جس پر میں ان کا جتنا شکریہ ادا کروں کم ہے
3:۔  آپکا قلمی نام شوزیب کاشرؔ ہے اس نام کو رکھنے کی کوئی خاص وجہ ؟
میرے ایک شعر کا مصرعہ ہے کہ
بہشت زاد ہوں کشمیر ہے مرا مسکن
کاشر اسی نسبت کی وجہ سے ہے جو نہ صرف مرا فخر ہے بلکہ سرمائہ افتخار بھی
4:۔ کیا کبھی کسی سے اصلاح لی ؟ کس شاعر کو خود کے لیے زیادہ موثر سمجھتے ہیں ؟
آج میں جو کچھ بھی ہوں سب اللہ کا کرم اور سالہا سال کی کڑی مشقِ سخن کا نتیجہ ہےتاہم
شاعری خداداد صلاحیت ہونے کیساتھ ساتھ ایک با ضابطہ فن بھی ہے جس کو سیکھنے کے لیے ہر شخص کو کہیں نہ کہیں  کسی نہ کسی کو استاد ماننا پڑتا ہے،زانوئے تلمّذ طے کرنے پڑتے ہیں . میں نے بھی چند شعرا سے ابتداءً کچھ رہنمائی لی باقی میں ساغر صدیقی سے متاثر ہوں اور اسی کو اپنا روحانی استاد مانتا ہوں
4:۔ شاعری کے بارے میں آپ کا خیال کیا ہے شاعری کیا ہوتی ہے ؟ شاعری کا ذاتی زندگی پر کوئی مثبت یا منفی اثر اگر پڑا ہو تو
منفی اثرات کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا میرے لیے یہ مثبت ہی مثبت ہے آج میں جو کچھ بھی ہوں شاعری کی بدولت ہوں کہ یہ میری سرشت میں ہے اور شعر کہنا صرف ذوق کی سیرابی کے لیے نہیں بلکے یہ میرے ایمانی،روحانی،ذہنی،شعوری اور فکری ارتقا کی اساس اور رہا آپ کے سوال کا حصہ اول تو اس کے لیے فراز صاحب کا یہ شعر کافی ہے
شاعری تازہ زمانوں کی ہے معمار فرازؔ
یہ بھی اک سلسلۂ کن فیکوں ہے یوں ہے 
5:۔ طنز و مزاح سے لگاو ؟ کیا کبھی شاعری کے علاوہ نثر میں کچھ لکھا ؟
پڑھنے اور سننے کی حد تک دونوں  ہی پسند ہیں لیکن لکھنے لکھانے کا خاص شغف نہیں 
6:۔ موجودہ دور کی شاعری سے کس حد تک مطمئن ہیں ؟ حالات حاضرہ کے شعرا میں آپ کی پسند کا شاعر ؟
ہر کوئی اپنے اپنے مدار میں اپنی اپنی بساط کے مطابق محوِ پرواز ہے ، کچھ گھوجنے کی جستجو میں اس میں میرا یا کسی اور کا مطمئن ہونا یا نہ ہونا چہ معنی دارد............. موجودہ عہد کے بہت سے شعرا بہت اچھے لکھاری ہیں اور لائقِ صد داد ہیں کئی میرے دوست اور چاہنے والے بھی اس  فہرست میں شامل ہیں کسی ایک کا نام لینا دوسرے کیساتھ زیادتی ہو گی.. 
7:۔  کسی ادبی گروہ سے وابستگی ؟ اردو ادب کی ترویح و ترقی کے لیے جو کام ہو رہا ہے کیا آپ اس سے مطمئن ہیں ؟
کشمیر سحر ادب ، پونچھ ادبی سوسائٹی ، کشمیر لڑرل فورم جیسی تنظیمات کا فعال رکن ہوں اس کے علاوہ
سوشل میڈیا  کے توسط سے بہت سے ادبی گروپس کا بھی حصہ ہوں ............ الحمد للہ پاکستان میں ادب کے فروغ کیلے بہت کام ہو رہا ہے جو ہر حوالے سے تحسین کا مستحق ہے اور یہ بات میرے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں کہ میں بھی اسی قافلۂ عشق و مستی میں ایک رکن کی حیثیت سے شامل ہوں.
8:۔ محبت کے بارے میں کچھ بتائیے کیا آپ نے کبھی محبت کی ؟ کیا شاعر ہونے کے لیے محبت ضروری ؟
یہ سوال ہم سے اکثر و بیشتر پوچھا جاتا ہے اور میرا جواب یہی ہوتا ہے کہ بابا شاعر ہونے کے لیے شاعر ہونا ہی ضروری ہے کہ یہاں کچھ لوگ شاعر کم اور متشاعر زیادہ پائے گئے ہیں. باقی محبت یا نفرت یہ انسان کی جذباتی و جبلتی زندگی کے تجربات ہیں کسی کے کم تو کسی کے زیادہ ،کسی کے تلخ تو کسی کے جانفزا سو یہ مفروضہ غلط العوام ہی سمجھیں کہ شاعری  کا وجود محبت کے مرہونِ منت ہے ہاں تھوڑے بہت اثرات سے انکار بھی نہیں اور رہا میرے زاتی تجربے کا سوال تو اس کا جواب طوالت کا متقاضی ہے کہ.....
میرے ہیں فلسفے الٹ میری ہے کاشرؔ اپنی ہٹ
اوروں کی طرح سوچنا میری سرشت میں نہیں
سو اس پر کھبی کسی اور نشست میں بات ہو جائے گی.
9:۔ جہاں سوشل میڈیا نے نئے لکھنے والوں کے لیے سہولیات دی ہیں وہاں پر کتب سے دوری بھی دی ہے ۔ آپ کے خیال میں وہ کتابوں کا دور ٹھیک تھا یا حال ٹھیک ہے ؟ کتابوں سے محبت کا کوئی ذریعہ ؟
نسل نو کی حد تک آپ کا شکوہ کسی حد تک بجا ہے 
سوشل میڈیا کے اثرات بھی اپنی جگہ مسلم مگرآج بھی کتاب دوست حضرات اپنی جگہ موجود ہیں اور اچھی خاصی بڑی تعداد میں موجود اور ہمیشہ رہیں گے  اور دور تو دونوں ہی اپنی اپنی جگہ درست ہیں جدت اور قدامت کی بحوث آج کل عام ہیں یہاں ان کا مقام نہیں.
کتابوں سے محبت اپنے اپنے ذوق اور شوق کی بات ہے اس کا ذریعہ کتاب دوستی اور کتاب بینی ہی ہے..
 
