"ادارہ،عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری"کا 146 واں
عالمی غیر طرحی مشاعرہ اور تقریب رو نمائی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔رپورٹ: امین جس پوری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ای میڈیا کی دنیا میں" ادارہ: عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری" اردو کے فروغ ترویج اور ترقّی کیلئے بے نظیر طورپر فعال ادارہ ہے۔ جو اب تک مختلف قسم کے نوع بہ نوع145 ہفتہ وار پروگرام پیش کر چکا ہے جن کی پذیرائی اردو دنیا کے گوشے گوشے میں ہو رہی ہے اور اردو تخلیقات کے نئے شاہکار روز بروز منظرِ عام پر آ رہے ہیں۔ جن کی تشہیر اور تعارف کیلئے ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری، ای میڈیا کے مختلف وسائل:فیس بک، وٹس ایپ، انسٹا گرام، بلاگس،یو ٹیوب، گوگل کے ساتھ بیسیوں ویب سائٹس اور چینلس پر اپنے جملہ ممبران کی تخلیقات کو مستعدی اور پابندی اور تسلسل کے ساتھ بلا تاخیر مشتہر کرتا ہے۔ اس کا اثر یہ ہوا ہے اردو کے قلم دوست غیرمتوقع طور پر فعال ہو گئے ہیں اور اردو کی خوشبو نے کرّۂ ارض کو اپنے حصار میں لے لیا ہےاردو کے فروغ کیلئے ادارہ کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھتا ہے اردو کی مقبولیت ہندی داں حضرات میں بھی دیکھتے ہوئے ادارے نے اپنے مختلف پروگرام کیلئےتخلیق ہونے والی ادبی تخلیقات کو دیوناگری رسم الخط میں اپنے مختلف ضمنی گروپس میں فراہم کرا دیا ہے۔ ادارہ اردو کے فروغ کیلئے کسی ایک ہی مخصوص سمت میں گامزن نہیں بلکہ اس کی کوششیں ہمہ جہت ہیں۔ادارہ ہر ہفتہ اپنے ہفتہ وار پروگرام ہفتہ یعنی سنیچر کے روز پاکستانی وقت کے مطابق شام سات بجے اور بھارت کے وقت کے مطابق ساڑھے سات بجے منعقد کرتا ہے ۔مورّخہ 31 مارچ 2018 کو منعقد46 واں یہ پروگرام اب تک کے انعقاد میں سب سے مختلف اور تنوّع کا حامل ہے۔ جس کا عنوان "عالمی غیر طرحی مشاعرہ و اجتماعی رونمائی تقریب " رکھا گیا ہے۔
"غیرحی عالمی مشاعرہ اور تقریب رونمائی" عنوان سے آج منعقد کیا گیا یہ پروگرام بڑے کینوس کا پروگرام ہے اس لئے یہ کافی وقت طلب بھی تھا اس پروگرام کا تصور گذشتہ سال پیش کیا گیا تھا، جس کے تحت اس پروگرام پہلا حصّہ 24 مارچ 2017 کو پیش کیا جا چکا ہے ، جس کی رپورٹ جناب عبدالرّزاق صاحب نے سپردِ قلم کی تھی۔ آج اس عنوان کے پروگرام کے دوسرے حصّے کا انعقاد آج مورّخہ 31 مارچ 2018 کو کیا گیا۔ اس ایک سال کے دورانیے میں شائع ہونے والی احباب کی کتب کی رونمائی گذشتہ سال کی طرح اس بار بھی کی جا رہی ہے ۔
اس پروگرام میں شامل ہونے والے شرکا ء کی فہرست اب تک کافی طویل ہو چکی تھی۔ پروگرام کا خاکہ ادارے کے چیئر مین( جو پروگرام آرگنائزر بھی ہیں) جناب توصیف ترنل( ہانگ کانگ /چائنا) نے اس طرح پیش فرمایا کہ صرف ادارے کا ہر رکن ہی نہیں غیر ارکان بھی اس انعقاد میں شرکت کیلئے پہلے اپنے نام کے ساتھ اپنا مختصر تعارف/نام، قلمی نام، جائے پیدائش، مقام سکونت، تعلیم پیشہ ، اردو ادب کے میدان میں سرگرمیاں، تصنیف یا تالیف یا تدوین شدہ کتب کے سرورق کی تصویراور اپنی پانچ/5 غزلیں ادارے کے فہرست ساز کو پیش فرمائیں گے ، تاکہ پروگرام کے انعقاد کے وقت نظامت کو بحسن و خوبی تسلسل سے انجام دیا جا سکے اور پرو گرام میں شرکت فرمانے والے معزّز ارکان کو اپنا کلام پیش کرنے کیلئے پہلے تیار رہنے کا موقع مل جائے۔ اس 146ویں پروگرام کو منظّم طور پر منعقد کرنے کیلئے مشاعرے میں پیش کئے جانے والے کلام پر تیقید فرمانے کے ایک تنقید نگار جناب شہزاد نیّرؔ