10: شاعری کی کونسی اصناف میں طبع آزمائی کرتے ہیں ؟ آپ کا اپنا کوئی پسندیدہ شعر ؟
غزل اور نعت میرا اوڑھنا بچھونا ہیں نعت اس ایمان کیساتھ کہتا ہوں
نعت کہنے میں اگر عمر بسر ہو جائے
جب مرے ان کا ثنا خوان امر ہو جائے
اوجِ کیوان بھی کاشرؔ ہے بڑی بات مگر
ان کے قدموں کے برابر مرا سر ہو جائے

 ......اور غزل سے میری رفاقت بقول منور رانا کچھ یوں ہے
غزل وہ صنف نازک ہے جسے اپنی رفاقت سے
وہ محبوبہ بنا لیتا ہے میں بیٹی بناتا ہوں

11 :ـ پہلی ملاقات میں سامنے والی شخصیت میں کیا دیکھتے ہیں آپ ؟
ہم شاعر لوگوں کی ٹو کب سے لگانے لگے یار اپنے ہی غم سے نہیں ملتی  نجات .........اس بنا پر فکرِ عالم کیا کریں سامنے والے کی شخصیت پر تو تب نظر جائے جب خود سے فرصت ہو میں ہنوز اپنے شہرِ ز

صلح   میں    کیسا  استخارہ  جی !
امن    تو    دین     ہے    ہمارا   جی

تُو  نے مانگی  تو  میں نے  رائے  دی
آگے  اے  شخص  !  جو  تمہارا  جی

وہ   کسی   بات    پر   پریشاں  ہیں
اور    نہیں    لگ    رہا    ہمارا   جی

بے   ضرر   نفع   بخش   لوگوں  سے
کوئی  کرتا  ہے   یوں   کنارہ   جی ؟

ایک   ہی  بار   ہے    یہ   عمرِ   رواں
بن  پڑے  جس  طرح بھی یارا ، جی

موت   آنے   میں   دیر     کر    دیتی 
ہم   نے  بروقت  خود   کو  مارا  جی

آپ   بھی   وقت  پر   نہ آئے  کیوں؟
ہم   کو  تھا   آپ    کا   سہارا   جی

ہجر    میں    زندگی    قیامت   تھی
جیسے     تیسے    کیا    گزارا    جی

آپ      کا      لہجہ      عامیانہ     ہے
شعر    کہیے     کوئی     کرارا    جی

ہم    کو    پُرسہ   عطا   ہو  شہزادی
ہم   سے   عاشق  نہیں  دوبارہ  جی

چار   سُو   اس   کا   ہے  شہود  مگر
حسبِ    توفیق     ہے    نظارہ   جی

جو  بھی  اُس  روشنی کے ساتھ چلا
خاک    سے    ہو    گیا    ستارہ   جی

 دل کی آنکھوں سےدیکھتا کوئی نئیں
حُسن    ہے     ورنہ     آشکارا     جی

ایسی   لڑکی    کو   تتلی   مت  کہیے
خود   ہے    وہ   اپنا    استعارہ   جی

مذہبِ    عشق     پر    یقین    نہیں ؟
اس  کا  تو  کچھ  نہیں  ہے چارہ جی

 ہاں  تو  کیا عشق پھر سے فرما لیں؟
ہاں  جی   منظور   ہے   خسارہ  جی؟

مفلسی    ننگا     ناچ     سکتی    ہے
سیٹھ   جی  جب  کریں  اشارہ  جی

ختم    شد     اختیارِ     کوزہ    گری
شکل   میں   ڈھل  چکا  ہے گارا جی

عشق   چشمے  سے  پانی  بھرتی جا
اس   کا  پانی  نہیں  ہے  کھارا  جی

فارہہ   !    جونؔ    مر     گیا    یعنی
ایلیا    آپ     کا     وہ    پیارا   جی

اس  نے  آنا   تھا   دس  بجے  کاشرؔ
ہو  گئے  اب   تو   پورے   بارہ  جی

شوزیب_کاشرؔ

پھر خدا سے اُلجھ پڑا ہوں کیا
اپنی حد سے نکل گیا ہوں کیا

تو مجھے دیکھنے سے ڈرتا ہے
لن ترانی کا سلسلہ ہوں کیا

اتنا کیا کان دھر کے سنتا ہے
میں بہت دور کی صدا ہوں کیا

پیرہن پھاڑ کر میں رقص کروں
عشق وحشت میں مبتلا ہوں کیا

بات دشنام تک چلی گئی ہے
سچ بتاؤ بہت برا ہوں کیا

کیا کہا تُو بھگت رہا ہے مجھے
میں کسی جرم کی سزا ہوں کیا

آ رہے لوگ تعزیت کے لیے
میں حقیقت میں مر گیا ہوں کیا

لوگ جھوٹا سمجھ رہے ہیں مجھے
یار میں کوئی گڈریا ہوں کیا

کن کہوں اور کام ہو جائے
آدمی ہوں کوئی خدا ہوں کیا

ہر کوئی بور ہونے لگتا ہے
وجہ بے وجہ بولتا ہوں کیا

جس طرح چاہے گا برت لے گا
تجھ غزل کا میں قافیہ ہوں کیا

ایک ہی فارہہ سے پیار کروں
میں کوئی جون ایلیا ہوں کیا

میں انا الشوق انا الوفا ، کاشرؔ
بندۂ عشق دہریہ ہوں کیا

احساس کی دیوار گرا دی ہے چلا جا !!
جانے کے لیے یار جگہ دی ہے چلا جا  !!

اے قیس نما شخص یہاں کچھ نہیں تیرا
تجھ نام کی صحرا میں منادی ہے چلا جا  !!

دنیا تو چلو غیر تھی شکوہ نہیں اس سے
تو نے بھی تو اوقات دکھا دی ہے چلا جا !!

تا کوئی بہانہ ترے پیروں سے نہ لپٹے
دیوار سے تصویر ہٹا دی ہے چلا جا !

یکطرفہ محبت کا خسارا ہے مقدر
تجھ خواب کی تعبیر بتا دی ہے چلا جا !!

ہم ایسے فقیروں میں نہیں مادہ پرستی
تیرا تو میاں شعر بھی مادی ہے چلا جا !!

ہے کون رکاوٹ جو تجھے روک رہی ہے
میں نے تو مری ذات بھی ڈھا دی ہے چلا جا !!

اس شہر کے لوگوں میں نہیں قوتِ برداشت
یہ شہر تو سارا ہی فسادی ہے چلا جا !

دستک کے لیے اٹھا ہوا ہاتھ نہ گرتا
خاموشی نے تعزیر سنا دی ہے چلا جا

کچھ جونؔ قبیلے سے نہیں تیرا تعلق
ہر لڑکی یہاں فارہہ زادی ہے چلا جا

جانا تری فطرت ہے بلانا مری قسمت
تو آ کے چلے جانے کا عادی ہے چلا جا

لگتا ہے تو قابُل میں نیا آیا ہے پیارے
افغان کا بچہ بھی جہادی ہے چلا جا

اے موم بدن تیرا گزارا نہیں ممکن
یہ آگ میں جلتی ہوئی وادی ہے چلا جا

افسوس بہت دیر سے آیا ہے تو کاشرؔ
اس پانچ مئی کو مری شادی ہے چلا جا

شوزیب کاشرؔ

صحرا میں کڑی دھوپ کا ڈر ہوتے ہوئے بھی
سائے سے گریزاں ہوں شجر ہوتے ہوئے بھی

ماں باپ کا منظورِ نظر ہوتے ہوئے بھی
محرومِ وراثت ہوں پسر ہوتے ہوئے بھی

یہ جبرِ مشیت ہے کی تنہائی کی عادت
میں قید ہوں دیوار میں در ہوتے ہوئے بھی

ہم ایسے پرندوں کی ہے اک پیڑ سے نسبت
اُڑ کر کہیں جاتے نہیں پر ہوتے ہوئے بھی

ہر چیز لُٹا دینا فقیروں کا ہے شیوہ
کم ظرف ہیں کچھ صاحبِ زر ہوتے ہوئے بھی

اُس دیس کا باسی ہوں کی جس دیس کا ہاری
مایوس ہے شاخوں پہ ثمر ہوتے ہوئے بھی

سورج سے کرے دوستی اک کُور بسر کیا
جلوے کی نہیں تاب نظر ہوتے ہوئے بھی

کچھ ہار گئے جبر کے باوصف بھی ظالم
کچھ جیت گئے نیزوں پہ سر ہوتے ہوئے بھی

تجھ جیسا عدد اپنے تئیں کچھ بھی نہیں ہے
میں تیری ضرورت ہوں صفر ہوتے ہوئے بھی

ہسنا مری آنکھوں کا گوارا نہیں اُس کو
اور دیکھ نہیں سکتا ہے تر ہوتے ہوئے بھی

پھر دشت نوردی نے دکھائی یہ کرامت
میں شہر میں تھا شہر بدر ہوتے ہوئے بھی

اس بار تھے کچھ دوست مرے مدِّ مقابل
سینے پہ سہے وار سپر ہوتے ہوئے بھی

ایسے بھی زبوں حال کئی لوگ ہیں کاشرؔ
بےگھر ہیں اسی شہر میں گھر ہوتے ہوئے بھی

شوزیب کاشرؔ

اب کے برس ہوں جتنا تنہا 
پہلے کہاں تھا اتنا تنہا
دنیا ایک سمندر جس میں
میں ہوں کوئی جزیرہ تنہا
زیست سفر ہے تنہائی کا
آنا تنہا جانا تنہا
اس کو بتاؤ جسم سے کٹ کر
رہ نہیں سکتا سایہ تنہا
اف  یہ موج _ طوفان _ الم
ہاے دل  کا سفینہ تنہا
جس کو چاہا جان سے بڑھ کر
آخر اس نے چھوڑا تنہا
گھر سے باھر نکلو کسی دن
اتنا بھی کیا رہنا تنہا
اب وہ ہے کہیں اور میں ہوں کہیں
عمر کٹے گی تنہا تنہا
کاشرکی ہے اپنی ہی دنیا
ہو  گا کہیں  پر  بیٹھا  تنہا
شوزیب کاشر

تم جیسے حسیں کو بھلا کیسے کوئی بھولے!!
       ہیں  جس  پہ فدا دوست بلا جس کی  عدو  لے
       ہر   پارچہ _ جاں   پہ  ترا    عکس   جڑا   ہے
       میں خاک  بھی  ہو  جاؤں  تری  یاد  نہ  بھولے
       کیوں  لذت _  یکجائی سے  محروم  رہے  جاں
       یوں دل  میں  اتر آ  کہ مری روح کو  چھو  لے
       حاضر  ہیں  بصد  شوق   تیرے   چاہنے   والے
        الزام   کوئی  خود  پہ   مری  جان  نہ  تو  لے
       ہم خاک بسر , خاک نشیں خوش  ہیں  اسی  میں
        تا  صبح _ قیامت   تری   دنیا    پھلے   پھولے
        وہ  رند  ہی  کیا!  جو   نہ  پیے  زہر _  محبت
        فطرت  کی عنایت  ہو  تو   اک  آدھ  سبو   لے
        اب  موت  کی  آغوش  میں  یاد آتے  ہیں  کاشر
        وہ دن کے میسر تھے حسیں بانہوں کے جھولے

چمکیں   گے   آفتاب   ذرا    وقت    آنے  دو
            آئے   گا      انقلاب     ذرا   وقت   آنے  دو
            سوگند  آسماں  کی   بدل  دیں   گے  مطلقا
            یہ   طرز _   انتخاب   ذرا   وقت    آنے   دو
            انصاف کے کٹہرے میں ان ظالموں  سے  ہم
            لیں  گیں  کڑا  حساب   ذرا  وقت   آنے   دو
            ٹوٹیں   گی   بھتا خور   نوابوں  کی  گردنیں 
            جب  ہو   گا   احتساب   ذرا  وقت   آنے   دو
            جمہوریت کے گرگ ! ترے رخ سے جھوٹ کا
            نوچیں  گے   ہم  نقاب   ذرا  وقت  آنے    دو
            پتھر سے تم کو دیں گے تمہاری ہر اینٹ   کا
            منہ  توڑ   ہم   جواب   ذرا   وقت   آنے    دو
            ہوں گے  ہمارے  خون سے  تاریخ  میں  رقم
            تبدیلوں   کے   باب    ذرا   وقت    آنے   دو

سچ کہا ہے کب میں نے
سی لیے ہیں لب میں نے

حکم تھا مت دیکھنا
آنکھ پھوڑی تب میں نے

جس کی لاٹھی اس کی بھینس
پا لیا مطلب میں نے

الاماں عشق الاماں!!
توبہ کر لی اب میں نے

قرض اتارا یاد کا
سانس لی جب جب میں نے

ہجر کہتے ہیں جسے
کاٹ لی وہ شب میں نے

جو نہ کہنا تھا وہی
کہہ دیا ہے سب میں نے

 مہوشوں  کے نقش  _ پا !
چن لیا مذہب میں نے

کاشر ازبر ہے جنوں
رٹ لیے مکتب میں نے

شوزیب کاشر

مکان ہے نہ مکیں ہے________________ فنا ہے سب یعنی
یہاں جو ہے وہ نہیں ہے________________فنا ہے سب یعنی

سنو یہ کیا ہے ندا ___________________''کل من علیھا فان''
نہ آسماں نہ زمیں ہے _________________  فنا ہے سب یعنی