کو ذمّہ داری تفویض کی گئی ہے۔جو ہر کلام کے معائب و محاسن اور دوسرے فنّی پہلوؤں پر ناقدانہ روشنی ڈالتے رہیں گے۔ اس پروگرام کی صدارت کو وقار بخشنے کے لئے محترم مشرف حسین محضر( علی گڑھ/ انڈیا) سے درخواست کی گئی، اس انعقاد کےمہمانانِ خصوصی محترم تلک کراج پارس( جبلپور/بھارت) ،محترم احمد عقیل جذبی( اٹک/بھارت) ہیں اورمہمانانِ اعزازی :محترم ابنِ ربانی (پاکستان)محترم احمد کاشف (مہاراشٹر/ انڈیا ) سے ہیں۔ مشاعرے اور تقریب رونمائی کی دو ناظمین محترمہ گلِ نسرین صاحبہ اور جناب طاہر علیم صاحب کے سپرد کی گئی۔اردو کے ساتھ ہندی رسم الخط میں پروگرام کی رپورٹ تیار کرنے پیش کرنے ذمّہ داریاں جناب امینؔ جس پوری کے سپرد کی گئیں ۔ پروگرام کے لائحۂ عمل کے تحت محترم علیم طاہر صاحب ایک پرمغزمقالہ بھی پیش فرمائیں گے۔
اس 146 ویں ہفتہ وار پروگرام میں شرکا کی تعداد 18 تھی ۔ اس انعقاد کی نظامت کو دو/2 مرحلوں میں تقسیم کیا گیا تاکہ ناظم حضرات کے لب و لہجے تازگی اور پروگرا م کی شادابی برقرار رہے ۔پہلے مرحلے میں پہلے 9 شرکا ء کے ساتھ مشاعرے کی نظامت جناب گلِ نسرینصاحبہ نے فرمائی اور دوسرے مرحلے میں آخری 9 شعراء کے ساتھ پروگرام کی نظامت جناب علیم طاہر صاحب نے فرمائی۔
اس پروگرام کے آغاز سے قبل ادارے کی جانب سے مشمولات کی تفصیل جاری کی تاکہ شرکاء ، تنقید نگار اور جزز صاحبان اپنی ذمّہ داریوں اور فرائض کی ادائیگی کے لئے پہلے سے مستعد رہیں۔اس تفصیل میں پروگرام کے شرکاء کو آن لائن حاضر رہنے اور اپنی پیش کش کے لئے سلسلہ نمبر جاری کئے گئے۔
ادارے کا 146 واں بے مثال پروگرام اپنے مقرّرہ وقت پر ٹھیک سات بجے/ ساڑے سات بجے پروگرام کے آرگنائزر جناب توصیف ترنل صاحب کی وائس کلپ کے ساتھ ہوا۔
اپنے اس مختصر نشریےمیں توصیف ترنل صاحب نے فرمایا،"اردو ادب کی دنیا میںاور برقی دنیا میںآج ہم 146 واں پروگرام پیش کرنے جا رہے ہیں۔اس پروگرام میںپوری دنیا سے احباب حصّہ لے سکتے ہیں ۔ "عالمی غیر طرحی مشاعرے واجتماعی رو نمائی" کے پروگرام کی خوبی یہ بھی ہے کہ آج ایک خود رنگ شاعر کی تلاش کی جائے گی اور اسے ادارے کی جانب سے "بشیر بدر ایوارڈ"سے نوازا جائے گا۔"
اس کے بعد محترمہ گلِ نسرین صاحبہ (ملتان) نے پروگرام کی ابتدابسم اللہ سے کرتے ہوئے اپنا آداب و سلام شرکا کے لئے پیش کیا اور جملہ شرکا کو تفویض کئے گئے فرائض کی تفصیل پیش کرنے کے ساتھ حسبِ مراتب استقبال کرنے کے بعد کہا،" ڈاکٹر سراج گلاؤٹھی صاحب کے حمد ِخدائے وحدٗ لاشریک لہٗ اللہ تبارک تعالیٰ بارگاہ میں حمد پاک کا نذرانہ پیش فرمائیں گے۔"
ڈاکٹر سراج گلاؤٹھی صاحب کی حمدِ پاک کا مطلع تھا:
حمد
ڈاکٹر سراج گلاؤٹھی
کام بگڑا تھا مرا جوبھی، بنایا تونے
میرے مولیٰ مجھے ہر آن سنبھالا تو نے
ڈاکٹر سراج گلاؤٹھی صاحب کی 9 اشعار پر مشتعمل حمد پاک سے بڑا پاکیزہ اور نورانی فضاقائم ہو جانے سے آن لائن شرکا اپنی نیازمندیاں اور اظہار بندگی کے کلمات پوسٹ کرتے رہے۔ زبردست حمد،سبحان اللہ، ماشا اللہ،اور جزاک اللہ کے کلمات اور صدائیں پوسٹ ہوتی رہیںاور احباب اپنے آن لائن موجودگی کا احساس کراتے رہے۔
ڈاکٹر سراج گلاؤٹھی صاحب کی حمد کی تکمیل کے بعد نعت رسولِ مقبول کے لئے محترم تلک راج پارس صاحب (انڈیا) کو مدعو کیا گیا۔جناب پارسؔ صاحب کی پیشکی گئی نعت پاک کا مطلع تھا:
نعتِ پاک ﷺ
تلک راج پارسؔ
انؐ کا آنا نعت ہے انؐ کا گھرانا نعت ہے
سرورِ کونینؐ کا سارا زمانہ نعت ہے