عجیب تر ہے ____________________  حیات و ممات کا قصّہ
کہیں کی مٹی کہیں ہے________________ فنا ہے سب یعنی

عدم ___________ تو ''کُن'' سے بھی پہلے کی بات ہے صاحب
یہ وقت اب بھی وہیں ہے________________ فنا ہے سب یعنی

یہ ارتقأ و تغّیر ____________________ تو عارضی شے ہے
یہ واقعہ بھی حسیں ہے _______________ فنا ہے سب یعنی

عدم ہے ہست کے ___________ مادّے کا _____ جزوِلاینفک
یہ نقطہ ذہن نشیں ہے ________________ فنا ہے سب یعنی

بہارِ ارض و سمٰوات __________________ کوئ دم کی ہے
حیات چیں بجبیں ہے __________________فنا ہے سب یعنی

وصالِ یار بھی حادث تھا  ________________  چھن گیا آخر
یہ دل حزیں تھا حزیں ہے ______________ فنا ہے سب یعنی

نہیں یہ کفر نہیں ______________________ اعتقادِ لازم ہے
نہ آستاں نہ جبیں  ہے _________________ فنا ہے سب یعنی

جہان ______________ عالمِ رؤیا کی مثل ہے _______ کاشرؔ
گمان ہے نہ یقیں ہے __________________ فنا ہے سب یعنی

        شوزیب کاشر

جانِ جانانِ جاں ________ طلاق طلاق
زندگی ہے گراں ______طلاق طلاق

بڑھ چکیں تلخیاں   ________ طلاق طلاق
جل چکا آشیاں  _____________طلاق طلاق

الحذر الحذر ____________ جنون جنون
الاماں الاماں_____________ طلاق طلاق

عقدِ وابستگی____________ قبول نہیں
اس میں کیا , این و آں _______  طلاق طلاق

تو دریدہ دہن ، ___________ میں دست دراز
بن گئیں دوریاں ____________ طلاق طلاق

اب کہاں___________ تو مری شریکِ حیات
کہہ چکی ہے زبان  __________طلاق طلاق

اب کہاں ____________ سلسلہ مودّت کا
زوجیت اب کہاں  __________ طلاق طلاق

اب سے عدّت  ____________ شمار کر اپنی
تو ہے عبرت نشاں  ____________طلاق طلاق

تجھ کو عشرت نصیب  ___________فرقت میں
جا بدل لے مکاں  _____________طلاق طلاق

ڈھونڈ ____________ اپنی برادری کے لوگ
جا چلی جا وہاں ____________ طلاق طلاق

بس بہت ہو گئے ___________ گلے شکوے
ختم شد داستاں  ___________  طلاق طلاق

رشتہء ازدواج _______________ ناممکن
چہ عیاں را بیاں  ____________ طلاق طلاق

میں یہ کہنے میں _________ حق بجانب ہوں
تو ہے نا مہرباں _____________ طلاق طلاق

تو کہ شہزادی ،___________ میں فقط شاعر
تو کہاں , میں کہاں  ____________طلاق طلاق

کٹ چکے _____________ استواریوں کے نخل
پھر چکیں آریاں ______________ طلاق طلاق

وصلیت  ______________ تھی زوال آمادہ
ہجر ہے جاوداں _____________ طلاق طلاق

جب یہ آزار ہی _______________ مقدر ہے
کیسی فکرِ زیاں _____________ طلاق طلاق

اب کوئی ___________ صورتِ رجوع نہیں
چل چکی ہے کماں _________ طلاق طلاق

تا بہت غم نہ ہو  ____________ جدائی کا
مل کے جا ، رم کناں ________  طلاق طلاق

اب نہ میں __________ عشق کا خدا ,کاشرؔ
اب نہ تو ____ دل ستاں _______ طلاق طلاق

        شوزیب کاشر

❊❊❊❊❊ غزل ❊❊❊❊❊

زمیں کو جان کر بستر پڑا ہوں
فلک کی اوڑھ کر چادر پڑا ہوں

کوئی کیوں خواہ مخواہ آنکھیں دکھائے
ارے کیا میں کسی کے در پڑا ہوں !!

امیروں کے جہاں پکّے مکاں ہیں
وہیں پر ڈال کر چھپّر پڑا ہوں

تمہیں معلوم کیا دکھ مفلسی کا
شکم پر باندھ کر پتھر پڑا ہوں

کچل دے ، روندھ دے ، پامال کر دے
ترے قدموں کی ٹھوکر پر پڑا ہوں

اُسے رستہ بدلنا ہی پڑا ہے
میں اُس کی راہ میں اکثر پڑا ہوں

مجھے بس وہ حزیں دل جانتے ہیں
جنوں بن کر میں جن کے سر پڑا ہوں

مری تصویر کیِسے میں رکھی ہے
میں اُس کی جیب کے اندر پڑا ہوں

خدا معلوم نیّت کوزہ گر کی
ابھی تو چاک کےاُوپر پڑا ہوں

بڑی صحرا نوردی ہو گئی تھی
پئے آرام اب تو گھر پڑا ہوں

مجھے اغیار میں مت بانٹ لینا
تمہارے پاس مثلِ زر پڑا ہوں

تمہارے ساتھ ہی ہریالیاں تھیں
تمہارے بعد میں بنجر پڑا ہوں

تمہاری یاد جس میں دفن کی تھی
اسی تابوت کے اندر پڑا ہوں

بہت دن بعد کاشرؔ اتّفاقاً
جو دیکھا آئینہ تو ڈر پڑا ہوں

شوزیب کاشرؔ

بہتا ھے کوئی غم کا سمندر مرے اندر
چلتے ھیں تری یاد کے خنجر مرے اندر

کہرام مچا رہتا ہے اکثر مرے اندر
چلتی ہے ترے نام کی صرصر مرے اندر

گمنام سی اک جھیل ھوں خاموش فراموش
مت پھینک ارے یاد کے کنکر مرے اندر

جنت سے نکالا ھوا آدم ھوں میں آدم
باقی وہی لغزش کا ہے عنصر مرے اندر

کہتے ھیں جسے شامِ فراق اہلِ محبت
ٹھرا ہےاُسی شام کا منظر مرے اندر

آیا تھا کوئی شہرِ محبت سے ستمگر
پھر لوٹ گیا آگ جلا کر مرے اندر

احساس کا بندہ ہوں میں اخلاص کا شیدا
ہرگز نہیں خرص و ہوسِ زر مرے اندر

کیسے بھی ھوں حالات نمٹ لیتا ھوں ہنس کر
سنگین نتائج کا نہیں ڈر مرے اندر

میں  پورے دل و جان سےھو جاتا ھوں اُس کا
کر لیتا ہے جب شخص کوئی گھر مرے اندر

میں کیا ھوں مری  ہستی ہے مجموعۂ اضداد
ترتیب میں ہے کونسا جوہر مرے اندر

کڑتا ہے کبھی دل کبھی رک جاتی ہیں سانسیں
ہر وقت بپا رہتا ہے محشر مرےاندر

ہمشکل مرا کون ہے ہمزاد وہ ہمراز
رہتا ہے کوئی مجھ سا ہی پیکر مرے اندر

جب جب کوئی اُفتاد پڑی کھل گیا کاشرؔ
الہام کا اک اور نیا در مرے اندر

شوزیب کاشرؔ

آئینہ رُو
غالیہ مُو

سر تا پا نور
قامتِ اُو

پھول چہرہ
سانس خوشبو

تیکھی چتون
تیز چاقو

تیغ پلکیں
قوس ابرو

کوہ سینہ
طاق پہلو

برق آنچل
ابر گیسو

شرم ذیور
سادگی خُو

بُرج مُشکیں
دو ترازو

جھیل آنکھیں
بحر آنسو

سرو پیکر
شاخ بازو

شمع عارض
جیسے جگنو

آمد و رفت
مثلِ آہو

بول میٹھے
لہجہ کُو کُو

رمز قاتل
عُشوہ ڈاکو

لب نشیلے
جیسے دارو

مطرب آواز
ساز گھنگھرو

لعل دندان
غنچہ تالو

ہاتھ پاؤں
لالہ ہر دُو

وقتِ شیون
خود پہ قابو

اُونچی گردن
شاخِ رن کُو

ناف پیالہ
بید زانو

عرقِ تن میں
عطر کی بُو

دل کو موہ لے
چھب کا جادو

فکر یکتا
سوچ یکسو

نُطق شیریں
سِحر کی چُھو

گاہے شعلہ
گاہے گل بُو

گاہےنالاں
گاہے لاگُو

گہ اناالحق
گہ من و تُو

نے میں سقراط
نے ارسطو

نے تو بھگوان
نے میں بھکشو

تن کے جوگی
من کے سادھو

گاہ اِس بَن
گاہ اُس کُو

میں سرِ دشت
تو لبِ جُو

خاک پھونکے
یاد کی لُو

عشق اگن ہے
مت اِسے چھو

ہجر گویا
عالمِ ھُو

آنکھیں اس کو
ڈھونڈیں ہر سُو

کاشرؔ آخر
کون ہے تُو

شوزیب کاشرؔ

ایک غزل جونؔ ایلیا کی نذر
اک حق نما کے ساتھ ہوں تم کس کے ساتھ ہو
'' میں تو خدا کے ساتھ ہوں تم کس کے ساتھ ہو''

تم تھے تو زندگی تھی ، مشاغل تھے ، شوق تھا
اب میں ''قضا'' کے ساتھ ہوں تم کس کے ساتھ ہو

"تھا'' ہی تھا جو تھا ''ہے'' کا نشاں دور تک نہیں
یعنی میں ''تھا'' کے ساتھ ہوں تم کس کے ساتھ ہو

اک میں ہوں اور ایک مری '' میں '' ہے دوبدو
میں اس بلا کے ساتھ ہوں تم کس کے ساتھ ہو

کہتا ہے وصلِ یار کی امید کا دیا
میں تو ہوا کے ساتھ ہوں تم کس کے ساتھ ہو

میری انا کو روندھ کے کہتے ہو اب کہ میں
اپنی انا کے ساتھ ہوں تم کس کے ساتھ ہو

یوں تو صلیبِ ہجر پہ دونوں کھنچےہیں دوست
پر میں ''رضا'' کے ساتھ ہوں تم کس کے ساتھ ہو

اے کشتئ شعور کے خودسر مسافرو!!
میں ناخدا کے ساتھ ہوں تم کس کے ساتھ ہو

اے جادۂ سلوک کے مکّار راہیو!!
میں راہنما کے ساتھ ہوں تم کس کے ساتھ ہو

سطوت کا لالچی ہوں نہ ثروت کا میں حریص
"فقروغنا'' کے ساتھ ہوں تم کس کے ساتھ ہو

کیوں دہریہ بنوں کہ میں صبحِ الست سے
" قالوا بلیٰ '' کے ساتھ ہوں تم کس کے ساتھ ہو

کرتے ہیں مہر و ماہ بھی جس کا طواف ، میں
اُس نقشِ پا کے ساتھ ہوں تم کس کے ساتھ ہو

نوحہ گرو ! میں حُر ؒ کے قبیلے سے ہوں ، سو  میں
'' آلِ عبا '' کے ساتھ ہوں تم کس کے ساتھ ہو

میں مصلحت پسند نہیں ہوں ، بایں وجہ
سچ کی صدا کے ساتھ ہوں تم کس کے ساتھ ہو

ہے شام وصل ، چاند ، ستارے ہیں اور میں
اک دلربا کے ساتھ ہوں تم کس کے ساتھ ہو

کاشرؔ میں ہوتا جونؔ تو مصرعہ یہ باندھتا 
میں'' فارہہ'' کے ساتھ ہوں تم کس کے ساتھ هو

Shozaib Kashir
اُڑیں پھریں گے ہواؤں میں ، ساتھ چل میرے
میں لے چلوں تجھے گاؤں میں ، ساتھ چل میرے