بارگاہِ رسالت میں نذرانۂ عقیدت کے احترام میں آن لائن حضرات کے نیازمندانہ کلمات اور نظامت کی توصیف پوسٹ کی جاتی رہیں جس کا شکریہ محترم تلک راج پارسؔ صاحب نے بھی ادا کیا۔ اس کے بعد مشاعرے کے بہاریہ دور کا آغاز ہوا۔ جس کے لئے سرِ دست جمّو کشمیر سے اشتیاق کاشمیری صاحب کے اپنا تعارف اور پانچ غزلیں پیش کرنے کے لئے مدعو کیا گیا۔
جناب اشتیاق کاشمیری صاحب آن لائن موجود نہ ہونے کے سبب محترم عرشیہ احسان مفتیؔ(بھارت) کو مدعوکی گیا کہ وہ اپنا کلام اور تعارف پیش فرمائیں۔
محترم عرشیہ احسان مفتیؔصاحب بھی آئن حاضر نہ ہوسکے اس لئے مناسب وقت تک انتظار کے بعد جناب ارشدؔ مینا نگری(بھارت) کو دعوتِ سخن دی گئی۔اپنی دعوت پر جناب ارشد مینا نگری نے پہلے اپنے شعری مجموعے "غزل، غزال، غزل نما" کا سرورق اور کتاب میں شامل اپنا تفصیلی تعارف پوسٹ کیااور اس پوسٹنگ کے بعد آن لائن احباب سے مبارکبا د قبول کرتے ہوئے اپنی پانچ غزلیں پیش کی ناظرین کے لئے جناب ارشد مینا نگری کے ہر کلام کس مطلع پیشِ خدمت ہے:
کلام
ارشد مینا نگری(بھارت)
اپنی سنتا نہ اپنی کہتا ہے
اپنی اپنی ہی دھن میں رہتا ہے
سب سر دھنتے رہتے ہیں
تجھ کو سنتے رہتے ہیں
جب بھی ہم انتخاب دیکھتے ہیں
اک سہانا سراب دیکھتے ہیں
یہ ہے کچّا مکان ٹوٹے گا
خود ہی تیرا گمان ٹوٹے گا
دل سے جب دل کے سلسلے ٹوٹے
منزلیں چھوٹیں راستے ٹوٹے
جناب ارشد مینا نگری کے کلام پر آن لائن موجود احباب اور ناظرین اظہار تبریک داد وتحسین پوسٹ کرتے رہے۔
اسی درمیان پروگرام کے آرگنائزر جناب توصیف ترنل نے جناب شہزاد نیّرؔ صاحب کو ارشد مینا نگری کے کلام پر تنقید پیش کرنے کے وائس کلپ جاری کیا۔لہٰذاگلِ نسرین صاحبہ نے وقت کی قلت کا احساس کراتے ہر جلد ازجلد شہزاد نیّر صاحب سے تنقید پیش کرنے التماس کی اور اسی کے ساتھ ارسلان کھوکھر صاحب (پاکستان)کو دعوتِ کلام دی گئی۔جناب ارسالان کھو کھر صاحب نے اپنے تعارف کے ساتھ اپنی پانچ غزلیں بھی پوسٹ کیں۔ جن کے مطلعے احباب اور ناظرین کے لئے پیش ہیں:
کلام
ارسلان فیض کھوکھر(پاکستان)
تم نے ٹوٹا ہوا تارہ بھی کبھی دیکھا ہے
میں نے تاروں سے بھی آگے کا جہاں دیکھا ہے
یہ زمین چپ چپ ہے
آسمان چپ چپ ہے
آؤ! دل اپنا چاک کرتے ہیں
بغض و کینہ سے پاک کرتے ہیں
اپنی حسرت پہ لگی آج گرہیں کھولیں گے
دو گھڑی بیٹھ کے ہم اور کہیں رولیں گے
مرے خدا یہ دیس سرفراز رہے
یہ چال ڈھال یوں ہی اب خرامِ ناز رہے
ارسلان فیض کھوکھر صاحب کے ہر بہترین شعر پر آن لائن احباب کی جانب سے بھر پور پذیرائی کی گئی۔ اسی درمیان جناب شہزاد نیّرؔ صاحب (جن کو مشاعرے میں پیش کئے جارہے کلام پر تنقید کی ذمّہ داری سونی گئی تھی) نے جناب ارشد مینا نگری کے کلام پر اپنی تنقید پیش کی۔اسی درمیان صاحبِ صدرجناب مشرف حسین محضرؔ اور جناب سراج گلاؤٹھی کے درمیان ایک خوبصورت مکالمہ قائم ہوا جس کی تحریک پر اوّل ناظمِ مشاعرہ محترمہ گلِ نسرین صاحبہ نے ساغر ؔ صدّیقی کا یہ شعر پیش فرمایا:
چلو کہ جشنِ بہار دیکھیں چلو کہ ظرفِ بہار جانچیں
چمن چمن روشنی ہوئی ہے،کلی کلی پہ نکھار سا ہے
اس شعر کے بعد ناظمِ مشاعرہ گلِ نسرین صاحب دوسرے شاعر کو دعوتِ کلام دینے کے لئے آمادہ ہوئیں کی جناب شہزاد نیّرؔ صاحب نے ارسلان فیض کھوکھر کی سخنوری پر تنقید کرتے ہوئے ان کو خوش امکان شاعرقرار دیتے ہوئے ان کے یہاں شعری جوہر کی نشاندہی کی ۔
محترم شہزاد نیّرؔ صاحب کی تنقید اور انداز تنقید کو پروگرام کے آرگنائزر جناب توصیف ترنل نے سراہا۔ جس سے مشاعر میں ایک تازگی اور چستی فضا قائم ہو گئ اور اسی کے ساتھ ڈاکٹر نبیل احمد نبیلؔ کلا م پیش فرمانے کی دعوت دی گئی لیکن ڈاکٹر نبیل احمد نبیل کے آن لائن غیر حاضر ہونے کے سبب اگلے شریکِ مشاعرہ ڈاکٹر سراج احمد سراج گلاؤٹھی صاحب کو ساغر صدّیقی کے اس شعر کے ساتھ کو مدعو کی گیا۔
تمہارا نام لیتا ہوں فضائیں رقص کرتی ہیں
تمہاری یاد آتی ہے تو ارماں لڑ کھڑاتے ہیں
ڈاکٹر سراج گلاؤٹھی صاحب نے بلا تاخیر اپنا تعارف اور کلا پیش فرمایا دیا
کلام
ڈاکٹر سراج گلاؤٹھی
ناتواں جیسے سہاروں سے لپٹ جاتے ہیں
ہم تری یاد کی بانہوں سے پلٹ جاتے ہیں
تمہاری ذات سے مجھ کو لگاؤ ہے ہے اب تک
تمہاری سمت ہی دل کا جھکاؤ ہے اب تک
ایک شعلہ مری نس نس میں بھڑک جا تا ہے
جب کوئی بھوک سے بے حال پھڑک جاتا ہے
بڑی مشکل سے راحت کا کوئی رستہ نکلتا ہے
پہاڑوں کا کلیجہ چیر کر دریا نکلتا ہے
میں جس کے واسطے سب سے لڑا تھا
وہی حذبِ مخالف میں کھڑا تھا
ڈاکٹر سراج گلاؤٹھی کے کلام کے بعد مشاعرے کے آرگنائزر جناب توصیف ترنل صاحب نے بطور رونمائی ان کے مجموعۂ کلام "گھاس کی پتوار" کا کور پیج پوسٹ کیا۔جس کو ناظرین نے بہت پسند فرمایا اور سراج صاحب کی تبریکی کلمات پوسٹ کئے گئےاور اس کے ساتھ ہی جناب شہزاد نیّرؔ کی جانب سے بے ساختہ انداز سے تنقید پیش کی گئی اور سراج صاحب کی سخنوری کا بڑاصحت مند تجزیہ پیش فرمایا۔ جس سے سراج کی صاحب کی شعری روح کو سمجھنے کی راہیں کافی حد تک استوار ہوئیں۔ اس تنقیدی پوسٹنگ کے بعد جناب اصغر شمیم صاحب(بھارت) کو اپنا کلام اور تعارف پیش فرمانے کی دعوت دی گئی ۔ جس کی تعمیل کرتے ہوئے شمیم صاحب نے بلا تاخیر اپنا تعارف پوسٹ کرنے کے ساتھ ہی اپنے پانچ کلام بھی یک بارگی پیش فرمائے۔ جناب اصغرشمیم کی بروقت پوسٹنگ سے مشاعرے کو روانی مل گئی اور بہتر تاثّر قائم ہوگیا۔
ناظرین جناب اصغر شمیم صاحب کے کلام کے سرنامے یا مطالع آپ کے ذوقِ طبع کے لئے یہاں پیش کئے جا رہے ہیں ملاحظہ فرمائیں:
کلام
اصغر شمیم
کون سا خوف آ گیا مجھ میں
روز ہوتا ہے حادثہ مجھ میں
فنکار، زندگی کی بقا میں لگا رہا
جو بے ہنر تھا صرف دعا میں لگا رہا
عجیب لگتا ہے مجھ کو یہ معاملہ دل کا
فقط نگاہ سے ہوتا ہے فیصلہ دل کا
ظلم ڈھائے گا کب تک جہاں چپ رہو
رنگ لائے گی یہ داستاں چپ رہو
وہ کہتا ہے مٹادوں زندگی کیا
یہی رستہ بچا ہے آخری کیا
اصغر شیم صاحب کے کلام کی پوسٹنگ کا مشاہدہ فرمانے کے بعد جناب شہزاد نیّر ؔ صاحب نے تنقیدی خیال کا اظہار فرما یا۔جناب نیّرؔ صاحب کے شفیق اندازِ تنقید کو مشاعرے کے آن لائن سامعین ناظرین اور شرکا نے نہایت پسند فرمایا ہو اوردادوتحسین کلمات سے نوازا۔
مشاعرے کے دوسرے دور کے ناظم جناب طاہر علیم صاحب نے بھی جناب شہزاد نیّرؔ صاحب کے تنقیدی اور مشفقانہ اندازِ تنقید کو سراہتے ہوئے تحریر پوسٹ کی،
" المحترم شہزاد نیّرؔ صاحب! آپکے اندازِ تنقید میں بڑی معقولیت ہے۔ شعری مقصدیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے آپ نےبڑے لطیف اور خفیف اظہارپیش فرماتے ہیں۔ جس سے دل شکنی کا کرب مطلق محسوس نہیں ہوتا اور یہی دلداری آپ کی اعلیٰ فہمی کو اجاگر کرتی ہے۔ مسرّت ہوئی کہ آپ عروضیت کی نزاکتوں سے بھی مشرّف ہیں ۔ اللہ آپ کو اس کا اجر عطا فرمائے۔"
جناب توصیف ترنل صاحب نے پروگرام کی توصیف کرتے ہوئے فرمایا،" بہترین پروگرام ہو رہا ہے، میرے خیال میں نظامت بھی جاندار ہو رہی ہے اور تنقید بھی عمدہ ہو رہی ہے۔ "
توصیف ترنل صاحب نے مزید فرمایا کہ اب نظامت تبدیل ہو گی اور جناب علیم طاہر صاحب برائے نظامت تیار رہیں۔
بعد ازاں محترمہ نسرین گل صاحبہ نے بڑے لطیف انداز میں محترمہ نفیس حیاؔ (انڈیا) کو اپنا کلام و تعارف پیش فرمانے کے لئے مدعو کیا۔ محترمہ نفیس حیا صاحبہ نے بلا وقت گنوائے اپنا تعارفی خاکہ مع کلا م کے پوسٹ فرمایا:لیجئے ان کا کلام کے جملہ مطالع ملاحظہ فرمائیے!