بہشت زاد ہوں کشمیر ہے مرا مسکن
تجھے بھی سیر کراؤں میں ، ساتھ چل میرے

تمہارے شہر کا سورج تو آگ اُگلتا ہے
گنے درختوں کی چھاؤں میں ، ساتھ چل میرے

مبادا حبس میں گھٹ جائے تیرا دم شہری
کھلی کشادہ فضاؤں  میں ، ساتھ چل میرے

ہماری گردِ سفر کو زمانہ چھو نہ سکے
پہن کے بجلیاں پاؤں  میں ، ساتھ چل میرے

ہوس کے بھوکے درندے تجھے بھی نوچ نہ لیں
یہاں سے دور خلاؤں  میں ، ساتھ چل میرے

پسے ہوؤں کے لیے ہیں قبیح رسم و رواج
اٹھ ان کو روندھ دے پاؤں  میں ، ساتھ چل میرے

مجھے تو رخت سفر میں یہی بہت ہے کہ ماں
تو ہر قدم پہ دعاؤں  میں ، ساتھ چل میرے

پھر ایک دن مجھے ہمزاد مل گیا کاشرؔ
کہا ، جہاں کہیں جاؤں  میں ، ساتھ چل میرے

شوزیب کاشرؔ

قربتِ یار نہیں یار مقدر میرا
ہے یہی ہجر کا آزار مقدر میرا

میں کہ منصور ہوں اس عہدِ ستم پیشہ کا
کبھی زنداں ہے کبھی دار مقدر میرا

ہاں یہی جرم ہے میرا کہ میں سچ بولتا ہوں
تہمتیں ہیں سرِ بازار مقدر میرا

کاتبا ! تیرے حوالے مری لوحِ قسمت
پھر ملے یا نہ ملے یار مقدر میرا

میں بھی دیکھوں کہ ہے تو کن فیکوں پر قادر
کر دے اس شخص کو اک بار مقدر میرا

یہ وہ غم ہے کہ نہیں جس کی تلافی ممکن
چھین کر لے گئے اغیار مقدر میرا

مجھ سے نفرت ہی کرو تم مگر اخلاص کیساتھ
جانتا ہوں کہ نہیں پیار مقدر میرا

پہلے پہلے اسے پانے کی تگ و دو کی بہت
بعد میں مان گیا ہار مقدر میرا

واہ رے یزدان مشیت تری کیا ہے جس کی
زد میں آیا بھی تو ہر بار مقدر میرا

جب بھی چاہا کہ اسے اپنا بنالوں کاشرؔ
بن گیا راہ کی دیوار مقدر میرا

شوزیب کاشر

غزل نذر احمد فراز

اپنے خوابوں کو حقیقت کا لبادہ پہنا
فکر کو ولولے ، خواہش کو ارادہ پہنا

آبلے زخم نہیں پھول ہیں،اکثر جن کو
ہم نے پاپوش کیا جادہ بہ جادہ پہنا

تاکہ ناموس برہنہ کبھی اپنی بھی نہ ہو
سب کو چادر یہ زیادہ سے زیادہ پہنا

میں نے کب اطلس و کمخواب کی فرمائش کی
پیرہن جو بھی ملا خستہ و سادہ پہنا

معتدل وہ بھی تھا سو ہم نے محبت جامہ
نہ اتارا ، نہ ادھیڑا ، نہ زیادہ پہنا

مرشدِ عشق کا فرمان تھا ایمان اٹل
زیرِ خنجر بھی اطاعت کا قلادہ پہنا

جاں خلاصی یوں بھی ممکن تھی ولیکن افسوس
موت کا طوق بھی گردن سے کشادہ پہنا

اور توہینِ بشر اس سے زیادہ کیا ہو
گُرگ شرمندہ کہ انساں کا لبادہ پہنا

یعنی انسان بھی ابلیس سے کچھ کم نہیں ہے
بھیس بدلا تو فرشتوں کا لبادہ پہنا

دوستی یاری اداکاری ملمّع سازی 
یعنی بہروپ   ''سرِ محفلِ اعدا پہنا

تشنۂ لمس رہیں وصل رُتیں بھی کاشرؔ
اس نے پہنا بھی کبھی مجھ کو تو آدھا پہنا

شوزیب کاشر
راولاکوٹ آزاد کشمیر

زمین اچھی لگی آسمان اچھا لگا
ملا وہ شخص تو سارا جہان اچھا لگا

جہاں پہ رہنا نہیں تھا وہیں پہ رہنے لگے
مکان چھوڑ کہ مالک مکان اچھا لگا

سب ایک جیسے حزیں دل تھے جمع ایک جگہ
یتیم بچوں کو دار الامان اچھا لگا

میں گھر کو جاتے ہوئے دشت میں نکل آیا
کہ جس میں قیس تھا وہ کاروان اچھا لگا

میں ہر سفید بدن پر لپکنے والا نہیں
تمہارے ہونٹ پہ تِل کا نشان اچھا لگا

مزے کی بات کہ دل ممتحن پہ آ گیا تھا
پھر اس نے جو بھی لیا امتحان اچھا لگا

چلا گیا تھا تو زندان ہو گیا تھا مجھے
وہ لوٹ آیا تو اپنا مکان اچھا لگا

نبی کا دین لہو کا خراج چاہتا تھا
خدا کو آپ ہی کا خاندان اچھا لگا

وہ سو رہے تھے اٹھے،اٹھ کہ چل دیے سوئے عرش
کہ دعوت اچھی لگی میزبان اچھا لگا

کرم کی حد ہے کہ لکنت کے باوجود انھیں
بس اک بلال برائے اذان اچھا لگا

دیار غیر میں قحط الرجال کے دن تھے
ملا جو کوئی بھی اہلِ زبان اچھا لگا

اسے عجیب غلط فہمی تھی کہ اچھا ہوں میں
خود اپنے بارے میں اس کا گمان اچھا لگا

وہ رب کے دھیان میں گم تھا میں اس کے دھیان میں گم
نماز پڑھتے ہوئے اس کا دھیان اچھا لگا