کلام
نفیس حیاؔ (انڈیا)
رات بھر دل کا دیا مدّھم رہا
تم نہیں تھے تو عجب عالم رہا
تم خفا ہو جاؤ گے تو اور کیا رہ جائے گا
چند سانسوں کا پرانا سلسلہ رہ جائے گا
آتی ہے یاد اس کی محبّت کبھی کبھی
ہوتی ہے دل میں درد کی شدّت کبھی کبھی
نظم: چاند
میں تو ان کی پریم دیوانی ان سے اتنا کہنا چاند
میں بن جاؤں چاندنی اس کی وہ بن جائے میرا چاند
نظم
رنگ آنکھوں نے میری تو دیکھا نہیں
کیا بتاؤں نظر کچھ بھی آتا نہیں
محترمہ نفیسہ حیاؔ کے کلام پر بڑی صحت مند تنقید فرماتے ہوئےشاعرہ کومزیدانہماک سے کلام کہنے کی ترغیب دی گئی اور اسی کے ساتھ پہلے مرحلے کی نظامت فرمارہی محترمی گل نسرین صاحبہ نے نظامت کا فریضہ جناب علیم طاہر صاحب کے حوالے کرتے ہوئے رخصت لی اورمشاعرے کے دوسرے حصّے کی نظامت کی ذمّہ داری سنبھالنے کے لئے اعوذ باللہ اوربسم اللہ کا ورد کرتے ہوئے جناب علیم طاہر(انڈیا) نے اپنی جانب سے تمام احباب کو آداب عرض کا نذرانہ پیش کیا اورساحرؔ لدھیانوی کی نظم،"چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں" کے ساتھ جناب علی مزمّل صاحب کو اپنی کتاب کا ٹائٹل ، مختصر تعارف اور چانچ غزلیں پیش فرمانے کیلئے مدعو کیا لیکن ذرا وقفے بعد جناب علی مزمّل کی آن لائن عدم موجودگی کے بعد جناب ضیاء شادانی اورجناب انور کیفی بھی آف لائن پائے گئے۔مگر ناظم جناب طاہر علیم صاحب اپنی آواز کا جادو جگاتے رہے اور امین ؔ جس پوری کو ناصر کاظمی کے کلام کے ساتھ دعوتِ کلام دی۔ امینؔ جس پوری نے اپنا مختصر تعارف اورکلام اور پوسٹ کیا اور تنقید اور دادوتحسین کا دور شروع ہوا۔
جناب شہزاد نیّر ؔ صاحب نے فرمایا،" محترم امین جس پوری کی چھ غزلیات جو کافی گہری ہیں اور بیانیہ بھی خاصہ معیاری اور فارسیت آمیز انداز ہے ان کا جس میں تراکیب کو کافی استعمال کیا ہے انھوں نے اور خاص طور پر جو ردیفوں کا اہتمام کیا بڑی ندرت کے ساتھ ۔ ایک غزل جو غالبؔ کی مشہورِ زمانہ غزل میں ہےغالب کا تو خیر سارا ہی کلام مشہورِ زمانہ ہے۔ وہ جو ہے کہ دریا مرے آگے۔ کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے،اس زمین میں غزل ہے باقی جو ہے انھوں نے زمینوں کا انتخاب انھوں نے سنگلاخ زمینوں میںفصلِ غزل کاشت کی ہےاور بالعموم نہایت عمدہ اشعار نکالنے میں کامیاب رہے ہیں۔رفعتِ فکر بھی ہے اور پورے تردّدکے ساتھ، پورے غوروفکر کے ساتھ شعر کہے ہیں،پورے اہتمام کے ساتھ کہے ہیں۔یہ معیاری غزل ہے اورمجھے کہیں کہیں حضرتِ عرفان صدّیقی مرحوم جو بھارت سے تعلق رکھتے تھے ان کے لہجے کی کہیں کہیں جھلک محسوس ہوتی ہےاور عام طور پر ان کا اسلوب اور انداز ہے ،وہ جیسا کہ ایک بھاری بھرکم اور سنجیدہ غزل گو ، ان کے یہاں فکری مضامین بہت زیادہ آئے ہیں۔ خاص طور پر وہ غزل جس کی ردیف "تشکیک"ہے اور اسی طرح آگے بھی۔اچھّا !ایک غزل میں ایک مصرعۂ اولیٰ قدیر(ٹائپو/تقدیر)کے لفظ سے شروع ہو رہا ہے وہ مجھے نہیں سمجھ آ رہا تو وہ لفظ کوئی اور ہے یا پھر کہیں کوئی ٹائپنگ مسٹیک ہے اسی طرح ایک دو جگہوں پر ٹائپنگ مسٹیکس ہیں جن میں لفظ ملے ہوئے ہیںلیکن وہ میں پڑھ لئے ہیں تاہم ان کے یہاں ایک ردیف جو ہے وہ فارسی سے بھی لی ہوئی ہے وہ بھی درست انداز میں آئی ہے۔اس میں بھی کوئی غلطی نہیں ہے۔ البتّہ ایک چیز جس میں تھوڑی سی زبان کی طرف توجّہ کرنا چاہئے!
ہم بھی ہر گز نہیں محفوظِ عذابِ تشکیک
تو محفوظِ عذابِ تشکیک،یہ ایک سہ لفظی مرکّبِ اضافی ہے۔جس میں علامتِ اضافت دو الفاظ کے ساتھ آئی ہےتو علامتِ اضافت جو ہے اسے کھولنے کے لئے کا کی کے کا استعمال کیا جا تا ہے۔ تو آئیے بھلاکھولتے ہیں بھلا اس کو کھولتے ہیں اس ترکیب کو اس مرکّب کو ۔۔۔۔
محفوظِ عذابِ تشکیک،تشکیک کے عذاب کا محفوظ
تو یہاں تو "از "ہونا چاہئے ،جیسے:ہم بھی ہر گز نہیں محفوظ از عذابِ تشکیک، اب وہ ظاہر ہے اس میں نہیں آئے گا ،ز ،آسکتا ہے ، ہم بھی پر گز نہیں محفوظ ،ز، از، وہ بھی نہ آ سکے تو یہ ترکیب تھوڑی سی اس اعتبار نہیں ٹھیک بنی کہ اس میں زبان کا خیال نہیں رکھا جا سکا، ہم بھی ہر گز نہیں محفوظِ عذابِ تشکیک، کہنا تو یہی چاہتے ہیں کہ محفوظ از عذابِ تشکیک، بہر حال یہ غزل ہے بڑی عمدہ ، یہ تو ایک چھوٹا سا نکتہ تھا، دیگر غزلیات میں بھی مضامین کی رفعت اور خاص طور پر جو ان کا فکر ی انسلاک ہے وہ خاصہ متاثّر کن ہے غزلیں معیاری ہیں لہجہ ٹُھکا ہوا ہے مصرعے پختہ ہیںاور بندشیں چست ہیںاور یہ بہت اچھا کلام پڑھنے کو مِلا"
جناب شہزاد نیّرؔ صاحب نےاپنی مزید ایک وائس کلپ میں ارشاد فرمایا،"امینؔ جس پوری صاحب کی جو" کھینچ" ردیف کی غزل ہےبہت ہی عمدہ ہے، کیا کہنے!بڑی ندرت فکر بھی ہے اور پختہ بیانی بھی ہے ،کیا اچھی اور معیاری غزل پڑھنے کو ملی۔واہ جی واہ،سبحان اللہ!"
پروگرام کو وسعت دیتے ہوئے اور بلندیوں سے ہم کنار کرتےہوئے جناب علیم طاہر صاحب نے یہ دو اشعار پیش کئے:
خواب حسبِ حال کیسے آ گیا
چاند کو زوال کیسے آ گیا
تم نے لب دیئے کی لو پہ رکھ دیئے
تم کو یہ خیا ل کیسے آ گیا
اور ان اشعار کے ساتھ مہمان اعزازی جناب ابنِ ربّانی(پاکستان) کو دعوتِ کلام دی گئی لیکن جناب ابنِ ربّانی صاحب بھی آف لائن پائے گئے لہٰذاجناب احمد کاشف ؔ کو ارشد مینا نکری کے شعروں سے دعوت کلام دی گئی۔
اسی درمیان جناب توصیف ترنل صاحب نے اپنی وائس کلپ کے توسل سے آڈئینس سے درخواست کی کہ" سبھی سے درخواست ہے کہ آپ بھی اپنے خیالات کا اظہار کریں،میں آڈیئنس پول بھی یوز کرنا چاہتا ہوں کہ آپ بتائیں کہ آج کے اس پروگرام میں"خود رنگ شاعر" آپ کو کون محسوس ہوا، بیشمار شعرا نے اپنی شاعری پیش کی،"دا بیسٹ شاعر" آپ کی نظر میں کون ہے، جس کو "بشیربدرؔ ایوارڈ" دیا جائے؟"
اس کے بعد جناب احمد کاشفؔ نے اپنا تعارف اور پانچ غزلیں پوسٹ فرمائیں جن کے مطالع آپ کی نذر ہیں:
کلام
احمد کاشفؔ
تیرے ہونٹوں پہ کوئی حرفِ دعا ہو جیسے
میرے بارے میں ہی کچھ تونے کہا ہو جیسے
شرط اتنی ہے فقط ہمّتِ مرداں ہونا
اتنا مشکل نہیں ، مشکل کوئی آساں ہونا
وقت بے درد ہو کتنا ہی گزر جائے گا
زخم گہرا ہے تو کچھ روز میں بھر جائے گا
ہجر کی رت کا مزہ درکار ہے
عشق میں بھی فاصلہ درکار ہے
زباں سے نکلا ہر ایک جملہ تمہارا ہے ترجمان بابا
سنبھل کے بولو پھسل نہ جائے زبان پھر ہے زبان بابا
احمد کاشف ؔ صاحب کے کلام کے مطالعے کے بعد محترم ناقدجناب شہزاد نیّرؔ صاحب نے کئی قیمتی مشورے اپنی وائس کلپ میں دئے اور کئی رہ نما اصولوں کو پیش کیا۔اس کے بعد ناظمِ مشاعرہ نے اگلے شریک شاعر جنا ب نفیس ناندوروی صاحب کو مدعو فرمایا گیا۔جناب نفیس ناندوروی صاحب نے اپنا تعارف اور کلا پوسٹ کیا ۔احباب ہر غزل کا صرف مطلع یہاں آپ کے لئے پیش کیا جا رہا ہے۔