میں اس سے روٹھا ہوا تھا مگر رہا نہ گیا
کہا جب اس نے ، سنو میری جان ، اچھا لگا

دل ایک عشق پر قانع نہیں تھا خانہ خراب
اسی کا ہو گیا جو مہربان اچھا لگا

وہ مسکراتے ہوئے چائے لائی جب کاشرؔ
پیالی اچھی لگی چائے دان اچھا لگا

شوزیب کاشرؔ

دو غزلیں
=========================

بچھڑ گئے تھے کسی روز کھیل کھیل میں ہم
کہ ایک ساتھ نہیں چڑھ سکے تھے ریل میں ہم

ذرا سا شورِ بغاوت اٹھا اور اس کے بعد
وزیر تخت پہ بیٹھے تھے اور جیل میں ہم

پتہ چلا وہ کوئی عام پینٹنگ نہیں ہے
اور اسکو بیچنے والے تھے آج سیل میں ہم

جفا کی ایک ہی تیلی سے کام ہو جاتا
کہ پورے بھیگے ہوئے تھے انا کے تیل میں ہم

جو شر پسند ہیں، نفرت کے بیج بوتے رہیں
جٹے رہیں گے محبت کی داغ بیل میں ہم

بس ایک بار ہمارے دلوں کے تار ملے
پھر اس کے بعد نہیں آئے تال میل میں ہم

یہ شاعری تو مری جاں بس اک بہانہ ہے
شریک یوں بھی نہیں ہوتے کھیل ویل میں ہم

سخن کا توسنِ چالاک بےلگام نہیں
ہمیں ہے پاسِ روایت ، سو ہیں نکیل میں ہم

وہاں ہمارے قبیلوں میں جنگ چھڑ گئی تھی
سو تھر کے بھاگے ہوئے آ بسے تھے کیل میں ہم

یہ ایک دکھ تو کوئی مسئلہ نہیں کاشرؔ
پلے بڑے ہیں اسی غم کی ریل پیل میں ہم

==========================

نکلنے والے نہ تھے، زندگی کے کھیل سے ہم
کہ چین کھینچ کےاترے تھے خود ہی ریل سے ہم

رہا نہیں بھی وہ کرتا تو مسئلہ نہیں تھا
فرار یوں بھی تو ہو جاتے اس کی جیل سے

سخن میں شعبدہ بازی کے ہم نہیں قائل
بندھے ہوئے ہیں روایات کی نکیل سے ہم

جسے بھی دیکھو لبھایا ہوا ہے دنیا کا
سو بچ گئے ہیں میاں کیسے اس رکھیل سے ہم

اگر یہ طے ہے کہ فرہاد و قیس مردہ باد
تو باز آئے محبت کی داغ بیل سے ہم

اکیلے رہتے تو شاید نہ دیکھتا کوئی
ستارہ ہو گئے اک روشنی کے میل سے ہم

ہم ایسے پیڑ بس اتنی سی بات پر خوش تھے
کہ بیل ہم سے لپٹتی ہے اور بیل سے ہم

خدا نے قعرِ فلاکت میں ہم کو جھونک دیا
  بگڑ گئے تھے سہولت کی ریل پیل سے ہم

شوزیب کاشر

دل پر نہ لیا کچھ بھی اثر سوچ سمجھ کر
ہم نے بھی کیا عشق مگر سوچ سجھ کر

ہر بار اٹھانا پڑا نقصان زیادہ
آغاز کیا جب بھی سفر سوچ سمجھ کر

گھر جل گیا اپنا بھی تو کس بات کا شکوہ
کیا تم نے جلایا تھا نگر سوچ سمجھ کر

اب جان پہ بن آئی تو کیوں کوس رہے ہو
تم نے تو ملائی تھی نظر سوچ سمجھ کر

سوچا تھا کہ بھولے سے بھی اب پیار نہ ہو گا
پھر کر ہی لیا بارِ دگر سوچ سمجھ کر

جس عمر میں جذباتی ہوا کرتا ہے انسان
وہ عمر بھی کی ہم نے بسر سوچ سمجھ کر

ایندھن کے لیے کاٹ دیا جاتا اسے بھی
بدلہ ہے پرندوں نے شجر سوچ سمجھ کر

گھر تک نہ چلا آئے زمانے کا تعفّن
رکھا نہیں دیوار میں در سوچ سمجھ کر

مر کر بھی نہیں مرتے شہیدانِ رہِ شوق
کٹوائے گئے دین پہ سر سوچ سمجھ کر

ہیہات ! ''لَفِی خُسر'' کا مصداق یہ انسان
خود اس نے چنا جادۂ شر سوچ سمجھ کر

 کچھ لوگ بھی خودغرض تھے کچھ ہم نے بھی کاشرؔ
رشتوں سے کیا صرفِ نظر سوچ سمجھ کر

شوزیب کاشرؔ

آج وفا تو کل جفا لہر کا اعتبار کیا
شہر تو یار شہر ہے شہر کا اعتبار کیا

قتلِ عدو پہ خوش نہ ہو خیر منا تو اپنی یار
آج وہاں تو کل یہاں قہر کا اعتبار کیا

اپنے ہی بل پہ چلنا سیکھ آپ ہی اپنا بوجھ اٹھا
وقت پہ ساتھ دے نہ دے دہر کا اعتبار کیا

جسم پہ سنگ باندھ کر ٹھیک سے قاتلا ڈبو
لاش اگل نہ دے کہیں نہر کا اعتبار کیا

مجھ سے بوقتِ خودکشی کہنے لگی یوں زندگی
سینے میں داغ گولیاں زہر کا اعتبار کیا

کھیل ہے سارا وقت کا سوچ سمجھ کے کاشرا
آج بھلا تو کل برا پہر کا اعتبار کیا

شوزیب کاشر

تو سيّدِ عالم ہے رفعنا لک ذکرک
پیارے تجھے کیا غم ہے رفعنا لک ذکرک
.
بعثت میں تری ذات مؤخر ہے ولیکن
تو سب سے مقّدم ہے رفعنا لک ذکرک
.
محبوب ترے ذکر کی بالائی پہ شاہد
یہ آیتِ محکم ہے رفعنا لک ذکرک
.
اک مژدۂ تسکین ہے نشرح لک صدرک
اک زمزمہ پیہم ہے رفعنا لک ذکرک
.
جاءوک تری شانِ مسیحائی کا چرچا
رحمت تری چھم چھم ہے رفعنا لک ذکرک
.
وَاستَغفَرَ امت کی شفاعت کی ضمانت
جو سب کو فراہم ہے رفعنا لک ذکرکق
.
مدّاحِ شہِ کون و مکاں ہوں ، مجھے کاشرؔ
کیا خوفِ جہنم ہے رفعنا لک ذکرک

شوزیب کاشر

مصطفی کہیے مجتبی کہیے
ان کو محبوبِ کبریا کہیے

واحد و لاشریک ہے اللہ
آپ کو شاہ انبیا کہیے

قاب قوسین جن کی منزل ہے
نقشِ پائے حضور کیا کہیے

آپ کے دم سے ہے وجودِ جہاں
آپ کو جانِ ارتقا کہیے

آپ صلحِ حدیبیہ کے امیر
آپ کو داعی امن کا کہیے

آیتِ ما محمدٌ شاہد
ان کو  ہرگز نہ خلق سا کہیے

ان کے شایانِ شان انظرنا
بھول کر بھی نہ راعنا کہیے

حکم لاترفعوا کے پیشِ نظر
احتیاطا نہ مدعا کہیے

ورفعنالک سے ہے ثابت
نعت سرکار بارہا کہیے

خوش نصیبی کہ ہم گدا ان کے
ان کو سر چشمۂ عطا کہیے

حرفِ لولاک ہے سند کاشر
ان کو عالم کی ابتدا کہیے

شوزیب کاشر

With special thanks to Farogh E Naat and all dear respected teachers and fellows jazaKAllah
نعتِ رسولِ مقبول ﷺ

مثالِ مصحف ، نظير غنچہ ، شبیہِ گوہر نبیﷺ کےعارض
زجاج نسبت ، چراغ صورت ، مہِ منور  نبیﷺ کےعارض

اِرم سراپا ، بہشت منظر ، سرورآور  نبیﷺ کےعارض
گلاب رنگت ، بہار نزہت ، ذہیب پیکر  نبیﷺ کےعارض

مبالغہ کیا کہ حسنِ انساں تو صدقۂ حسنِ مصطفی ہے
بلا شبہ ہیں جمالِ نورِ خدا کے مظہر  نبیﷺ کےعارض

وہ جن کی خاطر زمیں بچھی ہے وہ جن کے صدقے فلک تنا ہے
ازل سے جن کے طفیل روشن ہیں ماہ و اختر نبیﷺ کےعارض

گھٹا کو گیسو نے ابر بخشا چمن پسینے کی بو سے مہکا
خوشی سے پھولے نہیں سماتی شمیم چھو کر نبیﷺ
کےعارض