کلام
نفیس حنیف شیخ نفیسؔ
حمد
نظر چار سو آئے رحمت خداکی
دو عالم پہ چھائی عنایت خدا کی
نعتِ پاک
آقائے دوجہاں تری عظمت نفیس ہے
اس ربِّ ذوالجلال کی قدرت نفیس ہے
نظم /ارباب ہمم/برما سے
جو ستم نہ تجھ پہ ہوتا تو نہ اشکبار ہوتا
کہ جہان میں مہکتا، گلِ لالہ زار ہوتا
دل منتظر تھا چاہ بھی ٹالی نہ گئی
توڑی وہ ہم سے پیار کی ڈالی نہ گئی
ہم نے جس جا بھی پایا سنّاٹا
ہنس کے فوراً بھگایا سنّاٹا
جناب نفیس ناندوروی کے کلام پر تنقید پیش کرتے ہو جناب نیّر صاحب نے کہا حمد و نعت تنقید سے بالا تر لیکن جناب جناب نفیس ناندوروی نے اپنی بات سلیقے سے کہی ہے۔
بعد ازاںمحترم تلک راج پارس صاحب کو ارشد مینا نگری کے اس شعر کے ساتھ دعوتِ کلام دی گئی:
یہ سویرا کوئی سویرا ہے
جس طرف دیکھئے اندھیرا ہے
ہر قدم ہے مرا فلک پیما
گو مرا فرش پہ بسیرا ہے
اس کلام کی پوسٹنگ کے بعد نے جناب توصیف ترنل صاحب نے ایک بار مزید " خود رنگ شاعر" کی تلاش کی بات دہرائی۔
ناظمِ مشاعرہ جناب علیم طاہر نے بڑے پُر جوش لہجے میں احمد عقیل صاحب کو مدعو فرمایا اسی اسی دعوت کے ساتھ جناب محمّد عقیل صاحب نے اپنا جو تعارف اور کلام پیش کیا اس کے مطلعے پیش کئے جاتے ہیں۔
کلام
احمد عقیل جذبی
اس گلی سے گریز کرتا ہوں
زندگی سے گریز کرتا ہوں
قلم اگر میں اٹھاؤں تو مارا جاؤںگا
زباں اگر میں ہلاؤں تو مارا جاؤں گا
مت سنا مجھے ناصح!فلسفے محبّت کے
تو نہیں سمجھ سکتا سلسلے محبّت کے
شاید اس نے دیکھا ہے
دل ہی ایسا دھڑکا ہے
مستقر ہی نہیں شفا مجھ میں
کچھ تو ایسا ہے لادوا مجھ میں
جناب احمد عقیل جذبی کے کلام میںسہلِ ممتنع اور تغزّل کے ساتھ کئی معروف شعرا کے رنگ اور اسلوب کی نشاندہی فرمائی اور کئی مفید مشوروں سے نوازااور تسلی بخش کلام قرار دیا۔
اس آخری شریکِ مشاعرہ کے کلام اور تعارف کی پوسٹنگ کے بعد صدر مشاعرہ جناب مشرف حسین محضر ؔصاحب کو بصد احترام دعوتِ کلام پیش کی گئی اور صدرِ مشاعرہ کے کلا م کے ساتھ یہ منفرد آن لائن مشاعرے کا ایک عظیم پروگرام اپنی تکمیل کو پہنچا ۔
پروگرام آرگنائزر جناب توصیف ترنل صاحب نے جس کی ستائش کرتے ہوئے اپنی وائس کلپ میں فرمایا،" السلام علیکم ، احباب!برقی دنیا میں ادبی دنیا میں"عالمی بیسٹ اردو پوئٹری " نےجگہ جگہ اپنے جھنڈے گاڑھ رکھے ہیںآج کا یہ پروگرام بھی اردو ادب کی دنیا میں ایک بڑا ہی مقام رکھتا ہے۔عالمی تقریب رو نمائی کا پروگرام اور دوست احباب نے اپنی شاعری پیش کی اور برائے تنقید پیش کی۔ بڑی بات یہ ہےکہ برائے تنقید پیش کی،سوچنے کی بات یہ ہے اور تنقید کو برداشت بھی کیا۔میں شہزاد نیّرؔ صاحب کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں آپ نے بڑی اچھی اور جاندا اور مناسب تنقید کی ادھر نظامت بھی بڑھیا اوربہت خوب ہوئی ۔"
اس انعقاد کی محترم تلک راج پارس صاحب نے بھی توصیف کی۔سامعین ے دونوں ناظمینِ مشاعرہ محترمہ گلِ نسرین اور جناب طاہر علیم صاحب کی نظامت کو بڑی تعداد میں سراہا اور تحسینی کلمات سے نوازا۔ واقعی مشاعرے دونوں ناظمین اور شہزاد نیّر صاحب نے مشاعرے کے تسلسل اور وقار کو اپنے مقام اپنی ذمّہ داروں کو بروقت انجام دیتے ہوئے مشاعرے کو بڑا مفید اور بے مثال بنا دیا۔ ورنہ جن احباب کی شرکت کے بھروسے مشاعرے کی فہرست تیار کی گئی تھی ان کی لا پرواہی اور بے راہ روی نے تو اس انعقاد کو فیل کرنے میں کوئی کسر نہیں رہنے دی ۔ ان کےنام کا پکارے جاتے رہے اور وہ آف لائن رہے اور ناظمین اور آرگنائزر کی صدائیں، صدائے صحرا ثابت ہوتی رہیں۔یہی نہیں شاملِ فہرس حضرات نے مشاعرے سے غیر حاضر رہنے کی اطلاع پیشگی دینا بھی مناسب نہیں سمجھا۔
نہ ہی بعد میں بھی اخلاقی طور پر اپنی عدم موجودگی کا کوئی جواز اطلاعاً آرگنائزر کو پیش نہیں کیا۔ ا س سے گمان گزرتا ہے کچھ لوگ اس پروگرام کو قصداً ناکام کرنا چاہتے تھے۔ آئندہ ایسے لوگوں سے احتیاط لازمی ہے۔ تاکہ ادارے کے انعقادات کو ناکامیوں کا منہ نہ دیکھنا پڑے اور ادارے کے وقار اور اس کی کوششوں کو ٹھیس نہ پہنچے۔
اب تک صاحبِ صدر جناب مشرّف حسین محضرؔ صاحب بھی اپنا کلام پوسٹ فرما چکے احبا ب کے لئے محضرؔ صاحب کے کلام کے مطلعے بھی پیشِ خدمت ہیں:
کلام
مشرف حسین محضر
بادلو ں کے درمیاں جس وقت اٹھلاتی ہے آگ
پھر زمیں کو مبتلائے خوف کر جاتی ہے آگ
ہو اگر بیکراںآگ، پانی،ہوا
ہیں سراسر زیاںآگ، پانی، ہوا
بادل چھائے، بجلی کڑکی،چاروں دھام پڑا پانی
شہر کو آخر کارہمارے لے کر ڈوب گیا، پانی
اس کے بدن کو چھو کر جب بھی آتی ہے نمناک ہوا
دنیا کے ہر غم سے دل کو کر جاتی ہے پاک ہوا
رکھ کر اپنے زعم کو گرویں اپنی ہی تقدیر کے پاس
سر کو جھکائے کون آیا ہے قاتل کی شمشیر کے پاس
صدرِ محترم کے کلا کے بعد پروگرام کے آرگنائزر جناب توصیف ترنل صاحب نے اپنی وائس کلپ سے مطلع فرماتے ہوئے کہاکہ اس پروگرام کے نتیجے کا اعلان کرنے کے لئے ادارے کی انتظامیہ ٹائم مانگ رہی ہے کہ ہمیں وقت چاہئے فیصلہ کرنے کے لئے۔ تو ایوارڈ کا اعلان کل کیا جائے گااور اسی کے ساتھ ترنل صاحب نے جملہ شرکا، جزز، تنقید نگار اور ناظمینِ مشاعرہ کے ساتھآن لائن کوجود رہ کرپروگرام کو کامیابی سے ہم کنار کرنے کے لئےسامعین اور ناظرین کا بھی شکریہ ادا کرتے ہو کیا کہ پروگرام واقعی بہت کامیاب ہو گیا ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے
اور ترنلؔ صاحب کی اطلاع کے بعد جناب صدر نے مشاعر میںکی صدارت، ذرا تاخیر اور بروقت نہ سنبھال پانے کا جواز اپنی اس پوسٹ سے فرمایا:
محترم احباب!
پہلے تو میں آپ تمامی حضرات سے معافی کا طلب گار ہوں کہ قابل احترام ایڈمن صاحب نے مجھ نا اہل کو صدارت کی ذمے داری سونپی اور میں یہ ذمے داری نہیں نبھا سکا۔
احباب دراصل میں علی گڑھ نگر نگم یعنی بلدیہ میں منتخب رکن بلدیہ (کونسلر) ہوں اس لیے مشاعرہ کے دوران ہی قریب کے نرسنگ ہوم میں میرے حلقہ کے ایک باشندہ کی ڈاکٹر کے ذریعے غلط انجکشن لگانے کے سبب موت واقع ہوگئی مجھے امرجنسی وہاں جانا پڑا اور میں بد نصیب مشاعرہ میں شامل نہ رہ سکا امید ہے احباب میری مجبوری کو سمجھتے ہوئے میری غیر حاضری کو معاف فرمائیں گے۔
احقر
مشرف محضر
1/ اپریل 2018 کی صبح 6 بجے ادارہ عالمی بیسٹ اردو ہوےٹری کی جانب سے ایوارڈ کا اعلان اس پوسٹ سے کیا گیا:
ادارہ، عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری
کی جانب سے
ڈاکٹر بشیر بدر ایوارڈ
محترم امین جس پوری
کو پیش کرتے ہیں
منجانب انتظامیہ ادارہ
اور اس طرح" ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری"بحسن و خوبی کامیابی کی نئی بلندیاں طے کرتے ہوئے اپنی انفرادیت برقرار رکھتے ہوئے انجام پزیر ہوا۔
No comments:
Post a Comment