بہارِ ارض و سما انہی سے نظامِ ہر دوسَرا انہی سے
کہ روزِ اول سے تا ابد ہیں نظارہ گستر  نبیﷺ کےعارض

وہ آفتابی ، وہ ماہتابی ، وہ  ایک تفسیرِ والضحیٰ بھی
شفاف صیقل وہ آبگینے ضیا کے جوہر  نبیﷺ کےعارض

تراش موزوں ، بنا مناسب ، وہ خال و خد ہیں کہ نعت واجب
وہ خَلقِ قدرت ، وہ نقشِ خالق ، وہ عکسِ داور  نبیﷺ کےعارض

برائے مشّاطگی ہیں غازہ ، بہار و مشک و گلاب تازہ
غضب کی سج دھج میں آ گئے ہیں سنور کے خوشتر  نبیﷺ کےعارض

کبھی وفورِ طرب  کی شے پر جو طبعِ سرور نے جوش پکڑا
کیا تبسّم تو اور چٹخے گلِ معطر  نبیﷺ کےعارض

نبی کی آمد پہ جاگ اٹھا ہے بختِ خفتہ یقیں تھا پختہ
بنیتِ شکر چوم لیتی حلیمہ اکثر ،  نبیﷺ کےعارض

نضارتوں کے سب استعارے انہی کے شایانِ شان ٹھہرے
کہ حسن و خوبی میں لعل و یاقوت سے ہیں برتر  نبیﷺ کےعارض

 حنین و بدر و احد میں ان پر جلال دیکھا گیا تھا ورنہ
ہمیشہ رکھتے تھے اُنس والے ، کرم کے تیور نبیﷺ کےعارض

مرے گناہوں کو ڈھانپ لیں گے مجھے بھی کوثر عطا کریں گے
چمک اُٹھیں گے درود سن کر بروزِ محشر  نبیﷺ کےعارض

شفیعِ امت ، رفیقِ امت ، حریصِ امت ، شفیقِ امت
ملالِ  امت میں اشکِ غم سے سدا رہے تر  نبیﷺ کےعارض

وہ حیرتوں کو بڑھانے والے ، وہ دھاک اپنی بٹھانے والے
وہ چشمِ عالم پہ چھانے والے، منیر و انور نبیﷺ کےعارض

بنائے بے عیب کبریا نے ، وہ طرفگی ہے کے دنگ زمانے
وہ آئینے ہیں طلسم خانے ، جمیل و اطہر  نبیﷺ کےعارض
خدا سے کچھ اور مانگتے کیوں ، وہ حور و غلماں کا سوچتے کیوں
صحابیوںؓ کی یہ خوش نصیبی کہ تھے میسر نبیﷺ کےعارض

سفر ، حضر میں ، نگر میں ، بن میں ، نشست و برخواست ، گھر میں،  رن میں
 پہن کے رکھتے مدام شرم حیا کا زیور  نبیﷺ کےعارض

  سعادتِ دیدِ روئے انور بصورتِ خواب اگر ملے تو
یقین جانو میں قید کر لوں بیاضِ دل پر نبیﷺ کےعارض

وہ تشنگی ہے کہ جاں سے جائیں ، انھیں نہ دیکھیں تو آنکھیں پھوٹیں
قسم خدا کی ، ہیں عشق والوں کو حجِ اکبر، نبیﷺ کےعارض

چمک انہی کی ، دمک انہی کی ، مہک انہی کی ، دھنک انہی کی
شعاعیں ان کی رہیں مدامی ، سدا ، مکرر ، نبیﷺ کےعارض

شموس بہجت ، بدور طلعت ، حریمِ کعبہ سی جن کی حرمت
وہ رُخ ہے اُم الکتاب کاشرؔ سند ہیں جس پر  نبیﷺ کےعارض

شوزیب کاشرؔ
گزشتہ رات ''نعت اکیڈمی'' کے فورم پر منعقدہ فی البدیہہ طرحی نعتیہ ایونٹ میں کہی گئی نعتِ پاک ﷺ

مری نس نس جو یوں مہکی ہوئی ہے
دیارِ جاں میں خوشبو نعت کی ہے

دلوں میں زندہ شوقِ پیروی ہے
''یہ سب عشقِ نبی کی روشنی ہے''

نبی کی سیرت و سنت پہ چل کر
حیات آسودہ خاطر کٹ رہی ہے

زمین و آسماں پر تا قیامت
حکومت آپ کی تھی آپ کی ہے

ارے او زائرِ کوئے رسالت
ادب سے جا ! حضوری کی گھڑی ہے

مکمل آپ پر قصرِ نبوّت
یہی تھی جو کہ خشتِ آخری ہے

شفاعت کا جسے مژدہ سنا دیں
وہ عاصی تو مقدر کا دھنی ہے

اغثنی یا رسول اللہ اغنی
چلے آؤ کہ وقتِ جاں کنی ہے

فرشتے چار سو سایہ فگن ہیں
درود ِ پاک کی محفل سجی ہے

جو اپنے دشمنوں کو بھی اماں دے
کمال اس شاہ کی دریا دلی ہے

جو پتھر کھا کے بھی پیہم دعا دے
مرے سرکار جیسا کیا کوئی ہے

پسِ مرگ آپ کا جلوہ عطا ہو
یہی میری تمنا آخری ہے

ثنائے مصطفی  پر صرف ہو گی
خدایا تو نے جو توفیق دی ہے

ملک عارض بچھائے منتظر ہیں
سواری مصطفی کی آ رہی ہے

دلوں کے بھید جانت ہے مرا رب
مری نیت کہاں اس سے چپھی ہے

علی شیرِ خدا ہے شاہ مرداں
علی خیبر شکن، سیف الجلی ہے

علی کو واقفِ اسرارِ کُن، جان
علی تو بابِ شہرِ آگہی ہے

بحمد اللہ حسینی ہوں حسینی
مارا ملجا مرا ماویٰ علیؓ ہے

علامانِ علی کی شاں نرالی
قلندر مست نعرہ حیدری ہے

اسے کیا فکرِ محشر ،خوفِ دوزخ
نبی کا امتی جو پنجتنی ہے

تمہارے شہر کی آب و ہوا میں
کشش جیسے کہ مقناطیس کی ہے

نکل جائے نہ ساعت حاضری کی
اسی کارن ہمیں جلدی پڑی ہے

مرے وارے نیارے ہو گئے ہیں
مدینے میں ڈیوٹی لگ گئی ہے

وہ جب سے خواب میں تشریف لائے
مرے اندر کی حالت دیدنی یے

اسی کارن ہوں میں خوشحال  کاشر
فروغِ نعت میری نوکری ہے

فروغِ نعت کا صدقہ ہے کاشرؔ
جو دنیا میں مجھے عزت ملی ہے

2 comments: